شہداد کوٹ بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم
احتجاجی تحریک چلائی جائے گی، سیاسی، سماجی راہ نماؤں کی تنبیہ
کسی زمانے میں صفائی سے لے کر دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر لوگ بلدیاتی ادارے میونسپل کمیٹی کو ماں کا درجہ دیتے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ ادارہ سوتیلی ماں سے زیادہ دشمن بن چکا ہے۔
سندھ و بلوچستان کے سنگم پر واقع اہم سیاسی اہمیت کے حامل شہر شہدادکوٹ میں یہ ادارہ اور اس میں براجمان لوگ شہریوں کے لیے جان کا عذاب بنے ہوئے ہیں، اس ادارے نے مسائل حل کرنے کی بجائے پریشانیوں اور دشواریوں کے انبار جمع کرکے لوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ میونسپل کمیٹی کا بنیادی کام شہر کے گلی محلوں کو صاف ستھرا رکھنا، نکاسی کے نظام کو بہتر بنانا، اسٹریٹ لائٹ کو درست رکھنا، شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا وغیرہ ہے، جس کے لیے حکومت ماہانہ سوا کروڑ روپے ملازمین کی تنخواہوں اور مذکورہ کاموں کی مد میں گرانٹ فراہم کرتی ہے، لیکن یہ افسوس ناک بات ہے کہ ایک طرف مذکورہ رقوم سے شہر میں گزشتہ 5 برسوں سے کوئی ترقیاتی کام نہیں کرائے گئے ہیں تو دوسری جانب رقم کا بڑا حصہ غیرقانونی طور پر بھرتی کیے گئے ملازمین کی تن خواہوں کی مد میں خرچ میں ہوتا ہے جس سے ادارے اور شہریوں کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ شہداد کوٹ جو ماضی میں پیپلزپارٹی کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو کا روایتی حلقہ انتخاب رہا ہے اور انکی شہادت کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری کی دو بار رکن اسمبلی منتخب ہونے والی ہمشیرہ فریال تالپور اور تین دہائیوں تک پارلیمانی سیاست پر راج کرنے والے میر نادر علی مگسی کا حلقہ انتخاب رہا ہے، مگر جب تک پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں آئی تھی اور سابق صدر پرویز مشرف کی چھتری تلے دور نظامت چل رہا تھا اس وقت لوگوں کے بنیادی مسائل حل کیے جانے کے ساتھ ترقیاتی کاموں پر بھی توجہ دی جارہی تھی لیکن جیسے ہی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا اور ان کے منتخب نمائندوں کی آشیرباد سے میونسپل کمیٹی میں بد عنوان افسران کی تعیناتی شروع ہوئی اور شہریوں کے لیے بدقسمتی کا ایک اور باب کھل گیا ہے جسے بند کرنے کے لیے حکمرانوں، منتخب نمائندوں اور متعلقہ اداروں کے ذمہ داران اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں فرد واحد ضلع بھر میں سیاہ و سفید کا مالک تھا اور ضلع کے تمام افسران بشمول میونسپل کمیٹی شہدادکوٹ کے افسران کے اس شخصیت کے نہیں بلکہ اس کے پرائیویٹ سیکریٹری کے سامنے جوابدہ تھے اور ایک پتا بھی ان کے حکم کے بغیر نہیں ہلتا تھا۔ لوگوں کی دعائیں قبول ہوئیں اور اس عمل سے چھٹکارہ ملا، تاہم 2013 میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں شہدادکوٹ کے عوام کے لیے کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، پہلے افسران موجود ہوتے تھے اور وہ فنڈز اللوں تللوں پر خرچ کرتے تھے مگر اب تو کرپشن اور رقوم ہڑپ کرنے کے ساتھ ادارے کے ذمہ دار عوام تو درکنار، اپنے ملازمین کو زیارت کرانا گوارہ نہیں کرتے۔
ادارے کے تین بڑوں کو سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ ایم این اے فریال تالپور کی مکمل آشیرباد حاصل ہے اور ان کی جانب سے بنائی جانیوالی کمیٹی کی بھی،عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ چیف میونسپل آفیسر اور فنانس آفیسر محترمہ فریال اور چیف آفیسر پارلیمانی سیاست میں نووارد نواب سردار احمد خان چانڈیو کی آشیر باد سے تعینات ہوئے۔ محترمہ کے حمایت یافتہ چیف میونسپل آفیسر کی انتظامی اہلیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے تمام انتظامی اختیارات اپنے ماتحت چیف آفیسر کے حوالے کردیئے ہیں، تینوں افسران کی تعیناتی کو 6 ماہ سے زاید کا عرصہ گزرچکا ہے، مگر ان کی بھی سابقہ افسران کی طرح عدم دل چسپی کے باعث شہر کی حالت ایک فیصد بھی بہتر نہیں ہوئی ہے۔
