روشن مستقبل کے سارے خواب چکناچور
افسوس کہ خان صاحب کوکسی بات کاکوئی غم اوررنج بھی نہیں ہے۔ وہ پلٹ کراپنی پرانی باتوں کو بھی یاد نہیں کیاکرتے ہیں۔
آج سے چھ سال پہلے تبدیلی اور بہتری کے دعوے کرتے ہوئے جوجوباتیں اسلام آبادکے ڈی چوک پر کی گئیں اُن میں سے اِن دوسالوں میں کسی ایک بات کو بھی حقیقت کا روپ دے کرسرخرو ہونے کی کوشش نہیں کی گئی۔
ستم ظریفی یہ کہ اُلٹا اُن سے متضاد ہی حکمت عملی اختیار کرکے عوام الناس کے لیے مزید مصائب اورمشکلات ہی پیداکی گئیں۔کنٹینر پر کھڑے ہوکرہرروز مہنگائی اوراشیاء ضروریہ کی گرانی کوایشو بنا بنا کر عوام کو ریلیف دینے کے جو دعوے اوروعدے کیے جاتے تھے اقتدار مل جانے کے بعداُنہیں کم کرنے کی بجائے مزید مہنگائی کے پہاڑ توڑے جانے لگے۔
آج حال یہ ہے کہ ہرچیز کی قیمت دگنی ہے۔چینی جو 2018 میں 53روپے فی کلو مل رہی تھی آج 100روپے کلو ہے۔بیس کلو آٹے کاتھیلہ جو 800 روپے میں ملا کرتاتھاآج 1350میں مل رہاہے۔ گیس اوربجلی کے نرخ ہیں کہ رکنے ہی نہیں پارہے۔ بجلی کے جن بلوں کودکھادکھا کر کہاجا تا تھا کہ جنوبی ایشیاء میںسب سے زیادہ مہنگی بجلی ہمارے یہاں ہے۔حکمراں بن جانے کے بعد اُسے سستا کرنے کی بجائے مزید مہنگا کر دیا۔
گیس کے نرخ بھی یہ کہہ کربڑھادیے کہ سابقہ حکمرانوں نے اُنہیں جان بوجھ کر کم رکھااورگیس کمپنیوں کوخسارے میں ڈال دیا۔بالکل اِسی طرح روپے کی حیثیت کم کرتے ہوئے بھی یہی موقف اختیار کیا گیا کہ میاں نواز شریف حکومت نے ڈالر کی قیمت کو زبردستی کم رکھاہوا تھاجس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بہت بڑھ گیاتھا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ جن چوروں اورڈاکوؤں کے خلاف الزام تراشی اور ہرزہ سرائی کرکے عوام کے دلوں میں اپنے لیے کوئی جگہ بنائی تھی اُن کاوہ کچھ بگاڑ نہیں پائے۔ بس جھوٹے جھوٹے الزامات لگا کر نیب کے ذریعہ ہراُس شخص کو کچھ مہینوں کے لیے حوالات کامزہ ضرور چکھادیا جن سے اُنہیں سیاست میں معمولی سے دشمنی تھی یا آنے والے دنوں میں کوئی ڈراورخوف لاحق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اُن کے خلاف ایک الزام میں ملکی عدالتوں میں درست اور صحیح ثابت نہ ہوسکا اوروہ آزاد کردیے گئے۔زبانی وکلامی کرتے ہوئے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ میں کسی کو بھی این آراو نہیں دوںگااور ادھر اُنہیں اپنے ہاتھوں سے بیرون ملک بھی بھیج دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اپنے دوسالہ دور اقتدار میںآج تک کس چور اورڈاکو کو اُنہوں نے سزادلوائی ہے۔ میاں نوازشریف کو بھی غیرملکی اقامہ رکھنے کی پاداش میں اورایون فیلڈ کیس میں جوسزاسنائی گئی وہ اِن کی جانب سے دائرکردہ کیس تو نہیںتھے۔بلکہ اُنہیں رہاکرنے کاسہرا وہ اپنے سر ضرور باندھ سکتے ہیں۔
