5 ہزارسال پرانی مہروں پر لکھی تحریریں جنہیں آج تک پڑھا نہیں جاسکا
وادی سندھ میں ان مہروں کو سامان تجارت، قبیلوں اور شخصیات کی پہچان اور کرنسی کے طورپر استعمال کرنے کے شواہد ملتے ہیں
لاہورمیوزیم میں دنیا کی قدیم ترین وادی سندھ کی تہذیب سے کھدائی کی دوران ملنے والی کئی ایسی مہریں موجود ہیں جن پرلکھی تحریروں کو کوشش کے باوجود آج تک پڑھا نہیں جاسکا ہے۔
کہتے ہیں کہ عجائب گھر قدیم تہذیبوں میں جھانکنے کے لئے کھڑکی کا کام دیتے ہیں، لاہور میوزیم میں اس خطے سے جڑی کئی تہذیبوں کی نشانیاں اورنوادرات موجود ہیں، لاہور میوزیم کی گیلری میں رکھی گئیں کانسی اورمٹی کی بنی یہ مہریں قدیم ترین وادی سندھ کی تہذیب سے متعلق ہیں، ان مہروں پرمختلف جانوروں کی تصاویر،علامتیں اورحروف تحریر ہیں۔
لاہورمیوزیم کی محقق اور انڈس گیلری کی انچارچ علیزا صبا رضوی کا کہنا ہے ابتک تقریبا ایک سو سے زیادہ آثارقدیمہ کے ماہرین اپنی تحقیق کرچکے ہیں لیکن ان مہروں پر لکھی گئی تحریروں ، اشکال اور علامات کو درست طور پرپڑھ انہیں جاسکا ہے۔ عام طور پر یہ مہریں خاص قسم کے پتھر، سوختہ مٹی اورکانسی سے بنائی جاتی تھیں، لاہور میوزیم میں کانسی کی بنی 9 مہریں ہیں جبکہ مٹی اورپتھرکی مہروں کی تعداد 64 ہے، ان مہروں پر کئی قسم کے جانور وادی سندھ کے خاص رسم الخط کے ساتھ دکھائے گئے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد میں ایک سینگ والے بیل نما جانور کی تصویر ہے، اسے یونی کورن کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ چھوٹے سینگ والا بیل، ہاتھی، ہرن ، مگرمچھ، گینڈا اور شیرکی تصاویر بھی بنی ہوئی ہیں۔
ان مہروں پر لکھی تحریریں اورعلامات کیا پیغام دیتے ہیں یہ راز جاننے کے لئے ان مہروں کو دنیا کے کئی ممالک میں بھیجا جاچکا ہے تاہم آج تک ان تحریروں کو درست طور پر پڑھا نہیں جاسکا ہے۔ مہروں پر بنی کچھ علامتیں ایسی بھی ہیں جو کئی مذاہب اور تہذیبوں میں مقدس مانی جاتی ہیں۔
علیزا رضوی کے مطابق ان مہروں کو سامان تجارت کی پہچان، قبیلے اورشخصیات کی علامت اور کرنسی کے طورپراستعمال کئے جانے کے شواہد ملتے ہیں۔ کانسی کی بنی مہروں کے ایک طرف کوئی شکل جبکہ دوسری طرف حروف درج ہیں جن کوپڑھا نہیں جاسکا۔ بھارت میں وادی سندھ کی تہذیب کے رسم الخط کو پڑھنے اورجاننے کے حوالے سے کافی کام ہوا ہے ، بھارت میں کئی قدیم زبانیں بولی جاتی تھیں ،بھارتی ماہرین سمجھتے ہیں کہ وادی سندھ کا رسم الخط بھی قدیم ہندوستانی زبانوں سے ملتاجلتا ہوگا، ابھی تک اس سمجھ میں نہ آنے والی زبان کے 22 حروف تہجی سامنے آچکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اہرام مصر سمیت ہندوستان کی قدیم تحریروں کو پڑھا جاچکا ہے تاہم 3300 سے 1700 قبل ازمسیح دور کے ان مہروں پرلکھی تحریریں آج بھی دنیا کے لئے ایک رازہے ، ماہرین کوامید ہے کہ ایک نہ ایک دن اسی خطے کا کوئی ماہرآثارقدیمہ ان تحریروں کو پڑھ سکے اور ہمیں پانچ ہزارسال پرانی دنیا کی اس قدیم ترین تہذیب سے متعلق جاننے میں مددملے گی۔