گزشتہ کئی ماہ سے گندگی کے ڈھیر اور نالیوں کا سڑکوں پر جمع بدبودار پانی ملیریا سمیت مختلف بیماریوں کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے، شہر کے مختلف اہم محلوں اور راستوں تقی شاہ روڈ، بگو روڈ، اسپتال روڈ، مکھن شاہ محلہ، دوست علی روڈ، بھٹی محلہ اور دیگر میں پانی کھڑا ہونے کے ساتھ گندگی کے ڈھیر جمع ہیں، حیران کن بات یہ ہے کہ محترمہ فریال تالپور نے یہاں سے ریکارڈ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، انہیں شہری مسائل کے ادراک کے ساتھ احساس بھی تھااور انہوں نے دیگر مسائل کے ساتھ صفائی کی ابتر صورت حال کو بہتر بنانے میں خاصی دلچسپی لی، ان کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر، ڈویژنل کمشنر اور ان کی سیکریٹری نے دورے کرکے صفائی ستھرائی کا عمل شروع کرایا، مگر میونسپل کمیٹی کے نااہل ذمہ داران نے چند دن تک مستعدی کا مظاہرہ کیا اور مذکورہ شخصیات کے جانے کے بعد اپنی پرانی روش کو برقرار رکھا، شہداد کوٹ ماڈل سٹی کے برعکس ''گندگی کا ماڈل'' بن چکا ہے، شہریوں نے کئی بار احتجاج کیے، تاجروں نے اپنی دکانیں بند کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا، محترمہ فریال تالپور سمیت دیگر ذمہ داران سے شکایات کیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی، ایسا لگتا ہے جیسے شہر اور شہریوں سے کسی ناکردہ گناہ کا انتقام لیا جارہا ہے، اگر کروڑوں روپے آمدنی رکھنے اور یہاں سے منتخب ارکان اسمبلی کو ملنے والے کروڑوں روپے کے فنڈز کا چوتھائی حصہ بھی خرچ کیا جاتا تو شہر کی حالت یہ نہ ہوتی اور لوگوں کی تقدیر بدل جاتی۔
میونسپل انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے صفائی کے نظام کے درہم برہم ہونے کے ساتھ اسٹریٹ لائٹ بھی ندارد ہے، جس کی وجہ سے رات میں لوگوں کو آمد و رفت میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جب کہ شہریوں کو فراہم کیے جانیوالے پینے کے پانی کو فلٹر کرنا تو درکنار اس میں نالیوں اور گٹروں کا گندا پانی شامل ہوگیا ہے جسے پینا تو ایک طرف، عام استعمال کے قابل بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے شہری روزانہ پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ اس ادارے میں دوسرے کئی محکموں کی طرح احتساب کا کوئی عمل دکھائی نہیں دیتا، اگر تحقیقات کرائی جائیں تو حقائق سامنے آئیں گے کہ ترقیاتی فنڈزکو کس طرح اور کس نے غبن کیا ہے۔ اگر احتساب کا عمل ہو تو یہ ادارہ لوگوں کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہوسکتا ہے بہ صورت دیگر گندگی کے ڈھیر اور نالیوں کا گندا پانی لوگوں کا مقدر بنا رہے گا۔
ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما کرم خان مگسی، حاجی خان بھٹو، سابق کونسلر منور سومرو، تحریک منہاج القرآن کے نادر علی حلیمی اور دیگر نے گزشتہ کافی عرصے سے عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے قائم میونسپل کمیٹی میں لوٹ کھسوٹ، کرپشن اور بدعنوانیوں کا بازار گرم ہونے کی مذمت کرتے ہوئے شہر میں بڑھتی ہوئی گندگی پر تشویش کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ ماضی میں شہدادکوٹ سیاسی طور پر خاص اہمیت کا حامل شہر سمجھا جاتا تھا، مگر اب گندگی کے باعث خاص مقام رکھتا ہے، انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو چاہیے کہ اپنی شہید قائد کے سابق روایتی حلقہ انتخاب کو اس طرح بے یار و مددگار اور لاوارث چھوڑنے کی بجائے تھوڑی توجہ دے کر یہاں کے مسائل حل کریں تاکہ ان کی قائد کی روح کو سکون مل سکے بصورت دیگر مسائل کے حل کے لیے شہری بھرپور احتجاج کریں گے جس کی تمام تر ذمہ دار میونسپل انتظامیہ اور حکومت ہوگی۔
