ہاکی کو باقی رکھنے کے لیے کھلاڑیوں کو معاشی تحفظ دینا ہوگا
نئی نسل کی قومی کھیل میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ گئی
لاہور:
کبھی کھیلوں کے میدانوں میں ہاکی پاکستان کی پہچان تھی۔
کوئی عالمی اعزاز ایسا نہ تھا جو شاہینوں نے قوم کی جھولی میں نہ ڈالا ہو، دور بدلا، کھیل کے قوانین بدلے، فٹنس کا معیار بھی تبدیل ہو گیا، قومی ہاکی کا زوال کی طرف سفر شروع ہوا، ایک ایک کر کے انٹرنیشنل ٹائٹل چھن گئے، ناکامیوں کی داستان طویل ہوئی تو قومی کھیل عوامی سطح پر مقبولیت کھو بیٹھا، سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مختلف اداروں نے اپنی ہاکی ٹیمیں ختم کر کے توجہ کرکٹ اور دیگر کھیلوں پر مرکوز کرلی، کلب سطح پر مقابلے کا رجحان بھی ختم ہو گیا تو مستقبل کے لئے سٹار تلاش کرنے کا عمل بھی جمود کا شکار نظر آنے لگا۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن میں کئی عہدیدار آئے اور گئے مگر باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی کے سبب جو خلا پیدا ہو گیا تھا اسے پر کرنے میں ناکام رہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ قومی سینئر ٹیم تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی تو مستقبل کی امید سمجھے جانے والے جونیئرز بھارت میں جاری میگا ایونٹ کے پہلے راؤنڈ سے ہی باہر ہوچکے ہیں، قومی کھیل کو ایک نئی زندگی دینے کے حوالے سے تجاویز کے لئے ''ایکسپریس فورم'' کا اہتمام کیا گیا جس میں شرکاء کی گفتگو کا احوال نذر قارئین ہے۔
خواجہ محمد جنید (سابق اولمپئن)
بڑا افسوس ہے کہ قومی کھیل پر انتہائی برا وقت چل رہا ہے، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں ہاکی ختم ہوگئی، دنیا کے کئی ملکوں نے زوال کے بعد بہتر پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے عروج کی جانب قدم بڑھائے آج دنیا انہیں سپر پاورز کے نام سے جانتی ہے۔ مسائل ہمارے ہیں تو ان کا حل بھی ہم سب کو مل کر ہی تلاش کرنا ہوگا، اگر آپس کے لڑائی جھگڑوں میں پڑے رہے تو حالات بہتری کی بجائے مزید ابتری کی طرف چلے جائیں گے۔
ملک بھر میں قائم اکیڈمیاں اچھا اقدام اور قومی کھیل میں بہتری کے لئے مددگار ثابت ہوسکتی ہیں، تاہم انہیں سائنسی بنیادوں پر استوار نہ کرنے کی وجہ سے اب تک صرف 30 فیصد نتائج حاصل کئے جاسکے ہیں،کارکردگی میں 70 فیصد بہتری لانے کی گنجائش اب بھی موجود ہے، اگر مزید 40 فیصد بھی درست سمت میں کام کرلیں تو مستقبل کے لئے باصلاحیت کھلاڑیوں کی کھیپ مل جائے گی، اکیڈمیوں کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے پروفیشنلز کا ایک گروپ تشکیل دے کر انہیں نوعمر پلیئرز کی راہنمائی کی ذمہ داری سونپی جانی چاہیے۔ ملکی ہاکی کی بہتری کے بارے میں ہم سب کو سوچنا ہوگا، صرف یہ کہہ دینا کہ فیڈریشن کام نہیں کررہی، غلط ہوگا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب ٹیم جیت جائے تو کندھوں پر بٹھا لیتے ہیں، ہار پر اس قدر منہ موڑ لیا جاتا ہے کہ کھلاڑی ڈپریشن کا شکار ہونے لگتے ہیں، قومی رویوں میں سختی بھی کھیل کو غیر مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
ہمیں ماضی کے روایتی طور طریقوں کو چھوڑ کر نہ صرف ہاکی بلکہ تمام سپورٹس اداروں کو چلانے کے لئے ٹیکنوکریٹس کو آگے لانا ہوگا، مارکیٹنگ اور فنانس کا شعبہ الگ ہونا چاہیے تاکہ ہر کوئی اپنی ذمہ داری کا جوابدہ ہو،کھلاڑی ملک و قوم کا نام سربلند کرنے کے لئے دیگر کئی معاملات میں قربانیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتا، اس کی زندگی آسودہ ہوگی تو نئی نسل کا غیر یقینی مستقبل کے حوالے سے خوف ختم ہوگا، پلیئرز کو معاشی تحفظ دیئے بغیر ہاکی کو صرف زبانی جمع خرچ کے ذریعے زیادہ دیر باقی رکھنا ممکن نہیں، حکومت ڈیپارٹمنٹل ٹیموں کی حوصلہ افزائی کرے، جو ادارے اپنی ٹیمیں ختم یا پلیئرز کو فارغ کررہے ہیں انہیں سختی سے روکا جائے، ہر کھلاڑی کو صلاحیت کے مطابق معاشی تحفظ ملے گا تو ٹریننگ پر بھرپور توجہ دے سکے گا۔
فکر معاش کی وجہ سے دل اور دماغ ساتھ نہ ہوں تو کوچز کی رہنمائی اور مشورے سر کے اوپر سے گزر جائیں گے،ہمارا سماجی ڈھانچہ یورپی ملکوں سے بہت مختلف ہے، یہاں کھیلوں کو پیشہ ورانہ انداز میں اہمیت نہیں دی جاتی،کسی روزگار کا بندوبست ضروری جبکہ سپورٹس کو فارغ وقت کا مشغلہ خیال کیا جاتاہے، ان حالات میں بھی کوئی کھیلوں میں کیریئر بنانے کی جرأت کرے تو اس کی قدر کی جانا چاہیے، کم ازکم کھلاڑی جس سطح پر اپنی اہلیت منوائے اس کے مطابق ہی اس کے معاشی مفادات کو محفوظ کرنے کا کوئی طریقہ کار وضع کردیا جائے۔
محمد ثقلین (سابق کپتان)
