منڈیلا اور بلوچستان
ہمارے عہد کا لیجنڈ نیلسن منڈیلا بلا شبہ عملی نمونہ تھا، کہ جسے دیکھ کر ہی اس پہ پیار آ جائے۔۔۔
لاہور:
اکیسویں صدی میں بالغ ہونے والی ہماری نسل کاغذ سے کم، اسکرین سے زیادہ قربت کے باعث اسی کی علامتوں سے زیادہ واقف ہے۔ نانی اور دادی کی گود کی گرمی اور کہانیوں کی چاشنی سے تو خیر ہم محروم تھے ہی، ٹی وی، وی سی آر اور پھر کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور اب آئی فون، آئی پیڈ نے ہماری ذہنی صلاحیتوں میں کوئی اضافہ کیا یا نہیں لیکن بصری صلاحیتوں کو کند ضرور کیا ہے۔ ہم بزرگوں کی نیک صحبتوں اور ان کے تذکروں تک سے محروم کر دیے گئے۔ وہ صحبتیں جو نیک و بد میں تمیز سکھاتی ہیں، وہ تذکرے جو اچھے برے کا احساس دلاتے ہیں، جہاں سے زمانہ شناسی کا ہنر آتا ہے۔ وہ صحبتیں جو برس ہا برس کے تجربوں پر بھاری ہوتی ہیں۔ ہم نے اپنا وقت اور فہم اسکرین کے حوالے کر دیے۔ ہمارے علم نے اسکرین کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر لیے۔ صد شکر کہ ایک دَہائی قبل تک اسکرین ابھی اس قدر ہیرا پھیری کا شکار (Maniplute) نہیں ہوئی تھی، جتنی پاکستان میں آج ہو چکی ہے۔ نیک و بد کی تمیز ہماری نسل نے اسی اسکرین سے سیکھی۔
اُس زمانے میں اسکرین کے پردے پر ابھرنے والی عمومی کہانیاں ہیرو، ہیروئن اور ولن کے روایتی فارمولے پر مبنی ہوا کرتی تھیں۔ ہیرو، خیر کی اور ولن، شر کی علامت ہوا کرتا تھا۔ ہر کہانی میں خیر و شر کی جنگ میں، ہزارہا مصائب سہنے کے بعد بالآخر خیر، شر پر حاوی آ جاتا۔ جنت کی کسی حور جیسی ہیروئن گویا ہیرو کو اس کی نیکی کے عوض ملنے والا پھل ہوا کرتی تھی۔
اس میں ایک قابلِ ذکر بات یہ تھی کہ ہیرو چونکہ خیر کی علامت ہوتا تھا، اس لیے اس کی ظاہری وضع قطع بھی ایسی وجیہہ ہوتی کہ جس پہ پیار آ جائے، اور شر کی علامت ولن کا حلیہ ایسا دکھایا جاتا کہ جسے دیکھ کر ہی گھن آ نے لگے۔
گو کہ موجودہ عہد میں خیر و شر کی ظاہری شکلیں بدل چکیں۔ ہمارے عہد میں خیر کا سنگت فاقہ کشی اور خون تھوکنے کے باعث ظاہری شکل و صورت میں قابلِ رحم ہو چکا، اور شر کا ساتھی خوب پھل پھول کر جاذبِ نظر ہو چکا۔ لیکن وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ہر اچھے آدمی کے گرد روشنی کا ایک ہالہ ہوتا ہے، آپ جتنا قریب جائیں گے، یہ روشنی آپ کو مزید اپنی جانب کھینچے گی۔ عین اسی طرح برے انسان کے گرد غلاظت کا ایک ہالہ ہوتا ہے، آپ جتنا قریب جائیں گے، یہ گندگی اتنی ہی نمایاں ہوتی چلی جائے گی۔
ہمارے عہد کا لیجنڈ نیلسن منڈیلا بلا شبہ اس کا عملی نمونہ تھا، کہ جسے دیکھ کر ہی اس پہ پیار آ جائے، جس کے افکار سے اپنائیت سی محسوس ہو، جس کی اعمال کی خوشبو سے انسان معطر سا رہے۔ جس کی جدوجہد کے آگے از خود سر تسلیم خم ہوا جائے۔ وہ بلا شبہ ہمارے عہد میں سب سے زیادہ روشنی، سب سے زیادہ علم، سب سے زیادہ امن، سب سے زیادہ شعور کا نور پھیلانے والا آدمی تھا۔ خیر اور شر کی جنگ کے ہیروز میں صفِ اول والوں میں سے تھا۔ اُس نے محض فلمی نہیں، عملی طور پر خیر کے شر پر حاوی آنے کا مظاہرہ ہمیں دکھایا۔ اس نے اسپارٹیکس لے کر مزدک اور شاہ عنایت اور مست توکلی کے امن، خیر اور برابری کے قافلے کو آگے بڑھایا۔ اور اس قافلے کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے اور اس کی راہ میں روڑے اٹکانے والا ہر فرد ہمیں کسی گبر سنگھ، کسی موگیمبو، کسی شمس شاہ، کسی ایوب خان، کسی ضیاالحق کا تسلسل معلوم ہوا...... کہ خیر کا تسلسل، شر کے حواریوں کے سوا کون نہ چاہے گا!
