ویکسین فطری نظام میں انسان کی حیرت انگیز مداخلت

انسانوں پر دوا کی آزمایش کی اجازت دینا اور دواؤں کو منظور کرنا اتنا آسان نہیں

انسانوں پر دوا کی آزمایش کی اجازت دینا اور دواؤں کو منظور کرنا اتنا آسان نہیں ۔ فوٹو : فائل

MADRID:
سائنس وہ میدان ہے، جس پر اب ہر انسان یقین اور ذی شعور اندھا بھروسا کرتا ہے۔ یہ آپ کا بھروسا ہی تو ہے کہ آپ جہاز پر بیٹھ جاتے ہیں، جہاز بلندیوں پر سینکڑوں مسافروں کو لے کر پرواز کرتا ہے اور آپ مطمئن خراٹے لے رہے ہوتے ہیں یا ہنستے کھیلتے لطف اٹھاتے ہوئے زمین کے دوسرے ٹکڑے پر محفوظ اترتے ہیں۔ سائنس نے آپ کے برسوں کی مسافت کو کچھ گھنٹوں میں بدل دیا ہے۔

آپ امید کے ساتھ دوائی کھا تے ہیں اور صحت مند رہتے۔ کتنا دل چسپ ہے کہ آپ پورے یقین کے ساتھ ٹیلی فون اٹھاتے ہیں اور لمحوں سے پہلے دنیا کے دوسرے کونے سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ آپ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور دل کھول کر گفتگو کرتے ہیں۔ یہ سائنس پر بھروسا ہی تو ہے کہ آپ آپریشن تھیٹر میں خود جاتے ہیں یا اپنے پیاروں کو بے ہوش کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

یہ آپ کا قیمتی اعتماد ہے اپ کیلکولیٹر استعمال کرتے ہیں اس کے نتایج پر فوری بڑے بڑے فیصلے کرتے ہیں۔ روشنی کی نعمت آپ رات کو استعمال کر کے گویا رات کو دن بناتے ہیں۔ زندگی خوب سے خوب تر ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ اطلاقی سائنس کے مرہون منت ہے۔ آپ کسی بھی موضوع پر ڈبکی لگاتے جائیں تحقیق سے بھری معلومات حضرت انسان کے باشعور ہونے کا ثبوت اور اس کی جستجو کی گہرائی کا قابل رشک پتا دیتی ہیں۔

دنیا میں وحشت طاری کرنے والے وائرس اور بوکھلائے ہوئے راہ نماؤں کی ناعاقبت اندیشی نے سکون سے بڑھتے ہوئے سمندر میں ایسا تلاطم مچایا ہے، جس کی مثال انسان اپنی ایک زندگی میں دو بار محسوس نہیں کر سکتا، البتہ تاریخ اپنے تسلسل میں تواتر سے ایسا وحشت ناک منظر پیش کرتی رہی ہے۔ خیر چلیے دیکھتے ہیں کہ یہ 'کوویڈ 19' وائرس کے خلاف بنائے جانے والے ویکسین کا شور کب کسی نتیجے تک پہنچے گا۔ انسانی جسم ہو یا جانور اور یا پودوں کا، قدرت نے ہر جان دار کو عظیم مدافعت کی طاقت سے نوازا ہوا ہے۔

یقیناً موت کا رواج بھی زندگی کے چکر کا ایک اہم جزو ہے اور ہر پیدائش کے ساتھ ہی پیوستہ ہے۔ کبھی نہ مرنے کی امنگ دراصل ایک بچکانہ خواہش تو ہو سکتی ہے، لیکن جینے کا تصور نہیں۔ قدرت نے جان دار جسم کے اندر پیدا ہونے والی بیماری اور جسم کے باہر سے حملے کے نتیجے میں جسم کو درپیش مشکلات سے نمٹنے کے لیے ایک متوازی، بہترین، آپس میں تعاون پر جڑا ہوا حسین چوکنا نظام رکھا ہے۔

اس نظام کو مدافعتی نظام کے نام سے دنیا جانتی ہے۔ جیسے ہی کوئی وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ وہاں نمو پائے اپنی افزایش کرے۔ انسانی جسم میں موجود مدافعتی نظام درجہ بدرجہ اس وائرس یا بیکٹیریا کا مقابلہ کرتا ہے اور مستقبل کے لیے ایک ایسا پروٹین بناتا ہے جو اس وائرس سے گتھم گتھا ہو کر اس کو پاش پاش کر دیتا ہے۔ اس ردعمل کے نتیجے میں بننے والے پروٹین کو ہم اینٹی باڈی کہتے ہیں۔

