زندگی میں سارے ذائقے چکھے مگر مطالعہ جیسا لطف کہیں نہیں ملا ڈاکٹر اشفاق احمد ورک
اردو نثر میں’’آب حیات‘‘ انیسویں جبکہ ’’آب گم‘‘ بیسویں صدی کی نمائندہ کتاب ہے، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک
لاہور:
ان کے خاندان میں پڑھائی لکھائی کی ریت نہیں تھی۔ وہ بھرے پرے خاندان کے پہلے فرد تھے جنھوں نے پڑھنے کے لیے کالج اور یونیورسٹی کا منہ دیکھا۔ اور پھر یہ ماحول اس قدر راس آیا کہ عمر بھر کے لیے اسی کے ہو رہے۔
سولہ سترہ برس کالج کی سطح پر تدریس سے منسلک رہے، اور اب گذشتہ آٹھ برس سے ایف سی کالج یونیورسٹی میں اردو کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ وہ ہمارے ہاں اساتذہ کی اس باقیات الصالحات میں سے ہیں، جو اپنے ذوق و شوق سے اس پیغمبری پیشے کے طرف آئے، نہ کہ ان حضرات کی مثل جو دنیا جہاں کے شعبوں میں ناکامی کا داغ لے کر تدریس کے پیشے کو داغدار کرنے چل پڑتے ہیں۔ انھوں نے استاد بننے کا تہیہ کالج کے زمانے میں کیا اور ادیب بننے کی خواہش نے بھی اسی دور میں انگڑائی لی۔ استاد اور لکھاری بننے کو جس چیز نے مہمیز دی، وہ پڑھنے کا مرض ہے، جس میں بچپن میں مبتلا ہوئے، اور آخری خبریں آنے تک اس میں بہتری کے آثار نظر نہیں آئے۔ کالج میں اردو مزاح نویسی میں شغف بڑھا۔ شفیق الرحمان، ابن انشا اور کرنل محمد خان کو پڑھا اور گرویدہ ہو گئے۔
ان سب سے بڑھ کر مشتاق احمد یوسفی نے متاثر کیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں آنے سے قبل وہ اس بے بدل نثرنگار کی تینوں کتابوں (''آبِ گم'' اس وقت شائع نہ ہوئی تھی) کو گھول کر پی چکے تھے، اپنے مطالعہ کے زور پر ''بھگوڑا'' کے عنوان سے خاکہ سپرد قلم کیا، جس میں مشتاق احمد یوسفی پر چونتیس الزامات عائد کرکے ادبی وڈیروں سے ان کے لیے سزا تجویز کرنے کو کہا گیا تھا۔ اس خاکے کے بارے میں یوسفی صاحب نے ان کے نام خط میں یوں رائے دی ''مضمون دلچسپ ہے۔ آپ نے ندرت پیدا کی ہے۔ فرد جرم دراصل مدحت مسلسل ہے۔ تعریف میں آپ نے خوش عقیدگی اور غلو سے کام لیا ہے۔ اگر یہ کہوں کہ اچھا نہ لگا تو جھوٹ ہو گا۔'' اشفاق احمد ورک کے لکھنے کا سلسلہ تو کالج کے زمانے سے شروع ہوا مگر اصل جوہر پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں کھلے۔ ادھر منعقدہ تقریب میں مضمون ''چلتی کا نام'' پڑھ کا سنایا تو اساتذہ اور طالب علموں سے ملنے والی داد نے نہال کر دیا۔ سجاد باقر رضوی نے خوش ہوکر چائے پلائی۔
ایک اور مضمون لکھنے پر اکسایا۔ فرمانبردار شاگرد نے تعمیل ارشاد کی۔ ایک چھوڑ دو مضمون لکھ ڈالے، جنھیں یونیورسٹی میں سنایا تو پہلے سے بڑھ کر داد حصے میں آئی۔ حفیظ احسن نے مضامین ''سیارہ'' میں چھاپ دیے تو اور بھی دل جوئی ہوئی۔ مضامین کے ساتھ خاکے بھی لکھے۔ پہلا خاکہ دوست ناصراقبال کا ''پریار ہے ہمارا'' کے عنوان سے لکھا۔ اساتذہ میں رفیع الدین ہاشمی کو ''بھلامانس پروفیسر'' لکھ کر تختۂ مشق بنایا۔ ایک بار خامہ چل پڑا تو پھر اوپر تلے کئی تحریریں وجود میں آگئیں اور ہوتے ہوتے، اس قدر مواد جمع ہوگیا کہ وہ صاحب تصنیف ہونے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے۔ فلیپ لکھوانے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کی تو مزاح میں اپنے عشق اولین مشتاق احمد یوسفی سے رابطہ کیا، جنھوں نے کرم فرمائی کی۔ اس ضمن میں ممتازمفتی سے بالواسطہ رابطہ ہوا جو جلد بلاواسطہ صورت اختیار کر گیا۔ اشفاق احمد ورک کا طرز تحریر انھیں ایسا بھایا کہ جب تک وہ زندہ رہے، ان سے تعلق خاطر رہا، جس کی شہادت حال ہی میں ''مباحث'' میں ان کے نام چھپے ممتاز مفتی کے خطوط سے بھی ہوتی ہے۔
