کہانی کے ابلاغ پر یقین رکھنے والے قبیلے سے ہوں اخلاق احمد

تخلیقِ ادب خودرو عمل بن گیا ہے، ہم بیرونی ادب بالکل نہیں پڑھتے، اخلاق احمد

معروف افسانہ نگار اور صحافی اخلاق احمد کے حالات و خیالات۔ فوٹو : فائل

اچھوتا خیال اُن کے قصّوں کا جُزو ہے، پر وہ اس کا تعاقب نہیں کرتے۔ یہ تو نازل ہوتا ہے۔ راہ چلتے، سوچتے سمے، یا بے خیالی میں اچانک خود کو ظاہر کر دیتا ہے۔ پوری قوت سے!

یہ اخلاق احمد کا تذکرہ ہے، جن کے ہاں ایک اَن کہی کہانی بُننے کی تحریک فقط مشاہدے سے نتھی نہیں، بعض اوقات جکڑ لینے والی تحریریں بھی اُنھیں قلم اٹھانے پر مجبور کردیتی ہیں۔ کردار بہ قول اُن کے، اپنی جزئیات کے ساتھ ظاہر نہیں ہوتے، بلکہ کہانی لکھتے ہوئے کھلتے چلے جاتے ہیں۔

دھیمے انداز میں گفت گو کرنے والے اخلاق احمد کا شمار اُن گنے چنے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے، جنھیں کہانی - ایک متاثر کن کہانی - بیان کرنے کا ہنر آتا ہے۔ low profile میں رہنے والے اِس بڑے تخلیق کار کے چار مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ افسانوں کے عنوانات اُن کے ہاں بڑے ہی دل چسپ ہوتے ہیں: ''رئیس کیوں چپ ہے''، ''کراچی نامی قتل گاہ میں ایک دوپہر''، ''دھند کا مسافر''، ''تھینک یو مولوی صاحب'' اور ''ایک عیار افسانے کی کہانی'' اِس کی چند مثالیں ہیں۔

صحافت کا بھی وہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تین عشروں تک اِس دشت کی سیاحی کی۔ ''اخبارجہاں'' کے مدیر رہے، مگر اب صحافت سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ اِس فیصلے پر احباب کا پہلا تبصرہ تو یہ ہی تھا کہ یہ ایک عارضی وقفہ ہے۔ ہر چند ماہ بعد اُن کی واپسی کی خبر گرم ہوجاتی، مگر گذشتہ پانچ برس میں یہ واقعہ رونما نہیں ہوا۔ دراصل اِس فیصلے کے پیچھے وہ احساس تھا، جس نے اُن میں سانس لیتے ادیب پر صحافت کی لایعنیت عیاں کر دی۔ احساس ہوا، ساری محنت لاحاصل ہے، جو کچھ وہ کر رہے ہیں- لفظ، سرخیاں، انٹرویوز، تحقیقی رپورٹس- ہر شے بھلا دی جائے گی۔

ساتھ ہی لکھنا پڑھنا، جو انسان کو تازہ دم کرتا ہے، دھیرے دھیرے ایک ناتمام آرزو کے قالب میں ڈھل گیا۔ اِس ضمن میں کہتے ہیں،''جب آپ منزلیں تسخیر کر لیتے ہیں، تو خود سے سوال کرتے ہیں کہ Now what?۔ میرے معاملے میں یہ منزل جلد آگئی۔ اگر آپ 39 برس کی عمر میں پاکستان کے سب سے بڑے جریدے کے ایڈیٹر بن جائیں، 12 برس اِس منصب پر رہیں، تو آدمی خود کو بند گلی میں محسوس کرتا ہے۔ اور اِس احساس سے سوالات جنم لیتے ہیں۔''

