نادرا کا بحران اور قانون کی حکمرانی
قانون کی حکمرانی کا نیا دورشروع ہورہا ہے،چیف جسٹس کی رخصتی کےبعدعدالتی فعالیت کا تابناک سفراحتیاط کے ساتھ جاری رہے گا
قانون کی حکمرانی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری رخصت ہو چکے لیکن عدالتی فعالیت کا تابناک سفر احتیاط کے ساتھ نئے انداز میں جاری رہے گا۔ 12 دسمبر 2013ء کے شدت سے منتظر گِدھ مایوسی کے عالم میں ہاتھ مَل رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کمال دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالتی معاملات میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اپنے مخصوص مفادات کے لیے انھیں الٹی سیدھی پٹیاں پڑھانے والے اب عدالتوں کے رحم وکرم پر ہیں۔
طارق ملک اپنی ناروا اور بے جا برطرفی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں چلے گئے، عدالت عالیہ نے ان کی برطرفی کے احکامات معطل کر دیے جس کے بعد وفاق نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن وفاق کو دوبارہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کی ہدایت کی گئی۔ یہ عدلیہ کی بحالی کی اس جدوجہد کا اعزاز ہے کہ حکمران عدلیہ کے احکامات بلاچوں چراں ماننے پر مجبور ہیں ورنہ شب گزشتہ رخصت ہونے والے چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے ساتھ ان کی جبری معطلی کے بعد جس طرح کا سلوک روا رکھا گیا تھا، ان کے اہل خانہ کو بھی ان کے ساتھ کمانڈو کی قید کاٹنا پڑی تھی لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے، طارق ملک اپنی برطرفی کے صرف تین گھنٹے میں بحال ہو گئے، دوبارہ چارج لینے کے بعد ان پر انکشاف ہوا کہ صرف چار گھنٹے میں درجنوں افسران اوپر سے نیچے ہو چکے تھے جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پہلے سے تیار شدہ فہرستوں کے مطابق تبادلوں کا جھکڑ چلا گیا تھا۔
چیئرمین نادرا طارق ملک سیاست سے کوسوں دور، خالص ٹیکنو کریٹ ہیں۔ امریکی بلند پایہ درسگاہ ہارورڈ میں تعلیم سمیت غیر معمولی اعزازات رکھنے والے طارق ملک درجہ بدرجہ ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے نادرا کے سربراہ بنے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیٹا بینکس (Data Banks) کی تشکیل، ہم آہنگی اور محفوظ رسائی کے علوم کے ماہر طارق ملک نے مسابقت کی عالمی مارکیٹ میں چین، امریکا اور بھارت کا مقابلہ کر کے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بلند کیا ہے، سری لنکا سے افریقہ تک ان کی فتوحات کے جھنڈے لہرا رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اذیت پسندی کے ایسے مہلک مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ اپنے قابل قدر فرزندوں کی تحقیر کر کے تسکین پاتے ہیں۔ ہم منتخب وزیراعظم کو قتل کراتے ہیں، پھانسی چڑھاتے ہیں اور جلاوطن کرنے کی کہانی تو کل کا فسانہ ہے۔امریکی درسگاہوں میں اپنے علم کا سکہ منوانے والے حسین حقانی ہوں یا عالمی سطح پر جنوبی ایشیائی دانش کا نشان سمجھے جانے والے مُشاہد حُسین سیّد یا پھر بابائے ایٹمی پروگرام ڈاکٹر عبدالقدیر خان، غداری، قید وبند، سنگین الزام، طعن، دشنام کیا کچھ جدید تاریخ میں پاکستان کے ان قابل قدر فرزندوں کے ساتھ روا نہیں رکھا گیا ۔ ہماری بیمار سوچ کا کیا کہنا کہ ان عالی دماغوںکو مالی بددیانتی کے الزامات سے داغ دار کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی گئی، اس لیے طارق ملک سے ہونے والے سلوک پر کوئی اچنبھا نہیں۔