مفتی جی نے ان کے نام پہلے خط میں اس کیفیت کا ذکر کیا جو ان کی دوچار تحریریں پڑھ کر اس بزرگ ادیب پر طاری ہوئی ''میں نے انھیں پڑھا اور میرے دل میں تمھارے لیے ایک کنسرن پیدا ہو گئی۔ یہ کنسرن بڑی لعنتی چیز ہے۔ خوار کرتی ہے دونوں کو۔ اسی وجہ سے میں تمھیں چند ایک مشورے دینے پر مجبور ہوں۔ تم مانو نہ مانو۔ غورکرو نہ کرو۔ جانو نہ جانو اس سے مجھے کوئی واسطہ نہیں۔'' خیر، 1992ء میں ''قلمی دشمنی'' سامنے آگئی۔ اس کی تقریب رونمائی کے لیے جوکھکھیڑ انھوں نے اٹھائی، وہ اپنی جگہ ایک پرلطف قصہ ہے، جس کا احوال جاننے کے لیے آپ کو ممتازمفتی کے ان کے نام چھپنے والے خطوط کے حواشی دیکھنا پڑیں گے۔ مزاح اور خاکہ نویسی ان کے ادبی سفر میں پہلو بہ پہلو چلے آرہے ہیں۔ ڈاکٹریٹ کے لیے بھی انھوں نے ''اردو نثر میں طنز و مزاح'' کا موضوع چنا، جو ان کے مزاج سے فطری مناسبت رکھتا تھا۔
اس ضمن میں مختارمسعود کا یہ فرمودہ دہراتے ہیں: ''جہاں شوق قلبی اور فرض منصبی کی حدیں مل جائیں، وہ مقام خوش قسمتی کہلاتا ہے۔'' ان کے تحقیقی کام کو مقالوں کے سخت گیر نقاد مشفق خواجہ نے بھی پسند کیا۔ معروف نقاد ڈاکٹر وزیر آغا کے ڈاکٹریٹ کا موضوع ''اردو ادب میں طنز و مزاح'' تھا۔ اس مقالے کے بارے میں رائے مانگی تو بولے: ''ہماری تنقید ہر فن پارے کو مغربی عینک سے دیکھتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی ایسا کیا۔ مغربی مزاح نگاری کے معیار پر اردو مزاح کو پرکھا۔ پیمانے وہیں سے لیے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اپنے پیمانے بنانے چاہئیں۔ دوسرے انھوں بعد میں جو ضمیمے لکھے، اس میں گروپ بازی بولتی ہے۔ میں نے اپنے مقالے میں نئی مثالیں پیش کی ہیں، اور کسی گروپ بازی کے تحت لوگوں کا انتخاب نہیں کیا۔ جعفر زٹلی سے شروع کر کے اپنے زمانے تک کے لوگوں کا جائزہ لیا۔ اردو مزاح پر کتابوں میں' ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی کتاب ''اردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی اور سماجی پس منظر'' کا قائل ہوں۔''
ایم اے میں محمد خالد اخترپرمقالہ رقم کرنے والے اشفاق احمد ورک نے بتایا: ''محمد خالد اختربڑے ورسٹائل لکھنے والے تھے،انھوں نے نثرکی تقریباً ہرصنف میں لکھا۔مزاح، افسانہ، ناول،سفرنامے،پیروڈی،ترجمے اور تبصرے ان کے قلم سے نکلے۔محمد خالد اخترکو نظراندازکیا گیا، لیکن اب کچھ عرصے سے ان کی طرف توجہ ہوئی ہے۔ان کا تقریباً سارا کام اب دستیاب ہے۔ان کا مغربی ادب کا مطالعہ بہت تھا، جس کے اثرات ان کی تحریروں میں بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ شہرت کے پیچھے وہ نہیں بھاگے۔ جودل میں بات آئی اسے لکھا۔ فرمائش پرقلم کو جنبش دینے سے گریزکیا۔ ''مکاتیب خضر''میں کمال کا طنزہے۔ ہمارے ہاں مزاحیہ ناول نہ ہونے کے برابر ہیں مگر انھوں نے ''چاکیواڑہ میں وصال''جیسا باکمال ناول لکھا، پیروڈی بہت عمدہ لکھی۔''بیس سوگیارہ '' بہت اچھی فینٹاسی ہے۔''اردو مزاح میں مشتاق احمد یوسفی اور ابن انشاء کو فیورٹ قراردیتے ہیں، ان دونوں میں سے اگر کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو مشتاق احمد یوسفی کو ترجیح دیں گے۔وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ تحریرکوبہت زیادہ بنانے سنوارنے سے یوسفی کے ہاں ابن انشاء جیسی بے ساختگی نہیںملتی۔ان کے بقول''خیال لفظوں کی صورت میں نہیں اترتا۔اس کو لفظوں کی صورت توادیب نے دینی ہوتی ہے۔
