زادگان اور زدہ گان
اصل اور مستقل تقسیم انسانوں میں صرف اور صرف ’’زادگان‘‘ اور زدہ گان کی ہے۔
امیرؔ مینائی نے تو معلوم نہیں کس سے یہ کہا تھا کہ:
زندگی میں وقت مجھ پر دو ہی گزرے ہیں کٹھن
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
لیکن اگرپاکستانی عوام چاہیں تویہ شعر شوق سے اپنی رفتہ و گزشتہ، موجود ومسلط اور آیندہ یا بندہ حکومتوں کی نذر کر سکتے ہیں لیکن تھوڑا سا بدل کر یعنی کٹھن کی جگہ ''اچھے'' لگا کر۔ لیکن ہم اس وقت کٹھن وقتوں کی نہیں بلکہ ابن الوقتوں کی بات کر رہے ہیں۔ دنیا میں ویسے تو انسانوں کے درمیان بہت سی تقسیمیں ہوتی رہتی ہیں نسلی، مذہبی، قومی، ملکی، پیشہ ورانہ، نظریاتی اور وقتی ہوتی ہیں۔
اصل اور مستقل تقسیم انسانوں میں صرف اور صرف ''زادگان'' اور زدہ گان کی ہے۔ جو ابتدائے آفرینش سے ابھی تک مستقل طور پر انسانوں کو لاحق ہے۔ ہم اکثر ازواج کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ اس دنیا میں ایسی کوئی بھی چھوٹی بڑی چیز نہیں جس کا زوج نہ ہو اور یہ ہم نہیں خدا نے کہا ہے
''خلق الازواج کلھا'' (ہر شے کا جوڑا بنایا)
یوں یہ زادگان اور زدگان کا بھی زوج یا جوڑا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں، ان کا شمار یا تو زادگان میں ہو گا اور یا زدگان میں۔ شہزادگان، وزیرزادگان، امیرزادگان اخون زادگان وغیرہ ایک لمبی فہرست ہے۔ جس کے مقابل غربت زدگان، سیلاب زدگان، زلزلہ زدگان، مہنگائی زدگان، حکومت زدگان، لیڈر زدگان، ڈاکٹر زدگان، علاج زدگان کی بھی ایک طویل فہرست ہے اور آج کل تو ایک اور کیٹگری کا اضافہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔کورونا زادگان اور کورونا زدگان۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہ ''زادگی'' اور زدگی۔ پہلے والی تمام زادگیوں اور زدگیوں سے زیادہ سخت جان لیوا اور کٹھن ہے۔ آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ ''کورونا زدگان'' تو ٹھیک ہیں یہ ''کورونا زادگان'' کون ہیں تو بندہ پرور بلکہ ''زدگی'' پرور۔ یہی تو زادگی اور زدگی کا کمال فن ہے کہ دکھائی نہیں دیتے صرف سنائی دیتے ہیں۔ ورنہ ہمارے حساب سے ''کورونا زادگان''کی تعداد زدگان سے زیادہ ہے۔
اب کسی کو سان گمان بھی نہیں ہو گا کہ ہماری ساری چھوٹی بڑی ''سوئیاں'' اور ان کے چٹے بٹے عرف حکومتیں ''زدگان'' میں شامل ہیں ان میں ایسا کوئی کم ہی ملے گا جو اس گائے کا دودھ نہ دھو رہا ہو۔ کس نے پوچھا کہ ''امدادی پیکیج'' کہاں جاتے رہتے ہیں کم از کم ہم نے تو آج تک کسی ایک بھی ''زدہ'' کو نہیں دیکھا ہے جسے کچھ ملا ہو۔ سارے کے سارے ''زدگان'' بدستور ''زد'' میں ہیں۔ اپنی تمام تر محرومیوں مجبوریوں کس مپرسیوں اور بے بسیوں کے ساتھ۔ اور دوسری طرف ''زادگان'' ہیں جنہوں نے اپنی وہ دکھاؤے کی سرگرمیاں بھی تیاگ دی ہیں جو وہ آیندہ کے لیے ووٹ اکاونٹ بڑھانے کے لیے کرتے تھے، وہ منافقانہ ملاقاتیں، جھوٹی ریکمنڈ کی مہریں بے وضو جنازے، جھوٹے فاتحے۔ سب کچھ سے جان چھوٹ گئی بلکہ احتیاط کا یہ عالم ہے کہ ٹیلیفون بھی بند رکھتے ہیں حالانکہ ابھی کورونا وائرس اتنے میچور نہیں ہوئے ہیں کہ ٹیلیفون اور موبائل کی لہروں پر بھی سواری کر سکیں۔
گزشتہ دنوں ایک خدامارے یعنی ''زدہ'' نے ہم سے پوچھا کہ یہ صحت کارڈ کہاں بنتے ہیں میری بیوی سخت بیمار بلکہ زدہ ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم اسے کیا بتاتے کہ اس قسم کے کارڈ کہاں بنتے یا ملتے ہیں کیونکہ ہمیں خود آج تک معلوم نہیں ہو سکا اور معلوم کیسے ہو گا۔کہ ہم بھی زدگان میں ہیں اور کہاں زادگان اور کہاں زدگان
