حکومت کے ہاتھ اور مسلح بھکاری

ایک کہانی یاد آ رہی ہے

barq@email.com

KARACHI:
محترم ''وژن اعظم'' نے بڑی بروقت بڑی اچھی اور بہت بڑی بات کہی ہے کیونکہ بڑوں کی بات ہمیشہ بڑی بات ہوتی ہے جیسے کلام الملوک ملوک الکلام۔ فرمایا ہے۔ سب مل کر حکومت کے ہاتھ مضبوط کریں۔

موذن مرحبا بروقت بولا

تری آواز مکے اور مدینے

ہم سب مل کرحکومت کے ہاتھ تو ضرور مضبوط کریں گے کہ اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے، ہاتھ مضبوط ہوں گے تو یک لخت گلا گھونٹ کر ''نجات'' دلا دیتے ہیں لیکن کمزور ہوں تو گلا دبائیں گے سانس بند کرنے کی ناکام کوشش میں مزید تڑپائیں گے اور ''نزع کا عالم'' طویل سے طویل ہوتا جائے گا، گلے سے خر خر کی آواز نکلے گی، ہاتھ پیر مارنا پڑیں گے اور چیخیں نکلتی رہیں گی۔ اس لیے ''ہاتھ'' مضبوط کرنا ضروری ہے تا کہ:

قتل ہوں گے ''ترے ہاتھوں'' سے خوشی اس کی ہے

آج اترائے ہوئے پھرتے ہیں مرنے والے

لیکن مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ حکومت کے ہاتھ کمزور کب سے ہو گئے۔ جہاں تک ہماری معلومات ہیں حکومت کا ہاتھ مضبوط بھی تھا اور فولادی بھی تھا اور آہنی بھی جو کیفرکردار تک پہنچانے کا کام بھی کرتا تھا۔ اچانک ایسا کیا ہوا کون سا عارضہ ان فولادی مضبوط اور آہنی ہاتھوں کو لاحق ہو گیا کہ کمزور ہو گئے ۔ وہ کون سے کمزور کرنے والے ''عوارض'' اس کو ''لاحق'' ہو گئے۔

ایک کہانی یاد آ رہی ہے۔ ایوب خان کا زمانہ تھا اور موسم لیگ کے تمام خاندانی اسٹار نے ان کا نام لینا بے ادبی سمجھ کر ''ولولہ انگیز قیادت'' کا لقب دے رکھا تھا۔ ولولہ انگیز قیادت نے یہ کیا، ولولہ انگیز قیادت نے چھینک ماری، ولولہ انگیز قیادت نے آخ تھو کر کے تھوک دیا۔ ولولہ انگیز قیادت نے اونچی آواز میں سانس لی۔ جیسے وہ خاتون نماز پڑھ کر سلام پھیرنے پر ''السلام علیکم بچوں کے ابا'' ، کہتی تھی جس کا شوہر رحمت اللہ تھا۔

ہمارے ساتھ روزنامہ بانگ حرم میں ہیڈ کاتب تھا گل عالم۔ وہ آخر میں اخبار کی کاپی بھی جوڑتا تھا اس زمانے میں کاپی جوڑنے والے کو کاپی پیسٹر کہا جاتا تھا، لیکن آج کل اسے آرٹ ایڈیٹر کہتے ہیں۔ توآرٹ ایڈیٹرگل عالم کاپی جوڑتے ہوئے ہمیں اپ ڈیٹ بھی کرتا تھا کہ آج ''ولولہ انگیز قیادت'' نے کیا، کیا ہے۔ ایک دن بولا ، ارے ولولہ انگیز قیادت تو بیمار ہو گئی ہے۔

اسی کی طرز پر ہم بھی یہی پوچھنا اور معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آخر حکومت کے اس ''فولادی'' اور ''آہنی ہاتھ'' کو ایسا کیا ہو گیا ہے کہ کمزور اور پہنچنے والے ہاتھوں کو ایسے ''مضبوط'' کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے شاید ''زنگ'' لگ گیا ہو۔ یا کثرت استعمال سے گھس گئے ہوں یا رکھے رکھے جکڑ گئے ہوں یا اکڑ گئے ہوں۔ لیکن جب دست اعظم اور وژن اعظم کہہ رہے ہیں تو ضرورکچھ ہو گیا ہو گا، ایک امکان نظر لگنے کا بھی ہے جسے بد نظری کہا جاتا ہے۔ کیونکہ جب سے اس ہاتھ نے ''نیا ہاتھ'' بدلا ہوا ہے ہاتھ باانصاف کا ہاتھ کہلانا شروع کیا ہے اور کارنامے پر کارنامے کرنا شروع کیے ہیں تب سے ''نظر لگنے'' کا امکان بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ اور پھر اس ہاتھ کی ''انگلیاں'' اور انگوٹھے۔ جو وزیر و مشیر تخلص کرتے ہیں وہ تو سارے کے سارے کے ''چشم بد دور'' ہیں۔