اچھے انسان اگر دنیا کے افق پر ستاروں کی مانند چمک کر اس وسیع کائنات کو روشن رکھنے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں، تو ان کے اچھے افکار و اعمال خوشبو کی مانند پھیلتے اور نفوذ کرتے ہیں۔ سو، جنوبی افریقہ کے اس مدبر، عملی رہنما کے افکار دنیا بھر کی طرح بلوچستان کے پہاڑوں، میدانوں اور ریگستانوں تک بھی پہنچے۔ دنیا بھر کے محکوموں میں ایک اَن دیکھا فطری اتحاد اور رشتہ ازل سے موجود رہا ہے۔ سو، دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی مظلوم کے حق میں بولے، دنیا بھر کے مظلوم و محکوم اسے اپنی آواز سمجھتے ہیں۔ اس تعلق کے باوصف منڈیلا کئی برسوں تک 'بلوچستان کی آواز' رہا ہے۔ بلوچستان میں آج بلوچ خود کو جنوبی افریقہ کے سیاہ فام کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ لیاری اور مکران کے بلوچوں کے لیے ایک خیال یہ پایا جاتا ہے کہ صدیوں پہلے انھیں افریقہ کے ساحلوں سے غلام بنا کر لایا گیا تھا، اس تعلق کی نسبت منڈیلا سے ان کی اُنسیت اور قربت مزید بڑھ جاتی ہے۔
منڈیلا کے لیے بلوچستان میں اتنا ہی احترام ہے، جتنا اسے دنیا بھر سے ملتا رہا ہے۔ بلوچستان کے نوجوان اسے نہایت چاہ سے پڑھتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ نیلسن منڈیلا سے لے کر ماؤزرے تنگ، ہوچی منہ، چی گویرا اور فیڈل کاسترو تو ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں، لیکن جس نظام کے لیے وہ عمر بھر لڑتے رہے، اُس پہ یہاں کوئی بات نہیں ہوتی۔ بلوچستان کی سیاسی تحریک ہو یا مزاحمتی تحریک یہ دونوں اپنے آغاز میں بلواسطہ یا بلاواسطہ سوویت سیاست سے متاثر رہی ہیں، اس لیے ان پہ لیفٹ کی چھاپ ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ اور پھر سامراجی جبر کے خلاف نظریاتی شعور سے لیس ہو کر لڑنے کی ساری راہیں اسی بائیں طرف سے ہو کر ہی گزرتی ہیں، اس لیے اس راہ کے راہی کے پاس، ان سے شناسائی کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ اس لیے سامراجی جبر کے خلاف لڑنے والے کوریائی عوام ہوں یا لاطینی امریکا کا شاویز، بالآخر اس کا فطری جھکاؤ بائیں جانب ہی ہوتا ہے، کہ سامراج کی تو سرشت میں ہی دائیں سمت لکھی ہے۔
لیکن نائن الیون کے بعد غنڈوں کے عالمی شہنشاہ امریکا نے دائیں، بائیں کی واضح سمت بندی سے توجہ ہٹا کر اپنے ہی بغل بچے طالبان کی آڑ میں جس طرح پوری دنیا اور بالخصوص اِس خطے میں سیکولرازم اور لبرم ازم کے نام پر 'پرو امریکن' مہم شروع کی ہے، اس کے اثرات سے بلوچستان کی پہلے سے ہی سیکولر اور لبرل لیکن لیفٹسٹ سیاسی اور مزاحمتی تحریک بھی اپنا دامن نہیں بچا سکی۔ ان تحریکوں کی مرکزی قیادت محض اپنا 'کاروبار' بچانے کے لیے اب نہ تو واضح سمت بندی کی بحث میں الجھتی ہے، نہ ہی سامراجی مظالم کے اصل کردار کا نام لیتی ہے۔ اس لیے اب ہمارے نئے پڑھنے والے نوجوان کو اتنا تو پتہ ہے کہ نیلسن منڈیلا بڑا ہے، کیونکہ وہ سامراج کے خلاف لڑا ہے، لیکن یہ سامراج کون تھا، اس کے خصائص کیا تھے؟ اور اس کے خلاف کامیابی سے لڑنے کا اس کا ڈھنگ کیا تھا؟... اس سے انھیں کچھ خاص غرض نہیں۔ ماؤزے تنگ اور کاسترو اچھے لوگ ہیں کہ انھوں نے جدوجہد کی، لیکن ان کی جدوجہد کس نظام کے لیے تھی، اس سے کوئی مطلب نہیں۔ آدھا سچ اور تصویر کا ادھورا رخ، فرد ہو یا تحریک دونوں کو بے سمت کر دیتا ہے اور بے سمتی کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔
اس لیے بلوچستان میں خیر، امن اور جدوجہد کے قافلے کے نیلسن منڈیلا جیسے اکابرین کو نئے سرے سے پڑھانے کی، سمجھانے کی ضرورت ہے۔ جس روز منڈیلا کی اس کے مکمل افکار اور جدوجہد کے ساتھ بلوچستان میں تفہیم ہو گی، بلوچستان ایک نیا روپ لے گا۔ اس کی سیاسی اور مزاحمتی تحریک کا چہرہ مزید نکھر کر اور ابھر کا سامنے آئے گا۔ تب تک ہم اپنے قلم کی روشنائی سے اُس کے افکار اور جدوجہد کی روشنی اپنے خطے کے کونے کونے تک پھیلائے چلیں جائیں گے۔ اپنے بچوں کو فخر سے بتائیں گے کہ خیر کا شر پر حاوی آنا محض فلمی باتیں نہیں ہیں، ہم نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اور ہمارے عہد کی اس آنکھوں دیکھی فلم کا ہیرو ابھی سن دو ہزار تیرہ کے دسمبر تک ہمارے بیچ موجود تھا۔
یونانی دیو مالا میں ہے کہ اس دنیا سے سدھار جانے والا ہر انسان ستارے کا روپ دھار کر آسمان میں جا بستا ہے۔ جو انسان جتنا نیک اور اچھا ہوتا ہے، اس کی روشنی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ اس دیو مالا کی رُو سے آج کے بعد آسمان پہ جو ستارہ سب سے زیادہ روشن نظر آئے گا، اس کا نام ہم نیلسن منڈیلا رکھیں گے۔
اکیسویں صدی میں بالغ ہونے والی ہماری نسل کاغذ سے کم، اسکرین سے زیادہ قربت کے باعث اسی کی علامتوں سے زیادہ واقف ہے۔ نانی اور دادی کی گود کی گرمی اور کہانیوں کی چاشنی سے تو خیر ہم محروم تھے ہی، ٹی وی، وی سی آر اور پھر کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور اب آئی فون، آئی پیڈ نے ہماری ذہنی صلاحیتوں میں کوئی اضافہ کیا یا نہیں لیکن بصری صلاحیتوں کو کند ضرور کیا ہے۔ ہم بزرگوں کی نیک صحبتوں اور ان کے تذکروں تک سے محروم کر دیے گئے۔ وہ صحبتیں جو نیک و بد میں تمیز سکھاتی ہیں، وہ تذکرے جو اچھے برے کا احساس دلاتے ہیں، جہاں سے زمانہ شناسی کا ہنر آتا ہے۔ وہ صحبتیں جو برس ہا برس کے تجربوں پر بھاری ہوتی ہیں۔ ہم نے اپنا وقت اور فہم اسکرین کے حوالے کر دیے۔ ہمارے علم نے اسکرین کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر لیے۔ صد شکر کہ ایک دَہائی قبل تک اسکرین ابھی اس قدر ہیرا پھیری کا شکار (Maniplute) نہیں ہوئی تھی، جتنی پاکستان میں آج ہو چکی ہے۔ نیک و بد کی تمیز ہماری نسل نے اسی اسکرین سے سیکھی۔
اُس زمانے میں اسکرین کے پردے پر ابھرنے والی عمومی کہانیاں ہیرو، ہیروئن اور ولن کے روایتی فارمولے پر مبنی ہوا کرتی تھیں۔ ہیرو، خیر کی اور ولن، شر کی علامت ہوا کرتا تھا۔ ہر کہانی میں خیر و شر کی جنگ میں، ہزارہا مصائب سہنے کے بعد بالآخر خیر، شر پر حاوی آ جاتا۔ جنت کی کسی حور جیسی ہیروئن گویا ہیرو کو اس کی نیکی کے عوض ملنے والا پھل ہوا کرتی تھی۔
اس میں ایک قابلِ ذکر بات یہ تھی کہ ہیرو چونکہ خیر کی علامت ہوتا تھا، اس لیے اس کی ظاہری وضع قطع بھی ایسی وجیہہ ہوتی کہ جس پہ پیار آ جائے، اور شر کی علامت ولن کا حلیہ ایسا دکھایا جاتا کہ جسے دیکھ کر ہی گھن آ نے لگے۔