کہتے ہیں کہ عجائب گھر قدیم تہذیبوں میں جھانکنے کے لئے کھڑکی کا کام دیتے ہیں، لاہور میوزیم میں اس خطے سے جڑی کئی تہذیبوں کی نشانیاں اورنوادرات موجود ہیں، لاہور میوزیم کی گیلری میں رکھی گئیں کانسی اورمٹی کی بنی یہ مہریں قدیم ترین وادی سندھ کی تہذیب سے متعلق ہیں، ان مہروں پرمختلف جانوروں کی تصاویر،علامتیں اورحروف تحریر ہیں۔
لاہورمیوزیم کی محقق اور انڈس گیلری کی انچارچ علیزا صبا رضوی کا کہنا ہے ابتک تقریبا ایک سو سے زیادہ آثارقدیمہ کے ماہرین اپنی تحقیق کرچکے ہیں لیکن ان مہروں پر لکھی گئی تحریروں ، اشکال اور علامات کو درست طور پرپڑھ انہیں جاسکا ہے۔ عام طور پر یہ مہریں خاص قسم کے پتھر، سوختہ مٹی اورکانسی سے بنائی جاتی تھیں، لاہور میوزیم میں کانسی کی بنی 9 مہریں ہیں جبکہ مٹی اورپتھرکی مہروں کی تعداد 64 ہے، ان مہروں پر کئی قسم کے جانور وادی سندھ کے خاص رسم الخط کے ساتھ دکھائے گئے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد میں ایک سینگ والے بیل نما جانور کی تصویر ہے، اسے یونی کورن کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ چھوٹے سینگ والا بیل، ہاتھی، ہرن ، مگرمچھ، گینڈا اور شیرکی تصاویر بھی بنی ہوئی ہیں۔
ان مہروں پر لکھی تحریریں اورعلامات کیا پیغام دیتے ہیں یہ راز جاننے کے لئے ان مہروں کو دنیا کے کئی ممالک میں بھیجا جاچکا ہے تاہم آج تک ان تحریروں کو درست طور پر پڑھا نہیں جاسکا ہے۔ مہروں پر بنی کچھ علامتیں ایسی بھی ہیں جو کئی مذاہب اور تہذیبوں میں مقدس مانی جاتی ہیں۔
علیزا رضوی کے مطابق ان مہروں کو سامان تجارت کی پہچان، قبیلے اورشخصیات کی علامت اور کرنسی کے طورپراستعمال کئے جانے کے شواہد ملتے ہیں۔ کانسی کی بنی مہروں کے ایک طرف کوئی شکل جبکہ دوسری طرف حروف درج ہیں جن کوپڑھا نہیں جاسکا۔ بھارت میں وادی سندھ کی تہذیب کے رسم الخط کو پڑھنے اورجاننے کے حوالے سے کافی کام ہوا ہے ، بھارت میں کئی قدیم زبانیں بولی جاتی تھیں ،بھارتی ماہرین سمجھتے ہیں کہ وادی سندھ کا رسم الخط بھی قدیم ہندوستانی زبانوں سے ملتاجلتا ہوگا، ابھی تک اس سمجھ میں نہ آنے والی زبان کے 22 حروف تہجی سامنے آچکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اہرام مصر سمیت ہندوستان کی قدیم تحریروں کو پڑھا جاچکا ہے تاہم 3300 سے 1700 قبل ازمسیح دور کے ان مہروں پرلکھی تحریریں آج بھی دنیا کے لئے ایک رازہے ، ماہرین کوامید ہے کہ ایک نہ ایک دن اسی خطے کا کوئی ماہرآثارقدیمہ ان تحریروں کو پڑھ سکے اور ہمیں پانچ ہزارسال پرانی دنیا کی اس قدیم ترین تہذیب سے متعلق جاننے میں مددملے گی۔