چوروں سے لٹاہوا پیسہ تووہ واپس نہیں لاسکے لیکن عوام کے پیٹ چیر کر اُنہوں نے وہ سب کچھ بھی نکال لیاہے جوسابقہ ادوار کے اچھے دنوںمیں اُنہوں نے کچھ کھایاپیاتھا۔آج یہ حال ہے کہ مہنگائی اور روزافزوں گرانی کے سبب وہ دووقت کی روٹی بھی پیٹ بھرکے نہیں کھاسکتے۔موجودہ حکومت نے اُن غریبوں کو ریلیف دینے کی بجائے اپنے اُن ساتھیوں اوردوستوں کو نوازا ہے۔
جنہوں نے اُن پراپوزیشن دور میں خوب پیسہ لٹایاتھا، آج وہ سارا پیسہ اُنہوں نے سود سمیت واپس لے لیاہے۔ یہ پہلی حکومت ہے جس نے چینی کے بحران پر جے آئی ٹی بنوائی اورکمیشن بٹھایا۔ عوامی دباؤ کے نتیجہ میں تحقیقات کا ڈرامہ توضرور رچایا گیالیکن چینی کی وہ قیمت توواپس نہیں ہوئی جو اِس بحران کے پردے میں بڑھادی گئی تھی۔اُلٹاعوام آج سوروپے میں ایک کلوچینی خریدنے پرمجبورہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی تحقیقات کاکیافائدہ۔ایسا ہی حال پیٹرول مافیا کا ہے۔ پیٹرول کی عالمی قیمتیں خواہ بڑھیں یانہ بڑھیں ہمارے یہاں یہ پندرہ روز کی بنیاد وں پر ضرور بڑھتی جائیں گی۔ کوئی بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں اِسے ڈالر کی طرح 170روپے فی لٹر بھی کردیاجائے۔
ذرا غور کریں 2018 میں سونا کس بھاؤ مل رہاتھااورآج کس دام میں مل رہا ہے۔پچاس ہزار فی تولہ سونا آج صرف دوسال گذرجانے کے بعدایک لاکھ 23ہزار رروپے فی تولہ ہوچکا ہے اور آگے کہاں تک جائے گایہ کسی کوپتانہیں۔ملک اوریہاں کے عوام پر غیر ملکی قرضہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ سابقہ قرضے اداکرنے کے بہانے اتنے زیادہ قرضے لے لیے گئے ہیں کہ آئندہ آنے والاکوئی حکمراں اُس کے شکنجہ سے باہر نہیں نکل پائے گا۔
مگر افسوس کہ خان صاحب کوکسی بات کاکوئی غم اوررنج بھی نہیں ہے۔ وہ پلٹ کراپنی پرانی باتوں کو بھی یاد نہیں کیاکرتے ہیں۔ جتنا کٹھن اورمشکل دور ہمارے عوام آج جھیل رہے ہیں شاید ہی اُنہوں نے اِس سے پہلے کبھی جھیلا ہو۔ افسوس کہ آنے والے دنوں میں بھی کوئی آس واُمید نظر نہیں آرہی بلکہ خطرہ یہی ہے کہ جتنے دن یہ مزید برسراقتدار رہیںگے عوام پرمصیبتیں اورمشکلیں اوربھی بڑھیں گی۔ خان صاحب دوسالوں کی اپنی ناقص کارکردگی کا اعتراف بھی کرتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے۔اُلٹاوہ اپنی نااہلیوں کاالزام بھی سابقہ ادوار پرڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔ایسالگتا ہے کہ اگلے تین برس بھی ایسے ہی گذر جائیں گے۔ جس رفتار سے ملک کی شرح نمود گرتے گرتے منفی درجوں میں جاپہنچی ہے اگلے تین برسوں میں یہ دنیاکے تمام پسماندہ ملکوں کو پیچھے چھوڑ دے گی ۔
ہمارے کپتان نے کنٹینر میں کھڑے ہوکر علی الاعلان یہ دعویٰ کیاتھاکہ لیڈرشپ اچھی ہوتوساری ٹیم خودبخود کام کرتی ہے۔ لیڈر ایماندار اورنیک ہوتواُس کے وزیراورمشیر بھی چوری اوربے ایمانی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ قوم نے اپنے قسمت کا فیصلہ اِن کے ہاتھوں میںاِس لیے دیاتھا کہ وہ بظاہر اپنی باتوں سے ایک باصلاحیت اورپرعزم شخص دکھائی دیتے تھے لیکن عوام کے یہ سارے خیالات اوراندازے ریت کی مانندبکھر گئے ۔ قوم کو آج اپنے فیصلے پرافسوس کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ہمیں اپنی غلطیوں پرمعاف کرنے والا ہے اوروہی ہمیں اِس مصیبت سے نکالنے والا ہے۔ اِس کے علاوہ کوئی تجویز اورتدبیر ہمارے کام نہیں آسکتی۔