سندھ و بلوچستان کے سنگم پر واقع اہم سیاسی اہمیت کے حامل شہر شہدادکوٹ میں یہ ادارہ اور اس میں براجمان لوگ شہریوں کے لیے جان کا عذاب بنے ہوئے ہیں، اس ادارے نے مسائل حل کرنے کی بجائے پریشانیوں اور دشواریوں کے انبار جمع کرکے لوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ میونسپل کمیٹی کا بنیادی کام شہر کے گلی محلوں کو صاف ستھرا رکھنا، نکاسی کے نظام کو بہتر بنانا، اسٹریٹ لائٹ کو درست رکھنا، شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا وغیرہ ہے، جس کے لیے حکومت ماہانہ سوا کروڑ روپے ملازمین کی تنخواہوں اور مذکورہ کاموں کی مد میں گرانٹ فراہم کرتی ہے، لیکن یہ افسوس ناک بات ہے کہ ایک طرف مذکورہ رقوم سے شہر میں گزشتہ 5 برسوں سے کوئی ترقیاتی کام نہیں کرائے گئے ہیں تو دوسری جانب رقم کا بڑا حصہ غیرقانونی طور پر بھرتی کیے گئے ملازمین کی تن خواہوں کی مد میں خرچ میں ہوتا ہے جس سے ادارے اور شہریوں کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ شہداد کوٹ جو ماضی میں پیپلزپارٹی کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو کا روایتی حلقہ انتخاب رہا ہے اور انکی شہادت کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری کی دو بار رکن اسمبلی منتخب ہونے والی ہمشیرہ فریال تالپور اور تین دہائیوں تک پارلیمانی سیاست پر راج کرنے والے میر نادر علی مگسی کا حلقہ انتخاب رہا ہے، مگر جب تک پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں آئی تھی اور سابق صدر پرویز مشرف کی چھتری تلے دور نظامت چل رہا تھا اس وقت لوگوں کے بنیادی مسائل حل کیے جانے کے ساتھ ترقیاتی کاموں پر بھی توجہ دی جارہی تھی لیکن جیسے ہی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا اور ان کے منتخب نمائندوں کی آشیرباد سے میونسپل کمیٹی میں بد عنوان افسران کی تعیناتی شروع ہوئی اور شہریوں کے لیے بدقسمتی کا ایک اور باب کھل گیا ہے جسے بند کرنے کے لیے حکمرانوں، منتخب نمائندوں اور متعلقہ اداروں کے ذمہ داران اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں فرد واحد ضلع بھر میں سیاہ و سفید کا مالک تھا اور ضلع کے تمام افسران بشمول میونسپل کمیٹی شہدادکوٹ کے افسران کے اس شخصیت کے نہیں بلکہ اس کے پرائیویٹ سیکریٹری کے سامنے جوابدہ تھے اور ایک پتا بھی ان کے حکم کے بغیر نہیں ہلتا تھا۔ لوگوں کی دعائیں قبول ہوئیں اور اس عمل سے چھٹکارہ ملا، تاہم 2013 میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں شہدادکوٹ کے عوام کے لیے کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، پہلے افسران موجود ہوتے تھے اور وہ فنڈز اللوں تللوں پر خرچ کرتے تھے مگر اب تو کرپشن اور رقوم ہڑپ کرنے کے ساتھ ادارے کے ذمہ دار عوام تو درکنار، اپنے ملازمین کو زیارت کرانا گوارہ نہیں کرتے۔
ادارے کے تین بڑوں کو سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ ایم این اے فریال تالپور کی مکمل آشیرباد حاصل ہے اور ان کی جانب سے بنائی جانیوالی کمیٹی کی بھی،عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ چیف میونسپل آفیسر اور فنانس آفیسر محترمہ فریال اور چیف آفیسر پارلیمانی سیاست میں نووارد نواب سردار احمد خان چانڈیو کی آشیر باد سے تعینات ہوئے۔ محترمہ کے حمایت یافتہ چیف میونسپل آفیسر کی انتظامی اہلیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے تمام انتظامی اختیارات اپنے ماتحت چیف آفیسر کے حوالے کردیئے ہیں، تینوں افسران کی تعیناتی کو 6 ماہ سے زاید کا عرصہ گزرچکا ہے، مگر ان کی بھی سابقہ افسران کی طرح عدم دل چسپی کے باعث شہر کی حالت ایک فیصد بھی بہتر نہیں ہوئی ہے۔