اس اینٹی باڈی کی تخلیق کے لیے یوں سمجھیے کی ایک نئی مشینری لگاء جاتی ہے اور یہ مشینری خالصتاً مخصوص وائرس کی شکل کو پہچانتی ہے۔ مدافعتی نظام کا یہ کارندہ لاکھوں نہیں، بلکہ اربوں اشکال کو اپنی یاداشت میں محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب پہلی بار کسی نئے وائرس کو دیکھتا ہے، تو وہ اینٹی باڈی بنانے کے پیغام کو پہنچاننے میں لازوال کردار ادا کرتا ہے۔

جب اینٹی باڈی (پروٹین) بن جائیں، تو وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ ان کی تعداد کم ہوتی رہتی ہے۔ یوں امن کے وقت میں ان کا ختم ہو جانا کوئی معیوب نہیں، لیکن یاد رہے کہ اینٹی باڈی بنانے کی مشینری اور دشمن کی یاداشت ہمیشہ کے لیے ان کے کتب خانے میں محفوظ ہو جاتی ہے، جو کسی بھی نئے حملے کی صورت میں فوری جواب دینے کی قوت سے مالامال ہے۔ اس طرح ایک بار بیمار ہونے والا انسان دوسری دفعہ بیمار ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔

دوسری طرف ہمارے جسم پر حملہ آور وائرس بھی اپنی 'بقا' کے لیے انسان کے خلاف 'قوتِ مزاحمت' حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے اور اس کا واحد طریقہ اس کی جینیاتی ترتیب میں فیصلہ کن تغیر ہے، جو عمومی طور پر وائرس کے ہر نسل اور خاندان میں بہ آسانی دست یاب نہیں، لیکن انفلوئنزا کے خاندان میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔


اگر وائرس اپنی شکل تبدیل کر لے، تو اس کا انسانی جسم کے اندر پیدا ہونے والے مدافعتی نظام سے بچنا ممکن ہو جاتا ہے اور یہ انسانوں کے لیے ایک پیچیدہ صورت حال ہوتی ہے۔ ابھی تک ایسے کوئی شواہد موجود نہیں جس سے ہم یہ طے کر سکیں کہ کوویڈ 19 وائرس کی جینیاتی ترتیب میں قابل فہم تغیر آ رہا ہے۔ جینیاتی ترتیب کے مطالعے سے ہمیں وائرس کی عمر، وائرس کے سفر کی روداد اور اس کی پیدائش کا اندازہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے۔

تحفظ کے لیے تیار کی جانے والی ویکسین اور اس پر کی جانے والی انفرادی کوشش اور اجتماعی کاوشیں حیرت اور معلومات کا پہاڑ لیے میدان میں آ نکلی ہیں۔ ہماری حیاتیاتی علوم کی تاریخ میں اتنی جارحانہ اور تیز رفتار تحقیق کی مثال نہیں ملتی۔ شاید لمحات کو بھی نچوڑ لیا گیا ہے۔ اٹھارویں صدی میں ایڈوڈ جینر نے گائے کے چیچک سے انسانی چیچک کی ویکسین بنائی تھی، جس نے کروڑوں لوگوں کو بیماری کے خلاف قوت فراہم کی اور آج بھی ہم نے وائرس کی اس مہلک بیماری سے اس دنیا کو محفوظ بنا رکھا ہے۔

یہ سفر انیسویں صدی میں لوئس پاسچر کے بے پناہ احسانات اور بیسویں صدی میں سالک سے ہوتا ہوا اکیسویں صدی کے آغاز پر حیرت انگیز اور تیز رد عمل کا مظہر پیش کر رہا ہے۔ سارس وبا سے شروع ہونے والی اکیسویں صدی کی پہلی اور دوسری دہائی نے ایبولا، اور زیکا وائرس کی پوشیدہ ہول ناک تباہیوں کو کام یابی سے روکا اور اب اس صدی کے بدترین مہلک وائرس کوویڈ 19 کے خلاف 100 سے زائد ویکسین گذشتہ چھے ماہ میں بنا چکا ہے۔

