کرپٹ اب بہترکیوں
عمران خان کسی عوامی عہدے پر نہیں رہے تھے اس لیے ان کی شہرت ایماندار ہونے کی تھی۔
حکومتی اقدامات کے باعث ہی اس کے اب شدید حامی اور اپوزیشن کے مخالف تجزیہ کار یہ قیاس آرائیاں کر رہے ہیںکہ ملک میں اگر عام انتخابات کا انعقاد ہو جائے تو وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلز پارٹی اور کے پی کے میں تحریک انصاف حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
کئی عشروں سے جاری بلوچستان کی سیاسی صورتحال تو کسی گنتی میں ہے ہی نہیں کہ وہاں کسی بھی سیاسی پارٹی کی واضح کامیابی کا امکان ظاہر کیا جائے کیونکہ وہاں تو راتوں رات بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت بنوا دی جاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی بلوچستان حکومت کے خلاف اچانک تحریک عدم اعتماد پیش کرانے والے مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کو منحرف کرا کر ان کی حکومت کو ختم کرانے والے اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ بلوچستان میں اپنی پسندیدہ پارٹی کو واضح اکثریت دلا سکیں۔ بلوچستان میں ان بالاتروں کی جہاں مخالفت ہے، وہاں بالاتروں کے کہنے پر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے اور اسی وجہ سے آج تک بلوچستان کو سیاسی استحکام نہیں ملا۔
وزیر اعظم عمران خان نے 22 سال تک مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو کرپٹ قرار دے کر ہی کسی کے ذریعے اقتدار تو حاصل کر لیا مگر ثابت ہو گیا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالف پرویز مشرف اور ان کے ریفرنڈم کی حمایت کرتے کرتے انھیں پرویز مشرف سے اتفاق کرنا ہی پڑا تھا کہ باریاں لینے والی دونوں بڑی پارٹیوں کے مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں اور دونوں کے قائدین سے عوام کو متنفر کرنے کی سیاست سے ہی تیسری سیاسی قوت سامنے لائی جا سکتی ہے۔
پرویز مشرف نے دونوں اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں کے بعض رہنما توڑ کر اپنی قیادت میں مسلم لیگ قائد اعظم کی حکومت قائم کرائی تھی، مگر مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے شدت سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں اور قیادت کے خلاف شدید نفرت کی سیاست اس لیے نہیں کی تھی کہ (ق) لیگ کی حکومت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے منحرفین کو ملا کر ہی بنائی گئی تھی اور یہ ارکان خود مسلم لیگ (ن) کا برسوں حصہ رہے تھے جس کی وجہ سے پرویز مشرف کی خواہش کے باوجود انھوں نے کبھی دونوں بڑی پارٹیوں کے خلاف انتہائی نفرت انگیز اور جارحانہ سیاست نہیں کی کیونکہ یہ سیاسی لوگ اور دور اندیش تھے اور بند گلی میں جانے کے حامی نہیں تھے۔
پرویز مشرف (ق) لیگ کی حکومت بنوا کر بھیاس سے وہ سیاست نہ کرا سکے جو عمران خان نے شروع کی۔ عمران خان کی سیاست 13 سال تک ایسی رہی کہ وہ 2002میں صرف ایک بار رکن قومی اسمبلی بن سکے تھے مگر بعد میں جارحانہ سیاست پر آمادہ ہوئے اور انھوں نے دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت کے خلاف جارحانہ انداز کو اپنا منشور بنا لیا۔
عمران خان نے کھلاڑی سے سیاستدان بن کر جب تحریک انصاف قائم کی تو ملک میں جاری کرپشن سے بے زار ملک سے مخلص بہت سے سیاستدان پی ٹی آئی میں آ گئے مگر جب انھوں نے قریب جا کراس کی سیاست دیکھی تو وہ جلد ہی تحریک انصاف سے الگ ہو گئے تھے۔ عمران خان کسی عوامی عہدے پر نہیں رہے تھے اس لیے ان کی شہرت ایماندار ہونے کی تھی اور عوام نے اسی وجہ سے ان کی پذیرائی کی کیونکہ وہ دونوں پارٹیوں کی حکومتوں میں کرپشن سے بے زار تھے اور دونوں پارٹیوں کی شدید مخالفت اور سابقہ حکومتوں پر جھوٹے سچے الزامات لگائے بغیر پی ٹی آئی کی قیادت ملک کی سیاست میں جگہ نہیں بنا سکتی تھی۔
