فخر انبیا وجہ تخلیق کائنات
دینِ اسلام کی امتیازی خصوصیت خاتم الانبیاء حضور اکرمﷺ کی شانِ رسالت میں مضمر ہے۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ خیر البشر، فخرِ انبیاء، سرورِ دو جہاں اور وَجہ تخلیق ِکائنات ہیں۔ آپﷺ حبیب ِخدا اور محبوب ِکبریا کے القاب سے اپنی منفرد، مخصوص اور بے مثل شناخت سے مشرف ہیں۔ آپﷺ کا ذکر رب العالمین نے خود بلند فرمایا ہے۔
بعد از خدا بزرگ توُئی قصّہ مختصر
آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ '' میرا نام زمین پر محمدﷺ اور آسمان پر احمدﷺ رکھاگیا ہے۔ محمدﷺ کے معنی ہیں وہ ذاتِ گرامی کہ جس کی تعریف اللہ تعالیٰ بذاتِ خود بیان فرمائے اور احمدﷺ وہ ہے کہ جو حق تعالیٰ کی حمدو ثناء کا شرف رکھنے کا حامل انسانِ کامل ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ '' اے حبیبﷺ ہم نے تمہاری خاطر تمارا ذکر بلند کردیا '' ذکرِ محمدﷺ عبادتِ الٰہی کا جزولاینفک ہے اور رضائے خدا مصطفیﷺ سے وفاداری کے ساتھ مشروط ہے جس کا اظہار علامہ اقبال نے اپنے درج ذیل شعر میں نہایت خوب صورت انداز میں کیا ہے :
کی محمدﷺ سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
حضور ِ اکرمﷺ کے آخری نبی ہو نے پر پختہ اور غیر متزلزل یقین اور اس کا تہہ دل سے ببانگِ دہل واضح الفاظ میں اعتراف مومن کی شان اور پہچان ہے۔ با الفاظ ِ دیگر مومن کے ایمان کی یہی اصل کسوٹی ہے جس پر پرکھ کر کھرے اور کھوٹے کا فرق معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ خوش خبری انتہائی حوصلہ افزا اور لائق تحسین ہے کہ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی نے مکمل اتفاق ِ رائے سے منظور کی گئی ایک تاریخ ساز قرار داد کے ذریعے تمام نصابی کتابوں میں سرکارِ دو عالم حضرت محمدﷺ کے اِسم ِ مبارک کے ساتھ خاتم النبیّین لکھنا لازم قرار دے دیا ہے۔ اس مبارک تاریخی قرار داد کو تجویز کرنے کا شرف مسلم لیگ (ن) کے رکنِ قومی اسمبلی نورالحسن کو حاصل ہوا جب کہ اسے پڑھ کر سنانے کی سعادت پی ٹی آئی کے وزیر مملکت علی محمد خان کو نصیب ہوئی۔ تمام پارلیمانی جماعتوں نے اس مقدس قرار داد کی پُر زور حمایت کر کے خود کو عاشقانِ محمدﷺ کی فہرست میں شامل کرالیا ۔ اس حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ :
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
ایوان بالا یعنی سینیٹ کے ارکان نے بھی اس قرار داد کو متفقہ منظوری دے کر عاشقانِ نبیﷺکی فہرست میں شامل کرواکر ثواب دارین حاصل کیا۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے بھی پیروی کرتے ہوئے ایسی ہی قرار داد کو مکمل اتفاق رائے سے منظور کر کے حضورپاکﷺ سے بھر پور عقیدت کا اظہار کیا ہے۔
وطن عزیز کی قانون ساز اسمبلیوں کا یہ تاریخی کار نامہ قیام ِ پاکستان کے مقاصد کے حصول کی راہ پر ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اقدام اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ قوم نے اپنا سبق بھلایا نہیں ہے اور یہ کہ اس کا جذبہء مِلّی سرد نہیں ہوا۔ بقولِ اقبال :
ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بڑی ذَرخیز ہے ساقی
دینِ اسلام کی امتیازی خصوصیت خاتم الانبیاء حضور اکرمﷺ کی شانِ رسالت میں مضمر ہے۔ رسالت ہی کی وجہ سے ملّت کے پیکر میں روح پھونکی گئی ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمارا مِلّی پیکر تیار فرماکر اس میں رسالت ِ محمدﷺ کی وجہ سے روح پھونکی۔ رسالت ہی کی بدولت بحیثیت ملّت ہماری پیدائش ہوئی اور رسالت ہی کے طفیل ہمیں دین ِ اور دستورِ حیات میسّر آیا۔ اقبال کے بقول:
از رسالت در جہاں تکوینِ ما
از رسالت دینِ ما آئینِ ما
علامہ اقبال مزید فرماتے ہیں کہ جہانِ عشق آپ ﷺ ہی کی وجہ سے زندہ ہے۔
وہ دانائے سُبل ختم الرسل مولائے کُل جس نے
غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق ومستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں وہی طہٰ
