اپوزیشن جماعتوں کی دھمکیاں
ماضی کے تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو بڑی بڑی دھمکیاں دیں، لیکن وقت آنے پر سب کچھ ٹھس ہوگیا
ذرائع کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے ایک وفد کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے ماڈل ٹاؤن میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قمر زمان کائرہ، احسن اقبال، ایاز صادق کے علاوہ کچھ اور بھی رہنما موجود تھے۔ اس ملاقات میں اہم بات یہ ہے کہ اس میں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے عیدالاضحیٰ کے بعد رہبر کمیٹی کے اجلاس اور اے پی سی کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ اے پی سی کو کامیاب بنانے کےلیے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے رابطوں پر بھی اتفاق کیا۔ اس ملاقات میں اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی طرف سے پیدا کیے گئے بحرانوں اور حکومت کی کمزوریوں اور خامیوں کی بھی نشاندہی کرکے ایک دوسرے کو اشتعال دلانے کی کوشش کی۔
ماضی کے تجربوں سے یہ بات ثابت ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس سے قبل بھی کئی بار رہبر کمیٹیوں کے اجلاس منعقد کیے، کئی اے پی سیز بلائیں، حکومت کو بڑی بڑی دھمکیاں دیں۔ ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہونے کے دعوے کیے۔ لیکن وقت آنے پر سب کچھ ٹھس (ناکام) ہوکر رہ گیا۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی مزاحمت نہ کر پائیں اور نہ ہی ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کا ساتھ دے سکیں۔ بلکہ ہر ایسے موقع پر جب اپوزیشن کو اپنی بات منوانے کا موقع ملا تو یہ اپنے اپنے طور پر ڈیل کرکے کنارے پر ہوگئے۔ حکومت نے بھی اپوزیشن جماعتوں کی اس کمزوری کو بھانپ لیا اور جب بھی حکومت کو ضرورت پڑی اس نے اپوزیشن جماعتوں کو نیب وغیرہ کے ذریعے ڈرا دھمکا کر ڈیل وغیرہ کرکے اپنا کام نکلوا لیا۔ اب ایک طویل وقفہ کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے مل بیٹھ کر پھر حکومت کے خلاف ایک تحریک چلانے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن ماضی کے حالات کو دیکھتے ہوئے ان پر یقین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کچھ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
اپوزیشن جماعتیں اگر کچھ کرنا چاہتیں تو اس وقت کرسکتی تھیں جب مولانا فضل الرحمٰن ایک بڑا جلوس لے کر سندھ سے اسلام آباد کی طرف چلے تھے۔ اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں بالخصوص بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بالکل ساتھ نہ دیا اور مولانا فضل الرحمٰن کو آگے کرکے خود غائب ہوگئے۔ نہ راستے میں کسی شہر لاہور وغیرہ میں کوئی رہنما استقبال کےلیے آیا اور نہ کسی نے اسلام آباد میں کوئی خاص دلچسپی ظاہر کی۔ مولانا فضل الرحمٰن جو ایک بڑا جلوس لے کر بہت پرجوش انداز میں اسلام آباد کی جانب چلے تھے، انہوں نے جب اپوزیشن جماعتوں کا یہ رویہ دیکھا تو وہ بھی خاموشی سے اسلام آباد میں ایک طرف بیٹھ گئے اور اپنے ہمراہیوں کو کسی بھی قسم کے نقصان سے بچاتے ہوئے خاموشی سے تنہا اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپوزیشن جماعتوں سے امید رکھنی چھوڑ دی۔ اگر اس وقت اپوزیشن جماعتیں مولانا کا ساتھ دیتیں تو بہت کچھ کرسکتی تھیں اور بھرپور طریقے سے اس دھرنے میں شرکت کرنے سے سیاسی منظرنامے کا نقشہ تبدیل ہوسکتا تھا۔ لیکن انہوں نے اس سنہری موقع کو گنوا دیا اور پھر حکومت کے خلاف اپنے اپنے گھروں سے بیان بازیاں شروع کردیں۔ جن کا نہ تو کوئی مقصد تھا اور نہ ہی فائدہ۔ بس اپنی موجودگی ظاہر کرنا چاہتے تھے۔
