آئیا صوفیا اعتراض اور جواب

آئیا صوفیا کو ’گرجا گھر‘ سے مسجد میں تبدیل نہیں کیا گیا بلکہ اسے ’عجائب گھر‘ سے مسجد میں واپس ’بحال‘ کیا گیا ہے

آئیا صوفیا میں عیسائیت کی نشانیوں کی ویسے ہی حفاظت کی جائے گی جیسا کہ 1453 سے اب تک کی جا رہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مسلمانوں کی کئی کوششوں اور حملوں کے بعد قسطنطنیہ کی فتح کا تاج سلطان محمد کے سر آیا اور پھر وہ تاریخ میں سلطان محمد فاتح کے نام سے امر ہوگئے۔ سلطان محمد فاتح 29 مئی 1453 کو قسطنطنیہ آئے اور یکم جون 1453 کو آپ نے مشہور عیسائی کلیسا ''آئیا صوفیہ'' میں نماز جمعہ ادا کی۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے ساتھ ہی یہ قدیم عمارت کلیسا سے مسجد میں بدل گئی اور اس کی یہ حیثیت 1935 تک بطور مسجد ہی قائم رہی۔

اس کے بعد 1935 میں اسے ایک حکم نامے سے عجائب گھر میں بدل دیا گیا، جس کے بعد 2020 میں ترک صدر طیب اردوان نے 'کونسل آف اسٹیٹ' کے فیصلے سے عین آئینی طور پر آئیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت کو بحال کر دیا:

دِیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں


استنبول میں قائم آئیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت سے بحالی کے ساتھ ہی معاشرے کے ایک طبقے کی جانب سے اس پر کئی طرح سے اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں معروف قانون دان ڈاکٹر محمد مشتاق نے بہت دلیل سے ان بے بنیاد اعتراضات کو رد کیا ہے اور اب ترک صدر طیب اردوان کی جانب سے قوم سے خطاب اور آئیا صوفیا کے بارے میں گفتگو کے بعد یہ بحث سمٹ جانی چاہیے۔

آئیا صوفیہ کو مشرقی عیسائیت میں وہی حیثیت حاصل تھی جو مغربی عیسائیت میں ویٹیکن سٹی کو حاصل ہے۔ اسے فتح کرنے کے بعد عثمانی خلافت میں یہاں پر مینارہ بھی بنایا گیا۔ 1453 میں جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا تو بطور فاتح کے اُن کے پاس یہ حق موجود تھا کہ وہ اپنے مفتوحہ علاقے میں جو چاہے کرتے۔ ظاہر ہے اُس وقت نیشن اسٹیٹ کا تصور نہیں تھا، کوئی بین الاقوامی قانون نہیں تھا، بس اخلاقیات کا تذکرہ تھا۔ اِس سے قبل جب ارطغرل اور عثمان کا دور تھا تو یہ عین وہی دور تھا جب منگول جس علاقے کو بھی فتح کرتے تو وہاں سروں کے مینار بناتے جاتے تھے۔ تاریخ میں تو یہ بھی آتا ہے کہ مفتوحہ علاقے میں اس قدر خونریزی ہوتی تھی کہ گھوڑے گھٹنوں تک خون میں دھنس جاتے اور مفتوحہ علاقوں کے گلی بازاروں میں سے گزرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی مفتوحہ علاقوں میں بادشاہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں، اس کا تذکرہ تاریخ کی کتب میں موجود ہے۔

سردست یہ اعتراض کہ سلطان محمد فاتح کو بعد از فتح آئیا صوفیہ کی حیثیت بدلنی نہیں چاہیے تھی، درست نہیں۔ اُس وقت کے مطابق انہیں مکمل حق حاصل تھا کہ وہ اپنے مفتوحہ علاقے میں جو چاہے وہ کرتے۔ آسان الفاظ میں سمجھ لیجیے کہ جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ اور آئیا صوفیا کو فتح کیا تھا تو اُس کو اپنے علاقے کے تمام مالکانہ حقوق حاصل ہوگئے تھے، جبکہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ سلطان محمد فاتح نے اس کا ناجائز فائدہ ہرگز نہیں اُٹھایا اور یہی وجہ ہے کہ آئیا صوفیا میں آج بھی عیسائیوں کی مذہبی علامات موجود ہیں۔

