وفاق سے حقوق کیلئے صوبائی حکومت کو میدان میں آنا ہوگا
یہ خیبرپختونخوا حکومت کی کامیابی ہے کہ اس نے مرکزسے صوبہ کے لیے دو اہم منصوبوں کی منظوری حاصل کی ہے۔
ISLAMABAD:
خیبر پختونخوا حکومت نے صوبائی اسمبلی سے کورونا وباء کی روک تھام کے لیے انتظامی اقدامات سے متعلق قانون اسمبلی سے منظور کرا لیا گیا ہے۔ اس قانون کا سب سے خطرناک پہلو بلدیاتی انتخابات کا التواء ہے۔
اسی قانون کی ایک شق کے تحت صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد دو سالوں کے لیے ملتوی کردیاگیاہے۔ گوکہ یہ التواء آرڈیننس کے اجراء یا قانون کی منظوری سے نتھی نہیں کیاگیا اوردو سالوں کی مدت کا آغاز اگست 2019ء سے ہوگاکہ جب سابقہ بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہوئی تھی تاہم اس کے باوجود یہ شق اس اعتبار سے خطرناک سمجھی جا رہی ہے کہ اس کے تحت بھی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے صوبائی حکومت کو اگلے سال 2021 ء کے ماہ اگست تک کی مہلت مل گئی ہے۔
خیبرپختونخوا میں آخری بلدیاتی انتخابات 2015ء میں اس وقت منعقد ہوئے تھے جب صوبہ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور ڈرائیونگ سیٹ پر پرویزخٹک براجمان تھے۔ اس وقت بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے تحت ہوا تھا۔ اس کے لیے پہلے سے موجود یونین کونسلوں کے نظام کو ہی جاری رکھنے کی بجائے پی ٹی آئی حکومت نے اپنا نیا نظام دیاتھا جس کے تحت پہلی مرتبہ نچلی سطح پر یونین کونسلوں کو ختم کرتے ہوئے ان کی جگہ ویلیج اور نیبر ہڈ کونسلوں کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ ساتھ ہی ضلع اور تحصیلوں کی سطح کا سیٹ اپ بھی برقرار رکھا گیا حالانکہ اس وقت حکومت کے پاس دو نظام موجود تھے۔
ایک وہ نظام جو جنرل نقوی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2001ء میں بلدیاتی انتخابات کے لیے دیا تھا جبکہ دوسرا نظام اے این پی کی حکومت نے اپنے دور میں دیاجو 1979ء کے وارڈ سسٹم اور2001ء کے یونین کونسلوں کے نظام کا مرکب تھا۔ پی ٹی آئی حکومت نے ان دونوں نظاموں کوچلانے کے بجائے نیا نظام دیا اور اسی کے تحت چار سالوں تک صوبہ میں بلدیاتی ادارے کام کرتے رہے۔
گزشتہ سال اگست کے مہینے میں مذکورہ بلدیاتی اداروں کا چار سالہ دورانیہ ختم ہونے سے قبل نئے انتخابات کی تیاری نہیں کی گئی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مذکورہ بلدیاتی اداروں کا چار سالہ دورانیہ مکمل ہونے سے قبل ہی نئے بلدیاتی انتخابات کی تیاری کی جاتی اور تین ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات کرائے جاتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت، مرکز اور پنجاب کی جانب دیکھ رہی تھی اور ان کی مشاورت سے جو نیا نظام لایاگیا اس میں ضلع کی سطح کا سیٹ اپ ختم کرتے ہوئے اختیارات صوبہ سے براہ راست تحصیلوں کو منتقل کیے گئے اور نچلی سطح پر نیبر ہڈ اور ویلیج کونسلوں کو برقراررکھا گیا۔
مذکورہ نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات کی راہ نہیں لی گئی اور جب کورونا کی وباء پھیلنا شروع ہوئی تو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی راہ بند ہی ہوکر رہ گئی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبائی حکومت نے اگلے سال کے وسط تک بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے جان چھڑالی ہے جس کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے بھی صوبائی اسمبلی میں احتجاج کیا ہے۔ صوبائی حکومت دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے وقت لینا چاہتی تھی جو اسے اس طریقے سے مل گیا ہے۔