یوسفی صاحب اگرمحنت کرتے ہیں تو اس کا صلہ تحریرمیں نظربھی آتا ہے۔ابن انشاء کی ایک ڈائمنشن ہے ،لیکن اگرآپ ''آب گم''کوآپ پڑھ کر دیکھیں توکئی رخ ہیں۔اس میں خاکے بھی ہیں۔وہ جگ بیتی بھی ہے۔آپ بیتی بھی ہے۔ ناول بھی ہے۔ بات کہنے اورکرنے کے متنوع اسلوب اس تحریر میں نظرآتے ہیں۔ میرے خیال میںاردو نثر میں مولانا محمد حسین آزادکی ''آب حیات''انیسویں صدی کی نمائندہ کتاب ہے تو یوسفی کی ''آبِ گم'' بیسویں صدی کی نمائندہ کتاب ہے۔'' کنہیالال کپور، فکر تونسوی، دلیپ سنگھ اور یوسف ناظم ان کے خیال میں ایسے مزاح لکھنے والے ہیں، جن کو وہ توجہ نہیں ملی،جس کے وہ مستحق تھے۔ اردو میں مزاحیہ ناول نہ ہونے کی کمی کا رونا وہ روتے ہیں۔مزاحیہ افسانے توانھوں نے لکھے ہیں تو کیا خود انھیں اس کمی کو دورکرنے کا خیال نہیں آیا۔اس باب میں کہتے ہیں۔''جی لکھا جاسکتا ہے۔ممکن ہے ، مستقبل میں ایسا کرسکوں۔ مزاحیہ ناول کا میدان صاف ہے، حالانکہ ہمارا ناول جہاں سے شروع ہوا، وہاں تو مزاح کا چلن تھا، جیسے فسانہ آزاد ہے۔ ڈپٹی نذیراحمد کے ہاں بھی مزاحیہ کردار مل جاتے ہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ ناول ریاضت مانگتا ہے۔ زندگی کا وقت مانگتا ہے اوراگرآپ نے مزاح بھی لکھنا ہے تو ذمہ داری دوہری ہوجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس بھاری پتھر کو لوگ چوم کرچھوڑ دیتے ہیں۔اچھا مزاحیہ ناول تخلیق کارکو بہت اونچا لے جاسکتا ہے۔''اردوخاکہ نویسی ان کا خاص میدان ہے۔''خاکہ نگری'' اور''خاکہ مستی'' خاکوں کے مجموعے ہیں۔جس طرح مزاح لکھا تو اس کی تنقید لکھی، اسی طرح خاکہ لکھا بھی اور اس فن کو پرکھا بھی۔ مولانا محمد حسین آزاد پران کا مضمون''آزاد اردو کا پہلا خاکہ نگار'' تین برس قبل شائع ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلا گھڑا گھڑایا یا باقاعدہ خاکہ تو ڈپٹی نذیر احمد کا ہے، جس کو مرزا فرحت اللہ بیگ نے لکھا، لیکن ان کے لیے جن دوا صحاب نے راستہ ہموار کیا، وہ غالب اور آزاد ہیں۔انھوں نے ''خودستائیاں''کے نام سے ان خاکوں کو مرتب کیا ہے، جس میں وہ خاکے جمع کردیے گئے ہیں، جن میں تخلیق کاروں نے اپنی شخصیت کوخاکے کا موضوع بنایا۔اس کتاب میں ان کا مرتب کردہ غالب کا خودنوشت خاکہ بھی شامل ہے۔
عظیم شاعرکے اپنے جملوں سے تیار کردہ۔وہ سمجھتے ہیں کہ کسی شخصیت کے بارے میں شگفتہ انداز میں اظہار خیال خاکہ ہے، اوراس اعتبار سے دیکھا توآزاد نے'' آب حیات'' میں شعرا کا جو تذکرہ لکھا ہے، خاص طور سے میر، آتش اور انشا کا، وہ ہمیں خاکے کے قریب لے جاتا ہے۔وہ اس بات پرافسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ لوگوں نے خاکے کے حدیں شخصی اورسوانحی مضامین سے ملادی ہیں۔اشفاق احمد ورک کو خاکہ نگاری میں سب سے زیادہ منٹو اور ممتازمفتی نے متاثر کیا۔ ''منٹو اور مزاح ''کے نام سے کتاب ترتیب دینے والے اشفاق احمد ورک کا کہنا ہے ''منٹو میں مزاح لکھنے کاجوہر موجود تھا، ان کے حالات انھیں تلخی اور طنز کی طرف لے گئے۔انکل سام کے نام خطوط میں مزاح کا معیاربھی عمدہ ہے اور طنزبھی اعلیٰ درجے کا ہے،اورسیاسی اعتبار سے ان کا لکھا، آج بھی حسب حال ہے۔'' ان کے خیال میں کامیاب خاکہ لکھنے کے واسطے یہ ہرگزضروری نہیں کہ شخصیت مشہورومعروف ہو، بلکہ یہ تو طرز تحریرہے،جوخاکہ کو کامیاب بناتا ہے۔ ''خوشبو والی شاعرہ''کے عنوان سے پروین شاکرکا خاکہ لکھا تو انور مسعود نے خط میں لکھا''یاربہت تیز ہوگیا۔''البتہ ممتازمفتی کا موقف تھاکہ بالکل ٹھیک لکھا، کہ خاکہ کوئی تیمارداری قسم کی چیزتھوڑی ہوتی ہے۔اس بات کو بڑی خوشی سے بتاتے ہیں کہ جب ممتازمفتی نے پروین شاکرکا خاکہ لکھا توان کے کئی جملوں کواس میں نقل کیا۔