اِس کہانی کار کے سفرزیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:
ڈیفینس آڈٹ کے محکمے سے وابستہ اُن کے والد، شمیم نعمانی کا تعلق اجمیر شریف سے تھا۔ ہجرت کے بعد انھوں نے لاہور میں ڈیرا ڈالا۔ وہ اکثر تبادلوں کی زد میں رہا کرتے۔ 20 اکتوبر 1957 کو جب اخلاق احمد نے آنکھ کھولی، پشاور میں موسم سرما عروج پر تھا۔ البتہ جب شعور کی دہلیز عبور کی، خود کو شہر قائد کی روشنیوں کے روبرو پایا۔ والد اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔ اختر شیرانی اور عبدالحمید عدم کے حلقے میں شامل رہے۔ ادبی ذوق تینوں بیٹوں کو وراثت میں ملا۔ بڑے بیٹے، احمد اقبال نے کہانی کار کی حیثیت سے پہچان بنائی۔ انوار احمد خان قلم مزدور تو نہیں تھے، مگر لکھنے کی قابلیت اُن میں بھی تھی۔ سب سے چھوٹے بیٹے، اخلاق احمد نے صحافت اور افسانہ نگاری میں خود کو کھوجا۔ اوائل عمری میں شاعری بھی کی، مگر پھر اپنے استاد، انیس زیدی کے مشورے پر یہ مشق ترک کر دی۔

پرانی یادوں کا البم کھلا، تو آنکھوں کے سامنے ایک فلم سی چلنے لگی۔ بچپن بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں؛ والد سخت مزاج آدمی تھے، مگر اُس زمانے میں والدین ایسے ہی ہوا کرتے تھے۔ سزا کی کبھی نوبت نہیں آئی، مگر غلطیوں پر ڈانٹ ضرور پڑا کرتی۔ وہ بہت کم گو اور شرمیلے ہوا کرتے تھے۔ سبب اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں،''ہمارے ہاں روایت تھی کہ پہلے بچے کو گھر میں تعلیم دی جاتی۔ پھر کسی بڑی جماعت میں داخل کروا دیا جاتا۔ بڑے بھائی براہ راست نویں جماعت، اُن سے چھوٹے ساتویں جماعت میں داخل ہوئے۔ میں نے چھٹی جماعت سے تعلیمی سلسلہ شروع کیا۔ یعنی آپ کلاس میں سب سے کم عمر ہوتے ہیں۔ اوروں سے دبے ہوئے رہتے ہیں۔''

اعتماد ضرور کم تھا، مگر طالب علم بہت اچھے تھے۔ ہم نصابی سرگرمیوں میں جم کر حصہ لیا۔ کھیلوں میں کرکٹ کا تجربہ کیا۔ گرین وڈ اسکول، جمشید روڈ سے میٹرک کر کے نیشنل کالج کا حصہ بن گئے۔ خواہش ڈاکٹر بننے کی تھی، مگر نتائج زیادہ اچھے نہیں رہے۔ احساس ہوا کہ سائنس اُنھیں اپنی جانب نہیں کھینچتی، وہ تو آرٹس کے آدمی ہیں۔ نیشنل کالج ہی سے 75ء میں گریجویشن کیا۔ اُسی برس والد کے انتقال کا سانحہ پیش آیا۔ گہرے کرب سے گزرے۔ گھرانے کو معاشی مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے عملی زندگی میں قدم رکھ دیا۔ بڑے بھائی، احمد اقبال پہچان بنا چکے تھے، اُن ہی کی توسط سے ڈائجسٹ کی دنیا میں قدم رکھا۔ ترجمے کا سلسلہ شروع کیا۔ فی صفحہ 5 روپے ملا کرتے۔ دھیرے دھیرے معاوضہ بڑھتا گیا۔ اُس بابت کہتے ہیں،''مجھ میں اظہار کی صلاحیت تھی۔ میں لفظ بہ لفظ ترجمہ نہیں کرتا تھا۔ شاید اِسی وجہ سے مجھے دیگر افراد پر ترجیح دی جاتی۔''

