شوکت خانم ہسپتال میں وباء کی ہنگامی صورتحال سے کیسے نمٹا جارہا ہے

کورونا وباء کے دوران کینسر کے علاج میں کسی قسم کا تعطل نہیں آنے دیاگیا

فوٹو : فائل

عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق کرونا وائرس میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر افرادکو ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور وہ خود سے ہی صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ تا ہم کرونا وائرس کا شکار ہونے والے بعض افراد کی طبیعت زیادہ خراب ہوسکتی ہے اورانہیں سانس لینے میں دشواری جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

عمر رسیدہ یا ایسے افراد جو پہلے سے ہی بلند فشار خون، دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں، شوگر یا کینسر جیسے مرض میں مبتلا ہوں ان کے لیے یہ بیماری خطرناک ہو سکتی ہے اور ان کو خصوصی طور پر اس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔کرونا وائرس کی وباء کے پیش ِ نظر شوکت خانم ہسپتال لاہور میں وینٹی لیٹرز کی سہولت کے ساتھ آئی سی یو بیڈز کی تعداد 11سے بڑھا کر 35کر دی گئی۔

پاکستان میں رواں سال فروری کے آخر میں کرونا وائرس کے ابتدائی مریض سامنے آئے جس کے بعد مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوااوراسی دوران علاج کی غرض سے آنے والے ہمارے کینسر کے مریضوں میں بھی کرونا وائرس کی تشخیص ہونے لگی۔ چناچہ مارچ کے مہینے میں ہم نے اس حوالے سے متعدد اقدامات کئے اور اپنی سہولیات کو کرونا وائرس سے متاثر ہمارے کینسر کے مریضوں کی متوقع بڑی تعداد اور اس سے متاثر ہسپتال کے عملے کو بھی سنبھالنے کے لیے تیار کر لیا۔ ہم صرف یہیںتک ہی محدود نہیں رہے بلکہ مشکل کی اس گھڑی میں ہم نے قومی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی ان سہولیات کوکرونا وائرس سے متاثرہ عوام کے لیے بھی کھولنے کا فیصلہ کیا ۔

تاہم ہسپتال کی جانب سے ایک اصولی فیصلہ کیا گیا کہ یہ جدید ترین سہولیات ترجیحی بنیادوں پرپہلے اپنے کینسر کے مریضوں کو فراہم کی جائیں گی اور اس کے بعد گنجائش کے مطابق دیگر مریض استفادہ کر سکیں گے۔ اس ضمن میں ایک اور اہم فیصلہ بھی کیا گیا کہ کینسر کے علاج کی طرح کرونا وائرس کے علاج کی سہولیات بھی تمام مستحق مریضوں کو بلا معاوضہ فراہم کی جائیں گی۔ ہسپتال کی مرکزی عمارت سے الگ ایک کیمپ کووڈ قائم کیا گا جہاں شوکت خانم ہسپتال کے مریضوں کے ساتھ باہر سے آنے والے دوسرے مستحق مریضوں کو بھی کرونا وائرس کی سکریننگ اور ٹیسٹ کی سہولیات بلا معاوضہ فراہم کی گئیں۔

کرونا وائرس کے علاج میں اہم ترین ضرورت، یعنی انتہائی نگہداشت کے بیڈز اور وینٹی لیٹرز جیسی خصوصی سہولیا ت میں اضافہ کیا گیا۔ وینٹی لیٹرز کے ساتھ آئی سی یو بیڈز کی تعداد 11سے 35کر دی گئی۔ ایک ان پیشنٹ یونٹ مکمل طور پر کرونا وائر س کے ایسے مریضوں کے لیے مختص کر دیا گیا جن کی طبیعت علاج کے بعد قدرے سنبھل چکی ہو۔

کرونا وائرس جیسے مشکل ترین حالات میں بھی شوکت خانم ہسپتال میں کینسر کے مریضوں کے لیے کیمو تھراپی ، ریڈی ایشن اورضروری آپریشن جیسی سہولیات کی فراہمی میں ایک دن کے لیے بھی تعطل نہیں آیا ۔

پاکستان بھر میں کینسر کے علاج کا سب سے بڑا ادارہ ہونے کے ناطے بہت سارے مریض کینسر جیسے موذی مرض سے صحت یاب ہونے کے لیے اس ہسپتال پر بھروسہ کرتے ہیں اور وباء کے دوران بھی مریضوں کا علاج جاری رکھنا ادارے کی اہم ذمہ داری ہے۔


اگرچہ انتخابی سرجری دو ہفتوں کے لیے روکی گئی لیکن اپریل ہی میں پہلے مختصر دورانیے کی سرجری اور پھراگلے چند ہفتوں کے دوران دیگر سہولیات کو بھی تیزی سے بحال کیا جاتا رہا، مئی کے وسط تک سرجری کی خدمات مکمل طور پر بحال کر دی گئیں۔ہسپتال کے ماحول کو محفوظ بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کئے گئے اس سلسلے میں مریضوں کے ساتھ آنے والے غیر ضروری افراد کا ہسپتال میں داخلہ ممنوع کر دیا گیا، کلینکل ایریا میں داخلے سے قبل سٹاف کی سکریننگ ، سماجی فاصلے کا خیال ، صفائی کے خصوصی انتظامات اور ذاتی حفاظتی سامان(PPE) کا استعمال یقینی بنایا گیا۔