مشفق خواجہ کی علمی شخصیت کا بنیادی حوالہ توان کا تحقیقی وتنقیدی کام ہے لیکن انھیں شہرت دلانے میں ان کے پرلطف کالموں کا بڑا کرداررہا۔ان کے بقول''مشفق خواجہ میں مزاح کا بہت زیادہ ٹیلنٹ تھا۔انھوں نے ادبی صورت حال کی بڑی سنجیدگی سے سرجری کی۔ جیسا کڑوا سچ انھوں نے لکھا، ان جیسا بے غرض اور دنیا کو بے نیازی سے دیکھنے والا ہی لکھ سکتاتھا، ہم تو مصلحتوں کے مارے لوگ ہیں، جن کو اس سے بھی کام ہے اور اس سے بھی ہمیں ملنا ہے۔
لوگوں نے غلط طور پرسمجھ لیا کہ مزاح غیرسنجیدہ اور مذاقیہ چیزہے۔جس نے مزاح کو غیرسنجیدگی سے لیا، مزاح نے بھی اسے غیرسنجیدہ لیا، اور جس کسی نے مشفق خواجہ کی طرح اسے سنجیدہ کام سمجھ کر کیا، اس کے کام کو سراہا بھی گیا۔''ان کے نزدیک زندگی کو لطافت کے ساتھ دیکھنا مزاح ہے۔ طنزاور مزاح کے فرق کی وضاحت یوں کرتے ہیں'' مزاح اکیلا بھی ہو تو مزہ دیتا ہے جبکہ طنزمجبور ہے مزاح کو ساتھ ملانے کے لیے۔مزاح کی آمیزیش کے بغیرطنز،طعنہ اور گالی بن جاتا ہے لیکن مزاح کے ساتھ کڑوی سے کڑوی بات بھی کہی جاسکتی ہے۔ مزاح کو طنز کے سہارے کی ضرورت نہیں، مثلاً شفیق الرحمٰن اور پطرس بخاری کی تحریروں کو لیجئے۔ بالکل تفریحی تحریریں ہیں، آپ مزے لے کر پڑھتے جائیں۔''مزاحیہ شاعری کے بارے میں ان کی دوٹوک رائے ہے''مزاحیہ شاعری کے ساتھ ٹی وی سے ملنے والا چیک ہٹادیا جائے تو شاید اس کو کچھ سکون مل جائے۔اس دائمی مریض کا بڑا مرض یہ چیک ہے۔
مزاح کے ساتھ کمرشل ازم چل پڑا۔دو شعرلکھ کرٹی وی مشاعرہ مل جاتاہے۔مزاحیہ شاعری اکبرسے شروع ہو کر انور مسعودپرختم ہوگئی۔کچھ اور بھی اچھے شاعر ہیں، عنایت علی خان نے گوشہ نشینی کی زندگی گزاری۔لکھا خوب۔ انعام الحق کو میں شگفتہ شاعری کی ریل کا آخری ڈبہ قراردیتا ہوں۔اس کے بعد تو بکرا اور بیگم کونکال دیں تومزاحیہ شاعری ختم ہوجاتی ہے۔'' ان کے بقول ''میں اگرادب میں کچھ ہوں،تواول وآخرمزاح نگارہوں اور قیامت کے روزمزاح نگاروں میں اٹھایا جانا ہی پسند کروں گا۔''وہ اس زمانے کوحسرت سے یاد کرتے ہیں، جب ادب اور صحافت کے راستے جدا نہ تھے۔چراغ حسن حسرت ،ابن انشا، انتظارحسین ،نصراللہ خان عزیزاور عطاء الحق قاسمی کواردو کے بہترین کالم نویسوں میں شمارکرتے ہیں۔ان کے خیال میں ادبی کالم مشفق خواجہ جیسا کسی اورنے نہیں لکھا۔ان کی دانست میں کالم نویسی کی صنف کے باعث ادب اور صحافت کا تعلق برقرارہے۔اشفاق احمد ورک نے خود بھی کئی اردو اخباروں میں کالم لکھے۔وہ اسے تیزآنچ پرپکوان پکانے جیسا عمل سمجھتے ہیں۔
مزاح سے ہٹ کرانھیں ادب کی جس صنف سے ازحد لگاؤہے، اور وہ اسے اپنی کمزوری قراردیتے ہیں، وہ اردوغزل ہے۔ اس صنف میں دلچسپی نے انھیں جدید اردو غزل کا کڑا انتخاب ''غزل آباد'' کرنے پراکسایا ، جس کے لیے انھوں نے الگ ڈھب سے کام کیااور80ء کی دہائی میں، اور اس کے بعد ابھرنے والے شعراکومنتخب کیا۔ان کا کلام منصفین کے سپردکیا، اور پھر سب سے بیس بیس شعرا کی فہرستیں طلب کیں جو جان جوکھوں کا کام تھا، مگر یہ کرگزرے اور اس کی بنیاد پرشاعروں کی درجہ بندی ہوئی۔منصفین میں ظفر اقبال، ڈاکٹرخورشید رضوی اور امجد اسلام امجد جیسے معروف شاعرشامل تھے۔شاہین عباس سے شروع ہونے والا یہ انتخاب افضال نوید پرختم ہوتا ہے۔
اپنی اشاعت کے چھ برس بعد بھی یہ انتخاب موضوع گفتگو ہے۔مایہ نازادیب شمس الرحمن فاروقی نے گذشتہ ''دنیا زاد ''میں اس پرمضمون لکھا تو اب اس کے تازہ شمارے میں جواب آں غزل کے طورپر اس مضمون پرردعمل سامنے آگیا ہے۔ 1963ء میں شیخوپورہ کے گاؤںحنیف کوٹ (یہ نام ان کے دادا کے نام پررکھا گیا) میں جٹ زمیندارگھرانے میں آنکھ کھولنے والے اشفاق احمد ورک کے سرسے دوبرس کی عمر میں والد نذیراحمد ورک کا سایہ اٹھ گیا،جس کے بعد والدہ نے بڑی محبت اور توجہ سے پرورش کی۔ اشفاق احمد ورک کے چار بچے ہیں۔ تین بیٹیاں، ایک بیٹا۔زندگی سے مطمئن ہیں۔ مطالعہ میں منہمک رہنا پسندیدہ عمل ہے۔کہتے ہیں، زندگی میں سارے ذائقے چکھے مگرکتاب جیسا لطف کہیں نہیں ملا۔