اس کالم نگار کا دکھ تو یہ ہے کہ طارق ملک کی مخالفت چوہدری نثار علی خان نے کی ، جن کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ وہ اکل کھرے اور سیدھی راہ پر چلنے والے، جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والے سیاست کار ہیں۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ ہر بڑے آدمی کی طرح ان کے حلقہ خواص میں بعض ایسے افراد شامل ہوگئے ہیں جو انھیں کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے ۔ طارق ملک کی برطرفی کے حق میں دلائل کے انبار لائے جا رہے ہیں، ان کی برطرفی کے کمانڈو ایکشن کا جو حشر اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے جس کے خلاف وفاق کی سپریم کورٹ میں اپیل کو بھی پذیرائی نہیں مل سکی۔ تابندہ اور درخشاں جمہوری روایات کے ساتھ شروع ہونے والے جمہوری دور میں ایسی کارروائیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ طارق ملک پر الزام یہ ہے کہ انھوں نے نادرا کا آڈٹ کرانے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں، حقائق یہ ہیں کہ گزشتہ بارہ سال کے آڈٹ کی رپورٹیں ویب سائٹ پر موجود ہیں، اب وفاقی حکومت نادرا کا خصوصی آڈٹ کرانا چاہ رہی ہے جس کے لیے سرکاری آڈیٹر نے 17 نکات پر مبنی خط نادرا کے افسر مالیات کو لکھا ہے جس میں عام انتخابات 2013ء میں رائے دہندگان کے انگوٹھوں کی مکمل رپورٹ بھی طلب کی گئی ہے۔ اسی طرح ارکان قومی، صوبائی اسمبلی اور عوام الناس کی ووٹر لسٹوں کے بارے میں شکایات کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں، آخر میں عام انتخابات 2013ء میں نادرا کے کردار اور شفافیت کے بارے میں رپورٹ بھی طلب کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آڈٹ تو نادرا کے مالی امور کا ہونا تھا لیکن یہ انوکھا آڈٹ عام انتخابات سے متعلقہ ایسی حساس معلومات اور رپورٹس کا کیا جا رہا ہے جس کا افشاء سارے جمہوری نظام کو داؤ پر لگا سکتا ہے، ویسے بھی عام انتخابات سے متعلقہ سیکڑوں عرضداریاں مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، ان سے متعلق ریکارڈ کیسے منظر عام پر لایا جا سکتا ہے۔
عرضِ حال تو صرف اتنی ہے کہ آپ نادرا کے مالی امور کا حساب کتاب کریں لیکن جمہوری پارلیمانی نظام کی بنیادوں میں بارود نہ بھریں، نجانے کیوں حکمرانوں کے بے چہرہ مصاحبین یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ عام انتخابات 2013ء کی دال میں کچھ کالا ضرور ہے، لیکن انھیں یہ شاید معلوم نہیں یہ دانا ''اسی شاخ کو کاٹنے میں مصروف ہیں جس پر خود بیٹھے ہوئے ہیں'' مگر اس طرح ان کا انجام بھی شیخ چلّی سے مختلف نہ ہو گا اور تاریخ ان پر قہقہے ہی لگائے گی۔
طارق ملک اپنی ناروا اور بے جا برطرفی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں چلے گئے، عدالت عالیہ نے ان کی برطرفی کے احکامات معطل کر دیے جس کے بعد وفاق نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن وفاق کو دوبارہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کی ہدایت کی گئی۔ یہ عدلیہ کی بحالی کی اس جدوجہد کا اعزاز ہے کہ حکمران عدلیہ کے احکامات بلاچوں چراں ماننے پر مجبور ہیں ورنہ شب گزشتہ رخصت ہونے والے چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے ساتھ ان کی جبری معطلی کے بعد جس طرح کا سلوک روا رکھا گیا تھا، ان کے اہل خانہ کو بھی ان کے ساتھ کمانڈو کی قید کاٹنا پڑی تھی لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے، طارق ملک اپنی برطرفی کے صرف تین گھنٹے میں بحال ہو گئے، دوبارہ چارج لینے کے بعد ان پر انکشاف ہوا کہ صرف چار گھنٹے میں درجنوں افسران اوپر سے نیچے ہو چکے تھے جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پہلے سے تیار شدہ فہرستوں کے مطابق تبادلوں کا جھکڑ چلا گیا تھا۔