دوسری بات یہ کہ آئیا صوفیا کو 'گرجا گھر' سے مسجد میں تبدیل نہیں کیا گیا بلکہ اسے 'عجائب گھر' سے مسجد میں واپس 'بحال' کیا گیا ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جو مخالف کا پروپیگنڈہ توڑ دیتا ہے۔ پہلے جو 1453 میں ہوا، وہ اُس وقت کے قانون کے مطابق درست تھا۔ اس کے بعد مسجد کو عجائب گھر میں بدلنا ایک سنگین غلطی تھی، جس کا اعتراف خود اہل ترک کرتے ہیں۔ یہ کیوں ہوا؟ اس میں کمال پاشا کا کتنا عمل دخل تھا؟ اس میں اُس کے مشیران اور مصاحب کا کیا کردار تھا اور اِس میں کمال اتاترک کی کتنی رضامندی شامل تھی؟ یہ سب ایک الگ بحث کے متقاضی ہیں تاہم یہ ایک غلط فیصلہ تھا جسے ترکی نے اپنے عین آئین کے مطابق ٹھیک کرلیا ہے۔


تیسرا اعتراض یہ ہے کہ یونیسکو نے اِسے عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔ لیکن کیا آئیا صوفیہ کو عالمی ورثہ قرار دینے سے اُس پر ترکی کا حق ختم ہو جاتا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ اعتراض از خود ہی باطل ہو جاتا ہے۔ آئیا صوفیا ترکی کی ملکیت ہے اور وہ اِسے کسی بھی حیثیت میں استعمال کرنے میں بالکل آزاد ہے جبکہ اِس پر کسی بین الاقوامی، حتیٰ کہ خود ساختہ بین الاقوامی قانون کی بھی نفی نہیں ہوتی۔

اب آگے سنیے۔ حال ہی میں اسرائیل نے اپنے علاقے میں مساجد کو نائٹ کلبس میں تبدیل کیا ہے تو معترضین یہاں خاموش کیوں ہیں؟ ماضی میں ہماری اپنی بادشاہی مسجد میں گھوڑے اور گدھے باندھے گئے تھے۔ یہاں بھی اعتراض کرنے والے بالکل خاموش نظر آئیں گے۔ یورپ کی خوبصورت مساجد میں آج عیسائیوں نے گرجے تعمیر کیے ہوئے ہیں لیکن یہاں بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ تو پھر صرف آئیا صوفیا پر اعتراض کیوں، جسے عجائب گھر سے مسجد میں بدل دیا گیا ہے؟ کیا معترضین یہ جانتے ہیں کہ یورپ اور امریکا میں مسلمانوں نے گزشتہ صدی میں گرجا گھروں کو عیسائی حکومتوں سے خرید کر اُن کو مساجد میں بدلا ہے؟ اگر تو یہ اعتراض ہے کہ یہ گرجا گھر تھا اور سلطان محمد فاتح کو اس کو مسجد میں بدلنا نہیں چاہیے تھا تو پھر تو پورا استنبول ہی واپس کر دینا چاہیے کیونکہ وہ بھی فتح کیا گیا تھا۔

شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور


ترک صدر رجب طیب اردوان نے حال ہی میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ہم آئیا صوفیا کی تاریخی حیثیت کی حفاظت کریں گے، اسے عجائب گھر میں تبدیل کرنا ایک غلطی تھی اور ہم اس غلطی کو سدھار کر اس کی مسجد کی حیثیت کو بحال کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے کسی کو فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آئیا صوفیا نمازیوں اور سیاحوں کےلیے ہر وقت کھلی ہوگی جبکہ یہاں قائم عیسائیت کی نشانیوں کی ویسے ہی حفاظت کی جائے گی جیسا کہ 1453 سے اب تک کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ہر خاص و عام کےلیے داخلہ بالکل مفت ہوگا۔

ترک صحافی فرقان حمید اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ اردوان نے واضح کہا ہے کہ آئیا صوفیا ''نہ تو ریاست کی ملکیت ہے اور نہ ہی کسی ادارے کی، بلکہ یہ فاتح فاؤنڈیشن کی ملکیت ہے، اس کی حیثیت کو فاؤنڈیشن کی مرضی کے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔'' انہوں نے سلطان محمد فاتح کے اس پیغام سے بھی آگاہ کیا: ''جو شخص بھی آیا صوفیہ کو مسجد کا روپ عطا کرنے والے ادارے (فاؤنڈیشن) کو تبدیل کرنے یا فاؤنڈیشن کی کسی شق کو کالعدم قرار دینے یا مختلف چالوں سے اس کی اصلی حالت کو تبدیل کرنے یا اس میں مددگار ہونے یا اسے مسجد کے علاوہ کوئی اور روپ دینے کی کوئی کوشش کرتا ہے تو میں سب پر واضح کردوں، وہ شخص حرام کا مرتکب ہوگا اور گناہ کبیرہ سرزد کرے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ، پیغمبروں، فرشتوں اور تمام مسلمانوں کی لعنت ہوگی۔ اللہ کا عذاب اس پر ہوگا۔''

صدر اردوان نے کہا کہ آج اس فیصلے سے سلطان محمد فاتح کی بددعا سے ہم لوگ محفوظ ہوگئے ہیں۔

کیا اب بھی کسی کا اعتراض باقی ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story