ان کے خاندان میں پڑھائی لکھائی کی ریت نہیں تھی۔ وہ بھرے پرے خاندان کے پہلے فرد تھے جنھوں نے پڑھنے کے لیے کالج اور یونیورسٹی کا منہ دیکھا۔ اور پھر یہ ماحول اس قدر راس آیا کہ عمر بھر کے لیے اسی کے ہو رہے۔
سولہ سترہ برس کالج کی سطح پر تدریس سے منسلک رہے، اور اب گذشتہ آٹھ برس سے ایف سی کالج یونیورسٹی میں اردو کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ وہ ہمارے ہاں اساتذہ کی اس باقیات الصالحات میں سے ہیں، جو اپنے ذوق و شوق سے اس پیغمبری پیشے کے طرف آئے، نہ کہ ان حضرات کی مثل جو دنیا جہاں کے شعبوں میں ناکامی کا داغ لے کر تدریس کے پیشے کو داغدار کرنے چل پڑتے ہیں۔ انھوں نے استاد بننے کا تہیہ کالج کے زمانے میں کیا اور ادیب بننے کی خواہش نے بھی اسی دور میں انگڑائی لی۔ استاد اور لکھاری بننے کو جس چیز نے مہمیز دی، وہ پڑھنے کا مرض ہے، جس میں بچپن میں مبتلا ہوئے، اور آخری خبریں آنے تک اس میں بہتری کے آثار نظر نہیں آئے۔ کالج میں اردو مزاح نویسی میں شغف بڑھا۔ شفیق الرحمان، ابن انشا اور کرنل محمد خان کو پڑھا اور گرویدہ ہو گئے۔
ان سب سے بڑھ کر مشتاق احمد یوسفی نے متاثر کیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں آنے سے قبل وہ اس بے بدل نثرنگار کی تینوں کتابوں (''آبِ گم'' اس وقت شائع نہ ہوئی تھی) کو گھول کر پی چکے تھے، اپنے مطالعہ کے زور پر ''بھگوڑا'' کے عنوان سے خاکہ سپرد قلم کیا، جس میں مشتاق احمد یوسفی پر چونتیس الزامات عائد کرکے ادبی وڈیروں سے ان کے لیے سزا تجویز کرنے کو کہا گیا تھا۔ اس خاکے کے بارے میں یوسفی صاحب نے ان کے نام خط میں یوں رائے دی ''مضمون دلچسپ ہے۔ آپ نے ندرت پیدا کی ہے۔ فرد جرم دراصل مدحت مسلسل ہے۔ تعریف میں آپ نے خوش عقیدگی اور غلو سے کام لیا ہے۔ اگر یہ کہوں کہ اچھا نہ لگا تو جھوٹ ہو گا۔'' اشفاق احمد ورک کے لکھنے کا سلسلہ تو کالج کے زمانے سے شروع ہوا مگر اصل جوہر پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں کھلے۔ ادھر منعقدہ تقریب میں مضمون ''چلتی کا نام'' پڑھ کا سنایا تو اساتذہ اور طالب علموں سے ملنے والی داد نے نہال کر دیا۔ سجاد باقر رضوی نے خوش ہوکر چائے پلائی۔
ایک اور مضمون لکھنے پر اکسایا۔ فرمانبردار شاگرد نے تعمیل ارشاد کی۔ ایک چھوڑ دو مضمون لکھ ڈالے، جنھیں یونیورسٹی میں سنایا تو پہلے سے بڑھ کر داد حصے میں آئی۔ حفیظ احسن نے مضامین ''سیارہ'' میں چھاپ دیے تو اور بھی دل جوئی ہوئی۔ مضامین کے ساتھ خاکے بھی لکھے۔ پہلا خاکہ دوست ناصراقبال کا ''پریار ہے ہمارا'' کے عنوان سے لکھا۔ اساتذہ میں رفیع الدین ہاشمی کو ''بھلامانس پروفیسر'' لکھ کر تختۂ مشق بنایا۔ ایک بار خامہ چل پڑا تو پھر اوپر تلے کئی تحریریں وجود میں آگئیں اور ہوتے ہوتے، اس قدر مواد جمع ہوگیا کہ وہ صاحب تصنیف ہونے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے۔ فلیپ لکھوانے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کی تو مزاح میں اپنے عشق اولین مشتاق احمد یوسفی سے رابطہ کیا، جنھوں نے کرم فرمائی کی۔ اس ضمن میں ممتازمفتی سے بالواسطہ رابطہ ہوا جو جلد بلاواسطہ صورت اختیار کر گیا۔ اشفاق احمد ورک کا طرز تحریر انھیں ایسا بھایا کہ جب تک وہ زندہ رہے، ان سے تعلق خاطر رہا، جس کی شہادت حال ہی میں ''مباحث'' میں ان کے نام چھپے ممتاز مفتی کے خطوط سے بھی ہوتی ہے۔
