حسینہ واجد کے بدلتے تیور

حسینہ واجد کے بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات چل رہے تھے کہ مودی کی ہندوتوا کی پالیسی نے انھیں سخت ناراض کردیا ہے۔

usmandamohi@yahoo.com

حسینہ واجد سے ہم پاکستانیوں کو ان کے پاکستان مخالف رویے کی وجہ سے بلاشبہ بہت سی شکایتیں رہی ہیں مگر یہ بات بھی ناقابل فراموش ہے کہ انھوں نے اپنے والد کے فلسفے پر عمل پیرا ہو کر بنگلادیش کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیا ہے۔ بنگلادیش اس وقت بھارت سے بھی زیادہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔

پاکستان سے تو بنگلادیش کی معیشت کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے اس لیے کہ ہمارے حکمرانوں نے ملک کا بھلا سوچنے کے بجائے ہمیشہ اپنا اور اپنے دوستوں کا بھلا سوچا ہے۔ بنگلادیش اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے بعد اب سیاسی طور پر بھی مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے وہ یقینا مکمل طور پر بھارت کے ڈکٹیشن پر عمل کرتا تھا۔

اس کی سیاست کا محور دہلی تھا وہاں سے اسے جو حکم ملتا تھا اسی کے تحت وہ اپنے اندرونی اور بیرونی معاملات کو چلاتا تھا۔ چونکہ بھارت کو پاکستان سے ہمیشہ سے ہی پرخاش رہی ہے وہ تو سرے سے پاکستان کے وجود کا ہی قائل نہیں ہے۔ اس نے اپنی پاکستان دشمنی کی بھڑاس پاکستان کو دولخت کرکے نکالی تھی اور یوں بنگلادیش کا قیام عمل میں آگیا تھا وہاں کی علیحدگی کے لیے جو بھی طریقہ اختیار کیا گیا اس کی ساری پلاننگ دہلی میں کی گئی تھی اور دہلی کی ہی مدد سے علیحدگی کا عمل مکمل ہوا تھا۔

یہ بھارت ہی تھا جس نے بنگالی نوجوانوں کو دہشت گردی کی تربیت دی تھی۔ اس نے خود اپنے فوجیوں کو پاکستانی فوجیوں کی وردیوں میں ملبوس کرکے مشرقی پاکستان بھجوایا تھا انھی فوجیوں نے بنگالیوں کو پاکستان سے بدظن کرنے کے لیے ان کا قتل عام کیا اور خواتین کا بڑے پیمانے پر ریپ کیا تھا بھارتی میڈیا نے اسے پاکستانی فوجیوں کی کارروائی قرار دے کر بنگالیوں کو ہی نہیں پوری دنیا کو گمراہ کیا۔

اس طرح بھارت جو پاکستان کے قائم ہونے کے بعد سے ہی اسے توڑنے کی سازشوں میں مصروف تھا وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب تو ہو گیا تھا اور یوں مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا تھا مگر وہاں کے عوام کے دلوں سے پاکستان کی محبت محو نہیں کرسکا تھا خود مجیب الرحمن نے اپنی 1970 کی انتخابی مہم کے دوران ایک دن بھی پاکستان سے علیحدگی کی بات نہیں کی تھی۔ وہ پاکستان کے اندر رہ کر اپنے چھ نکات کا حل چاہتے تھے مگر کچھ تو ہماری حکومت بھی ان کے چھ نکات کو نہ سمجھ سکی اور اسے پاکستان سے بغاوت خیال کرتی رہی پھر 1970 کے الیکشن میں عوامی لیگ کی برتری کی وجہ سے مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کی دعوت ملنی چاہیے تھی مگر اس کے بجائے ان کی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی اور مجیب الرحمن کو باغی قرار دے کر گرفتار کرکے مغربی پاکستان لاکر قید کردیا گیا اس اقدام نے مشرقی پاکستان کے عوام میں مغربی پاکستان کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کردیے تھے۔

بنگال میں اس وقت تک بھارت اپنے ایجنٹوں کی مدد سے وہاں ایک ایسا دہشت گرد طبقہ پیدا کرچکا تھا جو کھل عام علیحدگی کی بات کر رہا تھا اور وہاں موجود مغربی پاکستانیوں کو چن چن کر قتل کر رہا تھا۔ ان دہشت گردوں کو کچلنے کے لیے فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ جس کا مقصد صرف دہشت گردوں کو کچلنا تھا جب کہ عام بنگالی ہرگز اس کا ہدف نہیں تھے۔ خود بھارتی محققین اور مصنفین نے لکھا کہ انھیں بھارتی حکمت عملی کے تحت بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے نشانہ بنایا تھا۔


