اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر میں اصلاحات وقت لیں گی
ایف بی آر میں اصلاحات دسمبر تک، اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956 میں ترمیم کی ضرورت
اسٹیٹ بینک اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں اصلاحات کے لیے وقت درکار ہوگا۔
گذشتہ روز وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹرعشرت حسین نے اکنامک گورننس کی بہتری کے لیے کلیدی اداروں کی ری اسٹرکچرنگ اور استحکام کی صورتحال کے حوالے سے وفاقی کابینہ کو پریزینٹیشن کے دوران وفاقی کابینہ کو بتایا کہ مرکزی بینک کے اختیارات کی حد کا تعین اور ٹیکس مشینری کے نئے اسٹرکچر جیسے ایشو حل نہ ہونے کی وجہ سے ان اداروں میں اصلاحات وقت لیں گی۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر کی اصلاحات میں کچھ شدید نوعیت کی ری اسٹرکچرنگ تجاویز شامل نہیں تھیں جن کا اطلاق اٹھارھویں ترمیم کے کچھ حصے واپس نہ لیے جانے تک نہیں ہوسکتا۔ ان تجاویز میں پاکستان کسٹمز کی ایف بی آر سے علیٰحدگی اور صوبائی ٹیکس اتھارٹیز کو پاکستان ریونیو اتھارٹی میں ضم کرنا شامل ہے۔ وفاقی کابینہ کو ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، مسابقتی کمیشن، ایس ای سی پی، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، ریلوے، پی آئی اے میں اصلاحات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ ایف بی آر میں اصلاحات دسمبر سے پہلے تک مکمل نہیں ہوسکتیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے ایف بی آر کے بورڈ میں 8 اراکین کی تجویز دی تھی۔ اس وقت بورڈ ممبران 13 ہیں۔ اسٹیٹ بینک میں اصلاحات کے حوالے سے وفاقی کابینہ کو بتایا گیا کہ مرکزی بینک کی خودمختاری، گورننس اور مینڈیٹ کو مستحکم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956 میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم کابینہ کمیٹی برائے قانونی معاملات (سی سی ایل سی) نے یہ معاملہ التوا میں ڈال دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اب یہ معاملہ دوبارہ سی سی ایل سی کے پاس جائے گا اور نظرثانی شدہ مسودے میں خودمختاری اور چیک اینڈ بیلنس کے مابین توازن قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
گذشتہ روز وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹرعشرت حسین نے اکنامک گورننس کی بہتری کے لیے کلیدی اداروں کی ری اسٹرکچرنگ اور استحکام کی صورتحال کے حوالے سے وفاقی کابینہ کو پریزینٹیشن کے دوران وفاقی کابینہ کو بتایا کہ مرکزی بینک کے اختیارات کی حد کا تعین اور ٹیکس مشینری کے نئے اسٹرکچر جیسے ایشو حل نہ ہونے کی وجہ سے ان اداروں میں اصلاحات وقت لیں گی۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر کی اصلاحات میں کچھ شدید نوعیت کی ری اسٹرکچرنگ تجاویز شامل نہیں تھیں جن کا اطلاق اٹھارھویں ترمیم کے کچھ حصے واپس نہ لیے جانے تک نہیں ہوسکتا۔ ان تجاویز میں پاکستان کسٹمز کی ایف بی آر سے علیٰحدگی اور صوبائی ٹیکس اتھارٹیز کو پاکستان ریونیو اتھارٹی میں ضم کرنا شامل ہے۔ وفاقی کابینہ کو ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، مسابقتی کمیشن، ایس ای سی پی، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، ریلوے، پی آئی اے میں اصلاحات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ ایف بی آر میں اصلاحات دسمبر سے پہلے تک مکمل نہیں ہوسکتیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے ایف بی آر کے بورڈ میں 8 اراکین کی تجویز دی تھی۔ اس وقت بورڈ ممبران 13 ہیں۔ اسٹیٹ بینک میں اصلاحات کے حوالے سے وفاقی کابینہ کو بتایا گیا کہ مرکزی بینک کی خودمختاری، گورننس اور مینڈیٹ کو مستحکم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956 میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم کابینہ کمیٹی برائے قانونی معاملات (سی سی ایل سی) نے یہ معاملہ التوا میں ڈال دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اب یہ معاملہ دوبارہ سی سی ایل سی کے پاس جائے گا اور نظرثانی شدہ مسودے میں خودمختاری اور چیک اینڈ بیلنس کے مابین توازن قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