مفتی جی نے ان کے نام پہلے خط میں اس کیفیت کا ذکر کیا جو ان کی دوچار تحریریں پڑھ کر اس بزرگ ادیب پر طاری ہوئی ''میں نے انھیں پڑھا اور میرے دل میں تمھارے لیے ایک کنسرن پیدا ہو گئی۔ یہ کنسرن بڑی لعنتی چیز ہے۔ خوار کرتی ہے دونوں کو۔ اسی وجہ سے میں تمھیں چند ایک مشورے دینے پر مجبور ہوں۔ تم مانو نہ مانو۔ غورکرو نہ کرو۔ جانو نہ جانو اس سے مجھے کوئی واسطہ نہیں۔'' خیر، 1992ء میں ''قلمی دشمنی'' سامنے آگئی۔ اس کی تقریب رونمائی کے لیے جوکھکھیڑ انھوں نے اٹھائی، وہ اپنی جگہ ایک پرلطف قصہ ہے، جس کا احوال جاننے کے لیے آپ کو ممتازمفتی کے ان کے نام چھپنے والے خطوط کے حواشی دیکھنا پڑیں گے۔ مزاح اور خاکہ نویسی ان کے ادبی سفر میں پہلو بہ پہلو چلے آرہے ہیں۔ ڈاکٹریٹ کے لیے بھی انھوں نے ''اردو نثر میں طنز و مزاح'' کا موضوع چنا، جو ان کے مزاج سے فطری مناسبت رکھتا تھا۔
اس ضمن میں مختارمسعود کا یہ فرمودہ دہراتے ہیں: ''جہاں شوق قلبی اور فرض منصبی کی حدیں مل جائیں، وہ مقام خوش قسمتی کہلاتا ہے۔'' ان کے تحقیقی کام کو مقالوں کے سخت گیر نقاد مشفق خواجہ نے بھی پسند کیا۔ معروف نقاد ڈاکٹر وزیر آغا کے ڈاکٹریٹ کا موضوع ''اردو ادب میں طنز و مزاح'' تھا۔ اس مقالے کے بارے میں رائے مانگی تو بولے: ''ہماری تنقید ہر فن پارے کو مغربی عینک سے دیکھتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی ایسا کیا۔ مغربی مزاح نگاری کے معیار پر اردو مزاح کو پرکھا۔ پیمانے وہیں سے لیے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اپنے پیمانے بنانے چاہئیں۔ دوسرے انھوں بعد میں جو ضمیمے لکھے، اس میں گروپ بازی بولتی ہے۔ میں نے اپنے مقالے میں نئی مثالیں پیش کی ہیں، اور کسی گروپ بازی کے تحت لوگوں کا انتخاب نہیں کیا۔ جعفر زٹلی سے شروع کر کے اپنے زمانے تک کے لوگوں کا جائزہ لیا۔ اردو مزاح پر کتابوں میں' ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی کتاب ''اردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی اور سماجی پس منظر'' کا قائل ہوں۔''
ایم اے میں محمد خالد اخترپرمقالہ رقم کرنے والے اشفاق احمد ورک نے بتایا: ''محمد خالد اختربڑے ورسٹائل لکھنے والے تھے،انھوں نے نثرکی تقریباً ہرصنف میں لکھا۔مزاح، افسانہ، ناول،سفرنامے،پیروڈی،ترجمے اور تبصرے ان کے قلم سے نکلے۔محمد خالد اخترکو نظراندازکیا گیا، لیکن اب کچھ عرصے سے ان کی طرف توجہ ہوئی ہے۔ان کا تقریباً سارا کام اب دستیاب ہے۔ان کا مغربی ادب کا مطالعہ بہت تھا، جس کے اثرات ان کی تحریروں میں بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ شہرت کے پیچھے وہ نہیں بھاگے۔ جودل میں بات آئی اسے لکھا۔ فرمائش پرقلم کو جنبش دینے سے گریزکیا۔ ''مکاتیب خضر''میں کمال کا طنزہے۔ ہمارے ہاں مزاحیہ ناول نہ ہونے کے برابر ہیں مگر انھوں نے ''چاکیواڑہ میں وصال''جیسا باکمال ناول لکھا، پیروڈی بہت عمدہ لکھی۔''بیس سوگیارہ '' بہت اچھی فینٹاسی ہے۔''اردو مزاح میں مشتاق احمد یوسفی اور ابن انشاء کو فیورٹ قراردیتے ہیں، ان دونوں میں سے اگر کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو مشتاق احمد یوسفی کو ترجیح دیں گے۔وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ تحریرکوبہت زیادہ بنانے سنوارنے سے یوسفی کے ہاں ابن انشاء جیسی بے ساختگی نہیںملتی۔ان کے بقول''خیال لفظوں کی صورت میں نہیں اترتا۔اس کو لفظوں کی صورت توادیب نے دینی ہوتی ہے۔
