سیاسی دیوانگی کی صورتحال
جمعہ کو کراچی میں موسلا دھار بارش کے بعد شہر کے تمام علاقے تالاب بن گئے
جمعہ کو کراچی میں موسلا دھار بارش کے بعد شہر کے تمام علاقے تالاب بن گئے، بجلی اور ٹیلی فون کا نظام معطل اور ٹریفک جام کی اندوہ ناک صورتحال نے ملکی تاریخ کے 72 برسوں کی دردناک تاریخ کی تصویری جھلکیاں دکھلا دیں، مبصرین اور ٹی وی چینلز کے ماہرین کا کہنا تھا کہ کوئی چیز نہیں بدلی، رین ایمرجنسی، سرکاری اقدامات اور نکاسی آب اور شہری اداروں کا کوئی میکنزم نظر آیا اور نہ ہی شہری حکومت نام کی کوئی سرگرمی دیکھنے کو ملی، بارش کے پانی کے سیلابی ریلے جیسے آئے وہ رات گئے خود ہی راستہ پاکر سمندر سے جا ملے، مقامی یا صوبائی حکومت کی بے بسی پر شہر قائد کے مکین ماسوائے سرد ''آہ '' بھرنے کے کچھ نہ کرسکے۔
بارش شروع ہوتے ہی بجلی غائب، 500 فیڈر ٹرپ کرگئے، دو بچے کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگئے، شکایت بے سود کہ معمولات زندگی میں ایسی درجنوں مجبوریاں سویلین ڈیموکریٹک سسٹم سے چمٹی ہوئی ہیں، کوئی حکومت یا مقامی حکومتی انتظام انھیں دور نہ کرسکا۔ ماہرین موسمیات کے مطابق گرمی کی شدت سے 2 6 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔
بارشوں سے پہلے مقامی انتظامیہ کے ہنگامی اقدامات اور شہریوں کے ریسکیو کی ساری منصوبہ بندی ریت کی دیوار کی طرح بارشوں کے پانی میں بہہ جاتی ہے اکثر ماہرین، سیاست دان اور شہری حلقے ایک بڑے شہری ماسٹر پلان کو یاد کرتے ہیں، کراچی کے دیگر المیوں کے علاوہ سب سے بنیادی مسئلہ نکاسی آب کا ہے، سمندر سے جڑا شہر اور اس کے ساحلی علاقے بھی کسی قسم کے شہری اور ساحلی نظام کی نشاندہی نہیں کرتے۔ اربن ٹاؤن پلاننگ کے ماہرین اب تک شہر قائد کو بارش کے بعد کی زحمت مآب صورتحال سے نجات دلانے میں کوئی بریک تھرو کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
کم از کم میئر کراچی وسیم اختر کو اتنا تو با اختیار ہونا چاہیے تھا کہ وہ شہریوں کو فراہمی و نکاسی آب، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، تعلیم، صحت اور تفریح کے لیے ایک فول پروف میکنزم دیتے جس پر کراچی جو منی پاکستان کا رتبہ رکھتا ہے اس کے باسیوں کو جدید سہولتوں سے مستفید ہونے کا موقع ملتا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر ماہرین سیاست کہتے ہیں کہ سیاسی دروازے بند ہیں، حکمراں لڑائیوں میں مصروف ہیں، عوام کی حالت بدلنے کی کسی کو فکر نہیں، مگر کوئی کوشش ایسی تو ہونی چاہیے کہ ارباب اختیار صرف اخباری بیانات اور ٹی وی ٹاک شوز میں وقت ضایع کرنے کے ایک عملی ''وے آؤٹ'' وضع کرتے، مناظرے جیسی صورتحال، اس تنگ سرنگ اور خود سے پیداکردہ دلدل سے نکلتے جس نے قومی سیاست کو جمود زدہ اور مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ بارش کے بعد کا پانی تو اتر گیا ہے لیکن سیاسی، سماجی اور زمینی حقائق کے ادراک اور نئی سیاست روش پر چلنے کا ایک نیا میثاق حکومت چاہے تو آج بھی تیار کرسکتی ہے۔
