وزیراعظم کا دورہ لاہور سیاسی اور انتظامی تبدیلیوں کے سلسلے کا آغاز
پنجاب میں ’’اہم تبدیلی‘‘ کیلئے مشاورت کا عمل دورہ لاہور سے قبل شروع ہوا تھا اور دورہ لاہور کے بعد بھی جاری ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ لاہور سے قبل پنجاب میں اعلی ترین سطح کی سیاسی و انتظامی تبدیلیوں کا شور مچا ہوا تھا، وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے متبادل امیدواروں کے ناموں کا اندازہ لگا یا جارہا تھا۔
وزیر اعظم ایک روزہ دورے پر لاہور پہنچے اور وزیر اعلیٰ سے ون آن ون ملاقات کی تو تمام نیوز چینلز پر یکساں الفاظ پر مشتمل ٹیکرز چلنا شروع ہو گئے کہ وزیر اعظم نے وزیر اعلی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عثمان بزدار ہی وزیر اعلی رہیں گے۔
دوپہر کے وقت ''ذرائع'' کا لفظ استعمال کر کے شروع ہونے والی ''اعتماد بھری خبر'' رات 11 بجے تک اس انداز اور اس رفتار سے نشر ہوتی رہی ہے کہ یہ تاثر حقیقت کا روپ دھارنے لگا کہ شاید واقعی ''تبدیلی'' کے غبارہ سے ہوا نکل گئی ہے لیکن مجھ جیسے نالائق خوشی کے شادیانے بجانے والوں کو نشاندہی کرتے رہے کہ ماضی میں جب بھی وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی خبروں میں شدت آتی تھی تو وزیر اعظم لاہور کے دورہ کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یا پھر صوبائی کابینہ اور تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنی زبان سے یہ کلمات بیان کرتے تھے کہ ''سردار عثمان بزدار ہی وزیراعلیٰ رہیں گے''لیکن حالیہ دورہ لاہور کے دوران وزیر اعظم نے کسی تقریب یا ملاقات میں اپنی زبان سے یہ الفاظ ادا نہیں کئے اور حیران کن طور پر پارلیمانی پارٹی اور کابینہ اجلاس بھی منعقد نہیں ہوا۔
ایوان وزیر اعظم اور ایوان وزیر اعلیٰ کی خبر رکھنے والوں کو یہ بھی معلوم ہورہا تھا کہ ''سب اچھا'' کا تاثر درست نہیں صورتحال پیچیدہ بھی ہے اور تناو بھی دکھائی دے رہا ہے ۔وزیرا عظم شام کو اسلام آباد واپس روانہ ہو گئے اور رات 11 بجے چیف سیکرٹری کی جانب سے کمشنر لاہور اور سیکرٹری سروسز کو فوری تبدیل کر کے صوبہ بدر کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے جبکہ اگلے روز صوبائی وزیر ماہی پروری و جنگلی حیات ملک اسد کھوکھر سے بھی استعفیٰ لے لیا گیا۔ان تینوں تبدیلیوں نے سردار عثمان بزدار کو واپس اسی پوزیشن پر لا کھڑا کیا جیسا کہ وزیر اعظم نے میجر(ر) اعظم سلیمان کو پنجاب کا چیف سیکرٹری بنا کر ''میسج'' دیا تھا۔ ملک اسد علی کھوکھر، ڈاکٹر شعیب اکبر اور آصف بلال لودھی میں سب سے اہم اور مرکزی قدر مشترک یہ ہے کہ یہ تینوں سردار عثمان بزدار کے نہایت قریبی سمجھے جاتے ہیں۔
پنجاب میں ''اہم تبدیلی'' کیلئے مشاورت کا عمل دورہ لاہور سے قبل شروع ہوا تھا اور دورہ لاہور کے بعد بھی جاری ہے ، اس طرز کی تبدیلیاں راتوں رات نہیں آیا کرتیں اس میں وقت لگتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ماحول بنانا پڑتا ہے۔ یہ امر بھی نہایت اہم ہے کہ وزیر اعظم کے دورہ لاہور سے ڈیڑھ ہفتہ قبل ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ہائیکورٹ میں پٹرولیم کیس کی سماعت کیلئے لاہور پہنچے تھے۔ ذرائع کے مطابق عدالتی سماعت کے بعد انہوں نے سابق چیف سیکرٹری اور موجودہ صوبائی محتسب پنجاب میجر(ر) اعظم سلیمان خان سمیت بعض اہم ترین بیوروکریٹس سے ملاقاتیں بھی کی تھیں اور ان ملاقاتوں میں پنجاب کے بیوروکریٹک معاملات پر بھی معلومات کا تبادلہ کیا گیا تھا۔