اب اگلے سال جب یہ انتخابات منعقد ہوں گے تو تب تک موجودہ حکومتیں اپنا نصف سے زائد وقت پورا کرچکی ہونگی اس لیے اس موقع پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ان کے لیے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ بلدیاتی سطح پر جو پارٹیاں اچھی کارکردگی دکھائیں گی انھیں اگلے عام انتخابات میں نچلی سطح پر اتنی ہی زیادہ سپورٹ حاصل ہوگی گویا مذکورہ بلدیاتی انتخابات سیاسی جماعتوں کے لیے نیٹ پریکٹس کا کام کریں گے،اورنیٹ پریکٹس تو صوبائی حکومت مرکز کے خلاف بھی کر رہی ہے کیونکہ صوبائی حقوق کے حصول کے لیے اسے مرکز کے خلاف میدان میں اترنا ہی ہوگا کیونکہ معاملہ صرف ایک بجلی منافع یا بقایاجات کا نہیں بلکہ صوبہ کے حصے کے پانی کے بقایاجات کا معاملہ بھی ہے۔
یہ خیبرپختونخوا حکومت کی کامیابی ہے کہ اس نے مرکزسے صوبہ کے لیے دو اہم منصوبوں کی منظوری حاصل کی ہے جن میں سوات موٹر وے کا فیز ٹو بھی شامل ہے جس کے تحت فتح پور تک موٹر وے کی تعمیر ممکن ہوسکے گی۔ ساتھ ہی خیبر اکنامک کوریڈور کی تعمیر بھی شامل ہے جس سے پاک ،افغان طورخم بارڈر تک سفر بھی سہل ہوجائے گی اور تجارت میں بھی سہولت حاصل ہوگی۔
جہاں تک سوات موٹر وے کے فیز ٹو کی منظوری کا تعلق ہے تو اس ضمن میں دیر کی عوام کی جانب سے رد عمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ سوات موٹر وے کے فیز ون کی تعمیر کے بعد اس کا فیز ٹو چکدرہ سے چترال تک تھا لیکن اسے بالائی سوات کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوات موٹر وے سی پیک کے تحت متبادل روٹ کے طور پر کام کرے گی اور پی ٹی آئی کی سابق پرویزخٹک حکومت میں متبادل روٹ کے طور پر اس موٹر وے کو دیر ،چترال اور پھر آگے شندور تک تعمیر کرتے ہوئے گلگت ،بلتستان کے ساتھ جوڑا جانا تھا جس کا فائدہ یہ ہوتا کہ ایک جانب تو سی پیک کا متبادل روٹ بھی مل جاتا اور ساتھ ہی دوسری جانب واہ خان کے راستے بھی وسطی ایشیاء تک رسائی آسان ہوجاتی ۔
اس وقت سوات موٹر وے کا رخ دیر کی بجائے بالائی سوات کی طرف موڑا گیا ہے جس کے باعث صوبائی حکومت کو دیر اور چترال کے بسنے والوں کو مطمئن کرنا ہوگا جس کے ساتھ ہی مرکز کے خلاف بھی اب فیصلہ کن انداز میں میدان میں آنا صوبائی حکومت کے لیے وقت کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی دست تعاون بڑھائے ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت نے صوبائی اسمبلی سے کورونا وباء کی روک تھام کے لیے انتظامی اقدامات سے متعلق قانون اسمبلی سے منظور کرا لیا گیا ہے۔ اس قانون کا سب سے خطرناک پہلو بلدیاتی انتخابات کا التواء ہے۔
اسی قانون کی ایک شق کے تحت صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد دو سالوں کے لیے ملتوی کردیاگیاہے۔ گوکہ یہ التواء آرڈیننس کے اجراء یا قانون کی منظوری سے نتھی نہیں کیاگیا اوردو سالوں کی مدت کا آغاز اگست 2019ء سے ہوگاکہ جب سابقہ بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہوئی تھی تاہم اس کے باوجود یہ شق اس اعتبار سے خطرناک سمجھی جا رہی ہے کہ اس کے تحت بھی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے صوبائی حکومت کو اگلے سال 2021 ء کے ماہ اگست تک کی مہلت مل گئی ہے۔
خیبرپختونخوا میں آخری بلدیاتی انتخابات 2015ء میں اس وقت منعقد ہوئے تھے جب صوبہ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور ڈرائیونگ سیٹ پر پرویزخٹک براجمان تھے۔ اس وقت بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے تحت ہوا تھا۔ اس کے لیے پہلے سے موجود یونین کونسلوں کے نظام کو ہی جاری رکھنے کی بجائے پی ٹی آئی حکومت نے اپنا نیا نظام دیاتھا جس کے تحت پہلی مرتبہ نچلی سطح پر یونین کونسلوں کو ختم کرتے ہوئے ان کی جگہ ویلیج اور نیبر ہڈ کونسلوں کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ ساتھ ہی ضلع اور تحصیلوں کی سطح کا سیٹ اپ بھی برقرار رکھا گیا حالانکہ اس وقت حکومت کے پاس دو نظام موجود تھے۔
ایک وہ نظام جو جنرل نقوی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2001ء میں بلدیاتی انتخابات کے لیے دیا تھا جبکہ دوسرا نظام اے این پی کی حکومت نے اپنے دور میں دیاجو 1979ء کے وارڈ سسٹم اور2001ء کے یونین کونسلوں کے نظام کا مرکب تھا۔ پی ٹی آئی حکومت نے ان دونوں نظاموں کوچلانے کے بجائے نیا نظام دیا اور اسی کے تحت چار سالوں تک صوبہ میں بلدیاتی ادارے کام کرتے رہے۔
