برق گرتی ہے تو بس کراچی پر۔۔۔۔
شہر قائد بجلی کے نرخ میں تخفیف سے محروم کیوں؟ لوڈشیڈنگ کے لیے ’’مساوات‘‘ لیکن رعایت کے لیے۔۔۔
ملک کے معاشی مرکز کے طور پر کسی کو بھی عروس البلاد کراچی کی حیثیت پر کلام نہیں، مگر جب اس کے مسائل حل کرنے کی بات آتی ہے تو مصلحتوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں۔
مفاد پرست عناصر اپنی اپنی راگنی لے کر مختلف راگ الاپتے ہیں، رہ جاتے ہیں درمیان میں عوام۔۔۔ جو کہ شاید یہاں پسنے کا ہی نصیب لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے ملک کو 70 فی صد کما کر دینے والا یہ شہر اہل حَکم کی ترجیحات میں ایسے شامل کیوں نظر نہیں آتا، جیسا کہ وہ حلقے کے عوام اور اپنے اقتدار کو عزیز رکھتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ اب ان کی اقتدار کی نگری یہ شہر نہیں، بلکہ اس سے کوسوں دور اسلام آباد ہے۔۔۔ اب دودھ دینے والی گائے اگر بہت پرے بندھی ہو اور ہمیں اس کا دودھ اپنی دہلیز پر میسر ہو تو پھر اس کی صفائی ستھرائی اور غذائی ضروریات کا خیال کون کرتا ہے۔
اتنا بھی بہت ہوتا اگر مسائل سے فقط غفلت ہی برتی جارہی ہوتی، مگر یہاں تو معاملہ تکلیف دہ حد تک افسوس ناک دکھائی دیتا ہے اور ایسا کہ جسے نرم سے نرم الفاظ میں بھی تفریق اور تعصب کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا، کیوں کہ کئی بار یہ امر ثابت ہوچکا کہ حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس شہر کے باسیوں کے آلام کتنے شدید ہیں، اس کا احساس کرنا تو دور کی بات الٹا وہ اسے دھتکارنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔۔۔ شہر قائد کے مسائل کی بات ہو تو یہ سمجھنا دشوار ہوتا ہے کہ یہ شہر کے کس زخم کی تمہید ہے۔۔۔ کیوں کہ اس شہر کے امراض کی فہرست اتنی طویل ہے جتنی شاید ہی کسی شہر کی ہو۔۔۔ یہ بات سب ہی مانتے ہیں کہ یہ ملک کا سب سے بڑا اور اہم شہر ہے، سرکاری طور پر دارلحکومت کا اعزاز چھِن جانے کے باوجود اس سے معاشی دارالحکومت کا اعزاز چھیننے کی کوششیں کبھی کام یاب نہ ہو سکیں، اسی اہمیت کی بنا پر ملک کے چپے چپے سے لوگ تلاش معاش کے سلسلے میں آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کی آبادی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، لیکن دوسری طرف اس شہر کے بنیادی مسائل تک حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی، الٹا اس کے رِستے زخموں پر نمک پاشی کا سلسلہ دراز ہے۔
گزشتہ دنوں وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی صارفین کو فی یونٹ ڈھائی روپے تک کی رعایت دی گئی۔۔۔ اس طرح اس مد میں کُل 34 ارب کی تخفیف کی گئی ہے۔۔۔ لیکن اس اعانت سے دانستہ ملک کے سب سے بڑے شہر کو محروم رکھا گیا۔۔۔! نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے سے یہ اقدام عدالتی حکم کے نتیجے میں کیا لیکن کراچی کو تفریق کا نشانہ بنانے کو کیا عنوان دیا جائے؟ یہ رقم ایندھن کی بڑھوتری کے سلسلے میں کیے گئے اضافے کی وجہ سے جولائی 2012ء تا مئی 2013ء کے بلوں میں وصول کیے گئے تھے۔ اب انہیں بجلی صارفین کو اقساط کی صورت میں لوٹایا جائے گا، جس کا سلسلہ نومبر سے آیندہ برس اپریل تک جاری رہے گا، لیکن قومی خزانے کے سب سے بڑے حصے دار کراچی کے عوام فقط ان کا منہ تکیں گے!