اعظم خان ایک منجھے ہوئے تجربہ کار اور جہاندیدہ افسر ہیں اور انہیں وزیر اعظم عمران خان کا غیر معمولی اعتماد بھی حاصل ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ وہ عمران خان کی آنکھ اور کان جیسی حیثیت رکھتے ہیں اور کپتان ان کی رائے کو بہت اہمیت دیتے ہیں اوراس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اعظم خان کے دیئے گئے مشوروں اور اطلاعات نے وزیر اعظم کو بہت سے معاملات کو سدھارنے اور کئی بحرانوں کو جنم لینے سے قبل ختم کرنے میں مدد دی ہے۔ بیوروکریسی کے با خبر ذرائع آنے والے دنوں میں ایک بڑی اکھاڑ پچھاڑ کی خبر دے رہے ہیں۔
پنجاب کابینہ اور بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی اطلاعات تو کئی ہفتے قبل آنا شروع ہو گئی تھیں جبکہ اس معاملے میں وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری نے باہمی مشاورت کے علاوہ ایوان وزیر اعظم کی مشاورت سے بہت حد تک ورکنگ مکمل کر لی تھی لیکن وزیر اعظم کے دورہ کے بعد سیکرٹری سروسز اور کمشنر لاہور کی صوبہ بدری کی وجہ سے یہ معاملہ کچھ عرصہ کیلئے موخر کردیا گیا ہے۔ وزیر اعظم ہوں یا وزیر اعلیٰ ہر ایک کی کامیابی اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس کے پاس وزراء اور بیوروکریسی کی ایک عمدہ ٹیم موجود ہو۔ میجر(ر) اعظم سلیمان خان کے بطور چیف سیکرٹری پنجاب تعیناتی احکامات جاری ہونے سے دو یا تین ہفتے قبل ہی پنجاب بیوروکریسی میں تبدیلی کیلئے ورکنگ شروع ہو گئی تھی۔
وزیر اعظم نے واضح ہدایت کی تھی کہ اعظم سلیمان خان اپنی پسند کی ٹیم بنا کر کام کریں مجھے نتائج چاہئیں ۔ جو ٹیم بنائی گئی اس میں سے چند ایک سیکرٹریز کو چھوڑ کر اکثریت کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی جبکہ چند ہی ہفتوں بعد جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی پر مشتمل پریشر گروپ نے چیف سیکرٹری کو دفاعی رویہ اپنانے پر مجبور کردیا تھا۔اعظم سلیمان خان کی بنائی گئی ٹیم میں نئے چیف سیکرٹری نے فی الوقت بہت بڑی تبدیلی نہیں کی لیکن یہ تبدیلی کرنے کا فیصلہ بھی ہو چکا اور ورکنگ بھی ہو چکی ہے۔
اس وقت طاہر خورشید، ڈاکٹر ظفر نصر اللہ جیسے کامیاب اور تجربہ کار افسروں کو غیر فعال عہدوں پر تعینات کر کے انہیں ضائع کیا جا رہا ہے۔