پنجاب میں گندم کی من مانی قیمتوں نے ریکارڈ توڑ ڈالے
راولپنڈی سرفہرست، لاہور 2250، پشاور 2200 اور کراچی میں 2030 روپے من رہی
پنجاب کی کھلی منڈی میں گندم کی قیمتوں نے تمام ملکی ریکارڈ توڑ ڈالے۔
گزشتہ روز راولپنڈی میں گندم کی قیمت 2300 روپے ،لاہور 2250 ، ہارون آباد2200 ، رحیم یار خان 2150 ، پشاور2200 اور کراچی میں 2030 روپے من رہی۔ سرکاری و نجی گندم کی قیمتوں میں 800 روپے فی من کے فرق کے باعث بعض اضلاع میں سرکاری کوٹہ کی گندم کی غیر قانونی خریدو فروخت جاری ہے۔
فلور مل مالکان گندم کی قلیل دستیابی کے باعث آٹے کی طلب پوری کرنے سے قاصر ہیں جس کے سبب اس کی قلت 50 سے 55 فیصد تک جا پہنچی ہے۔سندھ کی جانب سے پنجاب جانے والی گندم پر پابندی کھلی منڈی میں مہنگی ہونے کی ایک وجہ بتائی جاتی ہے ۔
وفاقی و صوبائی وزراء سمیت ارکان اسمبلی کی نمایاں تعداد کی جانب سے محکمہ خوراک سے سرکردہ کردار واپس لینے، ضلعی انتظامیہ کی مداخلت اور اس کے نتیجہ میں بڑھتی خرابیوں پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ بالخصوص گندم خریداری مہم اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی میں ناقص کارکردگی کو بحران کا سبب قرار دیا جارہا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ضلعی انتظامیہ کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھانے کا تجربہ گندم خریداری مہم میں بری طرح ناکام رہا اور 45 لاکھ ٹن کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا جبکہ تمام اداروں اور ایجنسیوں سمیت صوبے بھر کی بیوروکریسی کو شامل کرنے کے باوجود صرف 80 ہزار ٹن گندم برآمد کی جا سکی ۔
یاد رہے محکمہ خوراک نے40 لاکھ80 ہزار ٹن گندم خریدی تھی جس میں سے 40 لاکھ ٹن گندم کسانوں نے خود سرکاری مراکز تک لیجا کر فروخت کی۔
گزشتہ روز راولپنڈی میں گندم کی قیمت 2300 روپے ،لاہور 2250 ، ہارون آباد2200 ، رحیم یار خان 2150 ، پشاور2200 اور کراچی میں 2030 روپے من رہی۔ سرکاری و نجی گندم کی قیمتوں میں 800 روپے فی من کے فرق کے باعث بعض اضلاع میں سرکاری کوٹہ کی گندم کی غیر قانونی خریدو فروخت جاری ہے۔
فلور مل مالکان گندم کی قلیل دستیابی کے باعث آٹے کی طلب پوری کرنے سے قاصر ہیں جس کے سبب اس کی قلت 50 سے 55 فیصد تک جا پہنچی ہے۔سندھ کی جانب سے پنجاب جانے والی گندم پر پابندی کھلی منڈی میں مہنگی ہونے کی ایک وجہ بتائی جاتی ہے ۔
وفاقی و صوبائی وزراء سمیت ارکان اسمبلی کی نمایاں تعداد کی جانب سے محکمہ خوراک سے سرکردہ کردار واپس لینے، ضلعی انتظامیہ کی مداخلت اور اس کے نتیجہ میں بڑھتی خرابیوں پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ بالخصوص گندم خریداری مہم اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی میں ناقص کارکردگی کو بحران کا سبب قرار دیا جارہا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ضلعی انتظامیہ کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھانے کا تجربہ گندم خریداری مہم میں بری طرح ناکام رہا اور 45 لاکھ ٹن کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا جبکہ تمام اداروں اور ایجنسیوں سمیت صوبے بھر کی بیوروکریسی کو شامل کرنے کے باوجود صرف 80 ہزار ٹن گندم برآمد کی جا سکی ۔
یاد رہے محکمہ خوراک نے40 لاکھ80 ہزار ٹن گندم خریدی تھی جس میں سے 40 لاکھ ٹن گندم کسانوں نے خود سرکاری مراکز تک لیجا کر فروخت کی۔