وزیر مملکت عابد شیر علی نے ایک بار پھر کے ای ایس سی پر سنگین الزام عاید کرتے ہوئے کہا کہ ادارے نے پاکستان کا سب سے بڑا بجلی کا ڈاکا ڈالا ہے۔ یہ 350 میگا واٹ اضافی بجلی لیتی رہی اور اس کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ وفاق کی جانب سے کراچی کی بجلی تقسیم کار کمپنی پر الزامات کا سلسلہ کوئی نیا نہیں۔ دونوں کے باہمی معاملات سے قطع نظر شہر قائد کے عوام ایک بار پھر چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس شہر کے کسی مسئلے کو صحیح سے حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ اگر کے ای ایس سی نے واقعتاً ایسا کیا ہے، تو اس کی سزا عوام کو کیوں دی جا رہی ہے؟ کیا بہ حیثیت وفاق کے نمایندے کے مصائب زدہ کراچی کے عوام کے لیے ایسے رویے زیبا ہیں؟ اور آخر کیوں شہر قائد سے منتخب ہونے والے درجنوں اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی چپ کا روزہ رکھے بیٹھے ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں، جن کے جواب مصائب زدہ عوام ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امن وامان کی دگرگوں صورت حال سے نبردآزما کراچی آخر کس طرح آگے بڑھے گا، جب اس سے لیا تو سب کچھ جائے گا اور جب مسائل حل کرنے کی باری آئے گی تو سختی سے دھتکار دیا جائے گا۔۔۔ کیا کراچی کے عوام باقی ملک کے عوام جتنا محب وطن نہیں۔۔۔ یا ان کے حقوق باقی ملک سے کم ہیں تو واضح طور پر بتا دیا جائے، تاکہ اس شہر کی جنتا آیندہ کسی مسئلے کے حل کی توقع ہی نہ رکھے۔۔۔ یہ وہ شہر ہے جسے ''چاہتا'' تو ہر کوئی ہے لیکن اپناتا کوئی نہیں۔۔۔! گزشتہ موسم گرما کے بعد جب سے نئی حکومت برسراقتدار آئی ہے، کراچی کے عوام کے بجلی کے حوالے سے مسائل بڑھتے چلے گئے ہیں۔ کراچی سے محبت کا دعوا تو کیا جاتا ہے، لیکن جب میدان عمل کا جائزہ لیا جاتا ہے، تو نہایت افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔
یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ کراچی ہمارا ہے، لیکن اگلی ہی سانس میں اس کی دم توڑتی صنعت پر کاری وار کرنے کے لیے براہ راست شہر کے بجلی صارفین کو نشانہ بنانے سے بھی نہیں چُوکا جاتا۔۔۔ یہ نہیں سوچتے کہ اگر خدانخواستہ یہ رہی سہی صنعتیں ختم ہوتی گئیں تو قومی خزانے میں آنے والا 70 فی صد حصہ کہاں سے آئے گا۔ یہی نہیں کراچی جیسا گنجان آباد شہر پورے ملک میں نہیں، یہاں پورے ملک سے آنے والی آبادی کا شدید دباؤ ہے۔ یہاں کے دڑبے نما گھروں میں سانس لینے کے لیے بھی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ تنگ گلیوں میں کثیر المنزلہ عمارتوں میں قائم گھروں میں بجلی کے بغیر روشنی ہی نہیں ہوا کا گزر بھی نہیں ہو پاتا۔
گرمیوں کے دنوں میں ان تنگ گھروں میں سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بچے، خواتین، بزرگ اور مریض شدید اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔۔۔ کئی کی اموات بھی واقع ہو جاتی ہیں۔۔۔ لیکن شاید اس کی پروا کسی کو نہیں، جب لوڈشیڈنگ کی باری آتی ہے تو پورے ملک میں مساوات کی بات کی جاتی ہے اور کراچی کی رہی سہی بجلی پر بھی گھنٹوں بندش کے پروانے دیے جاتے ہیں، لیکن جب رعایت ملتی ہے تو ساری مساوات کھوکھلی حب الوطنی کا پردہ چاک کیے دیتی ہے! آخر کیوں اس شہر کے لیے ایسے رویے اپنائے جاتے رہیں گے۔۔۔ اور کون ہے جو عروس البلاد کے اس غم کی دوا کرے گا۔۔۔؟؟؟
