ڈیجیٹل انقلاب

غربت اور وباء دو ایسی حقیقتیں ہیں جن کا سامنا کروڑوں لوگ کر رہے ہیں۔

غربت اور وباء دو ایسی حقیقتیں ہیں جن کا سامنا کروڑوں لوگ کر رہے ہیں۔ ان حالات میں کروڑوں لوگوں کی داد رسی اور مستحقین کی نشاندہی کرنا بھی حقیقی ضرورت ہے۔ 20 کروڑ آبادی رکھنے والے پاکستان جیسے ملک میں لاکھوں لوگوں تک رسائی شاید ماضی میں ممکن نہ ہوتی۔ چند برس قبل جب بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا تو اس میں وہی فرسودہ طریقہ کار اختیار کیا گیا۔

جیسا کہ اس میں پارلیمنٹ کے ارکان کو مستحقین نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ٰ8 لاکھ 20 ہزار 165''غیر مستحق'' افراد بھی اس پروگرام کے ڈیٹا بیس میں شامل ہو گئے۔ بعدازاں ایسے لوگوں کے طرز زندگی اور دیگر تفصیلات سے ثابت ہوا کہ وہ ''غریب'' نہیں ہیں اور ان کے نام اس فہرست سے نکال دیے گئے۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی فہرستوں میں شامل افراد کو امدادی رقم کی فراہمی کے لیے اسمارٹ کارڈ جاری کیے گئے۔ نادرا نے مختلف بائیومیٹرک تصدیق کے مراحل سے اس پروگرام کے لیے رجوع کرنے والوں میں مستحق افراد کی درست نشاندہی کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ خاندانوں کو فون بینکنگ کے ذریعے رقوم منتقل کی گئیں۔

پروگرام سے مستفیض ہونے والوں کو نقد امداد کے ایس ایم ایس موصول کرنے کے لیے نادرا کی جانب سے موبائل فون اور سم جاری کیے گئے۔ یہ ایس ایم ایس اور قابل استعمال شناختی کارڈ کی نقل دکھا کر وصول کنندہ پوائنٹ آف سیل فرنچائز سے نقد امداد وصول کرتا ہے۔ اس نظام میں 2 کروڑ 70 لاکھ خاندانوں کا ڈیٹا شامل ہے اور بی آئی ایس پی کے بائیو میٹرک تصدیق شدہ 40 لاکھ ڈیبٹ کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں۔ سہولت کے لیے بی آئی ایس پی اسمارٹ کارڈ، موبائل، ڈیبٹ کارڈ اور منی آرڈر کے ذرائع دستیاب ہیں۔

تحریک انصاف نے برسر اقتدار آتے ہی غربت اور کرپشن کے خاتمے کو اپنا بنیادی ہدف قرار دیا تھا۔ غربت میں کمی کے اسی مقصد کے تحت مارچ 2019 میں ''احساس'' پروگرام شروع کیا گیا۔ حق دار افراد کی نشاندہی میں آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تاحال 2017میں ہونے والی آخری مردم شماری کے نتائج کی سرکاری طور پر توثیق نہیں ہو سکی ہے۔ مزید یہ کہ ادارۂ شماریات نے سال 2018-19ء کے لیے لیبر فورس کا جو سروے کیا تھا وہ بھی عام نہیں کیا گیا ہے۔

مردم شماری، لیبر فورس سروے اور نادرا کا ڈیٹا یکجا کر کے بہ آسانی مستحق افراد کی شفافیت کے ساتھ نشان دہی کی جا سکے گی۔ جب جاری سروے مکمل ہو گا تو بی آئی ایس پی پروگرام کو مزید بڑھانا پڑے گا اور اس سے مستفید ہونے والوں کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گا۔ یہ معلومات ایسے ہی دیگر کئی پروگراموں میں بھی کارآمد ہو گی مثلاً کورونا وائرس کے باعث پیدا شدہ حالات میں راشن وغیرہ کی تقسیم کے لیے بھی یہ ڈیٹا مدد گار ثابت ہو گا۔ نیشنل سوشیو اکنامک رجسٹری (این ایس آر) مستقبل کے منصوبوں کے لیے سماجی و معاشی حالات کے اعتبار سے نچلی سطح پر ڈیٹا جمع کر رہی ہے، یہ ایک جاری عمل ہے جس میں تازہ ترین معلومات شامل ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر طریقے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔

جب کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے ہونے والے لاک ڈاؤن کے باعث لاکھوں دیہاڑی دار مزدور بیروزگار ہوئے تو ان کی مدد کے لیے 'احساس ایمرجنسی پروگرام'' تشکیل دیا گیا۔ اس میں امداد سے مستفید ہونے والوں کی ایس ایم ایس کے ذریعے تصدیق کی گئی۔ کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والے بحران میں کمزور طبقات کو بھوک سے بچانے کے لیے مالی مدد کا یہ پروگرام تشکیل دیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں میں 12 ہزار روپے فی خاندان تقسیم کیے گئے اور اس کے لیے 144 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی۔ اس پروگرام کے تحت مالی مدد کا بنیادی مقصد متاثرہ خاندانوں کو بھوک سے بچانا ہے۔