چیئرمین نادرا طارق ملک سیاست سے کوسوں دور، خالص ٹیکنو کریٹ ہیں۔ امریکی بلند پایہ درسگاہ ہارورڈ میں تعلیم سمیت غیر معمولی اعزازات رکھنے والے طارق ملک درجہ بدرجہ ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے نادرا کے سربراہ بنے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیٹا بینکس (Data Banks) کی تشکیل، ہم آہنگی اور محفوظ رسائی کے علوم کے ماہر طارق ملک نے مسابقت کی عالمی مارکیٹ میں چین، امریکا اور بھارت کا مقابلہ کر کے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بلند کیا ہے، سری لنکا سے افریقہ تک ان کی فتوحات کے جھنڈے لہرا رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اذیت پسندی کے ایسے مہلک مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ اپنے قابل قدر فرزندوں کی تحقیر کر کے تسکین پاتے ہیں۔ ہم منتخب وزیراعظم کو قتل کراتے ہیں، پھانسی چڑھاتے ہیں اور جلاوطن کرنے کی کہانی تو کل کا فسانہ ہے۔امریکی درسگاہوں میں اپنے علم کا سکہ منوانے والے حسین حقانی ہوں یا عالمی سطح پر جنوبی ایشیائی دانش کا نشان سمجھے جانے والے مُشاہد حُسین سیّد یا پھر بابائے ایٹمی پروگرام ڈاکٹر عبدالقدیر خان، غداری، قید وبند، سنگین الزام، طعن، دشنام کیا کچھ جدید تاریخ میں پاکستان کے ان قابل قدر فرزندوں کے ساتھ روا نہیں رکھا گیا ۔ ہماری بیمار سوچ کا کیا کہنا کہ ان عالی دماغوںکو مالی بددیانتی کے الزامات سے داغ دار کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی گئی، اس لیے طارق ملک سے ہونے والے سلوک پر کوئی اچنبھا نہیں۔
اس کالم نگار کا دکھ تو یہ ہے کہ طارق ملک کی مخالفت چوہدری نثار علی خان نے کی ، جن کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ وہ اکل کھرے اور سیدھی راہ پر چلنے والے، جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والے سیاست کار ہیں۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ ہر بڑے آدمی کی طرح ان کے حلقہ خواص میں بعض ایسے افراد شامل ہوگئے ہیں جو انھیں کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے ۔ طارق ملک کی برطرفی کے حق میں دلائل کے انبار لائے جا رہے ہیں، ان کی برطرفی کے کمانڈو ایکشن کا جو حشر اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے جس کے خلاف وفاق کی سپریم کورٹ میں اپیل کو بھی پذیرائی نہیں مل سکی۔ تابندہ اور درخشاں جمہوری روایات کے ساتھ شروع ہونے والے جمہوری دور میں ایسی کارروائیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ طارق ملک پر الزام یہ ہے کہ انھوں نے نادرا کا آڈٹ کرانے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں، حقائق یہ ہیں کہ گزشتہ بارہ سال کے آڈٹ کی رپورٹیں ویب سائٹ پر موجود ہیں، اب وفاقی حکومت نادرا کا خصوصی آڈٹ کرانا چاہ رہی ہے جس کے لیے سرکاری آڈیٹر نے 17 نکات پر مبنی خط نادرا کے افسر مالیات کو لکھا ہے جس میں عام انتخابات 2013ء میں رائے دہندگان کے انگوٹھوں کی مکمل رپورٹ بھی طلب کی گئی ہے۔ اسی طرح ارکان قومی، صوبائی اسمبلی اور عوام الناس کی ووٹر لسٹوں کے بارے میں شکایات کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں، آخر میں عام انتخابات 2013ء میں نادرا کے کردار اور شفافیت کے بارے میں رپورٹ بھی طلب کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آڈٹ تو نادرا کے مالی امور کا ہونا تھا لیکن یہ انوکھا آڈٹ عام انتخابات سے متعلقہ ایسی حساس معلومات اور رپورٹس کا کیا جا رہا ہے جس کا افشاء سارے جمہوری نظام کو داؤ پر لگا سکتا ہے، ویسے بھی عام انتخابات سے متعلقہ سیکڑوں عرضداریاں مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، ان سے متعلق ریکارڈ کیسے منظر عام پر لایا جا سکتا ہے۔
عرضِ حال تو صرف اتنی ہے کہ آپ نادرا کے مالی امور کا حساب کتاب کریں لیکن جمہوری پارلیمانی نظام کی بنیادوں میں بارود نہ بھریں، نجانے کیوں حکمرانوں کے بے چہرہ مصاحبین یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ عام انتخابات 2013ء کی دال میں کچھ کالا ضرور ہے، لیکن انھیں یہ شاید معلوم نہیں یہ دانا ''اسی شاخ کو کاٹنے میں مصروف ہیں جس پر خود بیٹھے ہوئے ہیں'' مگر اس طرح ان کا انجام بھی شیخ چلّی سے مختلف نہ ہو گا اور تاریخ ان پر قہقہے ہی لگائے گی۔