زمان خان کی کتاب معلومات کا ذخیرہ
ہم میں سے ایک طالب علم انتظامیہ کا مخبر تھا، یوں یہ اطلاع وائس چانسلر تک پہنچ گئی۔
Alternative Vision Voices of Reason صحافی ، وکیل، دانشور، سیاسی کارکن اور انسانی حقوق کی تحریک کے فعال رکن زمان خان کی نئی کتاب کا نام ہے۔ ان کی یہ کتاب نامور شخصیات کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔
آئی اے رحمن نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا ہے۔ اس کتاب میں نصرت فتح علی خان کو لیجنڈ بنانے والے غریب شاعر بری نظامی پر ایک آرٹیکل شامل ہے۔ بری نظامی کا اصل نام محمد صغیر تھا،وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیدا ہوا، پھرلائلپور منتقل ہوا اور بس کنڈیکٹر بن گیا۔ اس میں شاعری کی خداداد صلاحیتیں تھیں۔ بری نظامی نے نصرت فتح علی خان کو وہ گیت دیے جن کو گا کر نصرت نے گیت کی گائیگی میں اپنا نام پیدا کیا، مگر بری نظامی غربت میں مر گیا۔
زمان خان نے پنجابی کی عظیم شاعرہ امرتاپریتم سے نئی دہلی جا کر انٹرویو کیا۔ امرتا پریتم نے اس انٹرویو میں اپنی ذاتی زندگی کے علاوہ فیض احمد فیض، سعادت حسن منٹو اور اس کی زندگی کے ساتھی ساحر لدھیانوی اور امروز کے بارے میں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
امرتانے اس انٹرویو میں انکشاف کیا کہ جب وہ بی اے فائنل کا امتحان دینے والی تھی تو اس کو اچانک احساس ہوا کہ یہ تو یادداشت کا امتحان ہے۔ میں نے سوچا میں کیوں نہ نظمیں تخلیق کروں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں سخت غصہ میں تھی اور میں نے امتحان نہیں دیا اور کالج چھوڑ دیا۔امرتانے عظیم شاعر ساحر لدھیانوی کے بارے میں کہا وہ میرا دوست تھا۔
بقول امرتا'' میں اپنے خیالوں کے صدقے''۔ امرتانے بتایا ساحر نے اس پر کئی نظمیں لکھیں اور اس نے بھی ساحر پر کئی نظمیں لکھیں۔ ''لگی لَو تے پہلا پہر لگا''۔ انھوں نے اپنے ناول کے کردار کے بارے میں کہا بنیادی طور پر ان کے کردار مرد اور عورت کے تعلقات کے بارے میں ہیں۔ پھر یہ مردوں کے مردوں سے تعلقات ، ایک ملک کے دوسرے ملک سے تعلقات تک محیط ہوجاتے ہیں۔ زمان خان نے پنجابی کے معروف شاعر افضل رندھاوا کا انٹرویو بھی کیا۔
افضل رندھاوا جدید پنجابی ناول اور مختصر کہانی کے بانی ہیں۔ زمان خان کا کہنا ہے کہ افضل رندھاوااپنے لوگوں سے زیادہ سرحد پار مقبول ہیں۔ رندھاوا کو ادبی مقتدرا Literacy Establishment جس پر اردو ادیبوں کا غلبہ ہے نے کبھی تسلیم نہیں کیا مگر افضل رندھاوا کی کتابیں مشرقی پنجاب میں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ رندھاوا کی پہلی کتاب''دیوا تے دریا'' بھارت میں شائع ہوئی، یہ کسی پاکستانی پنجابی مصنف کی پہلی کتاب ہے جس کو بھارت میں شائع ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