موجودہ دور میں ہاکی کا جو حشر ہو چکا ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، سابق کھلاڑی ہونے کے ناطے اب تو ناقص کارکردگی کا دفاع کرنا بھی ممکن نہیں رہا، کھیل کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے پاس ہے جو پروفیشنل ازم سے بالکل عاری ہیں، ہم سب کو اپنی غلطیاں تسلیم کرلینی چاہئیں کیونکہ اگر خامیوں پر پردہ ڈالا جاتا رہے گا تو ان کو دور کرنا ممکن نہیں ہوگا، کسی بھی ملک کے لئے جونیئر کھلاڑی مستقبل کی امید ہوتے ہیں، ان کی اچھی کارکردگی آنے والے وقت میں بہتری کے امکانات روشن رکھتی ہے مگر ہمارے چھوٹے بھی بڑوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
بھارت میں جاری حالیہ جونیئر ورلڈ کپ میں ان کی پرفارمنس انتہائی مایوس کن رہی، بدقسمتی صرف ایک آدھ میچ میں ہوسکتی ہے جب مسلسل ناکامیاں گلے کا ہار بن جائیں تو قسمت کو قصور وار ٹھہرانے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی آنکھیں بند ہی رکھنا چاہتے ہیں، ابھی بھی وقت ہے کہ قومی کھیل کی حالت زار بہترکی جائے۔ میرے خیال میں فیڈریشن کو جتنے پیسے آخری 5 سال میں دیئے گے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی، اس کے باوجود ٹیم ورلڈ کپ سے باہر ہوگئی، مانا کہ صرف میگا ٹائٹل جیت لینا ہی کھیل کے معیار کی دلیل نہیں، تاہم مجموعی کارکردگی تو ایسی ہو کہ ہم خود کو انٹرنیشنل ٹیموں کے ہم پلہ قرار دے سکیں، بلند و بانگ دعووں کے ساتھ جونیئر ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی ٹیم کا حشر دیکھ کر ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ مستقبل کے حوالے سے ہمارے پلان قطعی غیر موئثر ثابت ہورہے ہیں، ہر ذمہ داری کے لئے پیشہ ورانہ سوچ رکھنے والے درست افراد کا انتخاب کرکے مسلسل محنت کئے بغیر بہتری کے سفرکا آغاز نہیں کیا جاسکتا۔
وقاص شریف (نائب کپتان، قومی ہاکی ٹیم)
یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پاکستان میں ہاکی ختم ہوگئی، گرین شرٹس اب بھی ایشیاء کی ٹاپ ٹیم ہیں، تاہم بین الاقوامی سطح پر کامیابی کا تسلسل برقرار رکھنے کے لئے قومی کھیل کی حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے،کھلاڑیوں کا روزگار اور مستقبل غیر یقینی ہونے کی وجہ سے بتدریج نچلی سطح پر ہاکی ختم ہوتی جارہی ہے، جب تک سکولز اور کالجز میں ہاکی ٹیموں کو لازمی قرار نہیں دیا جاتا بہتری کے آثار ممکن نہیں ہے، ڈیپارٹمنٹس پر بھی زور دیا جائے کہ وہ ٹیمیں لازمی بنائیں، اب تو یہ حال ہے کہ ماضی میں جن سرکاری اور نجی اداروں کی ٹیمیں تھیں وہ بھی آہستہ آہستہ ختم کررہے ہیں، پلیئرز کے پاس مناسب روزگار نہ ہونا بہت بڑا مسئلہ ہے، کھیل کے ساتھ ہمیں اپنے گھروں کے چولہے بھی جلانا ہوتے ہیں، ایک کرکٹر ماہانہ لاکھوں روپے کماتا ہے جبکہ قومی کھیل میں ملک کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑی کو نہ ہونے کے برابر معاوضہ ملتا ہے، وہ بھی مستقل بنیادوں پر نہیں ہوتا، پلیئر کسی انجری کی وجہ سے بھی چند ہفتوں کے لئے میدان سے باہر ہوتو اس کی تنخواہ روک لی جاتی ہے، ہمارے کھلاڑی کم وسائل اور سہولیات کے باوجود قومی جذبہ کے تحت میدان میں اترتے ہیں،اس مقصد کے لئے ان کو اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ کیریئر کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔
کھیل کی بدولت انہیں عزت اور شہرت ملنا تو نصیب کی بات ہے لیکن روزانہ 6 گھنٹے ٹریننگ کے لئے کسی اور شعبے میں روزگار کے مواقع سے ہاتھ دھونے کا مشکل فیصلہ پہلے کرنا پڑتا ہے، بعد ازاں کھیل میں ناکامی یا انجری کے باعث گھر بیٹھ جائے تو کون پوچھے گا،اسی خوف کی وجہ سے والدین کی بڑی تعداد اپنے بچوں کو کھیلوں میں کیریئر بنانے کی اجازت دینے سے گریز کرتی ہے،عدم تحفظ کی فضا ختم کرنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر خصوصی پالیسیاں تشکیل دیئے بغیر کھیلوں میں کشش پیدا نہیں کی جاسکتی، کم کھلاڑی میدان میں اتریں گے تو نیا ٹیلنٹ بھی سامنے نہیں آئے گا، تنقید کرنے والے بیلجیئم یا دیگر یورپی ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے وہاں پر پلیئرز کو اپنے گھر کے اخراجات کی فکر نہیں ہوتی انہیں مستقل ملازمتیں ملتی ہیں، نجی ادارے اخراجات سپانسر کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، مسائل سے آزاد کھلاڑی صرف اور صرف کھیل پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 4 بار کی عالمی چیمپئن ٹیم کا ورلڈ کپ 2014 سے باہر ہونا ملکی ہاکی کے لئے بڑا دھچکا ہے لیکن قومی کھیل سے وابستہ سب افراد ذاتی اختلافات سے بالا تر ہوکر کام کریں، نئی نسل میں ہاکی کا شوق پروان چڑھایا جائے، کھلاڑیوں کو معاشی تحفظ دیا جائے تو اس تاریک دور سے نکلا جاسکتا ہے، ہماری صورتحال تو یہ ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کی کامیابی پر پلیئرز کے لئے انعامات کا اعلان کر بھی دیا جائے تو چیک ہی کئی سال تک کیش نہیں ہوتے، سینئرز کی محرومی دیکھنے کے بعد دیہات میں کھیلنے والے نوجوان کھلاڑی ہاکی میں کیا کشش محسوس کریں گے، ان کے لئے تو دنوں میں قابل رشک زندگی گزارنے والا قومی کرکٹر ہی آئیڈیل ہوگا قومی کھیل کی بقا کے لئے جنگ لڑنے والا ہاکی پلیئر نہیں۔