اس لیے ماضی کی دونوں بڑی پارٹیوں کی حکومتی کرپشن اور دونوں قیادتوں کو اپنا ٹارگٹ بنا کر کرپشن کے خلاف اپنی سیاست کو کامیاب بنایاگیا اور لاہور میں ان کے کامیاب جلسے کے بعد آنے والے دنوں کا اندازہ لگانے کے بعد دونوں بڑی پارٹیوں نے تحریک انصاف میں آنا شروع کیا مگر کوشش کے باوجود وہ 2013 میں کامیاب نہ ہو سکے مگر بعد میں امپائروں کے اشارے پر وہ لانگ مارچ کرنے اسلام آباد آئے جہاں 126 دن کے ناکام دھرنے سے بھی سیاسی کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ اپنی پارٹی کے مشیروں کے کہنے پر انھوں نے اپنی پارٹی میں دونوں پارٹیوں کے پرانے سیاستدانوں کو شامل کرنا شروع کیا اور ان پر مختلف الزامات عمران خان کو نظرانداز کرنا پڑے۔
بھرپور انتخابی مہم سے بھی وہ پنجاب میں واضح کامیابی نہ لے سکے مگر پنجاب سے مسلم لیگ (ن) اور کراچی سے ایم کیو ایم سے جان چھڑانے کے لیے انھیں تیاری نہ ہونے کے باوجود اقتدار دلایا گیا مگر یوں لگتا ہے کہ دو سال سے اب بھی وہ کنٹینر پر ہی ہیں اور دو سال گزر جانے کے بعد دونوں پارٹیوں سے مخالفت کا وہی انداز جاری رکھا گیا اور عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا اور دو سال میں مہنگائی انتہا پر پہنچا کر لاکھوں لوگوں کو بے روزگار، کاروبار تباہ کرانے کے سوا کچھ نہیں کیا گیا اور عوام کی چیخیں نکلوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
حکومتی کارکردگی دیکھتے ہوئے عوامی حلقوں سے ایسی آوازیں اٹھنے لگیںکہ اس ایماندار حکومت سے تو ملزم بدعنوانوں کا دور اچھا تھا اتنی مہنگائی و بے روزگاری تو نہ تھی۔عوام کہہ رہے ہیں کہ من خوب می شناسم پیران پارسا را (میں پرہیزگار پیروں کو خوب جانتا ہوں یعنی میں دھوکے باز آدمیوں سے خوب واقف ہوں) خود کچھ کرنا نہیں ساری برائیاں سابقہ حکمرانوں کی، تو دو سال میں تبدیلی کیوں نہ لائی جا سکی تو عوام کو مجبور کر دیا گیا کہ ان سے کرپٹ ہی بہتر تھے۔
کئی عشروں سے جاری بلوچستان کی سیاسی صورتحال تو کسی گنتی میں ہے ہی نہیں کہ وہاں کسی بھی سیاسی پارٹی کی واضح کامیابی کا امکان ظاہر کیا جائے کیونکہ وہاں تو راتوں رات بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت بنوا دی جاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی بلوچستان حکومت کے خلاف اچانک تحریک عدم اعتماد پیش کرانے والے مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کو منحرف کرا کر ان کی حکومت کو ختم کرانے والے اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ بلوچستان میں اپنی پسندیدہ پارٹی کو واضح اکثریت دلا سکیں۔ بلوچستان میں ان بالاتروں کی جہاں مخالفت ہے، وہاں بالاتروں کے کہنے پر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے اور اسی وجہ سے آج تک بلوچستان کو سیاسی استحکام نہیں ملا۔
وزیر اعظم عمران خان نے 22 سال تک مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو کرپٹ قرار دے کر ہی کسی کے ذریعے اقتدار تو حاصل کر لیا مگر ثابت ہو گیا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالف پرویز مشرف اور ان کے ریفرنڈم کی حمایت کرتے کرتے انھیں پرویز مشرف سے اتفاق کرنا ہی پڑا تھا کہ باریاں لینے والی دونوں بڑی پارٹیوں کے مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں اور دونوں کے قائدین سے عوام کو متنفر کرنے کی سیاست سے ہی تیسری سیاسی قوت سامنے لائی جا سکتی ہے۔