یہاں بھی ہمیں اسی سوال کا سامنا ہے کہ اس پروگرام سے مستفید ہونے والوں کو جس مقصد کے لیے یہ رقم فراہم کی جارہی ہے اسی پر اس کا خرچ کیسے یقینی بنایا جائے؟ اس معاملے کی نگرانی بہت ضروری ہے کیوں کہ بعض افراد اس رقم سے راشن کی خریداری کے بجائے کوئی اور کام بھی لے سکتے ہیں جس کے باعث اس پروگرام کا اصل مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد غریب اور پس ماندہ طبقات کے دستر خوان تک خوراک پہنچانا ہے ، ہم اس رقم کے اسی مقصد کے تحت صرف ہونے کو کیسے یقینی بنا سکتے ہیں؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے تو پروگرام تک عوام کی رسائی آسان کرنے کے لیے فراہمی کے مراکز میں اضافہ کرنا ہو گا۔ تقسیم کے لیے موجودہ طریقہ کار میں چند مقامات ہی پر تقسیم کی جا رہی ہے جس کے باعث ہجوم لگ جاتا ہے اور سماجی دوری پر عمل درآمد بھی ممکن نہیں رہتا۔ موجودہ حالات میں اس طریقہ کار سے وبا کے متاثرین میں اضافے کا خدشہ بھی ہے۔ خاص طور پر وبا جس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اس کے بعد تو اس طریقہ کار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی کے کئی تخلیقی اور مؤثر حل پہلے ہی دستیاب ہیں اور اس موقعے پر ان سے استفادہ کرکے اس بحران سے بھی بہتری کی ایک راہ نکالی جا سکتی ہے۔

ایسے ہی طریقوں میں سے ایک یہ ہو سکتا ہے کہ یہ امدادی رقم آسان موبائل اکاؤنٹ کے ذریعے مستفید ہونے والوں کے موبائل اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے۔ اس اکاؤنٹ کو وہ یوٹیلیٹی اسٹور یا پہلے سے رجسٹرڈ شدہ کریانہ ایجنٹس سے راشن کی خریداری کے لیے استعمال کر سکتے ہوں۔ اسٹیٹ بینک نے آسان اکاؤنٹ کی اسکیم پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے)، 12 بینکوں اور چار ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے اشتراک سے بنائی تھی۔ اس کی طویل آزمائش بھی ہو چکی ہے۔ آزمایشی بنیادوں پر چلنے کے بعد یہ باقاعدہ اجرا کے لیے تیار ہے۔

آسان موبائل اکاؤنٹ *2262#یو ایس ایس ڈی کوڈ ڈائل کرنے یا احساس پروگرام میں رجسٹریشن کے ذریعے بھی بہ آسانی کھلوایا جا سکتا ہے۔ رقم کی منتقلی کے بعد اس پروگرام سے مستفید ہونے والا فرد کسی بھی یوٹیلیٹی اسٹور یا رجسٹرڈ شدہ کریانہ ایجنٹ سے 12 ہزار یا حکومت کی جانب سے راشن کی خریداری کے لیے متعین کردہ کم سے کم رقم 9ہزار روپے کا راشن خرید سکتا ہے اور یو ایس ایس ڈی کوڈ سے ادائیگی بھی کر سکتا ہے۔ جو رقم سامان کی خریداری میں استعمال نہیں ہوئی ہو اسے موقعے پر نقد کی صورت میں بھی حاصل کر سکتا ہے۔

ملک میں قائم 2 ہزاریوٹیلٹی اسٹور اور بڑے اسٹورز کو پوائنٹ آف سیل کے طور پر استعمال کرنے سے نہ صرف رقم کی تقسیم کے مراکز میں اضافہ ہو جائے گا بلکہ جس مقصد کے لیے فراہم کی جا رہی ہے اسی پر اس کا صرف ہونا بھی زیادہ بہتر انداز میں یقینی بنایا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ اس طریقہ کار کی مدد سے ملک کی بینکاری نظام سے غیر متعلق آبادی کو بھی اس میں شامل کر کے مالیاتی خدمات کا دائرہ وسیع کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ پاکستان کی صرف 20 فی صد آبادی (تقریباً 4کروڑ 68 لاکھ ) بینک اکاؤنٹ رکھتی ہے۔ پی ٹی اے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد مئی 2019ء تک 16کروڑ سے تجاوز کر چکی تھی۔

مزید یہ کہ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں 4G/LTE سروس کی فراہمی سے 3G/4G استعمال کرنے والوں کی تعداد مئی 2019ء تک 6 کروڑ 80 لاکھ سے بھی بڑھ گئی ہے۔ 4G استعمال کرنے والوں کی تعداد میں ماہانہ بنیادوں پر تیزی دیکھنے میں آئی اور یہ 5G کے آتے آتے اس کی مارکیٹ 3G کی جگہ لے لے گی۔ خاص طور پر دوردراز علاقوں میں نقد رقم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی اور خریداری کے لیے یہ ذرائع بینکوں کے ذریعے نقد یا کارڈ وغیرہ کے مقابلے میں زیادہ آسان اور قابلِ رسائی ہیں۔ مستقبل کی جانب سفر کا آغاز ہو چکا ہے آئیے اس ڈیجیٹل انقلاب کے لیے اپنے دروازے کھول دیتے ہیں!

 
Load Next Story