یوسفی صاحب اگرمحنت کرتے ہیں تو اس کا صلہ تحریرمیں نظربھی آتا ہے۔ابن انشاء کی ایک ڈائمنشن ہے ،لیکن اگرآپ ''آب گم''کوآپ پڑھ کر دیکھیں توکئی رخ ہیں۔اس میں خاکے بھی ہیں۔وہ جگ بیتی بھی ہے۔آپ بیتی بھی ہے۔ ناول بھی ہے۔ بات کہنے اورکرنے کے متنوع اسلوب اس تحریر میں نظرآتے ہیں۔ میرے خیال میںاردو نثر میں مولانا محمد حسین آزادکی ''آب حیات''انیسویں صدی کی نمائندہ کتاب ہے تو یوسفی کی ''آبِ گم'' بیسویں صدی کی نمائندہ کتاب ہے۔'' کنہیالال کپور، فکر تونسوی، دلیپ سنگھ اور یوسف ناظم ان کے خیال میں ایسے مزاح لکھنے والے ہیں، جن کو وہ توجہ نہیں ملی،جس کے وہ مستحق تھے۔ اردو میں مزاحیہ ناول نہ ہونے کی کمی کا رونا وہ روتے ہیں۔مزاحیہ افسانے توانھوں نے لکھے ہیں تو کیا خود انھیں اس کمی کو دورکرنے کا خیال نہیں آیا۔اس باب میں کہتے ہیں۔''جی لکھا جاسکتا ہے۔ممکن ہے ، مستقبل میں ایسا کرسکوں۔ مزاحیہ ناول کا میدان صاف ہے، حالانکہ ہمارا ناول جہاں سے شروع ہوا، وہاں تو مزاح کا چلن تھا، جیسے فسانہ آزاد ہے۔ ڈپٹی نذیراحمد کے ہاں بھی مزاحیہ کردار مل جاتے ہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ ناول ریاضت مانگتا ہے۔ زندگی کا وقت مانگتا ہے اوراگرآپ نے مزاح بھی لکھنا ہے تو ذمہ داری دوہری ہوجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس بھاری پتھر کو لوگ چوم کرچھوڑ دیتے ہیں۔اچھا مزاحیہ ناول تخلیق کارکو بہت اونچا لے جاسکتا ہے۔''اردوخاکہ نویسی ان کا خاص میدان ہے۔''خاکہ نگری'' اور''خاکہ مستی'' خاکوں کے مجموعے ہیں۔جس طرح مزاح لکھا تو اس کی تنقید لکھی، اسی طرح خاکہ لکھا بھی اور اس فن کو پرکھا بھی۔ مولانا محمد حسین آزاد پران کا مضمون''آزاد اردو کا پہلا خاکہ نگار'' تین برس قبل شائع ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلا گھڑا گھڑایا یا باقاعدہ خاکہ تو ڈپٹی نذیر احمد کا ہے، جس کو مرزا فرحت اللہ بیگ نے لکھا، لیکن ان کے لیے جن دوا صحاب نے راستہ ہموار کیا، وہ غالب اور آزاد ہیں۔انھوں نے ''خودستائیاں''کے نام سے ان خاکوں کو مرتب کیا ہے، جس میں وہ خاکے جمع کردیے گئے ہیں، جن میں تخلیق کاروں نے اپنی شخصیت کوخاکے کا موضوع بنایا۔اس کتاب میں ان کا مرتب کردہ غالب کا خودنوشت خاکہ بھی شامل ہے۔
عظیم شاعرکے اپنے جملوں سے تیار کردہ۔وہ سمجھتے ہیں کہ کسی شخصیت کے بارے میں شگفتہ انداز میں اظہار خیال خاکہ ہے، اوراس اعتبار سے دیکھا توآزاد نے'' آب حیات'' میں شعرا کا جو تذکرہ لکھا ہے، خاص طور سے میر، آتش اور انشا کا، وہ ہمیں خاکے کے قریب لے جاتا ہے۔وہ اس بات پرافسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ لوگوں نے خاکے کے حدیں شخصی اورسوانحی مضامین سے ملادی ہیں۔اشفاق احمد ورک کو خاکہ نگاری میں سب سے زیادہ منٹو اور ممتازمفتی نے متاثر کیا۔ ''منٹو اور مزاح ''کے نام سے کتاب ترتیب دینے والے اشفاق احمد ورک کا کہنا ہے ''منٹو میں مزاح لکھنے کاجوہر موجود تھا، ان کے حالات انھیں تلخی اور طنز کی طرف لے گئے۔انکل سام کے نام خطوط میں مزاح کا معیاربھی عمدہ ہے اور طنزبھی اعلیٰ درجے کا ہے،اورسیاسی اعتبار سے ان کا لکھا، آج بھی حسب حال ہے۔'' ان کے خیال میں کامیاب خاکہ لکھنے کے واسطے یہ ہرگزضروری نہیں کہ شخصیت مشہورومعروف ہو، بلکہ یہ تو طرز تحریرہے،جوخاکہ کو کامیاب بناتا ہے۔ ''خوشبو والی شاعرہ''کے عنوان سے پروین شاکرکا خاکہ لکھا تو انور مسعود نے خط میں لکھا''یاربہت تیز ہوگیا۔''البتہ ممتازمفتی کا موقف تھاکہ بالکل ٹھیک لکھا، کہ خاکہ کوئی تیمارداری قسم کی چیزتھوڑی ہوتی ہے۔اس بات کو بڑی خوشی سے بتاتے ہیں کہ جب ممتازمفتی نے پروین شاکرکا خاکہ لکھا توان کے کئی جملوں کواس میں نقل کیا۔
مشفق خواجہ کی علمی شخصیت کا بنیادی حوالہ توان کا تحقیقی وتنقیدی کام ہے لیکن انھیں شہرت دلانے میں ان کے پرلطف کالموں کا بڑا کرداررہا۔ان کے بقول''مشفق خواجہ میں مزاح کا بہت زیادہ ٹیلنٹ تھا۔انھوں نے ادبی صورت حال کی بڑی سنجیدگی سے سرجری کی۔ جیسا کڑوا سچ انھوں نے لکھا، ان جیسا بے غرض اور دنیا کو بے نیازی سے دیکھنے والا ہی لکھ سکتاتھا، ہم تو مصلحتوں کے مارے لوگ ہیں، جن کو اس سے بھی کام ہے اور اس سے بھی ہمیں ملنا ہے۔
