اصلاح الدین جونیئر ٹیم کی ناقص کارکردگی پر سخت مایوس
ورلڈکپ کی اختتامی 8 ٹیموں میں شامل نہ ہونا بہت بڑا دھچکا ہے، سابق اسٹار
سابق اولمپیئن اصلاح الدین صدیقی جونیئر ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی پر سخت مایوس ہیں۔
ان کے مطابق موجودہ اسکواڈ کے پلیئرز گذشتہ پانچ برس سے ساتھ کھیل رہے ہیں لیکن اس کے باوجود گرین شرٹس کا اختتامی 8 ٹیموں میں شامل نہ ہونا قومی کھیل کیلیے بہت بڑا دھچکا ہے، قومی جونیئر ٹیم بیلجیئم کیخلاف آخری لیگ میچ 2-2 سے ڈرا کھیلنے کے بعد اختتامی پوزیشنز پر چلی گئی، ایک انٹرویو میں سابق کپتان نے کہا کہ مجھے پاکستان ہاکی کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے، موجودہ ٹیم کی پرفارمنس سے ملک کی ساکھ بُری طرح مجروح ہوئی، اصلاح الدین نے مزید کہاکہ سینئر ٹیم کے 9 پلیئرز موجودہ جونیئر اسکواڈ کا حصہ تھے لیکن پھر بھی وہ ایونٹ میں نتائج دینے میں ناکام رہے، مجھ سمیت دیگر سابق اولمپئنز نے ہمیشہ ملکی ہاکی کی بہتری اور مفاد میں بات کی لیکن ہماری صحتمندانہ تنقید کو کبھی مثبت انداز میں نہیں لیا گیا۔
انھوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان ہاکی فیڈریشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خراب نتائج کی ذمے داری اسی پر عائد ہوتی ہے، حکام کو ملک میں ہاکی کے زوال کی ذمے داری لینی چاہیے، ایسی پرفارمنس کے بعد ہماری ٹیم کا موازنہ بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈونیشیا ، اومان اور ایسے دیگر ممالک سے کیا جاسکتا ہے، ماضی میں یہ ممالک پاکستان کے گروپ میں شامل ہونے سے کتراتے تھے لیکن اب وہ ہمیں آسان شکار خیال کرتے ہیں، ملک میں کھیل کے احیا پر بات کرتے ہوئے اصلاح الدین نے تجویز پیش کی کہ ہمیں قومی کھیل میں دوبارہ بلند مقام پانے کیلیے انقلابی اقدامات ،پُرعزم ورکرزاور کوچز درکار ہیں جو پلیئرز کو اسکول، کالج اور کلب کی سطح پر تیار کرسکیں گے، انھوں نے پی ایچ ایف سے ذاتی مخاصمت کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ہاکی نے مجھے سب کچھ دیااور میں کھیل کی بہتری کیلیے کام جاری رکھنا چاہتا ہوں۔
ان کے مطابق موجودہ اسکواڈ کے پلیئرز گذشتہ پانچ برس سے ساتھ کھیل رہے ہیں لیکن اس کے باوجود گرین شرٹس کا اختتامی 8 ٹیموں میں شامل نہ ہونا قومی کھیل کیلیے بہت بڑا دھچکا ہے، قومی جونیئر ٹیم بیلجیئم کیخلاف آخری لیگ میچ 2-2 سے ڈرا کھیلنے کے بعد اختتامی پوزیشنز پر چلی گئی، ایک انٹرویو میں سابق کپتان نے کہا کہ مجھے پاکستان ہاکی کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے، موجودہ ٹیم کی پرفارمنس سے ملک کی ساکھ بُری طرح مجروح ہوئی، اصلاح الدین نے مزید کہاکہ سینئر ٹیم کے 9 پلیئرز موجودہ جونیئر اسکواڈ کا حصہ تھے لیکن پھر بھی وہ ایونٹ میں نتائج دینے میں ناکام رہے، مجھ سمیت دیگر سابق اولمپئنز نے ہمیشہ ملکی ہاکی کی بہتری اور مفاد میں بات کی لیکن ہماری صحتمندانہ تنقید کو کبھی مثبت انداز میں نہیں لیا گیا۔
انھوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان ہاکی فیڈریشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خراب نتائج کی ذمے داری اسی پر عائد ہوتی ہے، حکام کو ملک میں ہاکی کے زوال کی ذمے داری لینی چاہیے، ایسی پرفارمنس کے بعد ہماری ٹیم کا موازنہ بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈونیشیا ، اومان اور ایسے دیگر ممالک سے کیا جاسکتا ہے، ماضی میں یہ ممالک پاکستان کے گروپ میں شامل ہونے سے کتراتے تھے لیکن اب وہ ہمیں آسان شکار خیال کرتے ہیں، ملک میں کھیل کے احیا پر بات کرتے ہوئے اصلاح الدین نے تجویز پیش کی کہ ہمیں قومی کھیل میں دوبارہ بلند مقام پانے کیلیے انقلابی اقدامات ،پُرعزم ورکرزاور کوچز درکار ہیں جو پلیئرز کو اسکول، کالج اور کلب کی سطح پر تیار کرسکیں گے، انھوں نے پی ایچ ایف سے ذاتی مخاصمت کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ہاکی نے مجھے سب کچھ دیااور میں کھیل کی بہتری کیلیے کام جاری رکھنا چاہتا ہوں۔