شہریار سلطان جیسے غیر معمولی افسر کو ٹرانسپورٹ جیسے محکمہ میں تعینات کرنے کی بجائے بڑا محکمہ دیکر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔کیپٹن(ر) عثمان یونس نے محکمہ صحت میں اپنی محنت کے ساتھ بہت عمدہ کام کیا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اب انہیں کسی دوسرے دشوار اور مشکل محکمہ میں بھیجا جائے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے ان دونوں افسروں یعنی کیپٹن(ر) عثمان اور شہریار سلطان کا نام اعلیٰ ترین حکومتی حلقوں میں سیکرٹری فوڈ کیلئے فیورٹ سمجھا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ گندم اور آٹے کے بحران سے نمٹنے کیلئے یہ دونوں افسرگیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔ موجودہ سیکرٹری فوڈ اسد گیلانی بہت عمدہ افسر ہیں اور ہر ممکن کوشش کررہے ہیں کہ بحران پر قابو پالیں لیکن بہت سے معاملات ان کے اختیار سے باہر دکھائی دے رہے ہیں۔
سیکرٹری زراعت واصف خورشید کا محکمہ کارکردگی میں چوتھے نمبر پرآیا ہے لیکن بعض افسر انہیں تبدیل کروانا چاہتے ہیں۔سیکرٹری سروسز کے خالی عہدے پر تعیناتی کیلئے موزوں افسر کی بھی تلاش جاری ہے ۔ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی عرفان میمن کے تبادلے کا بھی شور مچا ہوا تھا لیکن جو خاتون افسر اس عہدے کے حصول کیلئے بھرپور کوشش کر رہی تھیں اب شاید ان کی دلچسپی کم ہو گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق مستقبل قریب میں جب پنجاب کے سیاسی حالات سنبھلے تو انتظامی تبدیلیوں کے دوران سیکرٹری، کمشنر، ڈائریکٹر جنرل اور ڈپٹی کمشنر عہدے کے درجنوں افسروں کے تقرر وتبادلے متوقع ہیں جبکہ عید کے بعد چند وزراء کے قلمدان بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ سیاسی و انتظامی چیلنجز کی وجہ سے چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک کو نئی ٹیم کے چناو میں سخت معیار اپنانا ہوگا۔ جواد ملک دھیمے مزاج کے انسان ضرور ہیں لیکن ان کا پروفیشنل رویہ، تجربہ اور ساکھ بہت زبردست ہے لہٰذا دیکھنا ہو گا کہ اب وہ اپنی ٹیم میں کتنے سٹار پلیئر شامل کر پاتے ہیںاور انہیں کس کس پوزیشن پر کھلاتے ہیں۔
وزیر اعظم ایک روزہ دورے پر لاہور پہنچے اور وزیر اعلیٰ سے ون آن ون ملاقات کی تو تمام نیوز چینلز پر یکساں الفاظ پر مشتمل ٹیکرز چلنا شروع ہو گئے کہ وزیر اعظم نے وزیر اعلی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عثمان بزدار ہی وزیر اعلی رہیں گے۔
دوپہر کے وقت ''ذرائع'' کا لفظ استعمال کر کے شروع ہونے والی ''اعتماد بھری خبر'' رات 11 بجے تک اس انداز اور اس رفتار سے نشر ہوتی رہی ہے کہ یہ تاثر حقیقت کا روپ دھارنے لگا کہ شاید واقعی ''تبدیلی'' کے غبارہ سے ہوا نکل گئی ہے لیکن مجھ جیسے نالائق خوشی کے شادیانے بجانے والوں کو نشاندہی کرتے رہے کہ ماضی میں جب بھی وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی خبروں میں شدت آتی تھی تو وزیر اعظم لاہور کے دورہ کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یا پھر صوبائی کابینہ اور تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنی زبان سے یہ کلمات بیان کرتے تھے کہ ''سردار عثمان بزدار ہی وزیراعلیٰ رہیں گے''لیکن حالیہ دورہ لاہور کے دوران وزیر اعظم نے کسی تقریب یا ملاقات میں اپنی زبان سے یہ الفاظ ادا نہیں کئے اور حیران کن طور پر پارلیمانی پارٹی اور کابینہ اجلاس بھی منعقد نہیں ہوا۔