اب ایک بار پھر اپوزیشن جماعتوں کو جوش تو آیا ہے لیکن یہ وہی بلاول اور وہی شہباز شریف ہیں جنہوں نے اس سے قبل حکومت کے خلاف چلنے والے ہر تحریک میں عین موقع پر پیٹھ دکھائی۔ تو اب کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ چند ماہ میں اتنے بہادر ہوگئے ہیں کہ وہ حکومت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور اس راہ میں تمام تکالیف برداشت کریں گے؟ پھر ایک اور دلچسپ صورتحال اس وقت پیش آئی جب نیب نے شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے خلاف کارروائی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ کسی پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس تو کسی پر ایل این جی کیس کا ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اور یہ عین اس وقت ہوا جب اپوزیشن جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا عزم ظاہر کیا۔ تو اس سے کیا سمجھیں؟ کیا اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ حکومت ماضی کے تجربوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن کو ایک بار پھر کوئی سخت قدم اٹھانے سے روک رہی ہے۔
اپوزیشن جماعتیں یقیناً حکومت کی طرف سے دی گئی اس دھمکی سے گھبرا جائیں گی اور حکومت کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانے سے گریز کریں گی۔ جب وہ رہبر کمیٹی کے اجلاس اور اے پی سی کا انعقاد کریں گی تو عوام کی توجہ تو ان کی طرف ہوجائے گی، اس کے بعد اپنی سبکی مٹانے کےلیے اپنے اپنے کارکنان کو بھی متحرک کریں گے، جس سے عوام کا وقت ضائع ہوگا اور ملک میں انتشار پھیلے گا۔ لہٰذا اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو چاہیے کہ جب انہوں نے پہلے ہی بہت سے مواقع گنوا دیے ہیں اور اب بھی ان میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ حکومت گرا سکیں یا کم از کم اسے راہ راست پر ہی لاسکیں، تو جب کچھ کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو خاموشی سے بقیہ مدت پوری کریں اور آئندہ انتخابات کا انتظار کریں۔ اس دوران عوام کے دل جیت کر حکومت بنائیں اور سارے وعدے پورے کریں۔ لیکن تب تک عوام کا وقت نہ ضائع کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ماضی کے تجربوں سے یہ بات ثابت ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس سے قبل بھی کئی بار رہبر کمیٹیوں کے اجلاس منعقد کیے، کئی اے پی سیز بلائیں، حکومت کو بڑی بڑی دھمکیاں دیں۔ ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہونے کے دعوے کیے۔ لیکن وقت آنے پر سب کچھ ٹھس (ناکام) ہوکر رہ گیا۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی مزاحمت نہ کر پائیں اور نہ ہی ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کا ساتھ دے سکیں۔ بلکہ ہر ایسے موقع پر جب اپوزیشن کو اپنی بات منوانے کا موقع ملا تو یہ اپنے اپنے طور پر ڈیل کرکے کنارے پر ہوگئے۔ حکومت نے بھی اپوزیشن جماعتوں کی اس کمزوری کو بھانپ لیا اور جب بھی حکومت کو ضرورت پڑی اس نے اپوزیشن جماعتوں کو نیب وغیرہ کے ذریعے ڈرا دھمکا کر ڈیل وغیرہ کرکے اپنا کام نکلوا لیا۔ اب ایک طویل وقفہ کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے مل بیٹھ کر پھر حکومت کے خلاف ایک تحریک چلانے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن ماضی کے حالات کو دیکھتے ہوئے ان پر یقین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کچھ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