گو کہ موجودہ عہد میں خیر و شر کی ظاہری شکلیں بدل چکیں۔ ہمارے عہد میں خیر کا سنگت فاقہ کشی اور خون تھوکنے کے باعث ظاہری شکل و صورت میں قابلِ رحم ہو چکا، اور شر کا ساتھی خوب پھل پھول کر جاذبِ نظر ہو چکا۔ لیکن وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ہر اچھے آدمی کے گرد روشنی کا ایک ہالہ ہوتا ہے، آپ جتنا قریب جائیں گے، یہ روشنی آپ کو مزید اپنی جانب کھینچے گی۔ عین اسی طرح برے انسان کے گرد غلاظت کا ایک ہالہ ہوتا ہے، آپ جتنا قریب جائیں گے، یہ گندگی اتنی ہی نمایاں ہوتی چلی جائے گی۔
ہمارے عہد کا لیجنڈ نیلسن منڈیلا بلا شبہ اس کا عملی نمونہ تھا، کہ جسے دیکھ کر ہی اس پہ پیار آ جائے، جس کے افکار سے اپنائیت سی محسوس ہو، جس کی اعمال کی خوشبو سے انسان معطر سا رہے۔ جس کی جدوجہد کے آگے از خود سر تسلیم خم ہوا جائے۔ وہ بلا شبہ ہمارے عہد میں سب سے زیادہ روشنی، سب سے زیادہ علم، سب سے زیادہ امن، سب سے زیادہ شعور کا نور پھیلانے والا آدمی تھا۔ خیر اور شر کی جنگ کے ہیروز میں صفِ اول والوں میں سے تھا۔ اُس نے محض فلمی نہیں، عملی طور پر خیر کے شر پر حاوی آنے کا مظاہرہ ہمیں دکھایا۔ اس نے اسپارٹیکس لے کر مزدک اور شاہ عنایت اور مست توکلی کے امن، خیر اور برابری کے قافلے کو آگے بڑھایا۔ اور اس قافلے کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے اور اس کی راہ میں روڑے اٹکانے والا ہر فرد ہمیں کسی گبر سنگھ، کسی موگیمبو، کسی شمس شاہ، کسی ایوب خان، کسی ضیاالحق کا تسلسل معلوم ہوا...... کہ خیر کا تسلسل، شر کے حواریوں کے سوا کون نہ چاہے گا!
اچھے انسان اگر دنیا کے افق پر ستاروں کی مانند چمک کر اس وسیع کائنات کو روشن رکھنے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں، تو ان کے اچھے افکار و اعمال خوشبو کی مانند پھیلتے اور نفوذ کرتے ہیں۔ سو، جنوبی افریقہ کے اس مدبر، عملی رہنما کے افکار دنیا بھر کی طرح بلوچستان کے پہاڑوں، میدانوں اور ریگستانوں تک بھی پہنچے۔ دنیا بھر کے محکوموں میں ایک اَن دیکھا فطری اتحاد اور رشتہ ازل سے موجود رہا ہے۔ سو، دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی مظلوم کے حق میں بولے، دنیا بھر کے مظلوم و محکوم اسے اپنی آواز سمجھتے ہیں۔ اس تعلق کے باوصف منڈیلا کئی برسوں تک 'بلوچستان کی آواز' رہا ہے۔ بلوچستان میں آج بلوچ خود کو جنوبی افریقہ کے سیاہ فام کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ لیاری اور مکران کے بلوچوں کے لیے ایک خیال یہ پایا جاتا ہے کہ صدیوں پہلے انھیں افریقہ کے ساحلوں سے غلام بنا کر لایا گیا تھا، اس تعلق کی نسبت منڈیلا سے ان کی اُنسیت اور قربت مزید بڑھ جاتی ہے۔
