اسے بڑی کامیابی سمجھیں
کرپشن ہر ادارے کی جڑوں میں پڑی ہوئی ہے کوئی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں جب صورتحال یہ ہے تو ادارے کیا خاک کام کریں گے۔
میئر کراچی کو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ کے ایم سی جیسے اہم اور ذمے دار ادارے کو ضرورت کے مطابق تو کیا منظور کردہ فنڈ بھی نہیں دیے جاتے چونکہ حکومت سندھ کی طرف سے اس حوالے سے خاطر خواہ تردید بھی نہیں آتی، لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ میئر کراچی کا رونا صحیح ہے میونسپل کمیشن کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو شہر بھر کی صفائی سمیت پانی وغیرہ کی فراہمی کی ذمے داری میونسپل کارپوریشن ہی کی ہوتی ہے چونکہ پورا معاشرہ پورا ملک کرپشن کی وبا میں گرفتار ہے سو میونسپل کارپوریشن کا کرپشن میں ملوث ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے ایم سی کو اس کا منظور شدہ فنڈ کیوں نہیں دیتی اور صوبائی حکومت اس کا نوٹس کیوں نہیں لیتی۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کے ایم سی کو اگر صوبائی حکومت سے شکایت ہے تو صوبائی حکومت کے خلاف شدت سے آواز کیوں نہیں اٹھاتی۔
اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی والا معاملہ ہے جب ملک ہی کی کوئی کل سیدھی نہیں تو ماتحت اداروں کی کل کیسے سیدھی ہو سکتی ہے۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے لوٹ مار کا جو نظام چل رہا تھا یہ کلچر ایسا ملک گیر ہو گیا ہے کہ کسی ادارے پر اعتماد کرنا، اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نچلی سطح تک کرپشن کی وبا کورونا کی طرح پھیلی ہوئی ہے لیکن یہ کورونا عام نہیں بلکہ سلیکٹڈ ہے اس میں وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو کورونا زدہ ہوں عام آدمی یا اہلکار کو سوکھی پر ٹرخا دیا جاتا ہے دودھ ملائی بالا ہی بالا نکل جاتی ہے۔کے ایم سی کا حال یہ ہے کہ پندرہ منٹ بارش ہو جائے تو سارے نالے ابل کر باہر آجاتے ہیں جیسے غصے میں آپے سے باہر ہوں۔
اس سے پہلے بھلا تھا یا بُرا ایک نظام چل رہا تھا یونین کونسل سے لے کر ٹاؤن کمیٹی تک ایک مربوط نظام تھا شکایات لے جانے والوں کی شکایات دور تو نہیں ہوتیں البتہ اتنی تسلی دی جاتی ہے کہ شکایت کنندہ لڑائی بھڑائی سے پرہیز کرتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ہلکی سی بارش ہوئی اور کراچی کا حشر نشر ہو کر رہ گیا۔ سڑکوں کا کیا حال ہوا اور ٹریفک کا کیا حال ہوا اس کا حال اہل کراچی ہی اچھی طرح جانتے ہیں۔ کل رات ہمارے ایک دوست کا کوئی کام تھا وہ ہمیں ساتھ لے گئے گلشن اقبال اور گلستان جوہر میں نہ صرف جگہ جگہ پانی سے بھرے کھڈے تھے بلکہ ٹریفک پیدل چل رہا تھا اس کی وجہ پرانی اور عام ہے فنڈ کا نہ ہونا۔