ایوان وزیر اعظم اور ایوان وزیر اعلیٰ کی خبر رکھنے والوں کو یہ بھی معلوم ہورہا تھا کہ ''سب اچھا'' کا تاثر درست نہیں صورتحال پیچیدہ بھی ہے اور تناو بھی دکھائی دے رہا ہے ۔وزیرا عظم شام کو اسلام آباد واپس روانہ ہو گئے اور رات 11 بجے چیف سیکرٹری کی جانب سے کمشنر لاہور اور سیکرٹری سروسز کو فوری تبدیل کر کے صوبہ بدر کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے جبکہ اگلے روز صوبائی وزیر ماہی پروری و جنگلی حیات ملک اسد کھوکھر سے بھی استعفیٰ لے لیا گیا۔ان تینوں تبدیلیوں نے سردار عثمان بزدار کو واپس اسی پوزیشن پر لا کھڑا کیا جیسا کہ وزیر اعظم نے میجر(ر) اعظم سلیمان کو پنجاب کا چیف سیکرٹری بنا کر ''میسج'' دیا تھا۔ ملک اسد علی کھوکھر، ڈاکٹر شعیب اکبر اور آصف بلال لودھی میں سب سے اہم اور مرکزی قدر مشترک یہ ہے کہ یہ تینوں سردار عثمان بزدار کے نہایت قریبی سمجھے جاتے ہیں۔
پنجاب میں ''اہم تبدیلی'' کیلئے مشاورت کا عمل دورہ لاہور سے قبل شروع ہوا تھا اور دورہ لاہور کے بعد بھی جاری ہے ، اس طرز کی تبدیلیاں راتوں رات نہیں آیا کرتیں اس میں وقت لگتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ماحول بنانا پڑتا ہے۔ یہ امر بھی نہایت اہم ہے کہ وزیر اعظم کے دورہ لاہور سے ڈیڑھ ہفتہ قبل ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ہائیکورٹ میں پٹرولیم کیس کی سماعت کیلئے لاہور پہنچے تھے۔ ذرائع کے مطابق عدالتی سماعت کے بعد انہوں نے سابق چیف سیکرٹری اور موجودہ صوبائی محتسب پنجاب میجر(ر) اعظم سلیمان خان سمیت بعض اہم ترین بیوروکریٹس سے ملاقاتیں بھی کی تھیں اور ان ملاقاتوں میں پنجاب کے بیوروکریٹک معاملات پر بھی معلومات کا تبادلہ کیا گیا تھا۔
اعظم خان ایک منجھے ہوئے تجربہ کار اور جہاندیدہ افسر ہیں اور انہیں وزیر اعظم عمران خان کا غیر معمولی اعتماد بھی حاصل ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ وہ عمران خان کی آنکھ اور کان جیسی حیثیت رکھتے ہیں اور کپتان ان کی رائے کو بہت اہمیت دیتے ہیں اوراس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اعظم خان کے دیئے گئے مشوروں اور اطلاعات نے وزیر اعظم کو بہت سے معاملات کو سدھارنے اور کئی بحرانوں کو جنم لینے سے قبل ختم کرنے میں مدد دی ہے۔ بیوروکریسی کے با خبر ذرائع آنے والے دنوں میں ایک بڑی اکھاڑ پچھاڑ کی خبر دے رہے ہیں۔
پنجاب کابینہ اور بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی اطلاعات تو کئی ہفتے قبل آنا شروع ہو گئی تھیں جبکہ اس معاملے میں وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری نے باہمی مشاورت کے علاوہ ایوان وزیر اعظم کی مشاورت سے بہت حد تک ورکنگ مکمل کر لی تھی لیکن وزیر اعظم کے دورہ کے بعد سیکرٹری سروسز اور کمشنر لاہور کی صوبہ بدری کی وجہ سے یہ معاملہ کچھ عرصہ کیلئے موخر کردیا گیا ہے۔ وزیر اعظم ہوں یا وزیر اعلیٰ ہر ایک کی کامیابی اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس کے پاس وزراء اور بیوروکریسی کی ایک عمدہ ٹیم موجود ہو۔ میجر(ر) اعظم سلیمان خان کے بطور چیف سیکرٹری پنجاب تعیناتی احکامات جاری ہونے سے دو یا تین ہفتے قبل ہی پنجاب بیوروکریسی میں تبدیلی کیلئے ورکنگ شروع ہو گئی تھی۔