ستم ظریفی یہ کہ اُلٹا اُن سے متضاد ہی حکمت عملی اختیار کرکے عوام الناس کے لیے مزید مصائب اورمشکلات ہی پیداکی گئیں۔کنٹینر پر کھڑے ہوکرہرروز مہنگائی اوراشیاء ضروریہ کی گرانی کوایشو بنا بنا کر عوام کو ریلیف دینے کے جو دعوے اوروعدے کیے جاتے تھے اقتدار مل جانے کے بعداُنہیں کم کرنے کی بجائے مزید مہنگائی کے پہاڑ توڑے جانے لگے۔
آج حال یہ ہے کہ ہرچیز کی قیمت دگنی ہے۔چینی جو 2018 میں 53روپے فی کلو مل رہی تھی آج 100روپے کلو ہے۔بیس کلو آٹے کاتھیلہ جو 800 روپے میں ملا کرتاتھاآج 1350میں مل رہاہے۔ گیس اوربجلی کے نرخ ہیں کہ رکنے ہی نہیں پارہے۔ بجلی کے جن بلوں کودکھادکھا کر کہاجا تا تھا کہ جنوبی ایشیاء میںسب سے زیادہ مہنگی بجلی ہمارے یہاں ہے۔حکمراں بن جانے کے بعد اُسے سستا کرنے کی بجائے مزید مہنگا کر دیا۔
گیس کے نرخ بھی یہ کہہ کربڑھادیے کہ سابقہ حکمرانوں نے اُنہیں جان بوجھ کر کم رکھااورگیس کمپنیوں کوخسارے میں ڈال دیا۔بالکل اِسی طرح روپے کی حیثیت کم کرتے ہوئے بھی یہی موقف اختیار کیا گیا کہ میاں نواز شریف حکومت نے ڈالر کی قیمت کو زبردستی کم رکھاہوا تھاجس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بہت بڑھ گیاتھا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ جن چوروں اورڈاکوؤں کے خلاف الزام تراشی اور ہرزہ سرائی کرکے عوام کے دلوں میں اپنے لیے کوئی جگہ بنائی تھی اُن کاوہ کچھ بگاڑ نہیں پائے۔ بس جھوٹے جھوٹے الزامات لگا کر نیب کے ذریعہ ہراُس شخص کو کچھ مہینوں کے لیے حوالات کامزہ ضرور چکھادیا جن سے اُنہیں سیاست میں معمولی سے دشمنی تھی یا آنے والے دنوں میں کوئی ڈراورخوف لاحق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اُن کے خلاف ایک الزام میں ملکی عدالتوں میں درست اور صحیح ثابت نہ ہوسکا اوروہ آزاد کردیے گئے۔زبانی وکلامی کرتے ہوئے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ میں کسی کو بھی این آراو نہیں دوںگااور ادھر اُنہیں اپنے ہاتھوں سے بیرون ملک بھی بھیج دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اپنے دوسالہ دور اقتدار میںآج تک کس چور اورڈاکو کو اُنہوں نے سزادلوائی ہے۔ میاں نوازشریف کو بھی غیرملکی اقامہ رکھنے کی پاداش میں اورایون فیلڈ کیس میں جوسزاسنائی گئی وہ اِن کی جانب سے دائرکردہ کیس تو نہیںتھے۔بلکہ اُنہیں رہاکرنے کاسہرا وہ اپنے سر ضرور باندھ سکتے ہیں۔
چوروں سے لٹاہوا پیسہ تووہ واپس نہیں لاسکے لیکن عوام کے پیٹ چیر کر اُنہوں نے وہ سب کچھ بھی نکال لیاہے جوسابقہ ادوار کے اچھے دنوںمیں اُنہوں نے کچھ کھایاپیاتھا۔آج یہ حال ہے کہ مہنگائی اور روزافزوں گرانی کے سبب وہ دووقت کی روٹی بھی پیٹ بھرکے نہیں کھاسکتے۔موجودہ حکومت نے اُن غریبوں کو ریلیف دینے کی بجائے اپنے اُن ساتھیوں اوردوستوں کو نوازا ہے۔