افضل رندھاوا کو ادب کا آدم جی ایوارڈ دیا گیا مگر رائٹر گلڈکے پنجابی ادیبوں سے ناروا سلوک کے خلاف احتجاجاً افضل رندھاوا نے یہ ایوارڈ لینے سے انکار کیا۔ زمان خان نے پاکستان کی پہلی خاتون وفاقی سیکریٹری گلزار بانوکا بھی انٹرویو لیا۔ گلزار بانو جنرل ضیاء الحق کے دور میں کیبنٹ سیکریٹری رہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرہ پر مردوں کی بالادستی ہے۔ انھوں نے اس بالادستی کو توڑنے کے لیے سخت محنت کی۔ گلزار بانو نے شادی نہیں کی، وہ ریٹائرمنٹ کے بعد انسانی حقوق کی تحریکوں میں سرگرم عمل رہیں۔ گلزار بانو کا کہنا ہے کہ 1950ء میں سول سروس کے امتحان میں وہ اول پوزیشن پر فائز ہوئیں مگر جب وہ انٹرویو کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے اراکین کے سامنے پیش ہوئیں تو چیئرمین نے کہا کہ ایک مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی ہے مگر کمیشن کے اراکین ایک خاتون کے تقرر کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس بناء پر گلزار بانو کو زبانی امتحان Viva میں کم نمبر دیے گئے، یوں ان کی پوزیشن دوسری ہوگئی مگر گلزار بانو وزیر اعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ رعنا لیاقت علی خان کے پاس پہنچ گئیں اور ان کے خط پر ان کا تقرر ہوا۔ یہ خبر اس وقت کے اخبارات میں جلی سرخیوں سے شائع ہوئی مگر ایک خاتون ہونے پر انھیں فارن سروس کے لیے نااہل قرار دیا گیا، مگر گلزار بانو ہر صورت میں سول سروس میں شامل ہونا چاہتی تھیں۔ انھیں آڈٹ اور اکاؤنٹنٹ سروس میں بھیج دیا گیا اور پہلی تقرری لاہور میں آڈٹ اور اکاؤنٹٹ جنرل پنجاب کے دفتر میں ہوئی ۔
اس کتاب کے حصہ تاریخ میں بائیں بازو کے ممتاذ دانشورپروفیسر حمزہ علوی کا انٹرویو بھی شامل ہے۔ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے ماحول کا تجزیہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یونی ورسٹی میں ایک طرح کا فاشسٹ ماحول تھا اورہٹلر کے نازی نظام کی طرح اساتذہ اور طلبہ کی خفیہ نگرانی کا نظام قائم تھا، زیر تعلیم طلبہ کو فراہم کیے جانے والے کھانے کا معیار خاصا خراب تھا۔ ایک دن ہم نے اس بارے میں احتجاج کا فیصلہ کیا۔
ہم میں سے ایک طالب علم انتظامیہ کا مخبر تھا، یوں یہ اطلاع وائس چانسلر تک پہنچ گئی۔ دوسرے دن مجھے وائس چانسلر کے دفتر طلب کیا گیااورمیری وائس چانسلر کے سامنے حاضری ہوئی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ وائس چانسلر کے پاس میرے بارے میں تمام معلومات موجود تھی۔ حمزہ علوی کہتے ہیں کہ میں نے طلبہ تنظیم آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس وقت وائس چانسلر طلبہ یونین کے نائب صدر کو نامزد کرتے تھے۔ اس سال ہم نے اپنا امیدوار کھڑا کیا اور اس نے سرکاری امیدوار کو شکست دیدی، مگر اس کامیابی پر ہم پر تشدد کیا گیا۔ حمزہ علوی خود بھی تشدد کا شکار ہوئے مگر انھوں نے حملہ آوروں کے نام ظاہر کرنے سے انکار کیا۔
زمان خان نے ترقی پسند وکیل لطیف آفریدی سے بھی کچھ چبھتے ہوئے سوالات کیے۔90ء کی دہائی میں عاصمہ جہانگیر کی ہمشیرہ حنا جیلانی کے ہاںخواتین کے شیلٹر ہوم میں کے پی سے آنے والی ایک خاتون نے پناہ لی۔ یہ خاتون اپنے شوہر سے طلاق چاہتی تھی اورپسند کی شادی کی خواہش رکھتی تھی، اس کی والدہ ایک ڈاکٹر تھی۔
لڑکی کی والدہ حنا جیلانی کے دفتر میں بیٹی سے ملنے آئی۔ ان کے ساتھ ایک اجرتی قاتل تھا جس نے لڑکی کو فائرنگ کر کے قتل کیا۔ یہ عزت کے نام پر کھلا قتل تھا۔ لطیف آفریدی نے اپنے انٹرویو میں اس قتل کے حوالے سے بہت سی باتیں کی ہیں، جنھیں آج کے نوجوانوں کو پڑھنا چاہیے۔ اس کتاب میں جنوبی ایشیا ،یورپ و امریکاکے ماہرین تعلیم جس میں خواتین بھی شامل ہیں سماجی کارکنوں ،دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کے انٹرویوز بھی شامل ہیں،جن میں بے پناہ معلومات ہیں، اگر یہ کتاب اردو میں شائع ہوجائے تو خوب ہوگا۔