اخبارات کی سرخیوں سے تو لگتا ہے کہ باقی آئینی مدت بھی سیاسی تکرار، بحث، بلیم گیم اور محاذ آرائی کی نذر ہوجائیگی، بادی النظر میں تو ایک وحشیانہ سیاسی کلچر جنم لیتا دکھائی دیتا ہے جس میں سیاسی اکھاڑہ میں اسی کا چراغ بجھنے سے بچ سکتا ہے جس میں اتنا ہی تیل ہوگا، ایسی مخدوش سیاسی فضا عوام کو ریلیف سے دور لے جائے گی، کوئی دن ایسا بھی ہو کہ سیاست تصادم، ٹکراؤ، کردار کشی، دشنام طرازی سے پاک رہ کر کوئی ٹھوس سیاسی اور سماجی پیش رفت کی نوید دے، دنیا کو پیغام جائے کہ وزیر اعظم عمران خان ماضی سے جنگ کی کیفیت کو فراموش کرکے نئے عزم کے ساتھ ملکی تعمیر پر کمربستہ ہوگئے ہیں، ضرورت اب بھی ایسے شفاف جمہوری، سیاسی و سماجی معاہدہ عمرانی کی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا کیسز میں کمی خوش نصیبی کی بات ہے، عید پر احتیاط کی تو آزمائش سے نکل جائیں گے تاہم ریڈ کراس نے جنوبی ایشیا کورونا کا نیا ہاٹ اسپاٹ قرار دے دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش میں انسانی المیہ جنم لے سکتاہے، دوسری جانب آئی ایم ایف نے متنبہ کیا ہے کہ امریکی معاشی بحالی کو سب سے بڑا خطرہ کورونا کے کیسز دوبارہ بڑھنے سے ہے۔
امریکی معیشت دوسری سہ ماہی میں 37 فیصد تک سکڑ گئی جب کہ 2020 میں امریکی معیشت کو 6.6 فیصد تک دھچکا لگے گا، دریں اثنا بھارت دنیا بھر میں کورونا کیسز کی تعداد میں تیسرے نمبر پر آگیا، دنیا بھر میں کورونا سے اب تک 5 لاکھ 90 ہزار سے زائد مریض زندگی کی بازی ہار گئے جب کہ ایک کروڑ 38 لاکھ افراد وائرس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز کی بین الاقوامی فیڈریشن کا کہنا ہے کہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش مل کر تیزی سے وائرس کا اگلا مرکز بن رہے ہیں، جب کہ دنیا کی توجہ امریکا اور جنوبی امریکا کے ابھرتے ہوئے بحران پر مرکوز ہے، جنوبی ایشیا میں تیزی سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، کووڈ۔19 جنوبی ایشیا (جو انسانیت کا ایک چوتھائی حصہ ہے) میں ایک خطرناک شرح سے پھیل رہا ہے۔ ادھر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے متنبہ کیا ہے کہ امریکی معاشی بحالی کو سب سے بڑا خطرہ کورونا کے کیسز دوبارہ بڑھنے سے ہے کیوں کہ اس کے باعث کھلتے ہوئے کاروبار دوبارہ بند کیے جاسکتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی جانب سے سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کو غربت کے خاتمے، شہریوں کی مدد اور صحت کے نظام میں بہتری کے لیے آیندہ مہینوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی معیشت دوسری سہ ماہی میں 37 فیصد تک سکڑ گئی جب کہ 2020 میں امریکی معیشت کو 6.6 فیصد تک دھچکا لگے گا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق وزارت صحت کا بتانا ہے کہ گزشتہ روز ملک میں کورونا کے اب تک ایک روز میں سب سے زیادہ کیسز اور ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں جن میں 34956 نئے مریض سامنے آئے جب کہ 687 افراد ہلاک ہوگئے جس کے بعد ملک میں کورونا کے کیسز 10 لاکھ 3 ہزار سے تجاوز کرگئے اور ہلاکتیں 25 ہزار 600 سے بڑھ گئی ہیں۔ بھارتی وزارت صحت کے مطابق ملک بھر میں 6 لاکھ 35 ہزار سے زائد کورونا کے مریض صحتیاب بھی ہوئے ہیں جس کے بعد صحتیاب ہونے والے مریضوں کی شرح 63 فیصد ہوگئی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سیاسی منظر نامہ داغ داغ اجالے سے ایک انچ آگے پیش قدمی نہیں کرسکا، معاملہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کی تیسری قونصلر رسائی کا ہو، پائلٹس کے لائنسنز کے مشکوک ہونے، ان کی برطرفی اور ملک کی بدنامی کا ہو یا فضائی روٹس پر عالمی ہوا بازی اداروں کی قدغنوں کا ہو، وطن عزیز کے دامن پر خون کے دھبے دھلنے کا نام نہیں لے رہے، ایک طرف طیارہ حادثہ پر تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں وفاقی وزیر ہوا بازی کے بیان کی تہلکہ خیز بازگشت سنائی دیتی ہے دوسری جانب اپوزیشن رہنما ان کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سول ایوی ایشن کے سربراہ پی آئی اے پائلٹس کے لائسنسز کے جعلی یا مشکوک ہونے سے انکاری ہیں، صرف امتحانی پروسس میں بہتری لانے اور ٹرانسپیرنسی چاہتے ہیں، سینیٹ میں بحث کرتے ہوئے شیری رحمان نے بتایا کہ اس مسئلہ پر حکومت نے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، یہ مسئلہ کافی عرصہ سے ایجنڈا پر موجود تھا، ناقدین کے مطابق تکنیکی پہلوؤں پر غور وفکر کرنے کی ضرورت تھی، مگر حکومتی ٹیم کے ارکان چونکہ کرکٹ کے بجائے بوجوہ آئس ہاکی کھیلنے میں مصروف رکھے گئے ہیں اس لیے لغزشوں اور حماقتوں کے باعث لڑکھڑاتے ہیں پھر بیان بازی میں لگ جاتے ہیں، بقول شخصے مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔
ادھر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو تیسری قونصلر رسائی ملنے کے معاملہ پر اپوزیشن رہنماؤں کا شدید رد عمل سامنے آگیا ہے، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ہم رعایت دیتے تو جان عذاب میں ڈال دیتے، احسن اقبال کے مطابق کلبھوشن کے لیے ایسے آرڈیننس پر ہمارے ساتھ جو ہوتا سب جانتے ہیں، شہباز گل کا کہنا تھا کہ کون سی رعایت دے دی ؟ ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے کہا کہ قونصلر رسائی جذبہ خیر سگالی کے طور پر دیا گیا، اس سلسلہ میں بھارت کے جواب کا انتظار ہے جب کہ سیاسی ذرائع نے سوال اٹھایا کہ کس کے لیے خیر سگالی ؟ سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ کاروں نے تحریک طالبان پاکستان کے احسان اللہ احسان کے ایگریمنٹ کے تحت سرینڈر کرنے اور فرار ہونے کی پراسراریت کو قوم کے سامنے لانے پر زور دیا۔
سیاسی افق پر غیر یقینی صورتحال کا تعلق دیگر اطلاعات سے بھی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ 55 سال کرنے کی خبر میں کوئی صداقت نہیں، ایک اور خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ چین کی ایران سے 100 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی بات سی پیک کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے، کورونا وائرس میں ایک نئی یچیدگی کا بھی انکشاف ہوا ہے، جس پر ڈاکٹر تحقیقات کر رہے ہیں۔ حکومتی طبی فلاسفروں کا کہنا ہے کہ جو لوگ بلا ضرورت گھر سے باہر نکلتے ہیں وہی کورونا کا نشانہ بنتے ہیں اور جو گھروں میں قید رہتے ہیں ان پر کورونا کوئی حملہ نہیں کرتا۔
