بدھا کا مجسمہ توڑنے والوں کا کیا قصور

موہن جو دڑو کے آثار کے نزدیک ہی ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے

اگر گزشتہ ہفتے مردان کی تحصیل تخت بائی میں ایک مکان کی کھدائی کے دوران ٹھیکیدار کو مہاتما بدھ کا قدِ آدم سنگی مجسمہ نہ دکھائی دیتا اور وہ کسی متعلقہ سرکاری اہل کار کو اس کی اطلاع دینے کے بجائے ایک مقامی مولوی کو جائے وقوع پر نہ لے آتا اور وہ مولوی فوری طور پر یہ حکم صادر نہ کرتا کہ یہ مجسمہ حرام ہے۔

لہذا اسے فوراً ٹکڑے ٹکڑے کر کے پاک کر دیا جائے اور پھر مزدور اس سترہ سو برس پرانے مجسمے پر نہ پل پڑتے اور اس دوران کوئی شخص اپنے کیمرے سے اس کارہائے نمایاں کی وڈیو نہ بنا لیتا اور یہ وڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہ ہوتی اور پھر میڈیا پر خبر کی شکل اختیار نہ کرتی تو نہ محکمہ آثارِ قدیمہ حرکت میں آتا۔ نہ پولیس چار افراد کو گرفتار کرتی اور نہ ہی ان افراد کے خلاف پاکستان نوادرات و آثارِ قدیمہ ایکٹ کے تحت پرچہ کٹتا۔

مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ٹھیکیدار اور مولوی صاحب سمیت کسی ملزم کو ادراک ہی نہیں کہ ان سے واقعی کوئی قابلِ تعزیر جرم سرزد ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان چاروں میں سے کسی ایک نے بھی پشاور، ٹیکسلا یا اسلام آباد میوزیم کی شکل تک نہیں دیکھی جو مہاتما بدھ کے مجسموں سے اٹے پڑے ہیں۔اگر ان میں سے کوئی ایک شخص بھی کسی میوزیم میں چلا جاتا تو شائد شریکِ جرم نہ ہوتا۔ یہ تمام تو اپنے تئیں جذبہِ جہاد اور دین کی خدمت سے معمور کوئی ثواب کا کام کر رہے تھے۔

میرا اپنا خیال ہے کہ یہ چاروں بے قصور ہیں اور ہمیں اور آپ کو میسر ماحول کے ہی پرورش زدہ ہیں۔ ہمیں ہوش سنبھالتے ہی مذاہب کے تقابل اور ان میں مشترک اچھائیاں تلاش کرنے کے کام پر لگانے کے بجائے اپنے مذہب کے مقابلے میں ہر مذہب کو گھٹیا نیچ بتایا جاتا ہے۔

بھلے ہمارے اساتذہ کا تعلق مذہبی مدارس سے ہو یا سرکاری و نجی اسکولوں سے۔انھیں خود بھی نہیں معلوم کہ ہر بت وہ بت نہیں ہوتا جسے توڑنا لازم ہو۔ خانہ کعبہ میں موجود جو تین سو ساٹھ بت توڑے گئے۔انھیں توڑنے کا ایک خاص مقصد اور پیغام تھا۔یعنی اب اس سرزمین پر بتوں کی پوجا نہیں ہوگی بلکہ وحدانیت کا راج ہو گا۔اس اعلان کے ساتھ ہی ساتھ یہ تعلیم بھی دی گئی کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہیں بھی واجب الاحترام ہیں بشرطیکہ وہ سازشوں کی آماجگاہ نہ بن جائیں۔یہ قانون مساجد پر بھی لاگو تھا ورنہ منافقین کی مسجدِ ضرار منہدم نہ کی جاتی۔

اگر خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کا یہ مطلب تھا کہ ہر مجسمہ جہاں بھی نظر آئے توڑ دیا جائے۔ تو پھر حضرت عمرو بن العاص کی قیادت میں جس لشکر نے مصر فتح کیا اسے سب سے پہلے ابوالہول کا مجسمہ توڑنا چاہیے تھا اور اہرام کھدیڑ دینے چاہیے تھے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص کو عراق اور ایران کے آتشکدے برباد کر دینے چاہیے تھے اور خالد بن ولید کی قیادت میں جو لشکر بازنطینی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہا تھا اسے تو بلادِ شام میں تمام بابلی اور آشوری مجسمے پاش پاش کر دینے چاہیے تھے۔ مگر جو کام صحابہِ رسول کے ذہن میں نہ آ سکا اسے ڈیڑھ ہزار برس بعد طالبان نے کارِ ثواب سمجھتے ہوئے افغان صوبہ بامیان میں مہاتما بدھ کے ڈیڑھ سو فٹ اونچے دو مجسمے بارود سے اڑا کے انجام دیا اور پھر اسے کارخیر جان کر داعش نے عراق و شام میں اپنے مقبوضہ علاقوں میں آشوری مجسمے، میوزیم اور رومن دور کے آثار بارود باندھ کر اڑا دیے۔انھوں نے تو آئمہ کے مزارات بھی بت سمجھ کر نہ بخشے۔