حکومت کو آئے ہوئے اب تین سال ہو رہے ہیں، اگر کے ایم سی کے کام ''پیدل'' بھی کیے جاتے تو کم ازکم سڑکیں نالوں اور تالابوں کا منظر پیش نہیں کرتیں۔ یہ کوئی پہلی بارش عرف مون سون نہیں ہے ہر سال پچھلے سال سے بڑھ چڑھ کر کارکردگی پیش کی جاتی ہے اور بے چارے معذور عوام اف نہیں کرتے، اخبارات میں اس قسم کے اداروں کا بجٹ اربوں میں آتا ہے ہمارے ایک دوست ہیں وہ اربوں کے بجٹ کو عربوں کا بجٹ کہتے ہیں عرب ملکوں میں میونسپل کارپوریشن اپنی ذمے داریاں اس طرح پوری کرتے ہیں کہ عوام کو ایک بارش میں چار پانچ دن گھر سے باہر نکلنے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی۔
کراچی میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا جسے ہم مثال کے طور پر پیش کریں۔ جس طرح برے لوگ ہی ہر جگہ نہیں ہوتے اسی طرح اچھے لوگ بھی ہر جگہ نہیں ہوتے بلکہ برے لوگ ہی ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ کے ایم سی ایک ایسا ادارہ ہے جس کی اچھی یا بری کارکردگی کا اثر سارے شہر کو بھگتنا پڑتا ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ نہ اس کے فنڈز روکے جاتے ہیں نہ اس ادارے میں دھاندلیاں برداشت کی جاتی ہیں۔ تین ''م '' جب ایک ملک میں جمع ہو جاتے ہیں۔ یعنی مہذب لوگ، مہذب ادارے، مہذب معاشرے ایسے ملکوں میں عوام خوش حال اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔ جن ملکوں میں عوام جاہل، ادارے غیر ذمے دار اور کرپٹ ہوتے ہیں وہاں کے عوام کی زندگی کراچی کی زندگی بن جاتی ہے۔
یہ خبریں اخبارات میں میئر کے بیانات کی شکل میں بار بار آتی ہیں کہ صوبائی حکومت فنڈز جاری نہیں کر رہی ہے پھر کام کیسے ہو؟ یہ مسئلہ بہت اہم ہے ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ اربوں روپوں کا بجٹ کیسے چھو منتر ہو جاتا ہے۔ میونسپل ادارے ہر ملک میں انتہائی اہمیت کے حامل ادارے ہوتے ہیں اس لیے انھیں ہر ملک میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے لیکن پاکستان غالباً دنیا کا عجیب و غریب ملک ہے جہاں میونسپل اداروں کو ذرا برابر اہمیت نہیں دی جاتی جس کا نتیجہ ہم آپ سب کے سامنے ہے۔ جب تک میونسپل ادارے کسی نہ کسی حد تک فعال تھے دیر ہی سے سہی کچھ نہ کچھ کام ہو جاتا تھا اب نہ یونین کونسلیں فعال ہیں نہ عوام کے مسائل دیکھے جا رہے ہیں ہر طرف ایک سناٹا ہے۔
کرپشن ہر ادارے کی جڑوں میں پڑی ہوئی ہے کوئی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں جب صورتحال یہ ہے تو ادارے کیا خاک کام کریں گے۔ ماضی میں میونسپل کارپوریشن کا کریا کرم کرنے کے لیے ایم این اے اور ایم پی ایز کو کے ایم سی کا فنڈ دیا جاتا تھا اور یہ حضرات سوائے چند کے باپ کا مال سمجھ کر کھا جاتے تھے چونکہ سیاں کوتوال ہوتا تھا لہٰذا جی بھر کے عوام کی دولت لوٹی جاتی تھی۔ جس زمانے میں مالی اختیارات ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ہاتھوں میں تھے کے ایم سی ایلیٹ کی چراگاہ بنی ہوئی تھی۔ آج حکومت بہت مالدار ہے لیکن مال کس طرح خرچ ہو رہا ہے عمران خان جانتے ہیں اور ان کی کابینہ ۔ لیکن ایک بات بہرحال تسلیم کی جا سکتی ہے کہ آج کا حال 2018ء کا حال نہیں ہے کچھ شرم و حیا کا پتہ چلتا ہے۔