عمران بٹ (گول کیپر، قومی ہاکی ٹیم)
ہمارے ہاں ہر ناکامی پر گول کیپرز کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے جو مناسب نہیں ہے، جب دفاعی کھلاڑی ہی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو اکیلا گول کیپر کیا کرسکتا ہے، حریف فارورڈز 13 حملے کریں گے تو دو یا تین گول ہوجانا بڑی بات نہیں، دنیا بھر میں یہ ایک الگ شعبے کی شکل اختیار کرچکا ہے، ملک سے اچھے کھلاڑیوں کا گروپ منتخب کیا جائے، انہیں سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کٹ اور جدید ٹریننگ دی جائے کیونکہ گول کیپنگ کا سامان اس قدر مہنگا ہے کہ کوئی بھی اسے خرید نہیں سکتا، جب تک مکمل کٹ نہیں ہوگی میدان میں اترنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، ان مسائل کی وجہ سے ہمارے پاس ویسے بھی چند گول کیپرز ہی رہ گئے ہیں، فیڈریشن کو چاہیے کہ ہنگامی طور پر اس شعبے میں بہتری کے لئے اقدامات کرے۔
کلبز کی سطح پر کھلاڑیوں کو سامان مہیا کیا جائے تو مستقبل میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ پلیئرز کے روز گار کا مسئلہ بھی حل ہونا چاہئے، سابق اولمپئنز کو بھی چاہیے کہ صرف تنقید برائے تنقید نہ کریں بلکہ قومی کھیل میں بہتری کے لئے خود بھی عملی اقدامات کریں، سینئر گول کیپر احمد عالم، سلمان اکبراور منصور خان ہاکی کے بڑے نام ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ نوجوان پلیئرز کی رہنمائی کریں، ہم سب اکھٹے ہوجائیں تو پاکستان میں ہاکی کو ایک بار پھر عروج مل سکتا ہے، حکومت اور نجی شعبے کو بھی چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے اقدامات کرے۔
سردار نوید حیدر خان (سابق ڈائریکٹر مارکیٹنگ پی ایچ ایف)
ہاکی میں بہتری لانی ہے تو اسے پیشہ ورانہ بنیادوں پر استوار اور کمرشلائز کرنا ہوگا،ہمارے کارپوریٹ سیکٹر میں بڑی جان ہے، کمپنیاں کلبز کو سپورٹ کریں اور کلبز باصلاحیت کھلاڑیوں کو تو سب کچھ بہتر ہو سکتا ہے، حکومت اور فیڈریشن کو چاہیے کہ ملک کے بڑے بڑے نجی اداروں پر زور دیں کہ کم ازکم 5،5 کھلاڑیوں کو سپانسر کریں، یہ کھلاڑی قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کمپنیوں کے لوگوکا استعمال کریں جس سے پلیئرز کو روز گار ملے گا اور اداروں کی تشہیر بھی ہوتی رہے گی۔
پہلی ترجیح کے طور پر فیڈریشن کو چاہیے کہ ملک بھر میں ایک خصوصی مہم کے ذریعے 10 سے 12 سال کے بچوں پر مشتمل ایک کھیپ تیار کی جائے، کھلاڑیوں کو لاہور، کراچی یا دیگر بڑے شہروں میں لاکر تعلیم سمیت تمام سہولیات مہیا کی جائیں، بچوں کے ذہن میں صرف اور صرف ہاکی کھیلنا ہو، انہیں دنیا کی باقی تمام پریشانیوں سے آزاد کردیا جائے تو 5 سے 10 سال کے عرصے میںنتائج برآمد ہونا شروع ہوجائیں گے، پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر ہاکی کے میدانوں کی کمی ہے جن شہروں میں گراؤنڈز ہیں وہاں پر آسٹرو ٹرف نہیں، ہمارے پلیئرز اکیڈمیز یا پھر بڑے قومی ایونٹس میں پہلی بار ٹرف پر کھیلتے ہیں تو ان میں تیز ہاکی کھیلنے کے لئے درکار سٹیمنا ہی نہیں ہوتا۔
ہمارے ملک میں کلچر بن چکا ہے کہ جو کھلاڑی ماضی کا سٹار رہا ہے اس کے بارے میں تصور کرلیا جاتا ہے کہ وہ مستقبل میں اچھا آفیشل بن کر سپورٹس فیڈریشن کو بھی اسی انداز سے چلا سکے گا، جدید دور میں یہ بات ہرگز درست نہیں کہی جاسکتی، کھیلوں کی ایڈمنٹسریشن کے لئے ایسے لوگوں کو ذمہ داریاں سونپی جائیں جو انہیں پیشہ ورانہ انداز میں چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہاکی فیڈریشن کو کھلاڑیوں اور ٹیم کے لئے سپانسر شپ کی تلاش کے لئے مارکیٹنگ کا الگ سے شعبہ بنانا ہوگا، یہ کہنا غلط ہے کہ ادارے قومی کھیل کی گرتی ہوئی ساکھ کی وجہ سے سرمایہ نہیں لگا رہے، میرا موقف ہے کہ ان کو جامع پلان دکھا کر قائل کیا جائے تو وہ ہاکی پر پیسہ خرچ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔
اگر پاکستان میں فٹبال بہتری کی جانب جاسکتا ہے تو ہاکی کیوں نہیں، یہ تو ہمارے خون میں رچا بسا ہوا کھیل ہے، بنگلہ دیش جیسا ملک سپر ہاکی لیگ کروا رہا ہے مگر 4 بار کا عالمی چیمپئن ملک اس سے محروم ہے ایسی صورتحال دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے، یہ کہنا بھی بالکل غلط ہے کہ دنیا کی ٹیمیں پاکستان آنا نہیں چاہتیں، ہم نے فٹبال میں سری لنکا، ایران، افغانستان، فلسطین، ملائشیا سمیت دیگر کئی ملکوں کو یہاں بلا لیا تو ہاکی والے ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ انتظامی مسائل کی وجہ سے ہاکی کے ڈومیسٹک ایونٹس ہوررہے ہوں تو کوئی ادارہ سپانسر نہیں کرتا لیکن فٹبال میں کئی ادارے معاونت کرتے ہیں، حال ہی میں ہونے والی ویمنز فٹبال چیمپئن شپ میں بڑے بڑے اداروں نے سپانسرکیا، پلیئرز کو اچھی یونیفارم ملیں، ان کے لئے بہترین سفری سہولیات مہیاکی گئی تھیں، ہاکی کو قومی کھیل کا درجہ دیتے ہوئے ترجیحات بنانا ہوں گی، جب تک اسے نوجوانوں کے لئے پر کشش نہیں بنایا جاتا ہم بہتری کی طرف سفر کا آغاز نہیں کرسکتے۔