بنگلادیش تو بن گیا جس کے نتیجے میں بھارت کو مشرق کی جانب سے جو خطرہ تھا وہ تو ٹل گیا البتہ وہ مغرب کی طرف سے اب بھی خوف زدہ ہے مگر اس کا یہ خوف بھی ختم ہو سکتا ہے اگر وہ اپنی ہٹ دھرمی ترک کرکے مسئلہ کشمیر کو حل کرلے۔ بنگلادیش کے بننے کے بعد وہاں کی معیشت اور اندرونی و بیرونی امور پر بھارت کا مکمل کنٹرول قائم رہا۔ جنرل ضیا الرحمن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ بنگلادیش کو بھارتی چنگل سے آزاد کرانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے تھے مگر اس کی پاداش میں انھیں قتل کرادیا گیا۔ جنرل ارشاد کے دور میں بنگلادیش کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رہے۔

خالدہ ضیا اپنے شوہر کی طرح پاکستان سے دوستی کی خواہاں تھیں ان کے دور میں پاک بنگلادیش تعلقات میں مزید بہتری آئی وہ پاکستان کے دورے پر بھی تشریف لائی تھیں۔ چونکہ بنگلادیش میں ''را'' کا جال بچھا ہوا ہے خالدہ ضیا اپنی پاکستان نواز پالیسی کی وجہ سے بھارت کے لیے ناپسندیدہ رہی ہیں چنانچہ سازشوں کے ذریعے ان کی حکومت ختم کرا کے حسینہ واجد کو وزیر اعظم کے منصب تک پہنچا دیا گیا۔

حسینہ یقینا پاکستان کے سخت خلاف رہی ہیں چونکہ انھیں شبہ ہے کہ ان کے والد اور اہل خانہ کو پاکستان کی شے پر قتل کیا گیا تھا بعد میں ان کی یہ سوچ غلط ثابت ہوئی دراصل مجیب کے قتل میں بھارت ہی ملوث تھا اس لیے کہ مجیب الرحمن نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں بھارت کی اجارہ داری کے خلاف آواز بلند کردی تھی۔

حسینہ واجد کے بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات چل رہے تھے کہ مودی کی ہندوتوا کی پالیسی نے انھیں سخت ناراض کردیا ہے۔ مودی نے روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں بنگلادیش کی مدد کرنے کے بجائے مسلمانوں کی قاتل برمی حکومت کی طرف داری کی تھی۔ اس کے بعد آسام میں صدیوں سے آباد مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر انھیں بنگلہ دیشی حکومت کو واپس لینے کو کہا گیا۔

مودی نے متنازعہ شہریت کے قانون کے ذریعے بھارتی مسلمانوں کو بھی غیر ملکی قرار دینے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر بھارتی مسلمانوں کی اس قانون کے خلاف سخت مزاحمت اور مغربی ممالک کی جانب سے اس متعصبانہ اقدام کی سخت مذمت کی وجہ سے مودی فی الحال خاموش ہو گیا ہے مگر آسامی مسلمانوں کو لاکھوں کی تعداد میں شیلٹر ہاؤسز میں منتقل کرچکا ہے۔

بنگلادیشی حکومت کا کہنا ہے کہ مودی انھیں صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ملک بدر کرنا چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھارت کی مسلم دشمنی کھل کر حسینہ واجد کے سامنے آگئی ہے جس نے ان کی بھارت نوازی کی ہوا اکھاڑ دی ہے۔ وہ اب بھارتی عزائم بھانپ کر بنگلہ دیشی پروجیکٹس کی تعمیر کے لیے بھارت کے بجائے چین کو ترجیح دے رہی ہیں۔ بھارتی ہائی کمشنر ان سے ملنے کے لیے کئی ماہ سے وقت مانگ رہے ہیں مگر اسے وقت نہیں دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے گزشتہ دنوں عمران خان سے فون پر اطمینان بخش بات کی ہے۔

لگتا ہے وہ خطے کی بدلتی صورتحال اور مودی کے جارحانہ عزائم کی وجہ سے اب غیر جانبدارانہ پالیسی پر گامزن ہو گئی ہیں ساتھ ہی لگتا ہے اب وہ اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ اگر جناح کی کوششوں سے ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو برصغیر کے مسلمانوں کا کیا حال ہوتا۔ آر ایس ایس تو مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑنے یا ہندو بننے پر مجبور کردیتی۔
Load Next Story