ایک چینل کو فوٹیج دینا امتیازی سلوک ہے تحقیقات کی جائے وکلا رہنما
جس طرح ایک ٹی وی نے تشہیری مہم چلائی اسکی کچھ وصولی توکرناتھی،اعتراز ،گروپ اپناسیلز ٹیکس بچارہا ہے،عاصمہ جہانگیر
سبکدوش چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس کی فوٹیج ایک ٹی وی چینل کو دینے پر وکلا رہنمائوں نے شدید تنقید کرتے ہوئے واقعے کی مکمل تحقیقات اور ذمے دار افراد کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
معروف قانون دان اعترازاحسن نے کہا ہے کہ لگتاہے معاملات طے شدہ تھے،جس طرح ایک ٹی وی نے تشہیری مہم چلائی اس کی کچھ تووصولی کرناتھی،میراخیال نہیں تھاچیف جسٹس جاتے جاتے اتناغلط فیصلہ کرینگے۔ جسٹس (ر) سعیدالزمان صدیقی نے کہاکہ اگر میڈیاکواجازت نہیں تھی تومخصوص میڈیاگروپ اندرکیسے جاپہنچا؟ ایک چینل کوویڈیو فراہم کرنے کامقصدکیاتھا؟ جسٹس (ر)رشیدرضوی نے میڈیا کو مشورہ دیاکہ اس معاملے کوچیلنج کردیناچاہیے، از خود نوٹس کا انتظار نہ کیا جائے، میڈیاہاؤسز، سول سوسائٹی اوروکلاء کی جانب سے سخت احتجاج ہوناچاہیے، واقعے کی تحقیات ہونی چاہیے۔
سابق وزیرقانون خالدرانجھا نے بھی میڈیا سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے کہاکہ سب کویکساں ترجیح دینی چاہیے تھی، یہاں لوگ باتیں کرتے ہیں جوفیصلہ ہوتاہے وہ ایک چینل پہلے بتا دیتاہے، رجسٹراربغیراجازت انگلی نہیں ہلاتا، اس نے وہی کیا جس کی ہدایت تھی، سابق صدر سپریم کورٹ بار عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ ایک میڈیا گروپ اپنا سیلز ٹیکس بچارہا ہے۔ ماہر قانون علی احمد کرد نے کہا کہ میڈیا سے امتیازی سلوک کی انکوائری ہونی چاہیے ۔
احمد رضا قصوری نے کہاکہ مخصوص چینل کی کورٹ روم ون تک رسائی تھی،جج فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں، تقریریں نہیں کرتے، سپریم کورٹ کوانصاف کا مندرکہا جاتا ہے اگریہاں سے امتیازی سلوک کاگھناؤناکردار سامنے آئے تویہ بہت افسوسناک ہے۔ سپریم کورٹ بار لاہور رجسٹری کے صدر توفیق آصف نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر رجسٹرار سے ملنے گئے تھے مگر ان سے ملاقات نہ ہو سکی، صحافیوں کیخلاف نعرے بازی غلط فہمی کی بنا پر ہوئی، میڈیا کیخلاف نہیں۔ وکیل رہنما احسن بھون نے کہا کہ پاکستان بار اس واقعے کی مذمت کرتی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار کا کہنا ہے کہ غیر قانونی اقدام قابل مذمت ہے۔
معروف قانون دان اعترازاحسن نے کہا ہے کہ لگتاہے معاملات طے شدہ تھے،جس طرح ایک ٹی وی نے تشہیری مہم چلائی اس کی کچھ تووصولی کرناتھی،میراخیال نہیں تھاچیف جسٹس جاتے جاتے اتناغلط فیصلہ کرینگے۔ جسٹس (ر) سعیدالزمان صدیقی نے کہاکہ اگر میڈیاکواجازت نہیں تھی تومخصوص میڈیاگروپ اندرکیسے جاپہنچا؟ ایک چینل کوویڈیو فراہم کرنے کامقصدکیاتھا؟ جسٹس (ر)رشیدرضوی نے میڈیا کو مشورہ دیاکہ اس معاملے کوچیلنج کردیناچاہیے، از خود نوٹس کا انتظار نہ کیا جائے، میڈیاہاؤسز، سول سوسائٹی اوروکلاء کی جانب سے سخت احتجاج ہوناچاہیے، واقعے کی تحقیات ہونی چاہیے۔
سابق وزیرقانون خالدرانجھا نے بھی میڈیا سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے کہاکہ سب کویکساں ترجیح دینی چاہیے تھی، یہاں لوگ باتیں کرتے ہیں جوفیصلہ ہوتاہے وہ ایک چینل پہلے بتا دیتاہے، رجسٹراربغیراجازت انگلی نہیں ہلاتا، اس نے وہی کیا جس کی ہدایت تھی، سابق صدر سپریم کورٹ بار عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ ایک میڈیا گروپ اپنا سیلز ٹیکس بچارہا ہے۔ ماہر قانون علی احمد کرد نے کہا کہ میڈیا سے امتیازی سلوک کی انکوائری ہونی چاہیے ۔
احمد رضا قصوری نے کہاکہ مخصوص چینل کی کورٹ روم ون تک رسائی تھی،جج فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں، تقریریں نہیں کرتے، سپریم کورٹ کوانصاف کا مندرکہا جاتا ہے اگریہاں سے امتیازی سلوک کاگھناؤناکردار سامنے آئے تویہ بہت افسوسناک ہے۔ سپریم کورٹ بار لاہور رجسٹری کے صدر توفیق آصف نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر رجسٹرار سے ملنے گئے تھے مگر ان سے ملاقات نہ ہو سکی، صحافیوں کیخلاف نعرے بازی غلط فہمی کی بنا پر ہوئی، میڈیا کیخلاف نہیں۔ وکیل رہنما احسن بھون نے کہا کہ پاکستان بار اس واقعے کی مذمت کرتی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار کا کہنا ہے کہ غیر قانونی اقدام قابل مذمت ہے۔