اپریل کے آغاز میں ہسپتال میں مریضوں کی آمدو رفت کو کم کرنے کے لیے ٹیلی میڈیسن آؤٹ پیشنٹ کلینکس کی سہولت کا آغاز بھی کیا گیا جس کے ذریعے ہسپتال کنسلٹنٹس نے روزانہ سینکڑوں مریضوں کومشاورتی خدمات فراہم کیں۔ ایک ایسے وقت میںجب زیادہ تر لوگوں کے لیے سفر کرنا ممکن نہیں تھا ، صرف ایک فون کال کے ذریعے انہوں نے گھر کے آرام دہ ماحول میں رہتے ہوئے ہماری ٹیلی میڈیسن سروس سے فائدہ اٹھایا۔ یہ سہولت شوکت خانم ہسپتال لاہور اور پشاور میں مریضوں کی غیر ضروری آمد کو کم کرنے اور انہیں کرونا وائرس سے محفوظ رکھنے میں انتہائی معاون ثابت ہوئی۔

تمام آلات اور مشینوں کو ایک مریض کے استعمال کے بعد خصوصی طور پر جراثیم سے پاک کیا جاتا ہے ۔ تمام ان پیشنٹ کمرے اور آؤٹ پیشنٹ کلینکس کی روازنہ متعدد بار تفصیلی صفائی کی جاتی ہے تا کہ مریضوں کی حفاظت کو مزید یقینی بنایا جا سکے۔کینسر کے مریضوں کو محفوظ ترین علاج فراہم کرنے کی ان کوششوں میں ایک نہایت اہم کام شوکت خانم ہسپتال لاہور کی مرکزی عمارت سے کچھ فاصلے پر جدید ترین سہولیات سے لیس کیمپ کووڈکا قیام تھا ۔

اس کیمپ کی مدد سے ہمیں ہسپتال آنے والے تمام مریضوں کی جانچ پڑتال کرنے اورکرونا وائرس کی علامات والے مریضوںکو باقی افراد سے الگ رکھنے میں مدد ملی اور اس طرح خاص طور پر کینسر کے مریضوں کو اس مرض سے محفوظ رکھا جا سکا جن کے جسم کا مدافعتی نظام پہلے سے ہی کمزور ہوتا ہے۔ اس کیمپ کووڈ میںابتدائی دو ماہ تک کینسر کے مریضوں کے ساتھ ساتھ دیگر تمام مریضوں کو بھی کرونا وائرس کی اسکریننگ اور ٹیسٹ کی سہولیات بلا معاوضہ فراہم کی جاتی رہیں تاہم یہ سہولیات اب خصوصی طور پر ہمارے مستحق کینسر کے مریضوں کو بلا معاوضہ فراہم کی جارہی ہیں ۔

ہسپتال کے عملے اور مریضوں کو اس وباء سے محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے ہسپتال کے تمام حصوں میں بین الاقوامی راہنما اصولوں کے مطابق متعدد احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں ۔ اس سلسلے میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات کے عین مطابق مریضوں کے ساتھ آنے والے غیر ضروری افراد کا ہسپتال میں داخلہ ممنوع کر دیا گیا، کلینکل ایریا میں داخلے سے قبل سٹاف کی سکریننگ ، سماجی فاصلے کا خیال ، صفائی کے خصوصی انتظامات اور ذاتی حفاظتی سامان(PPE) کا استعمال یقینی بنایا گیا ۔ تمام آلات اور مشینوں کو ایک مریض کے استعمال کے بعد خصوصی طور پر جراثیم سے پاک کیا جاتا ہے ۔ تمام ان پیشنٹ کمرے اور آؤٹ پیشنٹ کلینکس کی روازنہ متعدد بار تفصیلی صفائی کی جاتی ہے تا کہ مریضوں کی حفاظت کو مزید یقینی بنایا جا سکے۔

کرونا وائرس کی وباء کی وجہ سے مریضوں کی دیکھ بھال کا عمل بھی اب مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے ۔ ایک طرف جہاں ہمیں اپنی سہولیات میں بہت سی تبدیلیاں کرنی پڑیں ہیں وہیں اب ذاتی حفاظتی سامان (PPE)جیسی دیگر ضروریات کے استعمال میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔

کرونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کی تشخیص اور ان کے علاج کے خصوصی انتظامات کے لیے ہسپتال کو اضافی وسائل استعمال کرنے پڑ رہے ہیں۔اگرچہ کرونا وائرس کی وجہ سے کینسر کے علاج کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے لیکن ہمارے ڈونرز اور سپورٹرز کے بھر پور تعاون کی بدولت ہم اس دوران بھی اپنے پاس آنے والے مستحق مریضوں کو کینسر کے ساتھ کرونا وائرس کی بھی بین الاقوامی معیار کی تشخیصی اورمعالجاتی سہولیات فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس سال جب ہم کینسر اور کرونا وائرس جیسے دو محاذوں پر بیک وقت مصروف عمل ہیں ،ہمیں اپنے خیر خواہوںکے تعاون کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے ۔
Load Next Story