آئی اے رحمن نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا ہے۔ اس کتاب میں نصرت فتح علی خان کو لیجنڈ بنانے والے غریب شاعر بری نظامی پر ایک آرٹیکل شامل ہے۔ بری نظامی کا اصل نام محمد صغیر تھا،وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیدا ہوا، پھرلائلپور منتقل ہوا اور بس کنڈیکٹر بن گیا۔ اس میں شاعری کی خداداد صلاحیتیں تھیں۔ بری نظامی نے نصرت فتح علی خان کو وہ گیت دیے جن کو گا کر نصرت نے گیت کی گائیگی میں اپنا نام پیدا کیا، مگر بری نظامی غربت میں مر گیا۔
زمان خان نے پنجابی کی عظیم شاعرہ امرتاپریتم سے نئی دہلی جا کر انٹرویو کیا۔ امرتا پریتم نے اس انٹرویو میں اپنی ذاتی زندگی کے علاوہ فیض احمد فیض، سعادت حسن منٹو اور اس کی زندگی کے ساتھی ساحر لدھیانوی اور امروز کے بارے میں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
امرتانے اس انٹرویو میں انکشاف کیا کہ جب وہ بی اے فائنل کا امتحان دینے والی تھی تو اس کو اچانک احساس ہوا کہ یہ تو یادداشت کا امتحان ہے۔ میں نے سوچا میں کیوں نہ نظمیں تخلیق کروں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں سخت غصہ میں تھی اور میں نے امتحان نہیں دیا اور کالج چھوڑ دیا۔امرتانے عظیم شاعر ساحر لدھیانوی کے بارے میں کہا وہ میرا دوست تھا۔
بقول امرتا'' میں اپنے خیالوں کے صدقے''۔ امرتانے بتایا ساحر نے اس پر کئی نظمیں لکھیں اور اس نے بھی ساحر پر کئی نظمیں لکھیں۔ ''لگی لَو تے پہلا پہر لگا''۔ انھوں نے اپنے ناول کے کردار کے بارے میں کہا بنیادی طور پر ان کے کردار مرد اور عورت کے تعلقات کے بارے میں ہیں۔ پھر یہ مردوں کے مردوں سے تعلقات ، ایک ملک کے دوسرے ملک سے تعلقات تک محیط ہوجاتے ہیں۔ زمان خان نے پنجابی کے معروف شاعر افضل رندھاوا کا انٹرویو بھی کیا۔
افضل رندھاوا جدید پنجابی ناول اور مختصر کہانی کے بانی ہیں۔ زمان خان کا کہنا ہے کہ افضل رندھاوااپنے لوگوں سے زیادہ سرحد پار مقبول ہیں۔ رندھاوا کو ادبی مقتدرا Literacy Establishment جس پر اردو ادیبوں کا غلبہ ہے نے کبھی تسلیم نہیں کیا مگر افضل رندھاوا کی کتابیں مشرقی پنجاب میں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ رندھاوا کی پہلی کتاب''دیوا تے دریا'' بھارت میں شائع ہوئی، یہ کسی پاکستانی پنجابی مصنف کی پہلی کتاب ہے جس کو بھارت میں شائع ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
افضل رندھاوا کو ادب کا آدم جی ایوارڈ دیا گیا مگر رائٹر گلڈکے پنجابی ادیبوں سے ناروا سلوک کے خلاف احتجاجاً افضل رندھاوا نے یہ ایوارڈ لینے سے انکار کیا۔ زمان خان نے پاکستان کی پہلی خاتون وفاقی سیکریٹری گلزار بانوکا بھی انٹرویو لیا۔ گلزار بانو جنرل ضیاء الحق کے دور میں کیبنٹ سیکریٹری رہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرہ پر مردوں کی بالادستی ہے۔ انھوں نے اس بالادستی کو توڑنے کے لیے سخت محنت کی۔ گلزار بانو نے شادی نہیں کی، وہ ریٹائرمنٹ کے بعد انسانی حقوق کی تحریکوں میں سرگرم عمل رہیں۔ گلزار بانو کا کہنا ہے کہ 1950ء میں سول سروس کے امتحان میں وہ اول پوزیشن پر فائز ہوئیں مگر جب وہ انٹرویو کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے اراکین کے سامنے پیش ہوئیں تو چیئرمین نے کہا کہ ایک مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی ہے مگر کمیشن کے اراکین ایک خاتون کے تقرر کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس بناء پر گلزار بانو کو زبانی امتحان Viva میں کم نمبر دیے گئے، یوں ان کی پوزیشن دوسری ہوگئی مگر گلزار بانو وزیر اعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ رعنا لیاقت علی خان کے پاس پہنچ گئیں اور ان کے خط پر ان کا تقرر ہوا۔ یہ خبر اس وقت کے اخبارات میں جلی سرخیوں سے شائع ہوئی مگر ایک خاتون ہونے پر انھیں فارن سروس کے لیے نااہل قرار دیا گیا، مگر گلزار بانو ہر صورت میں سول سروس میں شامل ہونا چاہتی تھیں۔ انھیں آڈٹ اور اکاؤنٹنٹ سروس میں بھیج دیا گیا اور پہلی تقرری لاہور میں آڈٹ اور اکاؤنٹٹ جنرل پنجاب کے دفتر میں ہوئی ۔
اس کتاب کے حصہ تاریخ میں بائیں بازو کے ممتاذ دانشورپروفیسر حمزہ علوی کا انٹرویو بھی شامل ہے۔ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے ماحول کا تجزیہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یونی ورسٹی میں ایک طرح کا فاشسٹ ماحول تھا اورہٹلر کے نازی نظام کی طرح اساتذہ اور طلبہ کی خفیہ نگرانی کا نظام قائم تھا، زیر تعلیم طلبہ کو فراہم کیے جانے والے کھانے کا معیار خاصا خراب تھا۔ ایک دن ہم نے اس بارے میں احتجاج کا فیصلہ کیا۔
ہم میں سے ایک طالب علم انتظامیہ کا مخبر تھا، یوں یہ اطلاع وائس چانسلر تک پہنچ گئی۔ دوسرے دن مجھے وائس چانسلر کے دفتر طلب کیا گیااورمیری وائس چانسلر کے سامنے حاضری ہوئی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ وائس چانسلر کے پاس میرے بارے میں تمام معلومات موجود تھی۔ حمزہ علوی کہتے ہیں کہ میں نے طلبہ تنظیم آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس وقت وائس چانسلر طلبہ یونین کے نائب صدر کو نامزد کرتے تھے۔ اس سال ہم نے اپنا امیدوار کھڑا کیا اور اس نے سرکاری امیدوار کو شکست دیدی، مگر اس کامیابی پر ہم پر تشدد کیا گیا۔ حمزہ علوی خود بھی تشدد کا شکار ہوئے مگر انھوں نے حملہ آوروں کے نام ظاہر کرنے سے انکار کیا۔
زمان خان نے ترقی پسند وکیل لطیف آفریدی سے بھی کچھ چبھتے ہوئے سوالات کیے۔90ء کی دہائی میں عاصمہ جہانگیر کی ہمشیرہ حنا جیلانی کے ہاںخواتین کے شیلٹر ہوم میں کے پی سے آنے والی ایک خاتون نے پناہ لی۔ یہ خاتون اپنے شوہر سے طلاق چاہتی تھی اورپسند کی شادی کی خواہش رکھتی تھی، اس کی والدہ ایک ڈاکٹر تھی۔
لڑکی کی والدہ حنا جیلانی کے دفتر میں بیٹی سے ملنے آئی۔ ان کے ساتھ ایک اجرتی قاتل تھا جس نے لڑکی کو فائرنگ کر کے قتل کیا۔ یہ عزت کے نام پر کھلا قتل تھا۔ لطیف آفریدی نے اپنے انٹرویو میں اس قتل کے حوالے سے بہت سی باتیں کی ہیں، جنھیں آج کے نوجوانوں کو پڑھنا چاہیے۔ اس کتاب میں جنوبی ایشیا ،یورپ و امریکاکے ماہرین تعلیم جس میں خواتین بھی شامل ہیں سماجی کارکنوں ،دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کے انٹرویوز بھی شامل ہیں،جن میں بے پناہ معلومات ہیں، اگر یہ کتاب اردو میں شائع ہوجائے تو خوب ہوگا۔