سپریم کورٹ انتظامیہ ایک چینل پرمہربان فل کورٹ اجلاس کی کوریج سے سرکاری ٹی وی سمیت تمام چینلز محروم
خبر نشر ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے واقعے کے ازالے کے لئے آج رات کے عشایئے میں میڈیا کے نمائندگان کو بھی مدعو کردیا ہے
سپریم کورٹ کی انتظامیہ نے ایک میڈیا گروپ کے سوا چیف جسٹس چوہدری افتحار احمد کے اعزاز میں ہونے والے فل کورٹ اجلاس کی کوریج سے سرکاری ٹی وی سمیت تمام دیگر نجی چینلز کو محروم رکھا۔
ایکپسریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری آج ریٹائر ہورہے ہیں ان کے اعزاز میں سپریم کورٹ میں روایتی طور پر فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں چیف جسٹس، نامزد چیف جسٹس اور دیگر فاضل ججوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تاہم اس کی کوریج کی فوٹیج صرف ایک ہی میڈیا گروپ کو دی گئی، یہاں تک کہ سرکاری ٹی وی کو بھی اس سہولت سے دور رکھا گیا اور اے بھی نوازے گئے میڈیا گروپ کی فوٹیج کو استعمال کرنا پڑا۔
سپریم کورٹ انتظامیہ کے اس امتیازی سلوک پر قومی اور بین الااقوامی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے سپریم کورٹ کی انتظامیہ سے صورت حال کی حقیقت جاننی چاہی توکوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، جس کے بعد صحافیوں اور دیگر عملے نے احتجاج کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔ واقعے کی خبر ایکسپریس نیوز سمیت دیگر چینلز پر نشر ہونے کے بعد چیف جسٹس کے پروٹوکول آفیسر چوہدری عبدالحمید میڈیا کے سامنے آئے لیکن وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے، ان کا کہنا تھا کہ واقعے سے بین الاقوامی میڈیا میں غلط پیغام گیاہے جس کی تحقیقات کی جائے گی۔
صحافیوں اور نیوز چینل پر خبر نشر ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے واقعے کے ازالے کے لئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اعزاز میں آج رات دیئے گئے عشایئے میں میڈیا کے نمائندگان کو بھی مدعو کردیا ہے تاہم عدالتی کارروائیوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن نے اس میں شرکت سے انکار کردیا گیا ہے۔
قانونی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اس واقعے کو چيف جسٹس کی ريٹائرمنٹ کے موقع پر بدمزگی پيدا کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق سپريم کورٹ کے عملے نے یہ قدم اٹھا کر خود ہی آئين کے آرٹيکل 25 کی دھجياں بکھير دیں ہیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب سپریم کورٹ میں کیمرہ لے جانے کی اجازت ہی نہیں تو پھر یہ فوٹیج ایک ہی میڈیا گروپ کو کیسے ملیں، عدالت عظمیٰ کے عملے نے کسی ایک میڈیا گروپ کو نواز کر اچھا قدم نہیں اٹھایا، اس بارے میں جلد ہی تمام حقائق سامنے آجائیں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور چیف جسٹس کے سابق وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ جس طرح ایک میڈیا گروپ کو فوٹیج کی فراہمی ایک طے شدہ معاملہ نظر آتا ہے۔ سابق وزیر قانون خالد رانجھا کا کہنا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ چیف جسٹس کے احکامات کا پابند ہوتا ہے، ایسا کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اگر کوئی اس معاملے کو عدالت میں لے جاتا ہے تو وہ یہ موقف اختیار کرسکتا ہے کہ چیف جسٹس نے رجسٹرار کو دیگر میڈیا کو فوٹیج کی فراہمی سے روکا۔
ایکپسریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری آج ریٹائر ہورہے ہیں ان کے اعزاز میں سپریم کورٹ میں روایتی طور پر فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں چیف جسٹس، نامزد چیف جسٹس اور دیگر فاضل ججوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تاہم اس کی کوریج کی فوٹیج صرف ایک ہی میڈیا گروپ کو دی گئی، یہاں تک کہ سرکاری ٹی وی کو بھی اس سہولت سے دور رکھا گیا اور اے بھی نوازے گئے میڈیا گروپ کی فوٹیج کو استعمال کرنا پڑا۔
سپریم کورٹ انتظامیہ کے اس امتیازی سلوک پر قومی اور بین الااقوامی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے سپریم کورٹ کی انتظامیہ سے صورت حال کی حقیقت جاننی چاہی توکوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، جس کے بعد صحافیوں اور دیگر عملے نے احتجاج کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔ واقعے کی خبر ایکسپریس نیوز سمیت دیگر چینلز پر نشر ہونے کے بعد چیف جسٹس کے پروٹوکول آفیسر چوہدری عبدالحمید میڈیا کے سامنے آئے لیکن وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے، ان کا کہنا تھا کہ واقعے سے بین الاقوامی میڈیا میں غلط پیغام گیاہے جس کی تحقیقات کی جائے گی۔
صحافیوں اور نیوز چینل پر خبر نشر ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے واقعے کے ازالے کے لئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اعزاز میں آج رات دیئے گئے عشایئے میں میڈیا کے نمائندگان کو بھی مدعو کردیا ہے تاہم عدالتی کارروائیوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن نے اس میں شرکت سے انکار کردیا گیا ہے۔
قانونی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اس واقعے کو چيف جسٹس کی ريٹائرمنٹ کے موقع پر بدمزگی پيدا کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق سپريم کورٹ کے عملے نے یہ قدم اٹھا کر خود ہی آئين کے آرٹيکل 25 کی دھجياں بکھير دیں ہیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب سپریم کورٹ میں کیمرہ لے جانے کی اجازت ہی نہیں تو پھر یہ فوٹیج ایک ہی میڈیا گروپ کو کیسے ملیں، عدالت عظمیٰ کے عملے نے کسی ایک میڈیا گروپ کو نواز کر اچھا قدم نہیں اٹھایا، اس بارے میں جلد ہی تمام حقائق سامنے آجائیں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور چیف جسٹس کے سابق وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ جس طرح ایک میڈیا گروپ کو فوٹیج کی فراہمی ایک طے شدہ معاملہ نظر آتا ہے۔ سابق وزیر قانون خالد رانجھا کا کہنا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ چیف جسٹس کے احکامات کا پابند ہوتا ہے، ایسا کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اگر کوئی اس معاملے کو عدالت میں لے جاتا ہے تو وہ یہ موقف اختیار کرسکتا ہے کہ چیف جسٹس نے رجسٹرار کو دیگر میڈیا کو فوٹیج کی فراہمی سے روکا۔