اسد عباس (ڈاکٹر قومی ٹیم)
اگر ہم ہاکی کو قومی کھیل سمجھتے ہیں تو اس کے ساتھ سلوک بھی ایسا ہی ہونا چاہیے، ایک کرکٹر کو راتوں رات شہرت مل جاتی ہے مگر پاکستان کے لئے سنہری باب رقم کرنے والے سہیل عباس کا عوام کے سامنے تعارف کروانا پڑتا ہے، شکیل عباسی، ریحان بٹ یا موجودہ سٹارز کی بھی چمک دمک دکھائی نہیں دیتی، یہ بھی قوم کے سپوت ہیں ان کے ساتھ بھی سٹارز جیسا ہی سلوک ہونا چاہیے، میڈیا اور کارپوریٹ سیکٹر بھی اس حوالے سے ناانصافی کا مظاہرہ کررہا ہے، چند میچز کھیلنے والے ایک کرکٹر کو تو بے پناہ کمرشلز مل جاتی ہیں مگر ہاکی کھیلنے والوں کی نوکریاں بھی چھینی جارہی ہیں، ہمیں ایسا کلچر بنانا ہوگا کہ ملک کے لئے عزت افزائی کا باعث بنے والے کھلاڑی کا تعلق چاہے سپورٹس کے کسی بھی شعبے سے ہو اس کی حق تلفی نہیں ہونی چاہیے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے کھلاڑیوں کا فٹنس کا معیار بہتر نہیں ہے، یہ بات سراسر غلط ہے، ہم بھی پلیئرز کو وہی ٹریننگ کرواتے ہیں جو یورپی ملکوں میں کرائی جاتی ہے، ہماری بدقسمتی ہے کہ کھلاڑیوں کی کمی کی وجہ سے میچ میں بنچ پر بیٹھے متبادل کا زیادہ استعمال نہیں کرسکتے، کچھ عرصے سے چند ایک مثالوں کو چھوڑ کر کوالٹی پلیئرز کی کھیپ میسر نہیں آرہی، بڑی وجہ گراس روٹ سطح پر رجحان اور کھیل کی مقبولیت میں کمی ہے، یورپی ٹیمیں اہم کھلاڑیوں کو سانس لینے کا موقع دینے کے لئے ایک میچ میں50 سے70 فیصد تک متبادل پلیئرز کو میدان میں اتارتی ہیں لیکن ہمارے وہی کھلاڑی سارا میچ مکمل کھیلتے ہیں۔
یورپین ملکوں میں امیر لوگ ہاکی کھیلتے ہیں مگر یہاں پر یہ غریبوں کا کھیل ہے، کرکٹ تو سٹرکوں پر بھی کھیلی جاسکتی ہے مگر ہاکی کے لئے مخصوص گراؤنڈ کا ہونا بہت ضروری ہے، ایک سٹک بھی 4 ہزار سے کم نہیں آتی، ایسے حالات میں بچے قومی کھیل سے دور ہورہے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ حب الوطنی کے سامنے پیسہ کوئی چیز نہیں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ جب پیٹ اور گھر کی فکر ہوگی تو کھلاڑی ذہنی دباؤ کا شکار رہیں گے، معاشی اور ذہنی کشمکش میں مبتلا لوگوں سے اچھے نتائج کی امید کرنا بھی بے وقوفی کے مترادف ہے، ہمیں ایسا کلچرل بنا ہوگا کہ نوجوان نسل خود بخود ہاکی کی جانب آنے میں فخر محسوس کریں، اس کے لئے حکومت اور نجی اداروں کا تعاون بہت ضروری ہے، پیر محل سیالکوٹ اور فیصل آباد سے نئی نرسریاں دریافت ہوئی ہیں ارباب اختیار کو چاہیے کہ ان علاقوں میں عالمی معیار کے آسٹرو ٹرف والے سٹیڈیمز بنائیں تاکہ ٹیلنٹ ضائع نہ ہو۔
عذرا پروین گل (نائب صدر پی ایچ ایف ویمن ونگ)
مجھے ایک ایسا واقعہ بھی دیکھنے کا موقع ملا جس سے قبل ازیں کی جانے والی گفتگوکی تائید ہوتی ہے،ایک گول کیپر اپنا میچ کھیلنے اور ٹیم کے لئے کچھ کردکھانے کے لئے بیتاب تھا کہ اسے معلوم ہوا کہ اس کی نوکری ختم ہوگئی ہے، ان حالات میں اس کو گول پوسٹ کے دفاع سے زیادہ اپنی بقا کی فکر لگ گئی، مطلب یہ ہوا کہ صرف وعدوں اور تسلیوں سے کسی کو زیادہ دیر تک نہیں بہلایا جاسکتا، مسائل کا حل تلاش کرنا پڑتا ہے، انفرادی پریشانیوں کو ایک طرف رکھ کر قومی کھیل کی رونقیں بحال رکھنے والوں کا جذبہ قابل تحسیں ہے لیکن بڑی کامیابیوں کا سفر شروع کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے، گراس روٹ سطح پر ہی کھلاڑیوں کو عزت و احترام اور معاشی آسودگی دینے سے نئی کھیپ میسر آئے گی، قومی ٹیم کی ہر پوزیشن کے لئے ہمارے پاس 4 عالمی معیار کے پلیئر ہوں گے تو مضبوط ٹیموں کی تشکیل کا خواب دیکھا جاسکے گا، اس ضمن میں صرف حکومت کا ہی کردار نہیں بنتا، نجی سیکٹر اور سکولوں کالجوں کو بھی رضاکارانہ جذبہ سے کام کرنا ہوگا۔
پاکستان میں ویمنز ہاکی بتدریج بہتری کی طرف گامزن ہے لیکن بہترین نتائج کے لئے ابھی تھوڑا انتظار کرنا ہوگا، ہمارا معاشرتی ڈھانچہ ایسا ہے کہ کئی گھرانے تو لڑکیوں کو تعیلم کے لئے باہر بھیجنا مناسب نہیں سمجھتے،ان حالات میں پلیئرز میدانوں کا رخ ہی کرلیں تو ان کی بھرپور حوصلہ افزائی ہونا چاہیے، لاہور جیسے بڑے شہر میں لڑکیوں کے لئے چند ایک ہاکی کے میدان ہیں جس سے نیا ٹیلنٹ سامنے آرہا ہے، دیگر شہروں میں تھوڑی بہت سہولیات والے میدان نرسری کا کام کر رہے ہیں، محکمانہ ٹیمیں کم ہونے کی وجہ سے روزگار کے مواقع بھی محدود ہیں، لڑکیوں کی آمد رفت اور قیام پر لڑکوں کی ٹیموں سے زیادہ اخراجات اور ذمہ داری اٹھانا پڑتی ہے، پی ایچ ایف کے بجٹ کا کم از کم 30 فیصد ویمنز ہاکی کے لئے مختص کردیا جائے تو کھیل کو مزید فروغ دیا جاسکتا ہے۔