حضور پاک ﷺ کی عظمت و شانِ رسالت ہی ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپﷺ سرورِ دو جہاں رحمتہ اللعالمین ، سردار ِ انبیاء ، محبوب ِ کبریا، حبیب خدا اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ﷺ قرآن پاک میں ربّ العزّت کا واضح فرمان ہے کہ محمدﷺ کے بعد کوئی اور نبی نہیں آسکتا کیونکہ دین مکمل ہوچکا ہے۔ ختم نبوت کی حقیقت کو احمد ندیم قاسمی صاحب نے نہایت دلکش انداز میں شعری قالب میں ڈھالا ہے :
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا : ترجمہ : '' میری اور سابقہ پیغمبروں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنا یا ، اس کو خوب آراستہ و پیراستہ کیا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی۔ لو گ اس گھر میں پھرتے ہیں ، تعجب کرتے ہیں کہ (ایسا آراستہ گھر) یہ اینٹ کیوں نہیںلگائی۔ فرمایا'' تووہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم ِالنبّیین ہوں ''۔
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اس دین کے بعد نہ تو کسی اور دین کی اور نہ کسی اور پیغمبر کی ضرورت باقی ہے۔ پس اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین ، قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب اور حضرت محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی یعنی خاتم النبّیین ہیں۔ نعت گو شعر ائے کرام پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی نعتوں میں عقیدہ ختم ِ نبوت کو اجاگر کرتے رہیں۔ اس انتہائی اہم اور مقدس فریضہ کو ادا کرنے والوں میں جناب شہزاد مجددّی پیش پیش ہیں۔ وہ کہتے ہیں :
کہا اللہ نے قرآںمیں ختم المرسلیںان کو
'' عقیدہ اس لیے رکھتے ہیں ہم ختم نبوت کا''
شہِ کونین ﷺ نے فرما دیا ہے'' لا نبی بعدیٰ''
'' عقیدہ اس لیے رکھتے ہیں ہم ختمِ نبوت کا ''
کسی کو اب کو ئی جراُ ت نہ ہو پھر ایسے دعوے کی
'' عقیدہ اس لیے رکھتے ہیں ہم ختمِ نبوت کا ''
عقیدہ ختم نبوت ہر مسلمان کا لازمی جز و ایمان ہے۔ تاریخ اسلام کی اہم ترین جنگ '' جنگ ِ یمامہ '' اسی عقیدے کے دفاع کے لیے لڑی گئی تھی۔ یہ عظیم جنگ مسیلمہ کذ اب کے جھوٹے دعوے کے نتیجے میں لڑی گئی تھی اور اس میں بارہ سو صحابہ کرام نے جام ِ شہادت نوش فرمایا تھا۔
بعد از خدا بزرگ توُئی قصّہ مختصر
آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ '' میرا نام زمین پر محمدﷺ اور آسمان پر احمدﷺ رکھاگیا ہے۔ محمدﷺ کے معنی ہیں وہ ذاتِ گرامی کہ جس کی تعریف اللہ تعالیٰ بذاتِ خود بیان فرمائے اور احمدﷺ وہ ہے کہ جو حق تعالیٰ کی حمدو ثناء کا شرف رکھنے کا حامل انسانِ کامل ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ '' اے حبیبﷺ ہم نے تمہاری خاطر تمارا ذکر بلند کردیا '' ذکرِ محمدﷺ عبادتِ الٰہی کا جزولاینفک ہے اور رضائے خدا مصطفیﷺ سے وفاداری کے ساتھ مشروط ہے جس کا اظہار علامہ اقبال نے اپنے درج ذیل شعر میں نہایت خوب صورت انداز میں کیا ہے :
کی محمدﷺ سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
حضور ِ اکرمﷺ کے آخری نبی ہو نے پر پختہ اور غیر متزلزل یقین اور اس کا تہہ دل سے ببانگِ دہل واضح الفاظ میں اعتراف مومن کی شان اور پہچان ہے۔ با الفاظ ِ دیگر مومن کے ایمان کی یہی اصل کسوٹی ہے جس پر پرکھ کر کھرے اور کھوٹے کا فرق معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ خوش خبری انتہائی حوصلہ افزا اور لائق تحسین ہے کہ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی نے مکمل اتفاق ِ رائے سے منظور کی گئی ایک تاریخ ساز قرار داد کے ذریعے تمام نصابی کتابوں میں سرکارِ دو عالم حضرت محمدﷺ کے اِسم ِ مبارک کے ساتھ خاتم النبیّین لکھنا لازم قرار دے دیا ہے۔ اس مبارک تاریخی قرار داد کو تجویز کرنے کا شرف مسلم لیگ (ن) کے رکنِ قومی اسمبلی نورالحسن کو حاصل ہوا جب کہ اسے پڑھ کر سنانے کی سعادت پی ٹی آئی کے وزیر مملکت علی محمد خان کو نصیب ہوئی۔ تمام پارلیمانی جماعتوں نے اس مقدس قرار داد کی پُر زور حمایت کر کے خود کو عاشقانِ محمدﷺ کی فہرست میں شامل کرالیا ۔ اس حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ :
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
ایوان بالا یعنی سینیٹ کے ارکان نے بھی اس قرار داد کو متفقہ منظوری دے کر عاشقانِ نبیﷺکی فہرست میں شامل کرواکر ثواب دارین حاصل کیا۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے بھی پیروی کرتے ہوئے ایسی ہی قرار داد کو مکمل اتفاق رائے سے منظور کر کے حضورپاکﷺ سے بھر پور عقیدت کا اظہار کیا ہے۔
وطن عزیز کی قانون ساز اسمبلیوں کا یہ تاریخی کار نامہ قیام ِ پاکستان کے مقاصد کے حصول کی راہ پر ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اقدام اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ قوم نے اپنا سبق بھلایا نہیں ہے اور یہ کہ اس کا جذبہء مِلّی سرد نہیں ہوا۔ بقولِ اقبال :
ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بڑی ذَرخیز ہے ساقی
دینِ اسلام کی امتیازی خصوصیت خاتم الانبیاء حضور اکرمﷺ کی شانِ رسالت میں مضمر ہے۔ رسالت ہی کی وجہ سے ملّت کے پیکر میں روح پھونکی گئی ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمارا مِلّی پیکر تیار فرماکر اس میں رسالت ِ محمدﷺ کی وجہ سے روح پھونکی۔ رسالت ہی کی بدولت بحیثیت ملّت ہماری پیدائش ہوئی اور رسالت ہی کے طفیل ہمیں دین ِ اور دستورِ حیات میسّر آیا۔ اقبال کے بقول:
از رسالت در جہاں تکوینِ ما
از رسالت دینِ ما آئینِ ما
علامہ اقبال مزید فرماتے ہیں کہ جہانِ عشق آپ ﷺ ہی کی وجہ سے زندہ ہے۔
وہ دانائے سُبل ختم الرسل مولائے کُل جس نے
غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق ومستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں وہی طہٰ
حضور پاک ﷺ کی عظمت و شانِ رسالت ہی ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپﷺ سرورِ دو جہاں رحمتہ اللعالمین ، سردار ِ انبیاء ، محبوب ِ کبریا، حبیب خدا اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ﷺ قرآن پاک میں ربّ العزّت کا واضح فرمان ہے کہ محمدﷺ کے بعد کوئی اور نبی نہیں آسکتا کیونکہ دین مکمل ہوچکا ہے۔ ختم نبوت کی حقیقت کو احمد ندیم قاسمی صاحب نے نہایت دلکش انداز میں شعری قالب میں ڈھالا ہے :
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا : ترجمہ : '' میری اور سابقہ پیغمبروں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنا یا ، اس کو خوب آراستہ و پیراستہ کیا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی۔ لو گ اس گھر میں پھرتے ہیں ، تعجب کرتے ہیں کہ (ایسا آراستہ گھر) یہ اینٹ کیوں نہیںلگائی۔ فرمایا'' تووہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم ِالنبّیین ہوں ''۔
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اس دین کے بعد نہ تو کسی اور دین کی اور نہ کسی اور پیغمبر کی ضرورت باقی ہے۔ پس اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین ، قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب اور حضرت محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی یعنی خاتم النبّیین ہیں۔ نعت گو شعر ائے کرام پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی نعتوں میں عقیدہ ختم ِ نبوت کو اجاگر کرتے رہیں۔ اس انتہائی اہم اور مقدس فریضہ کو ادا کرنے والوں میں جناب شہزاد مجددّی پیش پیش ہیں۔ وہ کہتے ہیں :
کہا اللہ نے قرآںمیں ختم المرسلیںان کو
'' عقیدہ اس لیے رکھتے ہیں ہم ختم نبوت کا''
شہِ کونین ﷺ نے فرما دیا ہے'' لا نبی بعدیٰ''
'' عقیدہ اس لیے رکھتے ہیں ہم ختمِ نبوت کا ''
کسی کو اب کو ئی جراُ ت نہ ہو پھر ایسے دعوے کی
'' عقیدہ اس لیے رکھتے ہیں ہم ختمِ نبوت کا ''
عقیدہ ختم نبوت ہر مسلمان کا لازمی جز و ایمان ہے۔ تاریخ اسلام کی اہم ترین جنگ '' جنگ ِ یمامہ '' اسی عقیدے کے دفاع کے لیے لڑی گئی تھی۔ یہ عظیم جنگ مسیلمہ کذ اب کے جھوٹے دعوے کے نتیجے میں لڑی گئی تھی اور اس میں بارہ سو صحابہ کرام نے جام ِ شہادت نوش فرمایا تھا۔