حکومت یقینا بعض اچھے کام کر رہی ہے زیادہ سے زیادہ ترقیاتی فنڈز جاری کیے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں فنڈ کا کچھ بہتر استعمال ہو رہا ہے اگر یہ بات درست ہے تو اسے ہم حکومت کی ایک بڑی کامیابی کہہ سکتے ہیں۔ جہاں کرپشن اوپر سے شروع ہوتی ہے تو سمجھ لیجیے سب ''خیر ہے'' اس سسٹم میں ویسے تو کرپشن ختم کرنا ، ایں خیال است و محال است و جنوں۔ لیکن حکومت اگر سختی کرے تو اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ کرپشن میں کمی آ سکتی ہے آج کے حالات میں اسے بھی ہم ایک بڑی کامیابی ہی کہہ سکتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے ایم سی کو اس کا منظور شدہ فنڈ کیوں نہیں دیتی اور صوبائی حکومت اس کا نوٹس کیوں نہیں لیتی۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کے ایم سی کو اگر صوبائی حکومت سے شکایت ہے تو صوبائی حکومت کے خلاف شدت سے آواز کیوں نہیں اٹھاتی۔
اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی والا معاملہ ہے جب ملک ہی کی کوئی کل سیدھی نہیں تو ماتحت اداروں کی کل کیسے سیدھی ہو سکتی ہے۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے لوٹ مار کا جو نظام چل رہا تھا یہ کلچر ایسا ملک گیر ہو گیا ہے کہ کسی ادارے پر اعتماد کرنا، اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نچلی سطح تک کرپشن کی وبا کورونا کی طرح پھیلی ہوئی ہے لیکن یہ کورونا عام نہیں بلکہ سلیکٹڈ ہے اس میں وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو کورونا زدہ ہوں عام آدمی یا اہلکار کو سوکھی پر ٹرخا دیا جاتا ہے دودھ ملائی بالا ہی بالا نکل جاتی ہے۔کے ایم سی کا حال یہ ہے کہ پندرہ منٹ بارش ہو جائے تو سارے نالے ابل کر باہر آجاتے ہیں جیسے غصے میں آپے سے باہر ہوں۔
اس سے پہلے بھلا تھا یا بُرا ایک نظام چل رہا تھا یونین کونسل سے لے کر ٹاؤن کمیٹی تک ایک مربوط نظام تھا شکایات لے جانے والوں کی شکایات دور تو نہیں ہوتیں البتہ اتنی تسلی دی جاتی ہے کہ شکایت کنندہ لڑائی بھڑائی سے پرہیز کرتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ہلکی سی بارش ہوئی اور کراچی کا حشر نشر ہو کر رہ گیا۔ سڑکوں کا کیا حال ہوا اور ٹریفک کا کیا حال ہوا اس کا حال اہل کراچی ہی اچھی طرح جانتے ہیں۔ کل رات ہمارے ایک دوست کا کوئی کام تھا وہ ہمیں ساتھ لے گئے گلشن اقبال اور گلستان جوہر میں نہ صرف جگہ جگہ پانی سے بھرے کھڈے تھے بلکہ ٹریفک پیدل چل رہا تھا اس کی وجہ پرانی اور عام ہے فنڈ کا نہ ہونا۔
حکومت کو آئے ہوئے اب تین سال ہو رہے ہیں، اگر کے ایم سی کے کام ''پیدل'' بھی کیے جاتے تو کم ازکم سڑکیں نالوں اور تالابوں کا منظر پیش نہیں کرتیں۔ یہ کوئی پہلی بارش عرف مون سون نہیں ہے ہر سال پچھلے سال سے بڑھ چڑھ کر کارکردگی پیش کی جاتی ہے اور بے چارے معذور عوام اف نہیں کرتے، اخبارات میں اس قسم کے اداروں کا بجٹ اربوں میں آتا ہے ہمارے ایک دوست ہیں وہ اربوں کے بجٹ کو عربوں کا بجٹ کہتے ہیں عرب ملکوں میں میونسپل کارپوریشن اپنی ذمے داریاں اس طرح پوری کرتے ہیں کہ عوام کو ایک بارش میں چار پانچ دن گھر سے باہر نکلنے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی۔