المختصر سیاسی تناؤ کا سلسلہ جاری ہے، فخر امام نے وقفہ سوالات میں کہا کہ قومی اسمبلی عجوبہ ہے، خریدی گئی 60 لاکھ گندم کہاں گئی، اپوزیشن نے جواباً سوال کیا کہ سمندر میں تیل اور گیس کا ذخیرہ کہاں گیا؟ملین ڈالر سوال ہے کہ کیا عوام اس بے منزل سیاسی بھنور سے کبھی نکل بھی سکیں گے؟
بارش شروع ہوتے ہی بجلی غائب، 500 فیڈر ٹرپ کرگئے، دو بچے کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگئے، شکایت بے سود کہ معمولات زندگی میں ایسی درجنوں مجبوریاں سویلین ڈیموکریٹک سسٹم سے چمٹی ہوئی ہیں، کوئی حکومت یا مقامی حکومتی انتظام انھیں دور نہ کرسکا۔ ماہرین موسمیات کے مطابق گرمی کی شدت سے 2 6 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔
بارشوں سے پہلے مقامی انتظامیہ کے ہنگامی اقدامات اور شہریوں کے ریسکیو کی ساری منصوبہ بندی ریت کی دیوار کی طرح بارشوں کے پانی میں بہہ جاتی ہے اکثر ماہرین، سیاست دان اور شہری حلقے ایک بڑے شہری ماسٹر پلان کو یاد کرتے ہیں، کراچی کے دیگر المیوں کے علاوہ سب سے بنیادی مسئلہ نکاسی آب کا ہے، سمندر سے جڑا شہر اور اس کے ساحلی علاقے بھی کسی قسم کے شہری اور ساحلی نظام کی نشاندہی نہیں کرتے۔ اربن ٹاؤن پلاننگ کے ماہرین اب تک شہر قائد کو بارش کے بعد کی زحمت مآب صورتحال سے نجات دلانے میں کوئی بریک تھرو کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
کم از کم میئر کراچی وسیم اختر کو اتنا تو با اختیار ہونا چاہیے تھا کہ وہ شہریوں کو فراہمی و نکاسی آب، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، تعلیم، صحت اور تفریح کے لیے ایک فول پروف میکنزم دیتے جس پر کراچی جو منی پاکستان کا رتبہ رکھتا ہے اس کے باسیوں کو جدید سہولتوں سے مستفید ہونے کا موقع ملتا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر ماہرین سیاست کہتے ہیں کہ سیاسی دروازے بند ہیں، حکمراں لڑائیوں میں مصروف ہیں، عوام کی حالت بدلنے کی کسی کو فکر نہیں، مگر کوئی کوشش ایسی تو ہونی چاہیے کہ ارباب اختیار صرف اخباری بیانات اور ٹی وی ٹاک شوز میں وقت ضایع کرنے کے ایک عملی ''وے آؤٹ'' وضع کرتے، مناظرے جیسی صورتحال، اس تنگ سرنگ اور خود سے پیداکردہ دلدل سے نکلتے جس نے قومی سیاست کو جمود زدہ اور مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ بارش کے بعد کا پانی تو اتر گیا ہے لیکن سیاسی، سماجی اور زمینی حقائق کے ادراک اور نئی سیاست روش پر چلنے کا ایک نیا میثاق حکومت چاہے تو آج بھی تیار کرسکتی ہے۔
اخبارات کی سرخیوں سے تو لگتا ہے کہ باقی آئینی مدت بھی سیاسی تکرار، بحث، بلیم گیم اور محاذ آرائی کی نذر ہوجائیگی، بادی النظر میں تو ایک وحشیانہ سیاسی کلچر جنم لیتا دکھائی دیتا ہے جس میں سیاسی اکھاڑہ میں اسی کا چراغ بجھنے سے بچ سکتا ہے جس میں اتنا ہی تیل ہوگا، ایسی مخدوش سیاسی فضا عوام کو ریلیف سے دور لے جائے گی، کوئی دن ایسا بھی ہو کہ سیاست تصادم، ٹکراؤ، کردار کشی، دشنام طرازی سے پاک رہ کر کوئی ٹھوس سیاسی اور سماجی پیش رفت کی نوید دے، دنیا