یہ ساری ویکسین تجرباتی مراحل تیزی سے طے کر رہی ہیں۔ کچھ جانوروں پر مثبت نتائج حاصل کر چکے ہیں، کچھ جانوروں کے بعد انسانوں پر ازمایش کے پہلے مرحلے میں ہیں، کچھ انسانوں پر ازمایش کے دوسرے مرحلے میں ہیں اور کچھ انسانی ازمایش کے تیسرے اور آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس دفعہ ایک نئے انداز سے بھی ویکسین بنائی جا رہی ہے، جس میں وائرس کا چھوٹا سا جزو استعمال کیا جا رہا ہے، جو انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو اینٹی باڈی بنانے پر اکساتا ہے۔ یہ سائنس کی حیرت انگیز ترقی ہے، جس سے پوشیدہ خطرات اور تحقیق کے وقت کو کم کرنے میں خاطر خواہ مدد مل رہی ہے۔

چلیے کچھ دیر کو ہم یہ تصور کر لیتے ہیں کہ شیشے کے پیچھے بیٹھے، چھے جوانوں میں آپ نے تجرباتی ویکسین داخل کی ہے۔ یہ پہاڑ پر ڈائنامائٹ رکھنے جیسا منظر ہے۔ غیر یقینی کی کیفیت ہمیشہ ننگی تلوار کی طرح ٹنگی رہتی ہے۔

ایک بار جسم میں داخل کی جانے والی ویکسین کو واپس نکالنا، سمندر میں انگوٹھی گرا کر واپس ڈھونڈ نکالنے کے مترادف ہے، ہاں وقت محدود ہو۔ اگر خدانخواستہ جسم ویکسین پر الٹا ردعمل کرے، تو پھر چہرہ آنا فانا سوجتا نظر آتا ہے، بندہ تڑپتا ہوا نظر آتا ہے، ہاتھ پاؤں کھنچ رہے ہوتے ہیں، گردے، پھیپھڑے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، آنکھیں باہر نکل آتی ہیں، جگر دم توڑ رہا ہوتا ہے۔ دماغ منجمد ہو رہا ہوتا ہے اور یوں ہاتھ سے ریت نکلتی نظر آتی ہے۔

اسپتال بے بس ہوتے ہیں اور چارہ گروں کے پاس کوئی دوا نہیں ہوتی۔ تصور کرتے ہیں کہ جنھوں نے ویکسین لگوائی ہو ان کے گھر پیدا ہونے والے بچے دنیا میں معذور تشریف لائیں یا کوئی بیماری جس کا علاج نہ ہو، ان کا مقدر بن جائے۔ تو جناب، انسانوں پر دوا کی ازمایش یا اس کی اجازت دینا اور دواؤں کو منظور کرنا اتنا آسان نہیں۔ کسی سائنسی رسالے میں مضمون شایع کرانے کے لیے اسی موضوع کے ماہرین کا نظر ثانی کرنا لازمی ہوتا ہے۔

یاد رہے مضامین کی اشاعت کی بنیاد پر دوائیں منظور نہیں کی جاتیں، جب تک کہ انہیں اچھی طرح پرکھ نہ لیا جائے، جانچ مکمل نہ کرلی جائے، پڑتال نہ کر لی جائے۔ یہ ایک مشکل ترین سائنسی فیصلہ ہوتا ہے اور پیچیدہ فیصلہ سازی کے مراحل سے گزرنے کے بعد بھی ناقابلِ تلافی حادثات انسانی تاریخ میں درجنوں کے حساب سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ احتیاط سب سے بڑا اوزار ہے۔ عجلت سے کوسوں دور باریک لائینوں کا فیصلہ ازخود ایک پیچیدہ صبر آزما سائنسی عمل ہے۔

عزیزوں ہمارے خطے میں غربت ہو سکتی ہے مگر حوصلے، امید اور خوابوں کی کمی نہیں۔ ایمان سے بھرپور رفقاء￿ ہمارے اطراف میں ہیں۔ سماج میں جس کی قلت ہے ، وہ ہے بحث کی آزادی،شعور کا استعمال دلائل کی عزت، فکر عالم۔ ایک بار خود ساختہ تعمیر کی جانے والی بلا مقصد آہنی دیواروں کو ہٹا کر دیکھیں، سب کچھ اس پاس فروانی سے نظر اے گا۔ خوشحالی بھی، سکون بھی، ترقی بھی، تہذیب بھی۔ آپ جانتے ہیں، میں جانتا ہوں کہ پانی کے راستے روکے نہیں جاسکتے۔ بند بنانے کا نقصان کئی گناہ زیادہ ہے۔ اللہ ہمارا بھی حامی و ناصر ہو۔
Load Next Story