نہ شی د ملنگو د خانانو سرہ کلی
چرتہ عزیزخان چرتہ ملنگ عبدالرحمان
ترجمہ۔خانوں اور ملنگوں کے درمیان تعلق بن ہی نہیں سکتا کہاں عزیز خان اور کہاں ملنگ عبدالرحمان۔ عام طور پر رحمان بابا کے اس شعر کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ''عزیز خان'' ان کا کوئی ''عزیز'' تھا لیکن کچھ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب کوئی عزیز خان نامی شخص نہیں ہے بلکہ ''خان'' اور ملنگ یعنی زادگان اور زدہ گان کا تقابل ہے وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ زادگان اور زدگان کے درمیان تعلق ہو ہی نہیں سکتا چاہے وہ زادہ یا خان تمہارا ''عزیز'' ہی کیوں نہ ہو۔ کہاں وہ عزیز جو زادہ ہے اور کہاں وہ عزیز جو زدہ ہے بہرحال سنا ہے اور بالکل ٹھیک سنا ہے بلکہ دیکھا بھی ہے کہ زدگان تومزید زدگان ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کا سارا تام جھام ''جڑنے''ملنے اور یکجا ہونے میں ہوتا ہے اب چہرہ چھپا کر چھ فٹ کا فاصلہ رکھ کر اور ہجوم سے بچ رہیں گے تو کھائیں گے کیا؟
ہے اب معمورہ میں قحطِ غمِ الفت اسدؔ
ہم نے یہ مانا کہ ''دلی'' میں رہیں، کھائیں گے کیا
جب کہ زادگان پوری طرح نقاب اور چھ فٹ کے فاصلے پر سختی سے عمل درآمد کیے ہوئے ہیں اب چھ فٹ تو انسان کا ہاتھ ہے نہیں۔ تو:
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
بہرحال سدا سدا کے زادگان اور زدگان ایک مرتبہ پھر ایک نئی زادگی اور زدگی میں آمنے سامنے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمیشہ کی طرح جیت زادگان کی ہی ہو گی اور زدگان کے نصیبوں میں وہی ازلی اور ابدی ''زدگی''ہی آئے گی۔
از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کو، شش جہت مقابل ہے آئینہ
زندگی میں وقت مجھ پر دو ہی گزرے ہیں کٹھن
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
لیکن اگرپاکستانی عوام چاہیں تویہ شعر شوق سے اپنی رفتہ و گزشتہ، موجود ومسلط اور آیندہ یا بندہ حکومتوں کی نذر کر سکتے ہیں لیکن تھوڑا سا بدل کر یعنی کٹھن کی جگہ ''اچھے'' لگا کر۔ لیکن ہم اس وقت کٹھن وقتوں کی نہیں بلکہ ابن الوقتوں کی بات کر رہے ہیں۔ دنیا میں ویسے تو انسانوں کے درمیان بہت سی تقسیمیں ہوتی رہتی ہیں نسلی، مذہبی، قومی، ملکی، پیشہ ورانہ، نظریاتی اور وقتی ہوتی ہیں۔
اصل اور مستقل تقسیم انسانوں میں صرف اور صرف ''زادگان'' اور زدہ گان کی ہے۔ جو ابتدائے آفرینش سے ابھی تک مستقل طور پر انسانوں کو لاحق ہے۔ ہم اکثر ازواج کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ اس دنیا میں ایسی کوئی بھی چھوٹی بڑی چیز نہیں جس کا زوج نہ ہو اور یہ ہم نہیں خدا نے کہا ہے
''خلق الازواج کلھا'' (ہر شے کا جوڑا بنایا)
یوں یہ زادگان اور زدگان کا بھی زوج یا جوڑا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں، ان کا شمار یا تو زادگان میں ہو گا اور یا زدگان میں۔ شہزادگان، وزیرزادگان، امیرزادگان اخون زادگان وغیرہ ایک لمبی فہرست ہے۔ جس کے مقابل غربت زدگان، سیلاب زدگان، زلزلہ زدگان، مہنگائی زدگان، حکومت زدگان، لیڈر زدگان، ڈاکٹر زدگان، علاج زدگان کی بھی ایک طویل فہرست ہے اور آج کل تو ایک اور کیٹگری کا اضافہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔کورونا زادگان اور کورونا زدگان۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہ ''زادگی'' اور زدگی۔ پہلے والی تمام زادگیوں اور زدگیوں سے زیادہ سخت جان لیوا اور کٹھن ہے۔ آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ ''کورونا زدگان'' تو ٹھیک ہیں یہ ''کورونا زادگان'' کون ہیں تو بندہ پرور بلکہ ''زدگی'' پرور۔ یہی تو زادگی اور زدگی کا کمال فن ہے کہ دکھائی نہیں دیتے صرف سنائی دیتے ہیں۔ ورنہ ہمارے حساب سے ''کورونا زادگان''کی تعداد زدگان سے زیادہ ہے۔