گزشتہ سال اگست کے مہینے میں مذکورہ بلدیاتی اداروں کا چار سالہ دورانیہ ختم ہونے سے قبل نئے انتخابات کی تیاری نہیں کی گئی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مذکورہ بلدیاتی اداروں کا چار سالہ دورانیہ مکمل ہونے سے قبل ہی نئے بلدیاتی انتخابات کی تیاری کی جاتی اور تین ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات کرائے جاتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت، مرکز اور پنجاب کی جانب دیکھ رہی تھی اور ان کی مشاورت سے جو نیا نظام لایاگیا اس میں ضلع کی سطح کا سیٹ اپ ختم کرتے ہوئے اختیارات صوبہ سے براہ راست تحصیلوں کو منتقل کیے گئے اور نچلی سطح پر نیبر ہڈ اور ویلیج کونسلوں کو برقراررکھا گیا۔
مذکورہ نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات کی راہ نہیں لی گئی اور جب کورونا کی وباء پھیلنا شروع ہوئی تو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی راہ بند ہی ہوکر رہ گئی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبائی حکومت نے اگلے سال کے وسط تک بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے جان چھڑالی ہے جس کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے بھی صوبائی اسمبلی میں احتجاج کیا ہے۔ صوبائی حکومت دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے وقت لینا چاہتی تھی جو اسے اس طریقے سے مل گیا ہے۔
اب اگلے سال جب یہ انتخابات منعقد ہوں گے تو تب تک موجودہ حکومتیں اپنا نصف سے زائد وقت پورا کرچکی ہونگی اس لیے اس موقع پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ان کے لیے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ بلدیاتی سطح پر جو پارٹیاں اچھی کارکردگی دکھائیں گی انھیں اگلے عام انتخابات میں نچلی سطح پر اتنی ہی زیادہ سپورٹ حاصل ہوگی گویا مذکورہ بلدیاتی انتخابات سیاسی جماعتوں کے لیے نیٹ پریکٹس کا کام کریں گے،اورنیٹ پریکٹس تو صوبائی حکومت مرکز کے خلاف بھی کر رہی ہے کیونکہ صوبائی حقوق کے حصول کے لیے اسے مرکز کے خلاف میدان میں اترنا ہی ہوگا کیونکہ معاملہ صرف ایک بجلی منافع یا بقایاجات کا نہیں بلکہ صوبہ کے حصے کے پانی کے بقایاجات کا معاملہ بھی ہے۔
یہ خیبرپختونخوا حکومت کی کامیابی ہے کہ اس نے مرکزسے صوبہ کے لیے دو اہم منصوبوں کی منظوری حاصل کی ہے جن میں سوات موٹر وے کا فیز ٹو بھی شامل ہے جس کے تحت فتح پور تک موٹر وے کی تعمیر ممکن ہوسکے گی۔ ساتھ ہی خیبر اکنامک کوریڈور کی تعمیر بھی شامل ہے جس سے پاک ،افغان طورخم بارڈر تک سفر بھی سہل ہوجائے گی اور تجارت میں بھی سہولت حاصل ہوگی۔
جہاں تک سوات موٹر وے کے فیز ٹو کی منظوری کا تعلق ہے تو اس ضمن میں دیر کی عوام کی جانب سے رد عمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ سوات موٹر وے کے فیز ون کی تعمیر کے بعد اس کا فیز ٹو چکدرہ سے چترال تک تھا لیکن اسے بالائی سوات کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوات موٹر وے سی پیک کے تحت متبادل روٹ کے طور پر کام کرے گی اور پی ٹی آئی کی سابق پرویزخٹک حکومت میں متبادل روٹ کے طور پر اس موٹر وے کو دیر ،چترال اور پھر آگے شندور تک تعمیر کرتے ہوئے گلگت ،بلتستان کے ساتھ جوڑا جانا تھا جس کا فائدہ یہ ہوتا کہ ایک جانب تو سی پیک کا متبادل روٹ بھی مل جاتا اور ساتھ ہی دوسری جانب واہ خان کے راستے بھی وسطی ایشیاء تک رسائی آسان ہوجاتی ۔
اس وقت سوات موٹر وے کا رخ دیر کی بجائے بالائی سوات کی طرف موڑا گیا ہے جس کے باعث صوبائی حکومت کو دیر اور چترال کے بسنے والوں کو مطمئن کرنا ہوگا جس کے ساتھ ہی مرکز کے خلاف بھی اب فیصلہ کن انداز میں میدان میں آنا صوبائی حکومت کے لیے وقت کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی دست تعاون بڑھائے ہوئے ہیں۔