کو پیغام جائے کہ وزیر اعظم عمران خان ماضی سے جنگ کی کیفیت کو فراموش کرکے نئے عزم کے ساتھ ملکی تعمیر پر کمربستہ ہوگئے ہیں، ضرورت اب بھی ایسے شفاف جمہوری، سیاسی و سماجی معاہدہ عمرانی کی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا کیسز میں کمی خوش نصیبی کی بات ہے، عید پر احتیاط کی تو آزمائش سے نکل جائیں گے تاہم ریڈ کراس نے جنوبی ایشیا کورونا کا نیا ہاٹ اسپاٹ قرار دے دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش میں انسانی المیہ جنم لے سکتاہے، دوسری جانب آئی ایم ایف نے متنبہ کیا ہے کہ امریکی معاشی بحالی کو سب سے بڑا خطرہ کورونا کے کیسز دوبارہ بڑھنے سے ہے۔
امریکی معیشت دوسری سہ ماہی میں 37 فیصد تک سکڑ گئی جب کہ 2020 میں امریکی معیشت کو 6.6 فیصد تک دھچکا لگے گا، دریں اثنا بھارت دنیا بھر میں کورونا کیسز کی تعداد میں تیسرے نمبر پر آگیا، دنیا بھر میں کورونا سے اب تک 5 لاکھ 90 ہزار سے زائد مریض زندگی کی بازی ہار گئے جب کہ ایک کروڑ 38 لاکھ افراد وائرس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز کی بین الاقوامی فیڈریشن کا کہنا ہے کہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش مل کر تیزی سے وائرس کا اگلا مرکز بن رہے ہیں، جب کہ دنیا کی توجہ امریکا اور جنوبی امریکا کے ابھرتے ہوئے بحران پر مرکوز ہے، جنوبی ایشیا میں تیزی سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، کووڈ۔19 جنوبی ایشیا (جو انسانیت کا ایک چوتھائی حصہ ہے) میں ایک خطرناک شرح سے پھیل رہا ہے۔ ادھر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے متنبہ کیا ہے کہ امریکی معاشی بحالی کو سب سے بڑا خطرہ کورونا کے کیسز دوبارہ بڑھنے سے ہے کیوں کہ اس کے باعث کھلتے ہوئے کاروبار دوبارہ بند کیے جاسکتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی جانب سے سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کو غربت کے خاتمے، شہریوں کی مدد اور صحت کے نظام میں بہتری کے لیے آیندہ مہینوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی معیشت دوسری سہ ماہی میں 37 فیصد تک سکڑ گئی جب کہ 2020 میں امریکی معیشت کو 6.6 فیصد تک دھچکا لگے گا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق وزارت صحت کا بتانا ہے کہ گزشتہ روز ملک میں کورونا کے اب تک ایک روز میں سب سے زیادہ کیسز اور ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں جن میں 34956 نئے مریض سامنے آئے جب کہ 687 افراد ہلاک ہوگئے جس کے بعد ملک میں کورونا کے کیسز 10 لاکھ 3 ہزار سے تجاوز کرگئے اور ہلاکتیں 25 ہزار 600 سے بڑھ گئی ہیں۔ بھارتی وزارت صحت کے مطابق ملک بھر میں 6 لاکھ 35 ہزار سے زائد کورونا کے مریض صحتیاب بھی ہوئے ہیں جس کے بعد صحتیاب ہونے والے مریضوں کی شرح 63 فیصد ہوگئی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سیاسی منظر نامہ داغ داغ اجالے سے ایک انچ آگے پیش قدمی نہیں کرسکا، معاملہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کی تیسری قونصلر رسائی کا ہو، پائلٹس کے لائنسنز کے مشکوک ہونے، ان کی برطرفی