کراچی میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا جسے ہم مثال کے طور پر پیش کریں۔ جس طرح برے لوگ ہی ہر جگہ نہیں ہوتے اسی طرح اچھے لوگ بھی ہر جگہ نہیں ہوتے بلکہ برے لوگ ہی ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ کے ایم سی ایک ایسا ادارہ ہے جس کی اچھی یا بری کارکردگی کا اثر سارے شہر کو بھگتنا پڑتا ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ نہ اس کے فنڈز روکے جاتے ہیں نہ اس ادارے میں دھاندلیاں برداشت کی جاتی ہیں۔ تین ''م '' جب ایک ملک میں جمع ہو جاتے ہیں۔ یعنی مہذب لوگ، مہذب ادارے، مہذب معاشرے ایسے ملکوں میں عوام خوش حال اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔ جن ملکوں میں عوام جاہل، ادارے غیر ذمے دار اور کرپٹ ہوتے ہیں وہاں کے عوام کی زندگی کراچی کی زندگی بن جاتی ہے۔
یہ خبریں اخبارات میں میئر کے بیانات کی شکل میں بار بار آتی ہیں کہ صوبائی حکومت فنڈز جاری نہیں کر رہی ہے پھر کام کیسے ہو؟ یہ مسئلہ بہت اہم ہے ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ اربوں روپوں کا بجٹ کیسے چھو منتر ہو جاتا ہے۔ میونسپل ادارے ہر ملک میں انتہائی اہمیت کے حامل ادارے ہوتے ہیں اس لیے انھیں ہر ملک میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے لیکن پاکستان غالباً دنیا کا عجیب و غریب ملک ہے جہاں میونسپل اداروں کو ذرا برابر اہمیت نہیں دی جاتی جس کا نتیجہ ہم آپ سب کے سامنے ہے۔ جب تک میونسپل ادارے کسی نہ کسی حد تک فعال تھے دیر ہی سے سہی کچھ نہ کچھ کام ہو جاتا تھا اب نہ یونین کونسلیں فعال ہیں نہ عوام کے مسائل دیکھے جا رہے ہیں ہر طرف ایک سناٹا ہے۔
کرپشن ہر ادارے کی جڑوں میں پڑی ہوئی ہے کوئی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں جب صورتحال یہ ہے تو ادارے کیا خاک کام کریں گے۔ ماضی میں میونسپل کارپوریشن کا کریا کرم کرنے کے لیے ایم این اے اور ایم پی ایز کو کے ایم سی کا فنڈ دیا جاتا تھا اور یہ حضرات سوائے چند کے باپ کا مال سمجھ کر کھا جاتے تھے چونکہ سیاں کوتوال ہوتا تھا لہٰذا جی بھر کے عوام کی دولت لوٹی جاتی تھی۔ جس زمانے میں مالی اختیارات ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ہاتھوں میں تھے کے ایم سی ایلیٹ کی چراگاہ بنی ہوئی تھی۔ آج حکومت بہت مالدار ہے لیکن مال کس طرح خرچ ہو رہا ہے عمران خان جانتے ہیں اور ان کی کابینہ ۔ لیکن ایک بات بہرحال تسلیم کی جا سکتی ہے کہ آج کا حال 2018ء کا حال نہیں ہے کچھ شرم و حیا کا پتہ چلتا ہے۔
حکومت یقینا بعض اچھے کام کر رہی ہے زیادہ سے زیادہ ترقیاتی فنڈز جاری کیے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں فنڈ کا کچھ بہتر استعمال ہو رہا ہے اگر یہ بات درست ہے تو اسے ہم حکومت کی ایک بڑی کامیابی کہہ سکتے ہیں۔ جہاں کرپشن اوپر سے شروع ہوتی ہے تو سمجھ لیجیے سب ''خیر ہے'' اس سسٹم میں ویسے تو کرپشن ختم کرنا ، ایں خیال است و محال است و جنوں۔ لیکن حکومت اگر سختی کرے تو اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ کرپشن میں کمی آ سکتی ہے آج کے حالات میں اسے بھی ہم ایک بڑی کامیابی ہی کہہ سکتے ہیں۔