کبھی کھیلوں کے میدانوں میں ہاکی پاکستان کی پہچان تھی۔
کوئی عالمی اعزاز ایسا نہ تھا جو شاہینوں نے قوم کی جھولی میں نہ ڈالا ہو، دور بدلا، کھیل کے قوانین بدلے، فٹنس کا معیار بھی تبدیل ہو گیا، قومی ہاکی کا زوال کی طرف سفر شروع ہوا، ایک ایک کر کے انٹرنیشنل ٹائٹل چھن گئے، ناکامیوں کی داستان طویل ہوئی تو قومی کھیل عوامی سطح پر مقبولیت کھو بیٹھا، سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مختلف اداروں نے اپنی ہاکی ٹیمیں ختم کر کے توجہ کرکٹ اور دیگر کھیلوں پر مرکوز کرلی، کلب سطح پر مقابلے کا رجحان بھی ختم ہو گیا تو مستقبل کے لئے سٹار تلاش کرنے کا عمل بھی جمود کا شکار نظر آنے لگا۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن میں کئی عہدیدار آئے اور گئے مگر باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی کے سبب جو خلا پیدا ہو گیا تھا اسے پر کرنے میں ناکام رہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ قومی سینئر ٹیم تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی تو مستقبل کی امید سمجھے جانے والے جونیئرز بھارت میں جاری میگا ایونٹ کے پہلے راؤنڈ سے ہی باہر ہوچکے ہیں، قومی کھیل کو ایک نئی زندگی دینے کے حوالے سے تجاویز کے لئے ''ایکسپریس فورم'' کا اہتمام کیا گیا جس میں شرکاء کی گفتگو کا احوال نذر قارئین ہے۔
خواجہ محمد جنید (سابق اولمپئن)
بڑا افسوس ہے کہ قومی کھیل پر انتہائی برا وقت چل رہا ہے، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں ہاکی ختم ہوگئی، دنیا کے کئی ملکوں نے زوال کے بعد بہتر پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے عروج کی جانب قدم بڑھائے آج دنیا انہیں سپر پاورز کے نام سے جانتی ہے۔ مسائل ہمارے ہیں تو ان کا حل بھی ہم سب کو مل کر ہی تلاش کرنا ہوگا، اگر آپس کے لڑائی جھگڑوں میں پڑے رہے تو حالات بہتری کی بجائے مزید ابتری کی طرف چلے جائیں گے۔
ملک بھر میں قائم اکیڈمیاں اچھا اقدام اور قومی کھیل میں بہتری کے لئے مددگار ثابت ہوسکتی ہیں، تاہم انہیں سائنسی بنیادوں پر استوار نہ کرنے کی وجہ سے اب تک صرف 30 فیصد نتائج حاصل کئے جاسکے ہیں،کارکردگی میں 70 فیصد بہتری لانے کی گنجائش اب بھی موجود ہے، اگر مزید 40 فیصد بھی درست سمت میں کام کرلیں تو مستقبل کے لئے باصلاحیت کھلاڑیوں کی کھیپ مل جائے گی، اکیڈمیوں کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے پروفیشنلز کا ایک گروپ تشکیل دے کر انہیں نوعمر پلیئرز کی راہنمائی کی ذمہ داری سونپی جانی چاہیے۔ ملکی ہاکی کی بہتری کے بارے میں ہم سب کو سوچنا ہوگا، صرف یہ کہہ دینا کہ فیڈریشن کام نہیں کررہی، غلط ہوگا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب ٹیم جیت جائے تو کندھوں پر بٹھا لیتے ہیں، ہار پر اس قدر منہ موڑ لیا جاتا ہے کہ کھلاڑی ڈپریشن کا شکار ہونے لگتے ہیں، قومی رویوں میں سختی بھی کھیل کو غیر مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
ہمیں ماضی کے روایتی طور طریقوں کو چھوڑ کر نہ صرف ہاکی بلکہ تمام سپورٹس اداروں کو چلانے کے لئے ٹیکنوکریٹس کو آگے لانا ہوگا، مارکیٹنگ اور فنانس کا شعبہ الگ ہونا چاہیے تاکہ ہر کوئی اپنی ذمہ داری کا جوابدہ ہو،کھلاڑی ملک و قوم کا نام سربلند کرنے کے لئے دیگر کئی معاملات میں قربانیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتا، اس کی زندگی آسودہ ہوگی تو نئی نسل کا غیر یقینی مستقبل کے حوالے سے خوف ختم ہوگا، پلیئرز کو معاشی تحفظ دیئے بغیر ہاکی کو صرف زبانی جمع خرچ کے ذریعے زیادہ دیر باقی رکھنا ممکن نہیں، حکومت ڈیپارٹمنٹل ٹیموں کی حوصلہ افزائی کرے، جو ادارے اپنی ٹیمیں ختم یا پلیئرز کو فارغ کررہے ہیں انہیں سختی سے روکا جائے، ہر کھلاڑی کو صلاحیت کے مطابق معاشی تحفظ ملے گا تو ٹریننگ پر بھرپور توجہ دے سکے گا۔
فکر معاش کی وجہ سے دل اور دماغ ساتھ نہ ہوں تو کوچز کی رہنمائی اور مشورے سر کے اوپر سے گزر جائیں گے،ہمارا سماجی ڈھانچہ یورپی ملکوں سے بہت مختلف ہے، یہاں کھیلوں کو پیشہ ورانہ انداز میں اہمیت نہیں دی جاتی،کسی روزگار کا بندوبست ضروری جبکہ سپورٹس کو فارغ وقت کا مشغلہ خیال کیا جاتاہے، ان حالات میں بھی کوئی کھیلوں میں کیریئر بنانے کی جرأت کرے تو اس کی قدر کی جانا چاہیے، کم ازکم کھلاڑی جس سطح پر اپنی اہلیت منوائے اس کے مطابق ہی اس کے معاشی مفادات کو محفوظ کرنے کا کوئی طریقہ کار وضع کردیا جائے۔
محمد ثقلین (سابق کپتان)