اب کسی کو سان گمان بھی نہیں ہو گا کہ ہماری ساری چھوٹی بڑی ''سوئیاں'' اور ان کے چٹے بٹے عرف حکومتیں ''زدگان'' میں شامل ہیں ان میں ایسا کوئی کم ہی ملے گا جو اس گائے کا دودھ نہ دھو رہا ہو۔ کس نے پوچھا کہ ''امدادی پیکیج'' کہاں جاتے رہتے ہیں کم از کم ہم نے تو آج تک کسی ایک بھی ''زدہ'' کو نہیں دیکھا ہے جسے کچھ ملا ہو۔ سارے کے سارے ''زدگان'' بدستور ''زد'' میں ہیں۔ اپنی تمام تر محرومیوں مجبوریوں کس مپرسیوں اور بے بسیوں کے ساتھ۔ اور دوسری طرف ''زادگان'' ہیں جنہوں نے اپنی وہ دکھاؤے کی سرگرمیاں بھی تیاگ دی ہیں جو وہ آیندہ کے لیے ووٹ اکاونٹ بڑھانے کے لیے کرتے تھے، وہ منافقانہ ملاقاتیں، جھوٹی ریکمنڈ کی مہریں بے وضو جنازے، جھوٹے فاتحے۔ سب کچھ سے جان چھوٹ گئی بلکہ احتیاط کا یہ عالم ہے کہ ٹیلیفون بھی بند رکھتے ہیں حالانکہ ابھی کورونا وائرس اتنے میچور نہیں ہوئے ہیں کہ ٹیلیفون اور موبائل کی لہروں پر بھی سواری کر سکیں۔
گزشتہ دنوں ایک خدامارے یعنی ''زدہ'' نے ہم سے پوچھا کہ یہ صحت کارڈ کہاں بنتے ہیں میری بیوی سخت بیمار بلکہ زدہ ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم اسے کیا بتاتے کہ اس قسم کے کارڈ کہاں بنتے یا ملتے ہیں کیونکہ ہمیں خود آج تک معلوم نہیں ہو سکا اور معلوم کیسے ہو گا۔کہ ہم بھی زدگان میں ہیں اور کہاں زادگان اور کہاں زدگان
نہ شی د ملنگو د خانانو سرہ کلی
چرتہ عزیزخان چرتہ ملنگ عبدالرحمان
ترجمہ۔خانوں اور ملنگوں کے درمیان تعلق بن ہی نہیں سکتا کہاں عزیز خان اور کہاں ملنگ عبدالرحمان۔ عام طور پر رحمان بابا کے اس شعر کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ''عزیز خان'' ان کا کوئی ''عزیز'' تھا لیکن کچھ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب کوئی عزیز خان نامی شخص نہیں ہے بلکہ ''خان'' اور ملنگ یعنی زادگان اور زدہ گان کا تقابل ہے وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ زادگان اور زدگان کے درمیان تعلق ہو ہی نہیں سکتا چاہے وہ زادہ یا خان تمہارا ''عزیز'' ہی کیوں نہ ہو۔ کہاں وہ عزیز جو زادہ ہے اور کہاں وہ عزیز جو زدہ ہے بہرحال سنا ہے اور بالکل ٹھیک سنا ہے بلکہ دیکھا بھی ہے کہ زدگان تومزید زدگان ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کا سارا تام جھام ''جڑنے''ملنے اور یکجا ہونے میں ہوتا ہے اب چہرہ چھپا کر چھ فٹ کا فاصلہ رکھ کر اور ہجوم سے بچ رہیں گے تو کھائیں گے کیا؟
ہے اب معمورہ میں قحطِ غمِ الفت اسدؔ
ہم نے یہ مانا کہ ''دلی'' میں رہیں، کھائیں گے کیا
جب کہ زادگان پوری طرح نقاب اور چھ فٹ کے فاصلے پر سختی سے عمل درآمد کیے ہوئے ہیں اب چھ فٹ تو انسان کا ہاتھ ہے نہیں۔ تو:
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
بہرحال سدا سدا کے زادگان اور زدگان ایک مرتبہ پھر ایک نئی زادگی اور زدگی میں آمنے سامنے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمیشہ کی طرح جیت زادگان کی ہی ہو گی اور زدگان کے نصیبوں میں وہی ازلی اور ابدی ''زدگی''ہی آئے گی۔
از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کو، شش جہت مقابل ہے آئینہ