بھوک

بھوک کے معنی اس سفید پوش کےلیے اور زیادہ ہوجاتے ہیں جسے بچوں کا پیٹ بھرنے کے ساتھ معاشرے میں اپنا بھرم بھی رکھنا ہے

آنکھوں کے ساتھ احساس کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ بھوک کا رنگ نہیں ہوتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ چار حرفی لفظ دیکھنے میں جتنا سادہ ہے اس کی ہولناکی اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ فیس بکی دور میں ہمارے احساسات بھی انٹرنیٹ کی لہروں کی طرح ہوا کے حوالے ہوگئے... یا شاید... یمن، شام، ایتھوپیا، تھر کی بھوک کے لگاتار مناظر نے ہمیں اتنا عادی بنادیا ہے کہ ہم اپنے اردگرد کی بھوک سے بھی بےپرواہ ہوگئے۔

ہمارے ملک کا بڑا طبقہ دیہاڑی دار، روز کما کر کھانے والے مزدوروں پر مشتمل ہے۔ ان کے کام کا ایک دن کا ناغہ گھر کے چولہے ٹھنڈے کر دیتا ہے۔ اسی لیے کورونا کے وبائی حالات میں بھی اس طبقے کو بیماری سے زیادہ خاندان کی بھوک کی فکر لاحق ہے۔

بھوک کے معنی اس سفید پوش کےلیے اور زیادہ ہوجاتے ہیں جسے معصوم بچوں کا پیٹ بھی بھرنا ہے اور معاشرے میں اپنا بھرم بھی رکھنا ہے۔

بےروزگاری اور بھوک سے لڑنے والا ایک سفید پوش جوان فیاض احمد بھی تھا۔ ننکانہ صاحب منڈی فیض آباد کا یہ رہائشی ایک محبت کرنے والے خاندان کا سربراہ تھا۔ وہ 30 سالہ بیوی کا شوہر اور تین معصوم بیٹیوں کا باپ تھا۔ روزانہ اجرت پر دن بھر محنت مزدوری کرکے بمشکل اپنا اور اہل و عیال کا پیٹ پالتا تھا۔ کبھی کسی زمیندار کے کھیتوں میں اور کبھی منڈی میں جاکر کام کرتا تھا۔ وبائی حالات کے باعث کبھی کام مل جاتا اور کبھی سارا دن بے کار۔ گھر کے حالات مزید ابتر ہوگئے۔ روکھی سوکھی کا انتظام بھی آئے دن فاقہ کی نذر ہورہا تھا۔ ایسے میں کبھی شہر جانا ہوتا تو مزیدار کھانوں کی اشتہا انگیز مہک اس کی بھوک سے بلکتی بچیوں کے چہرے سامنے لے آتی۔ وہ مستقبل کی اچھی امیدوں کے ساتھ اپنی محروم آرزوؤں کو بہلانے کی ناکام کوشش کرتا۔

پچھلے ایک ہفتے سے فیاض احمد کو کوئی خاص کام نہیں مل رہا تھا۔ حکومتی کرم کے باعث آٹا بھی بہت مہنگا ہوگیا تھا۔ محلے کی راشن کی دکان والا بھی آخر کب تک ادھار دیتا؟ نوبت یہ آگئی کہ روکھی سوکھی اور فاقے کی باریوں میں فاقوں کی باریاں زیادہ ہونے لگیں۔ فیاض احمد اور اس کی بیوی سے بچوں کے فاقے دیکھنا ناقابلِ برداشت ہوچلا تھا۔


12 جولائی کی شام کو فیاض احمد خالی ہاتھ گھر آیا تو دیکھا کہ 5 سالہ بیٹی بھوک سے روتی بلکتی تین سالہ بہن کو چپ کرانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ پوچھنے پر بیوی نے بتایا کہ بھوک سے بچوں کا برا حال ہے۔ مسلسل فاقوں نے ان جوان میاں بیوی کے جسموں کے ساتھ حوصلوں کو بھی کمزور کر ڈالا۔ اس رات دونوں نے حالات سے دل برداشتہ ہوکر ایسا خوفناک منصوبہ بنا ڈالا جس کے تصور سے ہی روح کانپ جائے۔ ہم پیٹ بھروں کی بےفکر سوچوں کے دائرے سے بہت دور ہے کہ بھوک کسی کو اس حد تک بھی مجبور کرسکتی ہے؟ کیا اس کے پڑوسی، محلے دار اور رشتے دار کوئی اس قابل نہیں تھا جن کا ان کو خیال آتا؟ جانے کیا حالات ہوں گے کہ بھوکے پڑوسی کی بابت جواب دہ ہونے والے مسلمان پڑوسی سکھ چین کی نیند سوتے رہے۔ پھر وہ وقت آیا کہ ننھی پریوں کے پیارے والدین انہیں بھوک سے نجات دلانے کے منصوبے پر عمل کےلیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ سیر کی خوشخبری سنا کر بچیوں کو خوب اچھے سے تیار کیا۔ معصوم کلیوں نے بھی گھومنے پھرنے، کھانے پینے کے کیا کیا خواب دیکھے ہوں گے کہ اب بابا سیر بھی کرائیں گے اور جی بھر کر کھانا بھی کھلائیں گے۔

فیاض نے موٹر سائیکل کرائے پر لی۔ کیو بی لنک نہر کی جانب رخ کرلیا۔ نہر کے کنارے موٹرسائیکل کھڑی کی۔ ماں باپ نے آخری بار ننھی بیٹیوں کو دیکھا، چوما اور اگلے ہی لمحے بچیوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا دی۔ اپنی اور بیوی بچیوں کو تکلیف دینے والی ظالم بھوک سے ہمیشہ کےلیے نجات دلادی۔

خبر سوشل میڈیا پر آئی۔ لوگوں کے بہت سے تبصرے بھی ہیں۔ فیاض یہ کرلیتا وہ کرلیتا۔ خودکشی کیوں کی؟ فیاض اور اس کے خاندان کی خودکشی کا جواب فیاض کو تو دینا ہی ہے۔ مگر اس کے پڑوسی، عزیز، رشتےدار اور اس کے علاقے کے حکام سب اس کے اس حرام فعل کے ذمے دار اور جواب دہ ہیں۔ ان پانچ بھوکے محروم نفوس کا قاتل یہ معاشرہ، یہ حکومت ہے۔

آسمان کو چھوتی مہنگائی اور زمین پر بھوک سے بلکتے خاندان۔ اپنے اردگرد کسی فیاض اور اس کے خاندان کو موت کے منہ میں جانے سے روکنے کےلیے آنکھوں کے ساتھ احساس کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ بھوک کا رنگ نہیں ہوتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story