کچھ عرصے بعد تعلیمی سلسلہ ناتمام رہ جانے کا احساس ستانے لگا۔ جامعہ کراچی کے شعبۂ صحافت کا حصہ بن گئے۔ 80ء میں ڈگری ملی۔ اُن کے زمانے میں طلبا سیاست عروج پر تھی، البتہ وہ اِس سے دور رہے۔ دوستوں کے حلقے پر دائیں بازو کا غلبہ تھا، مگر اُن کا جھکاؤ ترقی پسندوں کی جانب تھا۔ ہم نصابی سرگرمیوں سے وہ جُڑے رہے۔ نیشنل کالج میں ڈیبیٹنگ سوسائٹی کے سیکریٹری رہے۔ جامعہ میں آنے کے بعد مباحثوں کا سلسلہ ترک ہوگیا۔ کہتے ہیں،''مجھے محسوس ہونے لگا تھا کہ بولے ہوئے الفاظ ضایع ہوجاتے ہیں۔ وہ ہی الفاظ کاغذ پر آجائیں، تو لکھنے والے کو آگے بڑھنے کی تحریک ملتی ہے۔ ساتھ ہی وہ آپ کے ذہنی ارتقا کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔''

جامعہ کراچی ہی کے زمانے میں بہ طور Apprentice ''نوائے وقت'' کا حصہ بن گئے۔ 800 روپے تن خواہ تھی۔ ایک برس کی کڑی محنت کے باوجود Apprentice ہی رہے۔ پھر ایک دن، بس میں نثار زبیری صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ وہ ملاقات ''اخبارجہاں'' لے گئی۔ سب ایڈیٹر کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالیں۔ 85ء تا 86ء ماہ نامہ رابطہ کے سینیر اسسٹنٹ ایڈیٹر رہے۔ کچھ عرصے پندرہ روزہ الجمہوریہ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ پھر ''اخبارجہاں'' لوٹ گئے۔ تیزی سے ترقی کے مراحل طے کیے۔ فیچر نگاری کے شعبے میں اے پی این ایس ایوارڈ اپنے نام کیا۔ یہ فیچر طوفان زدہ کیٹی بندر سے متعلق تھا۔ 90ء میں ''اخبار جہاں'' کا چارج سنبھالا۔ 96ء میں ایڈیٹر کی حیثیت سے نام چھپنے لگا۔ 2008 تک اُس عہدے رہے۔ پھر مین ہل ایڈورٹائزنگ کا حصہ بن گئے، جہاں اِس وقت مینیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اِس میدان میں خود کو مطمئن پاتے ہیں۔ ادبی سفر بھی جاری ہے۔


اوروں کے برعکس اُن کا مطالعاتی سفر بچوں کے رسائل سے شروع نہیں ہوا۔ باقاعدہ آغاز تو کرشن چندر سے ہوا، جس نے کہانی کا حسن اُن پر آشکار کیا۔ پھر بیدی اور قرۃ العین حیدر کے افسانوں کی جانب متوجہ ہوئے۔ پاپولر لٹریچر بھی مطالعہ میں رہا۔ ابن صفی سے جُڑے رہے۔ مطالعے نے لکھنے پر اکسایا۔ پہلی کہانی 77-78 میں طارق محمود میاں کے جریدے ''عقاب'' میں شایع ہوئی۔ آنے والے برسوں میں لکھا ضرور، چھپے بھی، مگر اِس عمل میں وقفے آتے رہے۔ اظہرجاوید کے پرچے ''تخلیق'' میں جب افسانے نے جگہ بنائی، تو بڑا حوصلہ ملا۔ اظہر جاوید کی تحریک پر باقاعدگی سے لکھنے لگے۔ کچھ عرصے بعد مطبوعہ کہانیاں اکٹھی کیں، اور اُنھیں ''خیال زنجیر'' کے زیر عنوان کتابی شکل دے ڈالی۔