موجودہ دور میں ہاکی کا جو حشر ہو چکا ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، سابق کھلاڑی ہونے کے ناطے اب تو ناقص کارکردگی کا دفاع کرنا بھی ممکن نہیں رہا، کھیل کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے پاس ہے جو پروفیشنل ازم سے بالکل عاری ہیں، ہم سب کو اپنی غلطیاں تسلیم کرلینی چاہئیں کیونکہ اگر خامیوں پر پردہ ڈالا جاتا رہے گا تو ان کو دور کرنا ممکن نہیں ہوگا، کسی بھی ملک کے لئے جونیئر کھلاڑی مستقبل کی امید ہوتے ہیں، ان کی اچھی کارکردگی آنے والے وقت میں بہتری کے امکانات روشن رکھتی ہے مگر ہمارے چھوٹے بھی بڑوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
بھارت میں جاری حالیہ جونیئر ورلڈ کپ میں ان کی پرفارمنس انتہائی مایوس کن رہی، بدقسمتی صرف ایک آدھ میچ میں ہوسکتی ہے جب مسلسل ناکامیاں گلے کا ہار بن جائیں تو قسمت کو قصور وار ٹھہرانے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی آنکھیں بند ہی رکھنا چاہتے ہیں، ابھی بھی وقت ہے کہ قومی کھیل کی حالت زار بہترکی جائے۔ میرے خیال میں فیڈریشن کو جتنے پیسے آخری 5 سال میں دیئے گے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی، اس کے باوجود ٹیم ورلڈ کپ سے باہر ہوگئی، مانا کہ صرف میگا ٹائٹل جیت لینا ہی کھیل کے معیار کی دلیل نہیں، تاہم مجموعی کارکردگی تو ایسی ہو کہ ہم خود کو انٹرنیشنل ٹیموں کے ہم پلہ قرار دے سکیں، بلند و بانگ دعووں کے ساتھ جونیئر ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی ٹیم کا حشر دیکھ کر ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ مستقبل کے حوالے سے ہمارے پلان قطعی غیر موئثر ثابت ہورہے ہیں، ہر ذمہ داری کے لئے پیشہ ورانہ سوچ رکھنے والے درست افراد کا انتخاب کرکے مسلسل محنت کئے بغیر بہتری کے سفرکا آغاز نہیں کیا جاسکتا۔
وقاص شریف (نائب کپتان، قومی ہاکی ٹیم)
یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پاکستان میں ہاکی ختم ہوگئی، گرین شرٹس اب بھی ایشیاء کی ٹاپ ٹیم ہیں، تاہم بین الاقوامی سطح پر کامیابی کا تسلسل برقرار رکھنے کے لئے قومی کھیل کی حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے،کھلاڑیوں کا روزگار اور مستقبل غیر یقینی ہونے کی وجہ سے بتدریج نچلی سطح پر ہاکی ختم ہوتی جارہی ہے، جب تک سکولز اور کالجز میں ہاکی ٹیموں کو لازمی قرار نہیں دیا جاتا بہتری کے آثار ممکن نہیں ہے، ڈیپارٹمنٹس پر بھی زور دیا جائے کہ وہ ٹیمیں لازمی بنائیں، اب تو یہ حال ہے کہ ماضی میں جن سرکاری اور نجی اداروں کی ٹیمیں تھیں وہ بھی آہستہ آہستہ ختم کررہے ہیں، پلیئرز کے پاس مناسب روزگار نہ ہونا بہت بڑا مسئلہ ہے، کھیل کے ساتھ ہمیں اپنے گھروں کے چولہے بھی جلانا ہوتے ہیں، ایک کرکٹر ماہانہ لاکھوں روپے کماتا ہے جبکہ قومی کھیل میں ملک کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑی کو نہ ہونے کے برابر معاوضہ ملتا ہے، وہ بھی مستقل بنیادوں پر نہیں ہوتا، پلیئر کسی انجری کی وجہ سے بھی چند ہفتوں کے لئے میدان سے باہر ہوتو اس کی تنخواہ روک لی جاتی ہے، ہمارے کھلاڑی کم وسائل اور سہولیات کے باوجود قومی جذبہ کے تحت میدان میں اترتے ہیں،اس مقصد کے لئے ان کو اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ کیریئر کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔
کھیل کی بدولت انہیں عزت اور شہرت ملنا تو نصیب کی بات ہے لیکن روزانہ 6 گھنٹے ٹریننگ کے لئے کسی اور شعبے میں روزگار کے مواقع سے ہاتھ دھونے کا مشکل فیصلہ پہلے کرنا پڑتا ہے، بعد ازاں کھیل میں ناکامی یا انجری کے باعث گھر بیٹھ جائے تو کون پوچھے گا،اسی خوف کی وجہ سے والدین کی بڑی تعداد اپنے بچوں کو کھیلوں میں کیریئر بنانے کی اجازت دینے سے گریز کرتی ہے،عدم تحفظ کی فضا ختم کرنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر خصوصی پالیسیاں تشکیل دیئے بغیر کھیلوں میں کشش پیدا نہیں کی جاسکتی، کم کھلاڑی میدان میں اتریں گے تو نیا ٹیلنٹ بھی سامنے نہیں آئے گا، تنقید کرنے والے بیلجیئم یا دیگر یورپی ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے وہاں پر پلیئرز کو اپنے گھر کے اخراجات کی فکر نہیں ہوتی انہیں مستقل ملازمتیں ملتی ہیں، نجی ادارے اخراجات سپانسر کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، مسائل سے آزاد کھلاڑی صرف اور صرف کھیل پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 4 بار کی عالمی چیمپئن ٹیم کا ورلڈ کپ 2014 سے باہر ہونا ملکی ہاکی کے لئے بڑا دھچکا ہے لیکن قومی کھیل سے وابستہ سب افراد ذاتی اختلافات سے بالا تر ہوکر کام کریں، نئی نسل میں ہاکی کا شوق پروان چڑھایا جائے، کھلاڑیوں کو معاشی تحفظ دیا جائے تو اس تاریک دور سے نکلا جاسکتا ہے، ہماری صورتحال تو یہ ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کی کامیابی پر پلیئرز کے لئے انعامات کا اعلان کر بھی دیا جائے تو چیک ہی کئی سال تک کیش نہیں ہوتے، سینئرز کی محرومی دیکھنے کے بعد دیہات میں کھیلنے والے نوجوان کھلاڑی ہاکی میں کیا کشش محسوس کریں گے، ان کے لئے تو دنوں میں قابل رشک زندگی گزارنے والا قومی کرکٹر ہی آئیڈیل ہوگا قومی کھیل کی بقا کے لئے جنگ لڑنے والا ہاکی پلیئر نہیں۔