موچ آئے نہ کلائی میں ترے

سخت جاں ہم بھی بہت ہیں پیارے

یہ تو بالکل طے شدہ اور مانی ہوئی بات ہے کہ پاکستان میں رہنے والے سخت جان بہت ہیں ورنہ ایسی اور اتنی حکومتیں کسی پہاڑ پر سے بھی گزرتیں تو وہ اب تک دھول بن چکا ہوتا

نظر لگے نہ کہیں ''تیرے دست و بازو'' کو


یہ لوگ کیوں مرے زخم جگرکو دیکھتے ہیں

بعض اوقات بڑے بڑے ہاتھ سُن بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس کا یہاں کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ موجودہ حکومت کے کان سُن ہو سکتے ہیں بلکہ ''ان سن'' بھی ہو سکتے ہیں آنکھیں ''ان دید'' ہو سکتی ہیں لیکن ہاتھ؟ کبھی ''سن'' نہیں ہو سکتے کہ جب سے حکومت ہاتھ لگی ہے اس میں سنسناہٹ ہی سنسناہٹ دوڑ رہی ہے

جب سے بلم گھرآئے

جیا را مچل مچل جائے

جس بلی کے بھاگوں خلاف توقع چھینگا ٹوٹ جائے اسے نیند کہاں آ سکتی ہے چنانچہ حکومت کے ''سارے ہاتھ'' چھوٹے ہاتھ۔ بڑے ہاتھ۔ نیچے والے ہاتھ اوپر والے ہاتھ مسلسل متحرک دکھائی دے رہے ہیں

ہر وقت خوش کہ ''دست دہد'' مغتنم شمار

کس را وقوف نیست کہ انجام کارچیست

یعنی ہر اچھا وقت اگر ہاتھ لگے تو اسے غنیمت جان کہ یہ کسی کو معلوم نہیں کہ کل ہو یا نہ ہو پھر موقع ملے یا نہ ملے پھر ''خوان نعمیا'' پر بیٹھنا نصیب ہو یا نہ ہو۔

ہے موج پر یہ دریا اور ہاتھ بھی لگا ہے

سن لو اے نوجوانو،کھیتوں کو دے لو پانی

کھیتوں کو دے لو پانی اب بہہ رہی ہے گنگا

کچھ کر لو نوجوانوں اٹھتی جوانیاں ہیں (حالیؔ)

ویسے بھی یہ ''کورونا'' اتنی بڑی کالی چادر ہے کہ اس کے نیچے کچھ بھی چھپایا ڈھانپا جا سکتا ہے جس طرح کوئی ٹھیکیدار کسی معمولی بوندا باندی کو بھی سیلاب بنا کر اپنا کیا ہوا یا نہ کیا ہوا کام بہا دیتا ہے۔ نہ جانے کیوں ہمیں اکثر ایک منظر یاد آتا ہے حالانکہ یہ منظر کبھی ہم نے دیکھا نہیں ہے لیکن ذہن میں نہ جانے کیسے اُگ آتاہے۔

منظر یوں ہے کہ ایک شخص کھٹکٹانے پر دروازہ کھولتا ہے تو سامنے ایک بھکاری ہاتھ میں کشکول لیے کھڑا ہوتا ہے جو حسب معمول۔ خدا کے نام پر۔ میں کل سے بھوکا ہوں پرسوں سے پیاسا ہوں اور برسوں سے ننگا ہوں۔ گھر میں چھوٹے چھوٹے ''ماں باپ'' ہیں آٹھ بوڑھے ''ماں باپ'' ہیں۔ لیکن وہ آدمی جب اس پر نظر ڈالتا ہے تو اس کے دوسرے ہاتھ میں کلاشن کوف ہے پہلو سے پستول لٹک رہا ہے اور پیٹی میں دو چار بموں کے ساتھ چند ایٹم بم بھی اڑے ہوئے ہیں۔ خدا کے نام پر بابا۔
Load Next Story