''خیال زنجیر'' کی تقریب رونمائی، جس کا عنوان اب اُنھیں کچھ خاص پسند نہیں، کراچی پریس کلب میں ہوئی۔ قارئین کا ردعمل مثبت رہا۔ اب جم کر افسانے لکھے۔ 98ء میں ''خواب ساتھ رہنے دو'' کی اشاعت ہوئی۔ اُن کا یادگار افسانہ ''باؤ وارث کی گم شدگی'' اُسی مجموعے میں شامل تھا۔ کہتے ہیں،''اِسی افسانے کی وجہ سے مجھے پہلی بار نوٹس کیا گیا۔ شناخت ملی، اور افسانہ نگاروں کے ہجوم میں کھڑا ہونے کا موقع ملا۔'' 2003 میں تیسرا مجموعہ ''ہم کہ خود تماشائی'' کی اشاعت عمل میں آئی۔ اس مجموعے کے وسیلے اُن کا شمار کراچی کے اہم افسانہ نگاروں میں ہونے لگا۔ 2013 میں، دس برس کے وقفے کے بعد، ''ابھی کچھ دیر باقی ہے'' کی اشاعت عمل میں آئی، جس کی تقریب رونمائی آرٹس کونسل میں منعقد ہوئی۔ تیسرے اور چوتھے مجموعے کے درمیان حائل طویل وقفے کی بابت کہتے ہیں،''ہر تخلیق کار پر ایسی کیفیت آتی ہے، جب وہ سر پٹخ لیتا ہے، کوشش کرتا ہے، مگر ایک سطر نہیں لکھ پاتا۔ اس عرصے میں میری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی۔''

اخلاق احمد کہانی کاروں کے اُس قبیلے سے ہیں، جو ابلاغ کی اہمیت کا پوری طرح قائل ہے۔ بہ قول اُن کے، اِس فکر کے پیچھے ترقی پسند نظریہ یا رجعت پسند سوچ نہیں، بلکہ یہ نقطۂ نظر ہے کہ کہانی قاری کو سمجھ میں آنی چاہیے۔ ''ہر معاشرے میں ادب تخلیق کرتے ہوئے یہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ آپ کے قاری کی ذہنی سطح کیا ہے۔ جو لوگ اپنی تخلیق کا ابلاغ نہیں کروا پاتے، وہ یہ بتانے سے قاصر رہتے ہیں کہ زندگی کی بابت اُن کا نقطۂ نظر کیا ہے۔''

اِس موڑ پر سوال پیدا ہوا کہ کیا فکشن میں در آنے والی پیچیدگی، اس عہد کی پیچیدہ زندگی کا پرتو نہیں؟ کیا مارکیز، میلان کنڈیرا اور ہوزے ساراماگو نے بھی ادیب تخلیق کرتے ہوئے ابلاغ ہی کی اہمیت کو پیش نظر رکھا؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''دیکھیں، اِس برس ادب کا نوبیل انعام ایلس منرو کو ملا۔ ایلس منرو سیدھی سادہ کہانی لکھتی ہیں، جو ہر عہد کے لیے ہے۔ میں مارکیز کا عاشق ہوں، مگر جو طلسماتی حقیقت نگاری ہے، وہ ایک تحریک کی صورت آئی، اور رخصت ہوگئی۔ جس خطے میں یہ تحریک پیدا ہوئی تھی، اُسی میں اِس کے خلاف تحریک چلی۔ '' طلسماتی حقیقت نگاری کے خلاف شروع ہونے والی تحریک مارکیز جیسا بڑا ادیب پیدا کرسکی؟ اِس بابت کہنا ہے،''نکتہ یہ نہیں۔ یہاں ادیبوں کی بات نہیں ہورہی۔ ادیب تو رہے، مگر اُس تحریک کے پیروکار ختم ہوگئے۔''

اردو ادب کی ترقی و ترویج، اُن کے نزدیک براہ راست تراجم سے وابستہ ہے۔ ''بنیادی ذمے داری حکومت کی ہے، مگر حکومت کا کوئی کام سیدھا نہیں ہوتا۔ میرے سامنے کوئی واضح حل تو نہیں، البتہ ہمیں کوئی نہ کوئی راہ ضرور نکالنی ہوگی۔''