منڈیلا کے لیے بلوچستان میں اتنا ہی احترام ہے، جتنا اسے دنیا بھر سے ملتا رہا ہے۔ بلوچستان کے نوجوان اسے نہایت چاہ سے پڑھتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ نیلسن منڈیلا سے لے کر ماؤزرے تنگ، ہوچی منہ، چی گویرا اور فیڈل کاسترو تو ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں، لیکن جس نظام کے لیے وہ عمر بھر لڑتے رہے، اُس پہ یہاں کوئی بات نہیں ہوتی۔ بلوچستان کی سیاسی تحریک ہو یا مزاحمتی تحریک یہ دونوں اپنے آغاز میں بلواسطہ یا بلاواسطہ سوویت سیاست سے متاثر رہی ہیں، اس لیے ان پہ لیفٹ کی چھاپ ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ اور پھر سامراجی جبر کے خلاف نظریاتی شعور سے لیس ہو کر لڑنے کی ساری راہیں اسی بائیں طرف سے ہو کر ہی گزرتی ہیں، اس لیے اس راہ کے راہی کے پاس، ان سے شناسائی کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ اس لیے سامراجی جبر کے خلاف لڑنے والے کوریائی عوام ہوں یا لاطینی امریکا کا شاویز، بالآخر اس کا فطری جھکاؤ بائیں جانب ہی ہوتا ہے، کہ سامراج کی تو سرشت میں ہی دائیں سمت لکھی ہے۔
لیکن نائن الیون کے بعد غنڈوں کے عالمی شہنشاہ امریکا نے دائیں، بائیں کی واضح سمت بندی سے توجہ ہٹا کر اپنے ہی بغل بچے طالبان کی آڑ میں جس طرح پوری دنیا اور بالخصوص اِس خطے میں سیکولرازم اور لبرم ازم کے نام پر 'پرو امریکن' مہم شروع کی ہے، اس کے اثرات سے بلوچستان کی پہلے سے ہی سیکولر اور لبرل لیکن لیفٹسٹ سیاسی اور مزاحمتی تحریک بھی اپنا دامن نہیں بچا سکی۔ ان تحریکوں کی مرکزی قیادت محض اپنا 'کاروبار' بچانے کے لیے اب نہ تو واضح سمت بندی کی بحث میں الجھتی ہے، نہ ہی سامراجی مظالم کے اصل کردار کا نام لیتی ہے۔ اس لیے اب ہمارے نئے پڑھنے والے نوجوان کو اتنا تو پتہ ہے کہ نیلسن منڈیلا بڑا ہے، کیونکہ وہ سامراج کے خلاف لڑا ہے، لیکن یہ سامراج کون تھا، اس کے خصائص کیا تھے؟ اور اس کے خلاف کامیابی سے لڑنے کا اس کا ڈھنگ کیا تھا؟... اس سے انھیں کچھ خاص غرض نہیں۔ ماؤزے تنگ اور کاسترو اچھے لوگ ہیں کہ انھوں نے جدوجہد کی، لیکن ان کی جدوجہد کس نظام کے لیے تھی، اس سے کوئی مطلب نہیں۔ آدھا سچ اور تصویر کا ادھورا رخ، فرد ہو یا تحریک دونوں کو بے سمت کر دیتا ہے اور بے سمتی کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔
اس لیے بلوچستان میں خیر، امن اور جدوجہد کے قافلے کے نیلسن منڈیلا جیسے اکابرین کو نئے سرے سے پڑھانے کی، سمجھانے کی ضرورت ہے۔ جس روز منڈیلا کی اس کے مکمل افکار اور جدوجہد کے ساتھ بلوچستان میں تفہیم ہو گی، بلوچستان ایک نیا روپ لے گا۔ اس کی سیاسی اور مزاحمتی تحریک کا چہرہ مزید نکھر کر اور ابھر کا سامنے آئے گا۔ تب تک ہم اپنے قلم کی روشنائی سے اُس کے افکار اور جدوجہد کی روشنی اپنے خطے کے کونے کونے تک پھیلائے چلیں جائیں گے۔ اپنے بچوں کو فخر سے بتائیں گے کہ خیر کا شر پر حاوی آنا محض فلمی باتیں نہیں ہیں، ہم نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اور ہمارے عہد کی اس آنکھوں دیکھی فلم کا ہیرو ابھی سن دو ہزار تیرہ کے دسمبر تک ہمارے بیچ موجود تھا۔
یونانی دیو مالا میں ہے کہ اس دنیا سے سدھار جانے والا ہر انسان ستارے کا روپ دھار کر آسمان میں جا بستا ہے۔ جو انسان جتنا نیک اور اچھا ہوتا ہے، اس کی روشنی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ اس دیو مالا کی رُو سے آج کے بعد آسمان پہ جو ستارہ سب سے زیادہ روشن نظر آئے گا، اس کا نام ہم نیلسن منڈیلا رکھیں گے۔