پرویز مشرف نے دونوں اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں کے بعض رہنما توڑ کر اپنی قیادت میں مسلم لیگ قائد اعظم کی حکومت قائم کرائی تھی، مگر مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے شدت سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں اور قیادت کے خلاف شدید نفرت کی سیاست اس لیے نہیں کی تھی کہ (ق) لیگ کی حکومت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے منحرفین کو ملا کر ہی بنائی گئی تھی اور یہ ارکان خود مسلم لیگ (ن) کا برسوں حصہ رہے تھے جس کی وجہ سے پرویز مشرف کی خواہش کے باوجود انھوں نے کبھی دونوں بڑی پارٹیوں کے خلاف انتہائی نفرت انگیز اور جارحانہ سیاست نہیں کی کیونکہ یہ سیاسی لوگ اور دور اندیش تھے اور بند گلی میں جانے کے حامی نہیں تھے۔
پرویز مشرف (ق) لیگ کی حکومت بنوا کر بھیاس سے وہ سیاست نہ کرا سکے جو عمران خان نے شروع کی۔ عمران خان کی سیاست 13 سال تک ایسی رہی کہ وہ 2002میں صرف ایک بار رکن قومی اسمبلی بن سکے تھے مگر بعد میں جارحانہ سیاست پر آمادہ ہوئے اور انھوں نے دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت کے خلاف جارحانہ انداز کو اپنا منشور بنا لیا۔
عمران خان نے کھلاڑی سے سیاستدان بن کر جب تحریک انصاف قائم کی تو ملک میں جاری کرپشن سے بے زار ملک سے مخلص بہت سے سیاستدان پی ٹی آئی میں آ گئے مگر جب انھوں نے قریب جا کراس کی سیاست دیکھی تو وہ جلد ہی تحریک انصاف سے الگ ہو گئے تھے۔ عمران خان کسی عوامی عہدے پر نہیں رہے تھے اس لیے ان کی شہرت ایماندار ہونے کی تھی اور عوام نے اسی وجہ سے ان کی پذیرائی کی کیونکہ وہ دونوں پارٹیوں کی حکومتوں میں کرپشن سے بے زار تھے اور دونوں پارٹیوں کی شدید مخالفت اور سابقہ حکومتوں پر جھوٹے سچے الزامات لگائے بغیر پی ٹی آئی کی قیادت ملک کی سیاست میں جگہ نہیں بنا سکتی تھی۔
اس لیے ماضی کی دونوں بڑی پارٹیوں کی حکومتی کرپشن اور دونوں قیادتوں کو اپنا ٹارگٹ بنا کر کرپشن کے خلاف اپنی سیاست کو کامیاب بنایاگیا اور لاہور میں ان کے کامیاب جلسے کے بعد آنے والے دنوں کا اندازہ لگانے کے بعد دونوں بڑی پارٹیوں نے تحریک انصاف میں آنا شروع کیا مگر کوشش کے باوجود وہ 2013 میں کامیاب نہ ہو سکے مگر بعد میں امپائروں کے اشارے پر وہ لانگ مارچ کرنے اسلام آباد آئے جہاں 126 دن کے ناکام دھرنے سے بھی سیاسی کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ اپنی پارٹی کے مشیروں کے کہنے پر انھوں نے اپنی پارٹی میں دونوں پارٹیوں کے پرانے سیاستدانوں کو شامل کرنا شروع کیا اور ان پر مختلف الزامات عمران خان کو نظرانداز کرنا پڑے۔
بھرپور انتخابی مہم سے بھی وہ پنجاب میں واضح کامیابی نہ لے سکے مگر پنجاب سے مسلم لیگ (ن) اور کراچی سے ایم کیو ایم سے جان چھڑانے کے لیے انھیں تیاری نہ ہونے کے باوجود اقتدار دلایا گیا مگر یوں لگتا ہے کہ دو سال سے اب بھی وہ کنٹینر پر ہی ہیں اور دو سال گزر جانے کے بعد دونوں پارٹیوں سے مخالفت کا وہی انداز جاری رکھا گیا اور عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا اور دو سال میں مہنگائی انتہا پر پہنچا کر لاکھوں لوگوں کو بے روزگار، کاروبار تباہ کرانے کے سوا کچھ نہیں کیا گیا اور عوام کی چیخیں نکلوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
حکومتی کارکردگی دیکھتے ہوئے عوامی حلقوں سے ایسی آوازیں اٹھنے لگیںکہ اس ایماندار حکومت سے تو ملزم بدعنوانوں کا دور اچھا تھا اتنی مہنگائی و بے روزگاری تو نہ تھی۔عوام کہہ رہے ہیں کہ من خوب می شناسم پیران پارسا را (میں پرہیزگار پیروں کو خوب جانتا ہوں یعنی میں دھوکے باز آدمیوں سے خوب واقف ہوں) خود کچھ کرنا نہیں ساری برائیاں سابقہ حکمرانوں کی، تو دو سال میں تبدیلی کیوں نہ لائی جا سکی تو عوام کو مجبور کر دیا گیا کہ ان سے کرپٹ ہی بہتر تھے۔