اپوزیشن جماعتیں اگر کچھ کرنا چاہتیں تو اس وقت کرسکتی تھیں جب مولانا فضل الرحمٰن ایک بڑا جلوس لے کر سندھ سے اسلام آباد کی طرف چلے تھے۔ اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں بالخصوص بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بالکل ساتھ نہ دیا اور مولانا فضل الرحمٰن کو آگے کرکے خود غائب ہوگئے۔ نہ راستے میں کسی شہر لاہور وغیرہ میں کوئی رہنما استقبال کےلیے آیا اور نہ کسی نے اسلام آباد میں کوئی خاص دلچسپی ظاہر کی۔ مولانا فضل الرحمٰن جو ایک بڑا جلوس لے کر بہت پرجوش انداز میں اسلام آباد کی جانب چلے تھے، انہوں نے جب اپوزیشن جماعتوں کا یہ رویہ دیکھا تو وہ بھی خاموشی سے اسلام آباد میں ایک طرف بیٹھ گئے اور اپنے ہمراہیوں کو کسی بھی قسم کے نقصان سے بچاتے ہوئے خاموشی سے تنہا اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپوزیشن جماعتوں سے امید رکھنی چھوڑ دی۔ اگر اس وقت اپوزیشن جماعتیں مولانا کا ساتھ دیتیں تو بہت کچھ کرسکتی تھیں اور بھرپور طریقے سے اس دھرنے میں شرکت کرنے سے سیاسی منظرنامے کا نقشہ تبدیل ہوسکتا تھا۔ لیکن انہوں نے اس سنہری موقع کو گنوا دیا اور پھر حکومت کے خلاف اپنے اپنے گھروں سے بیان بازیاں شروع کردیں۔ جن کا نہ تو کوئی مقصد تھا اور نہ ہی فائدہ۔ بس اپنی موجودگی ظاہر کرنا چاہتے تھے۔
اب ایک بار پھر اپوزیشن جماعتوں کو جوش تو آیا ہے لیکن یہ وہی بلاول اور وہی شہباز شریف ہیں جنہوں نے اس سے قبل حکومت کے خلاف چلنے والے ہر تحریک میں عین موقع پر پیٹھ دکھائی۔ تو اب کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ چند ماہ میں اتنے بہادر ہوگئے ہیں کہ وہ حکومت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور اس راہ میں تمام تکالیف برداشت کریں گے؟ پھر ایک اور دلچسپ صورتحال اس وقت پیش آئی جب نیب نے شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے خلاف کارروائی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ کسی پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس تو کسی پر ایل این جی کیس کا ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اور یہ عین اس وقت ہوا جب اپوزیشن جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا عزم ظاہر کیا۔ تو اس سے کیا سمجھیں؟ کیا اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ حکومت ماضی کے تجربوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن کو ایک بار پھر کوئی سخت قدم اٹھانے سے روک رہی ہے۔
اپوزیشن جماعتیں یقیناً حکومت کی طرف سے دی گئی اس دھمکی سے گھبرا جائیں گی اور حکومت کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانے سے گریز کریں گی۔ جب وہ رہبر کمیٹی کے اجلاس اور اے پی سی کا انعقاد کریں گی تو عوام کی توجہ تو ان کی طرف ہوجائے گی، اس کے بعد اپنی سبکی مٹانے کےلیے اپنے اپنے کارکنان کو بھی متحرک کریں گے، جس سے عوام کا وقت ضائع ہوگا اور ملک میں انتشار پھیلے گا۔ لہٰذا اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو چاہیے کہ جب انہوں نے پہلے ہی بہت سے مواقع گنوا دیے ہیں اور اب بھی ان میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ حکومت گرا سکیں یا کم از کم اسے راہ راست پر ہی لاسکیں، تو جب کچھ کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو خاموشی سے بقیہ مدت پوری کریں اور آئندہ انتخابات کا انتظار کریں۔ اس دوران عوام کے دل جیت کر حکومت بنائیں اور سارے وعدے پورے کریں۔ لیکن تب تک عوام کا وقت نہ ضائع کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