اخلاق احمد Low profile میں رہنے والے تخلیق کاروں میں سے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ نے ایک بار لکھا تھا کہ اُنھیں گم نام رہنے کا خبط ہے۔ اِس بابت سوال کیا، تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے،''تارڑ صاحب نے جو کچھ کہا، یہ ان کی محبت ہے۔ یہ عام خیال ہے کہ میں سامنے نہیں آتا، Backbencher ہوں۔ دراصل یہ خرابی مجھ میں Built-in ہے۔ شاید میںBy default ایسا ہوں۔ اب اِس کا کچھ نہیں ہوسکتا۔''

اپنی ایک ترجمہ کردہ کہانی کی ''سب رنگ'' میں اشاعت زندگی کا خوش گوار ترین لمحہ تھا۔ یہ James Thurber کے قصّے The Secret Life of Walter Mitty کا تذکرہ ہے۔ اِس کہانی نے اُن پر گہرا اثر چھوڑا تھا، اور جب اس کا ترجمہ ''سب رنگ'' میں خاص کہانی کے طور پر شایع ہوا، تو خوشی کا بھرپور تجربہ کیا۔

ملکی مسائل زیر بحث آئے، تو کہنے لگے؛ ذرا سا معاشی استحکام اور خواندگی کی شرح میں تھوڑی سی بہتری پاکستان کو کئی مسائل سے نکال سکتی ہے۔ ''ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نے لوگوں کو پڑھایا نہیں، آج ہم اِسی غفلت کی سزا بھگت رہے ہیں۔ تمام مسائل اِسی کا نتیجہ ہیں۔''

معیاری افسانے لکھے، مگر ناول کی جانب نہیں آئے۔ اب اِس بابت سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔ سیکڑوں کہانیوں کا ترجمہ کیا، مگر اُنھیں کتابی شکل نہیں دی۔ مستقبل میں ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں۔ ترجمے کے تجربات زیر بحث آئے، تو کہنے لگے؛ چیخوف کی کہانیوں کو اردو میں ڈھالتے ہوئے بہت محتاط رہنا پڑتا ہے، اِس میں کوئی تماشا نہیں کیا جاسکتا۔ ممتاز اطالوی ادیب Alberto Moravia کی تخلیقات کا ترجمہ کرتے ہوئے مسرت کے انوکھے تجربے سے گزرے۔

اردو ناول نگاروں میں وہ تارڑ کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ''آگ کا دریا'' من پسند ناول ہے۔ روسی ناول نگاروں کو جم کر پڑھا۔ بعد میں آنے والوں میں مارکیز نے گرویدہ بنایا۔ پاپولر رائٹرز میں اسٹیفن کنگ کا نام لیتے ہیں۔ اردو افسانہ نگاروں میں بیدی اور منٹو نے گہرا اثر چھوڑا۔ مغربی کہانی کاروں میں ایلس منرو کا تذکرہ ضروری خیال کرتے ہیں۔ شعرا میں فیض اور مصطفیٰ زیدی کو سراہتے ہیں۔

پینٹ شرٹ میں وہ خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ معتدل موسم پسند ہے۔ کھانے میں کوئی خاص انتخاب نہیں۔ فلموں میں ''سلسلہ'' اور ''کبھی کبھی'' اچھی لگیں۔ نصیر الدین شاہ کی آرٹ فلمیں بھی پسند ہیں۔ گائیکی میں مہدی حسن کے قائل ہیں۔ 84ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹی، دو بیٹوں سے نوازا۔ مستقبل میں تخلیقی سرگرمیوں کو ترتیب دینے، اپنے کام کو انگریزی میں ڈھالنے کی خواہش ہے۔ والد کے انتقال سے زندگی کی دُکھ بھری یادیں وابستہ ہیں۔
Load Next Story