عمران بٹ (گول کیپر، قومی ہاکی ٹیم)
ہمارے ہاں ہر ناکامی پر گول کیپرز کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے جو مناسب نہیں ہے، جب دفاعی کھلاڑی ہی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو اکیلا گول کیپر کیا کرسکتا ہے، حریف فارورڈز 13 حملے کریں گے تو دو یا تین گول ہوجانا بڑی بات نہیں، دنیا بھر میں یہ ایک الگ شعبے کی شکل اختیار کرچکا ہے، ملک سے اچھے کھلاڑیوں کا گروپ منتخب کیا جائے، انہیں سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کٹ اور جدید ٹریننگ دی جائے کیونکہ گول کیپنگ کا سامان اس قدر مہنگا ہے کہ کوئی بھی اسے خرید نہیں سکتا، جب تک مکمل کٹ نہیں ہوگی میدان میں اترنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، ان مسائل کی وجہ سے ہمارے پاس ویسے بھی چند گول کیپرز ہی رہ گئے ہیں، فیڈریشن کو چاہیے کہ ہنگامی طور پر اس شعبے میں بہتری کے لئے اقدامات کرے۔
کلبز کی سطح پر کھلاڑیوں کو سامان مہیا کیا جائے تو مستقبل میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ پلیئرز کے روز گار کا مسئلہ بھی حل ہونا چاہئے، سابق اولمپئنز کو بھی چاہیے کہ صرف تنقید برائے تنقید نہ کریں بلکہ قومی کھیل میں بہتری کے لئے خود بھی عملی اقدامات کریں، سینئر گول کیپر احمد عالم، سلمان اکبراور منصور خان ہاکی کے بڑے نام ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ نوجوان پلیئرز کی رہنمائی کریں، ہم سب اکھٹے ہوجائیں تو پاکستان میں ہاکی کو ایک بار پھر عروج مل سکتا ہے، حکومت اور نجی شعبے کو بھی چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے اقدامات کرے۔
سردار نوید حیدر خان (سابق ڈائریکٹر مارکیٹنگ پی ایچ ایف)
ہاکی میں بہتری لانی ہے تو اسے پیشہ ورانہ بنیادوں پر استوار اور کمرشلائز کرنا ہوگا،ہمارے کارپوریٹ سیکٹر میں بڑی جان ہے، کمپنیاں کلبز کو سپورٹ کریں اور کلبز باصلاحیت کھلاڑیوں کو تو سب کچھ بہتر ہو سکتا ہے، حکومت اور فیڈریشن کو چاہیے کہ ملک کے بڑے بڑے نجی اداروں پر زور دیں کہ کم ازکم 5،5 کھلاڑیوں کو سپانسر کریں، یہ کھلاڑی قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کمپنیوں کے لوگوکا استعمال کریں جس سے پلیئرز کو روز گار ملے گا اور اداروں کی تشہیر بھی ہوتی رہے گی۔
پہلی ترجیح کے طور پر فیڈریشن کو چاہیے کہ ملک بھر میں ایک خصوصی مہم کے ذریعے 10 سے 12 سال کے بچوں پر مشتمل ایک کھیپ تیار کی جائے، کھلاڑیوں کو لاہور، کراچی یا دیگر بڑے شہروں میں لاکر تعلیم سمیت تمام سہولیات مہیا کی جائیں، بچوں کے ذہن میں صرف اور صرف ہاکی کھیلنا ہو، انہیں دنیا کی باقی تمام پریشانیوں سے آزاد کردیا جائے تو 5 سے 10 سال کے عرصے میںنتائج برآمد ہونا شروع ہوجائیں گے، پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر ہاکی کے میدانوں کی کمی ہے جن شہروں میں گراؤنڈز ہیں وہاں پر آسٹرو ٹرف نہیں، ہمارے پلیئرز اکیڈمیز یا پھر بڑے قومی ایونٹس میں پہلی بار ٹرف پر کھیلتے ہیں تو ان میں تیز ہاکی کھیلنے کے لئے درکار سٹیمنا ہی نہیں ہوتا۔
ہمارے ملک میں کلچر بن چکا ہے کہ جو کھلاڑی ماضی کا سٹار رہا ہے اس کے بارے میں تصور کرلیا جاتا ہے کہ وہ مستقبل میں اچھا آفیشل بن کر سپورٹس فیڈریشن کو بھی اسی انداز سے چلا سکے گا، جدید دور میں یہ بات ہرگز درست نہیں کہی جاسکتی، کھیلوں کی ایڈمنٹسریشن کے لئے ایسے لوگوں کو ذمہ داریاں سونپی جائیں جو انہیں پیشہ ورانہ انداز میں چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہاکی فیڈریشن کو کھلاڑیوں اور ٹیم کے لئے سپانسر شپ کی تلاش کے لئے مارکیٹنگ کا الگ سے شعبہ بنانا ہوگا، یہ کہنا غلط ہے کہ ادارے قومی کھیل کی گرتی ہوئی ساکھ کی وجہ سے سرمایہ نہیں لگا رہے، میرا موقف ہے کہ ان کو جامع پلان دکھا کر قائل کیا جائے تو وہ ہاکی پر پیسہ خرچ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔
اگر پاکستان میں فٹبال بہتری کی جانب جاسکتا ہے تو ہاکی کیوں نہیں، یہ تو ہمارے خون میں رچا بسا ہوا کھیل ہے، بنگلہ دیش جیسا ملک سپر ہاکی لیگ کروا رہا ہے مگر 4 بار کا عالمی چیمپئن ملک اس سے محروم ہے ایسی صورتحال دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے، یہ کہنا بھی بالکل غلط ہے کہ دنیا کی ٹیمیں پاکستان آنا نہیں چاہتیں، ہم نے فٹبال میں سری لنکا، ایران، افغانستان، فلسطین، ملائشیا سمیت دیگر کئی ملکوں کو یہاں بلا لیا تو ہاکی والے ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ انتظامی مسائل کی وجہ سے ہاکی کے ڈومیسٹک ایونٹس ہوررہے ہوں تو کوئی ادارہ سپانسر نہیں کرتا لیکن فٹبال میں کئی ادارے معاونت کرتے ہیں، حال ہی میں ہونے والی ویمنز فٹبال چیمپئن شپ میں بڑے بڑے اداروں نے سپانسرکیا، پلیئرز کو اچھی یونیفارم ملیں، ان کے لئے بہترین سفری سہولیات مہیاکی گئی تھیں، ہاکی کو قومی کھیل کا درجہ دیتے ہوئے ترجیحات بنانا ہوں گی، جب تک اسے نوجوانوں کے لئے پر کشش نہیں بنایا جاتا ہم بہتری کی طرف سفر کا آغاز نہیں کرسکتے۔