اور ملک کی بدنامی کا ہو یا فضائی روٹس پر عالمی ہوا بازی اداروں کی قدغنوں کا ہو، وطن عزیز کے دامن پر خون کے دھبے دھلنے کا نام نہیں لے رہے، ایک طرف طیارہ حادثہ پر تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں وفاقی وزیر ہوا بازی کے بیان کی تہلکہ خیز بازگشت سنائی دیتی ہے دوسری جانب اپوزیشن رہنما ان کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سول ایوی ایشن کے سربراہ پی آئی اے پائلٹس کے لائسنسز کے جعلی یا مشکوک ہونے سے انکاری ہیں، صرف امتحانی پروسس میں بہتری لانے اور ٹرانسپیرنسی چاہتے ہیں، سینیٹ میں بحث کرتے ہوئے شیری رحمان نے بتایا کہ اس مسئلہ پر حکومت نے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، یہ مسئلہ کافی عرصہ سے ایجنڈا پر موجود تھا، ناقدین کے مطابق تکنیکی پہلوؤں پر غور وفکر کرنے کی ضرورت تھی، مگر حکومتی ٹیم کے ارکان چونکہ کرکٹ کے بجائے بوجوہ آئس ہاکی کھیلنے میں مصروف رکھے گئے ہیں اس لیے لغزشوں اور حماقتوں کے باعث لڑکھڑاتے ہیں پھر بیان بازی میں لگ جاتے ہیں، بقول شخصے مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔
ادھر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو تیسری قونصلر رسائی ملنے کے معاملہ پر اپوزیشن رہنماؤں کا شدید رد عمل سامنے آگیا ہے، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ہم رعایت دیتے تو جان عذاب میں ڈال دیتے، احسن اقبال کے مطابق کلبھوشن کے لیے ایسے آرڈیننس پر ہمارے ساتھ جو ہوتا سب جانتے ہیں، شہباز گل کا کہنا تھا کہ کون سی رعایت دے دی ؟ ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے کہا کہ قونصلر رسائی جذبہ خیر سگالی کے طور پر دیا گیا، اس سلسلہ میں بھارت کے جواب کا انتظار ہے جب کہ سیاسی ذرائع نے سوال اٹھایا کہ کس کے لیے خیر سگالی ؟ سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ کاروں نے تحریک طالبان پاکستان کے احسان اللہ احسان کے ایگریمنٹ کے تحت سرینڈر کرنے اور فرار ہونے کی پراسراریت کو قوم کے سامنے لانے پر زور دیا۔
سیاسی افق پر غیر یقینی صورتحال کا تعلق دیگر اطلاعات سے بھی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ 55 سال کرنے کی خبر میں کوئی صداقت نہیں، ایک اور خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ چین کی ایران سے 100 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی بات سی پیک کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے، کورونا وائرس میں ایک نئی یچیدگی کا بھی انکشاف ہوا ہے، جس پر ڈاکٹر تحقیقات کر رہے ہیں۔ حکومتی طبی فلاسفروں کا کہنا ہے کہ جو لوگ بلا ضرورت گھر سے باہر نکلتے ہیں وہی کورونا کا نشانہ بنتے ہیں اور جو گھروں میں قید رہتے ہیں ان پر کورونا کوئی حملہ نہیں کرتا۔
المختصر سیاسی تناؤ کا سلسلہ جاری ہے، فخر امام نے وقفہ سوالات میں کہا کہ قومی اسمبلی عجوبہ ہے، خریدی گئی 60 لاکھ گندم کہاں گئی، اپوزیشن نے جواباً سوال کیا کہ سمندر میں تیل اور گیس کا ذخیرہ کہاں گیا؟ملین ڈالر سوال ہے کہ کیا عوام اس بے منزل سیاسی بھنور سے کبھی نکل بھی سکیں گے؟