گزشتہ کئی ماہ سے گندگی کے ڈھیر اور نالیوں کا سڑکوں پر جمع بدبودار پانی ملیریا سمیت مختلف بیماریوں کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے، شہر کے مختلف اہم محلوں اور راستوں تقی شاہ روڈ، بگو روڈ، اسپتال روڈ، مکھن شاہ محلہ، دوست علی روڈ، بھٹی محلہ اور دیگر میں پانی کھڑا ہونے کے ساتھ گندگی کے ڈھیر جمع ہیں، حیران کن بات یہ ہے کہ محترمہ فریال تالپور نے یہاں سے ریکارڈ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، انہیں شہری مسائل کے ادراک کے ساتھ احساس بھی تھااور انہوں نے دیگر مسائل کے ساتھ صفائی کی ابتر صورت حال کو بہتر بنانے میں خاصی دلچسپی لی، ان کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر، ڈویژنل کمشنر اور ان کی سیکریٹری نے دورے کرکے صفائی ستھرائی کا عمل شروع کرایا، مگر میونسپل کمیٹی کے نااہل ذمہ داران نے چند دن تک مستعدی کا مظاہرہ کیا اور مذکورہ شخصیات کے جانے کے بعد اپنی پرانی روش کو برقرار رکھا، شہداد کوٹ ماڈل سٹی کے برعکس ''گندگی کا ماڈل'' بن چکا ہے، شہریوں نے کئی بار احتجاج کیے، تاجروں نے اپنی دکانیں بند کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا، محترمہ فریال تالپور سمیت دیگر ذمہ داران سے شکایات کیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی، ایسا لگتا ہے جیسے شہر اور شہریوں سے کسی ناکردہ گناہ کا انتقام لیا جارہا ہے، اگر کروڑوں روپے آمدنی رکھنے اور یہاں سے منتخب ارکان اسمبلی کو ملنے والے کروڑوں روپے کے فنڈز کا چوتھائی حصہ بھی خرچ کیا جاتا تو شہر کی حالت یہ نہ ہوتی اور لوگوں کی تقدیر بدل جاتی۔
میونسپل انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے صفائی کے نظام کے درہم برہم ہونے کے ساتھ اسٹریٹ لائٹ بھی ندارد ہے، جس کی وجہ سے رات میں لوگوں کو آمد و رفت میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جب کہ شہریوں کو فراہم کیے جانیوالے پینے کے پانی کو فلٹر کرنا تو درکنار اس میں نالیوں اور گٹروں کا گندا پانی شامل ہوگیا ہے جسے پینا تو ایک طرف، عام استعمال کے قابل بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے شہری روزانہ پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ اس ادارے میں دوسرے کئی محکموں کی طرح احتساب کا کوئی عمل دکھائی نہیں دیتا، اگر تحقیقات کرائی جائیں تو حقائق سامنے آئیں گے کہ ترقیاتی فنڈزکو کس طرح اور کس نے غبن کیا ہے۔ اگر احتساب کا عمل ہو تو یہ ادارہ لوگوں کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہوسکتا ہے بہ صورت دیگر گندگی کے ڈھیر اور نالیوں کا گندا پانی لوگوں کا مقدر بنا رہے گا۔
ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما کرم خان مگسی، حاجی خان بھٹو، سابق کونسلر منور سومرو، تحریک منہاج القرآن کے نادر علی حلیمی اور دیگر نے گزشتہ کافی عرصے سے عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے قائم میونسپل کمیٹی میں لوٹ کھسوٹ، کرپشن اور بدعنوانیوں کا بازار گرم ہونے کی مذمت کرتے ہوئے شہر میں بڑھتی ہوئی گندگی پر تشویش کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ ماضی میں شہدادکوٹ سیاسی طور پر خاص اہمیت کا حامل شہر سمجھا جاتا تھا، مگر اب گندگی کے باعث خاص مقام رکھتا ہے، انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو چاہیے کہ اپنی شہید قائد کے سابق روایتی حلقہ انتخاب کو اس طرح بے یار و مددگار اور لاوارث چھوڑنے کی بجائے تھوڑی توجہ دے کر یہاں کے مسائل حل کریں تاکہ ان کی قائد کی روح کو سکون مل سکے بصورت دیگر مسائل کے حل کے لیے شہری بھرپور احتجاج کریں گے جس کی تمام تر ذمہ دار میونسپل انتظامیہ اور حکومت ہوگی۔