اسد عباس (ڈاکٹر قومی ٹیم)
اگر ہم ہاکی کو قومی کھیل سمجھتے ہیں تو اس کے ساتھ سلوک بھی ایسا ہی ہونا چاہیے، ایک کرکٹر کو راتوں رات شہرت مل جاتی ہے مگر پاکستان کے لئے سنہری باب رقم کرنے والے سہیل عباس کا عوام کے سامنے تعارف کروانا پڑتا ہے، شکیل عباسی، ریحان بٹ یا موجودہ سٹارز کی بھی چمک دمک دکھائی نہیں دیتی، یہ بھی قوم کے سپوت ہیں ان کے ساتھ بھی سٹارز جیسا ہی سلوک ہونا چاہیے، میڈیا اور کارپوریٹ سیکٹر بھی اس حوالے سے ناانصافی کا مظاہرہ کررہا ہے، چند میچز کھیلنے والے ایک کرکٹر کو تو بے پناہ کمرشلز مل جاتی ہیں مگر ہاکی کھیلنے والوں کی نوکریاں بھی چھینی جارہی ہیں، ہمیں ایسا کلچر بنانا ہوگا کہ ملک کے لئے عزت افزائی کا باعث بنے والے کھلاڑی کا تعلق چاہے سپورٹس کے کسی بھی شعبے سے ہو اس کی حق تلفی نہیں ہونی چاہیے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے کھلاڑیوں کا فٹنس کا معیار بہتر نہیں ہے، یہ بات سراسر غلط ہے، ہم بھی پلیئرز کو وہی ٹریننگ کرواتے ہیں جو یورپی ملکوں میں کرائی جاتی ہے، ہماری بدقسمتی ہے کہ کھلاڑیوں کی کمی کی وجہ سے میچ میں بنچ پر بیٹھے متبادل کا زیادہ استعمال نہیں کرسکتے، کچھ عرصے سے چند ایک مثالوں کو چھوڑ کر کوالٹی پلیئرز کی کھیپ میسر نہیں آرہی، بڑی وجہ گراس روٹ سطح پر رجحان اور کھیل کی مقبولیت میں کمی ہے، یورپی ٹیمیں اہم کھلاڑیوں کو سانس لینے کا موقع دینے کے لئے ایک میچ میں50 سے70 فیصد تک متبادل پلیئرز کو میدان میں اتارتی ہیں لیکن ہمارے وہی کھلاڑی سارا میچ مکمل کھیلتے ہیں۔
یورپین ملکوں میں امیر لوگ ہاکی کھیلتے ہیں مگر یہاں پر یہ غریبوں کا کھیل ہے، کرکٹ تو سٹرکوں پر بھی کھیلی جاسکتی ہے مگر ہاکی کے لئے مخصوص گراؤنڈ کا ہونا بہت ضروری ہے، ایک سٹک بھی 4 ہزار سے کم نہیں آتی، ایسے حالات میں بچے قومی کھیل سے دور ہورہے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ حب الوطنی کے سامنے پیسہ کوئی چیز نہیں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ جب پیٹ اور گھر کی فکر ہوگی تو کھلاڑی ذہنی دباؤ کا شکار رہیں گے، معاشی اور ذہنی کشمکش میں مبتلا لوگوں سے اچھے نتائج کی امید کرنا بھی بے وقوفی کے مترادف ہے، ہمیں ایسا کلچرل بنا ہوگا کہ نوجوان نسل خود بخود ہاکی کی جانب آنے میں فخر محسوس کریں، اس کے لئے حکومت اور نجی اداروں کا تعاون بہت ضروری ہے، پیر محل سیالکوٹ اور فیصل آباد سے نئی نرسریاں دریافت ہوئی ہیں ارباب اختیار کو چاہیے کہ ان علاقوں میں عالمی معیار کے آسٹرو ٹرف والے سٹیڈیمز بنائیں تاکہ ٹیلنٹ ضائع نہ ہو۔
عذرا پروین گل (نائب صدر پی ایچ ایف ویمن ونگ)
مجھے ایک ایسا واقعہ بھی دیکھنے کا موقع ملا جس سے قبل ازیں کی جانے والی گفتگوکی تائید ہوتی ہے،ایک گول کیپر اپنا میچ کھیلنے اور ٹیم کے لئے کچھ کردکھانے کے لئے بیتاب تھا کہ اسے معلوم ہوا کہ اس کی نوکری ختم ہوگئی ہے، ان حالات میں اس کو گول پوسٹ کے دفاع سے زیادہ اپنی بقا کی فکر لگ گئی، مطلب یہ ہوا کہ صرف وعدوں اور تسلیوں سے کسی کو زیادہ دیر تک نہیں بہلایا جاسکتا، مسائل کا حل تلاش کرنا پڑتا ہے، انفرادی پریشانیوں کو ایک طرف رکھ کر قومی کھیل کی رونقیں بحال رکھنے والوں کا جذبہ قابل تحسیں ہے لیکن بڑی کامیابیوں کا سفر شروع کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے، گراس روٹ سطح پر ہی کھلاڑیوں کو عزت و احترام اور معاشی آسودگی دینے سے نئی کھیپ میسر آئے گی، قومی ٹیم کی ہر پوزیشن کے لئے ہمارے پاس 4 عالمی معیار کے پلیئر ہوں گے تو مضبوط ٹیموں کی تشکیل کا خواب دیکھا جاسکے گا، اس ضمن میں صرف حکومت کا ہی کردار نہیں بنتا، نجی سیکٹر اور سکولوں کالجوں کو بھی رضاکارانہ جذبہ سے کام کرنا ہوگا۔
پاکستان میں ویمنز ہاکی بتدریج بہتری کی طرف گامزن ہے لیکن بہترین نتائج کے لئے ابھی تھوڑا انتظار کرنا ہوگا، ہمارا معاشرتی ڈھانچہ ایسا ہے کہ کئی گھرانے تو لڑکیوں کو تعیلم کے لئے باہر بھیجنا مناسب نہیں سمجھتے،ان حالات میں پلیئرز میدانوں کا رخ ہی کرلیں تو ان کی بھرپور حوصلہ افزائی ہونا چاہیے، لاہور جیسے بڑے شہر میں لڑکیوں کے لئے چند ایک ہاکی کے میدان ہیں جس سے نیا ٹیلنٹ سامنے آرہا ہے، دیگر شہروں میں تھوڑی بہت سہولیات والے میدان نرسری کا کام کر رہے ہیں، محکمانہ ٹیمیں کم ہونے کی وجہ سے روزگار کے مواقع بھی محدود ہیں، لڑکیوں کی آمد رفت اور قیام پر لڑکوں کی ٹیموں سے زیادہ اخراجات اور ذمہ داری اٹھانا پڑتی ہے، پی ایچ ایف کے بجٹ کا کم از کم 30 فیصد ویمنز ہاکی کے لئے مختص کردیا جائے تو کھیل کو مزید فروغ دیا جاسکتا ہے۔