جنہوں نے اُن پراپوزیشن دور میں خوب پیسہ لٹایاتھا، آج وہ سارا پیسہ اُنہوں نے سود سمیت واپس لے لیاہے۔ یہ پہلی حکومت ہے جس نے چینی کے بحران پر جے آئی ٹی بنوائی اورکمیشن بٹھایا۔ عوامی دباؤ کے نتیجہ میں تحقیقات کا ڈرامہ توضرور رچایا گیالیکن چینی کی وہ قیمت توواپس نہیں ہوئی جو اِس بحران کے پردے میں بڑھادی گئی تھی۔اُلٹاعوام آج سوروپے میں ایک کلوچینی خریدنے پرمجبورہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی تحقیقات کاکیافائدہ۔ایسا ہی حال پیٹرول مافیا کا ہے۔ پیٹرول کی عالمی قیمتیں خواہ بڑھیں یانہ بڑھیں ہمارے یہاں یہ پندرہ روز کی بنیاد وں پر ضرور بڑھتی جائیں گی۔ کوئی بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں اِسے ڈالر کی طرح 170روپے فی لٹر بھی کردیاجائے۔
ذرا غور کریں 2018 میں سونا کس بھاؤ مل رہاتھااورآج کس دام میں مل رہا ہے۔پچاس ہزار فی تولہ سونا آج صرف دوسال گذرجانے کے بعدایک لاکھ 23ہزار رروپے فی تولہ ہوچکا ہے اور آگے کہاں تک جائے گایہ کسی کوپتانہیں۔ملک اوریہاں کے عوام پر غیر ملکی قرضہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ سابقہ قرضے اداکرنے کے بہانے اتنے زیادہ قرضے لے لیے گئے ہیں کہ آئندہ آنے والاکوئی حکمراں اُس کے شکنجہ سے باہر نہیں نکل پائے گا۔
مگر افسوس کہ خان صاحب کوکسی بات کاکوئی غم اوررنج بھی نہیں ہے۔ وہ پلٹ کراپنی پرانی باتوں کو بھی یاد نہیں کیاکرتے ہیں۔ جتنا کٹھن اورمشکل دور ہمارے عوام آج جھیل رہے ہیں شاید ہی اُنہوں نے اِس سے پہلے کبھی جھیلا ہو۔ افسوس کہ آنے والے دنوں میں بھی کوئی آس واُمید نظر نہیں آرہی بلکہ خطرہ یہی ہے کہ جتنے دن یہ مزید برسراقتدار رہیںگے عوام پرمصیبتیں اورمشکلیں اوربھی بڑھیں گی۔ خان صاحب دوسالوں کی اپنی ناقص کارکردگی کا اعتراف بھی کرتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے۔اُلٹاوہ اپنی نااہلیوں کاالزام بھی سابقہ ادوار پرڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔ایسالگتا ہے کہ اگلے تین برس بھی ایسے ہی گذر جائیں گے۔ جس رفتار سے ملک کی شرح نمود گرتے گرتے منفی درجوں میں جاپہنچی ہے اگلے تین برسوں میں یہ دنیاکے تمام پسماندہ ملکوں کو پیچھے چھوڑ دے گی ۔
ہمارے کپتان نے کنٹینر میں کھڑے ہوکر علی الاعلان یہ دعویٰ کیاتھاکہ لیڈرشپ اچھی ہوتوساری ٹیم خودبخود کام کرتی ہے۔ لیڈر ایماندار اورنیک ہوتواُس کے وزیراورمشیر بھی چوری اوربے ایمانی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ قوم نے اپنے قسمت کا فیصلہ اِن کے ہاتھوں میںاِس لیے دیاتھا کہ وہ بظاہر اپنی باتوں سے ایک باصلاحیت اورپرعزم شخص دکھائی دیتے تھے لیکن عوام کے یہ سارے خیالات اوراندازے ریت کی مانندبکھر گئے ۔ قوم کو آج اپنے فیصلے پرافسوس کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ہمیں اپنی غلطیوں پرمعاف کرنے والا ہے اوروہی ہمیں اِس مصیبت سے نکالنے والا ہے۔ اِس کے علاوہ کوئی تجویز اورتدبیر ہمارے کام نہیں آسکتی۔