آپ مجھ پر یا کسی بھی پاکستانی شہری پر مجسمے توڑنے کی فردِ جرم کیسے لگا سکتے ہیں اگر مجھے آپ نے اسکول کے نصاب میں بتایا ہو کہ ٹیکسلا ، موہن جو دڑو اور ہڑپا چونکہ قبل از اسلام تہذیبوں کے آثار ہیں لہذا ان سے ہمارا کوئی تہذیبی حتی کہ نسلی و علاقائی لینا دینا بھی نہیں۔تو پھر میں کیوں ان تہذیبی آثاروں کو اپنے ارتقائی تسلسل کا حصہ تصور کرتے ہوئے اپنی میراث سمجھ کر عزت دوں ، ان کا خیال رکھوں اور توڑ پھوڑ و چوری چکاری سے بچاؤں۔

ایک جانب تو آپ مجھے محمود غزنوی کے علم و فضل کی قدر دانی کے وصف کو سراہنے کے بجائے اس کی بت شکنی پر فخر کرنا سکھائیں۔اور یہ بھی بتانا بھول جائیں کہ سومنات کا مندر کسی مذہبی جذبے کے تحت نہیں بلکہ حصول ِ زر و جواہر کی نیت سے توڑا گیا تھا۔اور اس کے بعد آپ مجھ سے یہ توقع بھی رکھیں کہ میں غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کو بھی وہی احترام دوں جس کا تقاضا اسلامی تعلیمات کرتی ہیں۔

بے عملی کے کنوئیں میں دو عملی کا کتا جب تک پڑا رہے گا تب تک جتنے مرضی ڈول نکال لیں عام آدمی کا کنفیوژن پاک و شفاف نہیں ہو گا۔ چند برس پہلے جب میں ایک دستاویزی فلم بنانے کے لیے بہاولپور گیا تو مجھے پرانے شہر میں ایک متروک مندر دکھایا گیا۔

اس مندر کے صدر دروازے کے باہر اور اندر کی دیواروں پر جتنی مورتیاں اور نقوش بنے ہوئے تھے ان سب کی ناکیں یا توڑ دی گئی تھیں یا مٹا دی گئی تھیں۔میں نے پوچھا کہ یہ کارنامہ کس نے کیا؟ مقامی مولوی صاحب جو ہمارے گائیڈ بھی تھے انھوں نے وجہ بیان فرمائی کہ اگر ان بتوں اور دیوی دیوتاؤں کی تصاویر کے چہرے مسخ نہ کیے جاتے تو خدشہ تھا کہ کوئی پھر سے ان کی عبادت شروع نہ کر دے۔یہ دلیل سن کر میری طبیعت جھک ہو گئی اور دماغ میں جو منطق انگڑائی لے رہی تھی اس نے وہیں خود کشی کر لی۔

موہن جو دڑو کے آثار کے نزدیک ہی ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے۔اس کے نگراں کوئی بہت ہی اکتائے ہوئے افسر تھے جن کا پنجاب سے جبری تبادلہ کر کے لاڑکانے میں پٹخ دیا گیا تھا۔( یہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے کی بات ہے )۔مگر انھوں نے خوشدلی برتتے ہوئے چائے بھی پلائی اور کھدائی سے برآمد ہونے والی اشیا بھی دکھائیں۔

ہال کے دروازے پر لگی تختی پر لکھا تھا '' ہندو آثارِ قدیمہ کا سیکشن '' میں نے نگراں صاحب سے پوچھا کہ ہال میں اگر موہن جو دڑو سے برآمد اشیا رکھی گئی ہیں تو پھرہندو آثارِ قدیمہ کی تختی کیوں لگائی گئی ہے ؟ نگراں صاحب نے پوچھا کیا موہن جو دڑو اور ہندو آثارِ قدیمہ میں کوئی فرق ہے ؟

ایسے حالات، ماحول اور ماہرین کے ہوتے تخت بائی کے چار لوگوں پر مہاتما بدھ کے مجسمے کو توڑنے کی فردِ جرم عائد کرنا زیادتی نہیں تو اور کیا ہے ؟ ویسے بھی کراچی، لاہور ، اسلام آباد ، ٹیکسلا اور پشاور کے عجائب گھروں میں لگ بھگ بتیس سو گندھارا مجسموں اور نوادرات کی چوکھی عزت ہو رہی ہے جو ہم ایک سنگی بدھا کے سینے پر چلائے جانے والے تیشے کو خبر بنا بنا کے نچوڑتے رہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story