لوگوں نے غلط طور پرسمجھ لیا کہ مزاح غیرسنجیدہ اور مذاقیہ چیزہے۔جس نے مزاح کو غیرسنجیدگی سے لیا، مزاح نے بھی اسے غیرسنجیدہ لیا، اور جس کسی نے مشفق خواجہ کی طرح اسے سنجیدہ کام سمجھ کر کیا، اس کے کام کو سراہا بھی گیا۔''ان کے نزدیک زندگی کو لطافت کے ساتھ دیکھنا مزاح ہے۔ طنزاور مزاح کے فرق کی وضاحت یوں کرتے ہیں'' مزاح اکیلا بھی ہو تو مزہ دیتا ہے جبکہ طنزمجبور ہے مزاح کو ساتھ ملانے کے لیے۔مزاح کی آمیزیش کے بغیرطنز،طعنہ اور گالی بن جاتا ہے لیکن مزاح کے ساتھ کڑوی سے کڑوی بات بھی کہی جاسکتی ہے۔ مزاح کو طنز کے سہارے کی ضرورت نہیں، مثلاً شفیق الرحمٰن اور پطرس بخاری کی تحریروں کو لیجئے۔ بالکل تفریحی تحریریں ہیں، آپ مزے لے کر پڑھتے جائیں۔''مزاحیہ شاعری کے بارے میں ان کی دوٹوک رائے ہے''مزاحیہ شاعری کے ساتھ ٹی وی سے ملنے والا چیک ہٹادیا جائے تو شاید اس کو کچھ سکون مل جائے۔اس دائمی مریض کا بڑا مرض یہ چیک ہے۔
مزاح کے ساتھ کمرشل ازم چل پڑا۔دو شعرلکھ کرٹی وی مشاعرہ مل جاتاہے۔مزاحیہ شاعری اکبرسے شروع ہو کر انور مسعودپرختم ہوگئی۔کچھ اور بھی اچھے شاعر ہیں، عنایت علی خان نے گوشہ نشینی کی زندگی گزاری۔لکھا خوب۔ انعام الحق کو میں شگفتہ شاعری کی ریل کا آخری ڈبہ قراردیتا ہوں۔اس کے بعد تو بکرا اور بیگم کونکال دیں تومزاحیہ شاعری ختم ہوجاتی ہے۔'' ان کے بقول ''میں اگرادب میں کچھ ہوں،تواول وآخرمزاح نگارہوں اور قیامت کے روزمزاح نگاروں میں اٹھایا جانا ہی پسند کروں گا۔''وہ اس زمانے کوحسرت سے یاد کرتے ہیں، جب ادب اور صحافت کے راستے جدا نہ تھے۔چراغ حسن حسرت ،ابن انشا، انتظارحسین ،نصراللہ خان عزیزاور عطاء الحق قاسمی کواردو کے بہترین کالم نویسوں میں شمارکرتے ہیں۔ان کے خیال میں ادبی کالم مشفق خواجہ جیسا کسی اورنے نہیں لکھا۔ان کی دانست میں کالم نویسی کی صنف کے باعث ادب اور صحافت کا تعلق برقرارہے۔اشفاق احمد ورک نے خود بھی کئی اردو اخباروں میں کالم لکھے۔وہ اسے تیزآنچ پرپکوان پکانے جیسا عمل سمجھتے ہیں۔
مزاح سے ہٹ کرانھیں ادب کی جس صنف سے ازحد لگاؤہے، اور وہ اسے اپنی کمزوری قراردیتے ہیں، وہ اردوغزل ہے۔ اس صنف میں دلچسپی نے انھیں جدید اردو غزل کا کڑا انتخاب ''غزل آباد'' کرنے پراکسایا ، جس کے لیے انھوں نے الگ ڈھب سے کام کیااور80ء کی دہائی میں، اور اس کے بعد ابھرنے والے شعراکومنتخب کیا۔ان کا کلام منصفین کے سپردکیا، اور پھر سب سے بیس بیس شعرا کی فہرستیں طلب کیں جو جان جوکھوں کا کام تھا، مگر یہ کرگزرے اور اس کی بنیاد پرشاعروں کی درجہ بندی ہوئی۔منصفین میں ظفر اقبال، ڈاکٹرخورشید رضوی اور امجد اسلام امجد جیسے معروف شاعرشامل تھے۔شاہین عباس سے شروع ہونے والا یہ انتخاب افضال نوید پرختم ہوتا ہے۔
اپنی اشاعت کے چھ برس بعد بھی یہ انتخاب موضوع گفتگو ہے۔مایہ نازادیب شمس الرحمن فاروقی نے گذشتہ ''دنیا زاد ''میں اس پرمضمون لکھا تو اب اس کے تازہ شمارے میں جواب آں غزل کے طورپر اس مضمون پرردعمل سامنے آگیا ہے۔ 1963ء میں شیخوپورہ کے گاؤںحنیف کوٹ (یہ نام ان کے دادا کے نام پررکھا گیا) میں جٹ زمیندارگھرانے میں آنکھ کھولنے والے اشفاق احمد ورک کے سرسے دوبرس کی عمر میں والد نذیراحمد ورک کا سایہ اٹھ گیا،جس کے بعد والدہ نے بڑی محبت اور توجہ سے پرورش کی۔ اشفاق احمد ورک کے چار بچے ہیں۔ تین بیٹیاں، ایک بیٹا۔زندگی سے مطمئن ہیں۔ مطالعہ میں منہمک رہنا پسندیدہ عمل ہے۔کہتے ہیں، زندگی میں سارے ذائقے چکھے مگرکتاب جیسا لطف کہیں نہیں ملا۔