مفاد پرست عناصر اپنی اپنی راگنی لے کر مختلف راگ الاپتے ہیں، رہ جاتے ہیں درمیان میں عوام۔۔۔ جو کہ شاید یہاں پسنے کا ہی نصیب لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے ملک کو 70 فی صد کما کر دینے والا یہ شہر اہل حَکم کی ترجیحات میں ایسے شامل کیوں نظر نہیں آتا، جیسا کہ وہ حلقے کے عوام اور اپنے اقتدار کو عزیز رکھتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ اب ان کی اقتدار کی نگری یہ شہر نہیں، بلکہ اس سے کوسوں دور اسلام آباد ہے۔۔۔ اب دودھ دینے والی گائے اگر بہت پرے بندھی ہو اور ہمیں اس کا دودھ اپنی دہلیز پر میسر ہو تو پھر اس کی صفائی ستھرائی اور غذائی ضروریات کا خیال کون کرتا ہے۔
اتنا بھی بہت ہوتا اگر مسائل سے فقط غفلت ہی برتی جارہی ہوتی، مگر یہاں تو معاملہ تکلیف دہ حد تک افسوس ناک دکھائی دیتا ہے اور ایسا کہ جسے نرم سے نرم الفاظ میں بھی تفریق اور تعصب کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا، کیوں کہ کئی بار یہ امر ثابت ہوچکا کہ حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس شہر کے باسیوں کے آلام کتنے شدید ہیں، اس کا احساس کرنا تو دور کی بات الٹا وہ اسے دھتکارنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔۔۔ شہر قائد کے مسائل کی بات ہو تو یہ سمجھنا دشوار ہوتا ہے کہ یہ شہر کے کس زخم کی تمہید ہے۔۔۔ کیوں کہ اس شہر کے امراض کی فہرست اتنی طویل ہے جتنی شاید ہی کسی شہر کی ہو۔۔۔ یہ بات سب ہی مانتے ہیں کہ یہ ملک کا سب سے بڑا اور اہم شہر ہے، سرکاری طور پر دارلحکومت کا اعزاز چھِن جانے کے باوجود اس سے معاشی دارالحکومت کا اعزاز چھیننے کی کوششیں کبھی کام یاب نہ ہو سکیں، اسی اہمیت کی بنا پر ملک کے چپے چپے سے لوگ تلاش معاش کے سلسلے میں آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کی آبادی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، لیکن دوسری طرف اس شہر کے بنیادی مسائل تک حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی، الٹا اس کے رِستے زخموں پر نمک پاشی کا سلسلہ دراز ہے۔
گزشتہ دنوں وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی صارفین کو فی یونٹ ڈھائی روپے تک کی رعایت دی گئی۔۔۔ اس طرح اس مد میں کُل 34 ارب کی تخفیف کی گئی ہے۔۔۔ لیکن اس اعانت سے دانستہ ملک کے سب سے بڑے شہر کو محروم رکھا گیا۔۔۔! نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے سے یہ اقدام عدالتی حکم کے نتیجے میں کیا لیکن کراچی کو تفریق کا نشانہ بنانے کو کیا عنوان دیا جائے؟ یہ رقم ایندھن کی بڑھوتری کے سلسلے میں کیے گئے اضافے کی وجہ سے جولائی 2012ء تا مئی 2013ء کے بلوں میں وصول کیے گئے تھے۔ اب انہیں بجلی صارفین کو اقساط کی صورت میں لوٹایا جائے گا، جس کا سلسلہ نومبر سے آیندہ برس اپریل تک جاری رہے گا، لیکن قومی خزانے کے سب سے بڑے حصے دار کراچی کے عوام فقط ان کا منہ تکیں گے!