وزیر اعظم نے واضح ہدایت کی تھی کہ اعظم سلیمان خان اپنی پسند کی ٹیم بنا کر کام کریں مجھے نتائج چاہئیں ۔ جو ٹیم بنائی گئی اس میں سے چند ایک سیکرٹریز کو چھوڑ کر اکثریت کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی جبکہ چند ہی ہفتوں بعد جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی پر مشتمل پریشر گروپ نے چیف سیکرٹری کو دفاعی رویہ اپنانے پر مجبور کردیا تھا۔اعظم سلیمان خان کی بنائی گئی ٹیم میں نئے چیف سیکرٹری نے فی الوقت بہت بڑی تبدیلی نہیں کی لیکن یہ تبدیلی کرنے کا فیصلہ بھی ہو چکا اور ورکنگ بھی ہو چکی ہے۔
اس وقت طاہر خورشید، ڈاکٹر ظفر نصر اللہ جیسے کامیاب اور تجربہ کار افسروں کو غیر فعال عہدوں پر تعینات کر کے انہیں ضائع کیا جا رہا ہے۔شہریار سلطان جیسے غیر معمولی افسر کو ٹرانسپورٹ جیسے محکمہ میں تعینات کرنے کی بجائے بڑا محکمہ دیکر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔کیپٹن(ر) عثمان یونس نے محکمہ صحت میں اپنی محنت کے ساتھ بہت عمدہ کام کیا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اب انہیں کسی دوسرے دشوار اور مشکل محکمہ میں بھیجا جائے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے ان دونوں افسروں یعنی کیپٹن(ر) عثمان اور شہریار سلطان کا نام اعلیٰ ترین حکومتی حلقوں میں سیکرٹری فوڈ کیلئے فیورٹ سمجھا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ گندم اور آٹے کے بحران سے نمٹنے کیلئے یہ دونوں افسرگیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔ موجودہ سیکرٹری فوڈ اسد گیلانی بہت عمدہ افسر ہیں اور ہر ممکن کوشش کررہے ہیں کہ بحران پر قابو پالیں لیکن بہت سے معاملات ان کے اختیار سے باہر دکھائی دے رہے ہیں۔
سیکرٹری زراعت واصف خورشید کا محکمہ کارکردگی میں چوتھے نمبر پرآیا ہے لیکن بعض افسر انہیں تبدیل کروانا چاہتے ہیں۔سیکرٹری سروسز کے خالی عہدے پر تعیناتی کیلئے موزوں افسر کی بھی تلاش جاری ہے ۔ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی عرفان میمن کے تبادلے کا بھی شور مچا ہوا تھا لیکن جو خاتون افسر اس عہدے کے حصول کیلئے بھرپور کوشش کر رہی تھیں اب شاید ان کی دلچسپی کم ہو گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق مستقبل قریب میں جب پنجاب کے سیاسی حالات سنبھلے تو انتظامی تبدیلیوں کے دوران سیکرٹری، کمشنر، ڈائریکٹر جنرل اور ڈپٹی کمشنر عہدے کے درجنوں افسروں کے تقرر وتبادلے متوقع ہیں جبکہ عید کے بعد چند وزراء کے قلمدان بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ سیاسی و انتظامی چیلنجز کی وجہ سے چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک کو نئی ٹیم کے چناو میں سخت معیار اپنانا ہوگا۔ جواد ملک دھیمے مزاج کے انسان ضرور ہیں لیکن ان کا پروفیشنل رویہ، تجربہ اور ساکھ بہت زبردست ہے لہٰذا دیکھنا ہو گا کہ اب وہ اپنی ٹیم میں کتنے سٹار پلیئر شامل کر پاتے ہیںاور انہیں کس کس پوزیشن پر کھلاتے ہیں۔