قدیم تھانہ ۔۔۔ تھانہ پرانی انارکلی
لاہور کا پہلا تھانہ انار کلی کے علاقہ میں 1860ء سے بھی قبل قائم کیا گیا تھا
لاہور کا پہلا تھانہ انار کلی کے علاقہ میں 1860ء سے بھی قبل قائم کیا گیا تھا ان دنوں اسے کوتوالی کی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ آج کل اُسے تھانہ پرانی انار کلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں شہر لاہورکو اپنی تاریخی عمارات اور منفرد ثقافتی ورثے کے باعث ہمیشہ خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ دریائے راوی کے کنارے واقع اس شہر کا نام ہندودیوتا راما کے بیٹے لاوا کے نام پر رکھا گیا جو کہ پہلے لہور اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ لاہورکا روپ دھار گیا۔ تاریخ کے اوراق میں یہ شہر مختلف ثقافتوں کامجموعہ ہے جس نے ہر آنے والے حکمران کو اپنی انفرادی ثقافت میں سمو لیا۔ شہر پر ہندوؤں، سکھوں، مسلمانوں اور انگریزی ثقافت کا بھی اثر رہا جو کہ مختلف ادوار میں نہ صرف اس کے شاندار طرز تعمیر بلکہ مقامی لوگوں کی زبان، روایات اور رہن سہن میں بھی نمایاں رہا۔ مغلیہ دور میں شہر لاہوراسکے 12داخلی دروازوں اور راوی کنارے قائم رہائشی آبادیوں تک محدود تھا تاہم موجودہ دور میں اس کا حدود اربعہ بے پناہ وسعت اختیار کر چکا ہے۔ شہر میں موجود قابل ذکر اور مشہورتاریخی عمارتوں میں بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، چوبرجی، عجائب گھر،مقبرہ جہانگیر، ٹاؤن ہال، ٹولنٹن مارکیٹ،جی پی او، ضلع کچہری، پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی شامل ہیں۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب برصغیر میں حکومت کے انتظامی امورکی کمان ایسٹ انڈیا کمپنی نے برطانوی حکومت کے حوالے کی تو شہر میں امن و امان کے قیام کے ذمہ دارقدیم کوتوالی نظام کو تبدیل کر کے باقاعدہ پولیس کا نظام متعارف کروایا گیا۔ شہر لاہور کا پہلا تھانہ انار کلی کے علاقہ میں 1860ء سے بھی قبل قائم کیا گیا تھا ان دنوں اسے کوتوالی کی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ آج کل اُسے تھانہ پرانی انار کلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ تھانہ تاریخی ورثہ کی حیثیت رکھتا ہے جو اپنے اندر 158سالہ تاریخ کے سماجی،سیاسی اور جرم کی دنیاکے گرم و سرد واقعات سموئے ہوئے ہے۔ اس تھانے میں موجودقدیم یاداشتیں اور ایف آئی آرز پنجاب پولیس کی تاریخ کا بیش قیمت اثاثہ ہیں۔تھانہ پرانی انار کلی اس لحاظ سے بھی خاصی شہرت کا حامل ہے کہ یہاں سو سال پرانی ایف آئی آرز بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں خاص کر تحریک آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ نے جب اے ایس پی سانڈرس کو قتل کیا تو اس واقعہ کی ایف آئی آر بھی اسی تھانے میں درج ہوئی۔یہاں 1901ء سے بھی پرانی ایف آئی آرز اور بک ریکارڈ موجود ہے۔
سابق آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی نے اپنی تعیناتی کے دوران اس تاریخی تھانے کا دورہ کیا، تھانے کے ریکارڈ روم اور دیگر کمروں کا معائنہ کرنے کے بعد اس تاریخی تھانہ کو اپنی اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا۔ سابق آئی جی پنجاب کے حکم کے بعد تھانہ پرانی انار کلی کو اصل حالت میں بحال کرنے کا کام شروع ہواتھا ، سابق ڈی آئی جی آپریشنز وقاص نذیر نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے یہ ٹاسک سابق ایس ایس پی آپریشنز لاہوراور موجودہ ڈی پی او سیالکوٹ مستنصر فیروز کو دیا ، مستنصر فیروز نے تھانہ پرانی انارکلی کا پرانا نقشہ تلاش کرکے اس کو دوبارہ ڈیزائن کیا ، پہلے مرحلہ میں تھانہ کے باہر سے بجلی کے بے ہنگم پول ہٹا ئے گئے، گرین بیلٹ کو مزید بہتر کیا گیا، نئے واش رومزتعمیر کیے گئے، حوالات، ریکارڈ روم اور فرش کی مرمت کی گئی،پرانے ریکارڈ کو محفوظ کرتے ہوئے ترتیب وار رکھا گیااوربیرونی عمارت پر خوبصورت برقی قمقمے لگا ئے گئے ہیں، جس کے بعد تھانہ کی عمارت ایک خوبصورت قلعہ کا منظر پیش کرنے لگی ۔ تھانہ پرانی انار کلی کو اس کی اصل تاریخی حیثیت کے مطابق بحال کرنے میں والڈ سٹی اتھارٹی نے بھی محکمہ پولیس کو تکنیکی تعاون فراہم کیا۔
مستنصر فیروز نے بحالی کے کام کے ساتھ ساتھ تھانہ میں موجود عملہ کو جدید دور کی پولیسنگ کی تمام تر سہولیات بھی مہیا کیں ،، سابق آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی نے اس بات کا عندیہ بھی دیا تھا کہ مستقبل قریب میں تھانہ کی بالائی منزل پرپولیس میوزیم کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا مجوزہ پولیس میوزیم میں پولیس کے تاریخی ریکارڈاور تاریخی اشیاء کو محفوظ کیا جائے گا۔ لیکن ان کے تبادلے کے بعد اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔
موجودہ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور اشفاق خان نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ کوشش کررہے ہیں تھانوں کی حالت زار بہتر کی جائے اور مستقبل میں تھانہ پرانی انار کلی کے علاوہ سی آئی اے کوتوالی سمیت شہر کی دیگر تاریخی عمارات جہاں پولیسنگ کا کام جاری ہے انہیں بھی بتدریج مرحلہ واران کی اصل حالت میں بحال کیا جائے۔ اشفاق خان نے کہا کہ وہ پولیس میوزیم کے قیام کی کوشش کریں گے جس سے ناصرف محققین اور طلبہ کو پولیس کی تاریخ سے مستفید ہونے کا موقع ملے گا بلکہ پولیس اور عوام کے تعلقات میں بھی مزید بہتری آئے گی۔
برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں شہر لاہورکو اپنی تاریخی عمارات اور منفرد ثقافتی ورثے کے باعث ہمیشہ خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ دریائے راوی کے کنارے واقع اس شہر کا نام ہندودیوتا راما کے بیٹے لاوا کے نام پر رکھا گیا جو کہ پہلے لہور اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ لاہورکا روپ دھار گیا۔ تاریخ کے اوراق میں یہ شہر مختلف ثقافتوں کامجموعہ ہے جس نے ہر آنے والے حکمران کو اپنی انفرادی ثقافت میں سمو لیا۔ شہر پر ہندوؤں، سکھوں، مسلمانوں اور انگریزی ثقافت کا بھی اثر رہا جو کہ مختلف ادوار میں نہ صرف اس کے شاندار طرز تعمیر بلکہ مقامی لوگوں کی زبان، روایات اور رہن سہن میں بھی نمایاں رہا۔ مغلیہ دور میں شہر لاہوراسکے 12داخلی دروازوں اور راوی کنارے قائم رہائشی آبادیوں تک محدود تھا تاہم موجودہ دور میں اس کا حدود اربعہ بے پناہ وسعت اختیار کر چکا ہے۔ شہر میں موجود قابل ذکر اور مشہورتاریخی عمارتوں میں بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، چوبرجی، عجائب گھر،مقبرہ جہانگیر، ٹاؤن ہال، ٹولنٹن مارکیٹ،جی پی او، ضلع کچہری، پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی شامل ہیں۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب برصغیر میں حکومت کے انتظامی امورکی کمان ایسٹ انڈیا کمپنی نے برطانوی حکومت کے حوالے کی تو شہر میں امن و امان کے قیام کے ذمہ دارقدیم کوتوالی نظام کو تبدیل کر کے باقاعدہ پولیس کا نظام متعارف کروایا گیا۔ شہر لاہور کا پہلا تھانہ انار کلی کے علاقہ میں 1860ء سے بھی قبل قائم کیا گیا تھا ان دنوں اسے کوتوالی کی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ آج کل اُسے تھانہ پرانی انار کلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ تھانہ تاریخی ورثہ کی حیثیت رکھتا ہے جو اپنے اندر 158سالہ تاریخ کے سماجی،سیاسی اور جرم کی دنیاکے گرم و سرد واقعات سموئے ہوئے ہے۔ اس تھانے میں موجودقدیم یاداشتیں اور ایف آئی آرز پنجاب پولیس کی تاریخ کا بیش قیمت اثاثہ ہیں۔تھانہ پرانی انار کلی اس لحاظ سے بھی خاصی شہرت کا حامل ہے کہ یہاں سو سال پرانی ایف آئی آرز بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں خاص کر تحریک آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ نے جب اے ایس پی سانڈرس کو قتل کیا تو اس واقعہ کی ایف آئی آر بھی اسی تھانے میں درج ہوئی۔یہاں 1901ء سے بھی پرانی ایف آئی آرز اور بک ریکارڈ موجود ہے۔
سابق آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی نے اپنی تعیناتی کے دوران اس تاریخی تھانے کا دورہ کیا، تھانے کے ریکارڈ روم اور دیگر کمروں کا معائنہ کرنے کے بعد اس تاریخی تھانہ کو اپنی اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا۔ سابق آئی جی پنجاب کے حکم کے بعد تھانہ پرانی انار کلی کو اصل حالت میں بحال کرنے کا کام شروع ہواتھا ، سابق ڈی آئی جی آپریشنز وقاص نذیر نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے یہ ٹاسک سابق ایس ایس پی آپریشنز لاہوراور موجودہ ڈی پی او سیالکوٹ مستنصر فیروز کو دیا ، مستنصر فیروز نے تھانہ پرانی انارکلی کا پرانا نقشہ تلاش کرکے اس کو دوبارہ ڈیزائن کیا ، پہلے مرحلہ میں تھانہ کے باہر سے بجلی کے بے ہنگم پول ہٹا ئے گئے، گرین بیلٹ کو مزید بہتر کیا گیا، نئے واش رومزتعمیر کیے گئے، حوالات، ریکارڈ روم اور فرش کی مرمت کی گئی،پرانے ریکارڈ کو محفوظ کرتے ہوئے ترتیب وار رکھا گیااوربیرونی عمارت پر خوبصورت برقی قمقمے لگا ئے گئے ہیں، جس کے بعد تھانہ کی عمارت ایک خوبصورت قلعہ کا منظر پیش کرنے لگی ۔ تھانہ پرانی انار کلی کو اس کی اصل تاریخی حیثیت کے مطابق بحال کرنے میں والڈ سٹی اتھارٹی نے بھی محکمہ پولیس کو تکنیکی تعاون فراہم کیا۔
مستنصر فیروز نے بحالی کے کام کے ساتھ ساتھ تھانہ میں موجود عملہ کو جدید دور کی پولیسنگ کی تمام تر سہولیات بھی مہیا کیں ،، سابق آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی نے اس بات کا عندیہ بھی دیا تھا کہ مستقبل قریب میں تھانہ کی بالائی منزل پرپولیس میوزیم کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا مجوزہ پولیس میوزیم میں پولیس کے تاریخی ریکارڈاور تاریخی اشیاء کو محفوظ کیا جائے گا۔ لیکن ان کے تبادلے کے بعد اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔
موجودہ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور اشفاق خان نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ کوشش کررہے ہیں تھانوں کی حالت زار بہتر کی جائے اور مستقبل میں تھانہ پرانی انار کلی کے علاوہ سی آئی اے کوتوالی سمیت شہر کی دیگر تاریخی عمارات جہاں پولیسنگ کا کام جاری ہے انہیں بھی بتدریج مرحلہ واران کی اصل حالت میں بحال کیا جائے۔ اشفاق خان نے کہا کہ وہ پولیس میوزیم کے قیام کی کوشش کریں گے جس سے ناصرف محققین اور طلبہ کو پولیس کی تاریخ سے مستفید ہونے کا موقع ملے گا بلکہ پولیس اور عوام کے تعلقات میں بھی مزید بہتری آئے گی۔