وزیر مملکت عابد شیر علی نے ایک بار پھر کے ای ایس سی پر سنگین الزام عاید کرتے ہوئے کہا کہ ادارے نے پاکستان کا سب سے بڑا بجلی کا ڈاکا ڈالا ہے۔ یہ 350 میگا واٹ اضافی بجلی لیتی رہی اور اس کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ وفاق کی جانب سے کراچی کی بجلی تقسیم کار کمپنی پر الزامات کا سلسلہ کوئی نیا نہیں۔ دونوں کے باہمی معاملات سے قطع نظر شہر قائد کے عوام ایک بار پھر چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس شہر کے کسی مسئلے کو صحیح سے حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ اگر کے ای ایس سی نے واقعتاً ایسا کیا ہے، تو اس کی سزا عوام کو کیوں دی جا رہی ہے؟ کیا بہ حیثیت وفاق کے نمایندے کے مصائب زدہ کراچی کے عوام کے لیے ایسے رویے زیبا ہیں؟ اور آخر کیوں شہر قائد سے منتخب ہونے والے درجنوں اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی چپ کا روزہ رکھے بیٹھے ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں، جن کے جواب مصائب زدہ عوام ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امن وامان کی دگرگوں صورت حال سے نبردآزما کراچی آخر کس طرح آگے بڑھے گا، جب اس سے لیا تو سب کچھ جائے گا اور جب مسائل حل کرنے کی باری آئے گی تو سختی سے دھتکار دیا جائے گا۔۔۔ کیا کراچی کے عوام باقی ملک کے عوام جتنا محب وطن نہیں۔۔۔ یا ان کے حقوق باقی ملک سے کم ہیں تو واضح طور پر بتا دیا جائے، تاکہ اس شہر کی جنتا آیندہ کسی مسئلے کے حل کی توقع ہی نہ رکھے۔۔۔ یہ وہ شہر ہے جسے ''چاہتا'' تو ہر کوئی ہے لیکن اپناتا کوئی نہیں۔۔۔! گزشتہ موسم گرما کے بعد جب سے نئی حکومت برسراقتدار آئی ہے، کراچی کے عوام کے بجلی کے حوالے سے مسائل بڑھتے چلے گئے ہیں۔ کراچی سے محبت کا دعوا تو کیا جاتا ہے، لیکن جب میدان عمل کا جائزہ لیا جاتا ہے، تو نہایت افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔
یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ کراچی ہمارا ہے، لیکن اگلی ہی سانس میں اس کی دم توڑتی صنعت پر کاری وار کرنے کے لیے براہ راست شہر کے بجلی صارفین کو نشانہ بنانے سے بھی نہیں چُوکا جاتا۔۔۔ یہ نہیں سوچتے کہ اگر خدانخواستہ یہ رہی سہی صنعتیں ختم ہوتی گئیں تو قومی خزانے میں آنے والا 70 فی صد حصہ کہاں سے آئے گا۔ یہی نہیں کراچی جیسا گنجان آباد شہر پورے ملک میں نہیں، یہاں پورے ملک سے آنے والی آبادی کا شدید دباؤ ہے۔ یہاں کے دڑبے نما گھروں میں سانس لینے کے لیے بھی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ تنگ گلیوں میں کثیر المنزلہ عمارتوں میں قائم گھروں میں بجلی کے بغیر روشنی ہی نہیں ہوا کا گزر بھی نہیں ہو پاتا۔
گرمیوں کے دنوں میں ان تنگ گھروں میں سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بچے، خواتین، بزرگ اور مریض شدید اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔۔۔ کئی کی اموات بھی واقع ہو جاتی ہیں۔۔۔ لیکن شاید اس کی پروا کسی کو نہیں، جب لوڈشیڈنگ کی باری آتی ہے تو پورے ملک میں مساوات کی بات کی جاتی ہے اور کراچی کی رہی سہی بجلی پر بھی گھنٹوں بندش کے پروانے دیے جاتے ہیں، لیکن جب رعایت ملتی ہے تو ساری مساوات کھوکھلی حب الوطنی کا پردہ چاک کیے دیتی ہے! آخر کیوں اس شہر کے لیے ایسے رویے اپنائے جاتے رہیں گے۔۔۔ اور کون ہے جو عروس البلاد کے اس غم کی دوا کرے گا۔۔۔؟؟؟