ہم پیچھے کیوں رہ گئے پہلا حصہ

اس موازنے کے ذریعے ہم اپنے ملک کے معاشی، سیاسی اور سماجی انحطاط کے اسباب پر غورو فکر کریں۔

zahedahina@gmail.com

ISLAMABAD:
یہ خیال اکثر پریشان کرتا ہے کہ کوئی تو وجہ ہوگی کہ ہم نے تمام تر قدرتی، مادی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ترقی کی بجائے زوال کی جانب سفر کیوں کیا ہے۔

1947کے پاکستان اور آج کے پاکستان کا موازنہ کیجیے اندازہ ہوجائے گا کہ اُس وقت ہم جس مقام پر کھڑے تھے، اس کے مطابق ہمیں آج چین اور جاپان سے کہیں آگے ہونا چاہیے تھا۔ چین کی حالت تو اس وقت بہت ہی زیادہ خستہ تھی۔ طویل جنگ نے اسے نڈھال کردیا تھا اور اس کا بنیادی ڈھانچہ برباد ہوگیا تھا۔

تعمیر نو کا عمل انتہائی دشوار گزار تھا۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ صرف 70 سال بعد یہ ملک دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن جائے گا۔ یہ ملک آزادی سے پہلے تقریباً 22 سال تک مسلسل جنگوں اور خانہ جنگیوں کا شکار رہ چکا تھا۔ 1937 سے 1945 کے درمیان جنگوں میں چین کے ڈیڑھ سے لے کر دو کروڑ لوگ ہلاک ہوئے تھے اور اس عرصے کے دوران 10کروڑ چینی در بہ در ہوئے۔

جاپان نے 1937میں چین پر قبضہ کیا تھا، اس قبضے کے دوران چین میں قحط آیا اور 1942 میں 30 لاکھ چینی بھوک اور پیاس سے مر گئے۔ جاپان نے اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے بدترین مظالم کیے اور صرف ایک ماہ کے اندر جاپانیوں نے 2 لاکھ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جنگوں سے چین کی صنعتوں کو بھی بدترین نقصان پہنچایا اور صرف پندرہ فیصد صنعتیں باقی رہ گئی تھیں۔ 1949 میں کمیونسٹ انقلاب کامیاب ہوا اور کمیونسٹوں نے بیجنگ پر قبضہ کرلیا جس کے بعد اس ملک میں حیرت انگیز ترقی کا سفر شروع ہوگیا۔ جس وقت ہم آزاد ہوئے تھے اس وقت جاپان کی صورتحال انتہائی خراب تھی۔

دوسری عالمی جنگ میں اس نے نازی جرمنی کے ساتھ اتحاد قائم کرلیا تھا۔ اس دوران جاپان نے اپنے ہر پڑوسی ملک پر فوج کشی کی۔ جاپان نے جرمنی اور اٹلی سے جنگی معاہدہ کیا اور 1941 میں پرل ہاربر پر حملے کے بعد امریکا بھی باقاعدہ دوسری عالمی جنگ میں کود پڑا۔ اس جنگ عظیم میں جاپان کے 21 لاکھ فوجی اور 26 لاکھ شہری ہلاک ہوئے۔ جب دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوا اور جاپان نے ہتھیار ڈالے تو اس کی معیشت پوری طرح تباہ ہوچکی تھی۔ تاہم، چین کی طرح جاپان نے بھی معجزے رونما کیے اور اس وقت وہ دنیا کی تیسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔

اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ چین ہمارا پڑوسی ملک ہے، جاپان بھی ایشیائی ملک ہے۔ ان دونوں نے عالمی جنگوں میں ناقابل یقین حدتک جانی اور مالی نقصان اٹھائے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان ملکوں کے بڑے شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے تھے اور صنعت و زراعت سمیت ہر چیز تباہ ہوگئی تھی۔ اتنی بھیانک تباہی کے باوجود ان دونوں ملکوں نے درست فیصلے کیے اور آج دنیا کی معیشت پر ان کا راج ہے۔ ہم جب 1947 میں آزاد ہوئے تو ان دونوں کے مقابلے میں ہماری حالت کہیں بہتر تھی۔

سب سے پہلی بات تو یہ تھی کہ برصغیر برطانیہ کا غلام تھا اور پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ نے ہندوستان کی دولت، وسائل اور ہندوستانی فوجیوں کو استعمال کیا۔ تاہم، ان دونوں عالمی جنگوں میں برصغیر براہ راست بہت کم متاثر ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ 1947 میں جب ہندوستان اور پاکستان کو برطانوی تسلط سے آزادی ملی تو یہ دونوں دیگرنو آزاد ملکوںکی طرح تباہ حال نہیں تھے بلکہ کئی حوالوں سے ان سے زیادہ بہتر تھے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ پاکستان معاشی اور سماجی ترقی کے معجزے رونمانھیں کرسکا؟


ہندوستان اور بنگلادیش آزادی کے بعد زیادہ تیز رفتار ترقی نہیں کرسکے لیکن بعد ازاں، یہ صورتحال کافی حد تک بدل گئی۔ ایک وقت تھا جب ہندوستان کو بھکاریوں کا ملک کہا جاتا تھا۔ مرحوم ابراہیم جلیس کی تحریر ''دس کروڑ بھکاری'' بھی اسی تناظر میں لکھی گئی تھی۔ بنگلادیش کے بارے میں کیا کہا جائے؟ اسے اپنے سے جدا کرنے والے ہم خود ہیں۔ جب تک وہ ہمارے ساتھ تھا ہم انھیں تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔

ہم نے اپنے بنگالی بولنے والے پاکستانی بھائیوں کو کیا کچھ نہیں کہا، کیا القاب نہیں دیے؟ ''ننگے بھوکے بنگالی'' ایک اصطلاح کے طور پر رائج تھی، انھیں چور کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ان کے جسم سے مچھلی کی بو آتی ہے۔ یہ سوچ تو بڑی عام تھی کہ ہمارا یعنی مغربی پاکستان کا سارا پیسہ ان لوگوں کے پیٹ بھرنے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے نقصانات پورا کرنے پر ضایع ہوجاتا ہے۔ کیا یہ وہ تلخ جملے نہیں تھے جو ہم اکثر کہا کرتے تھے لہٰذا انھیں اگر یہاں دہرایا جارہا ہے تو برا ماننے کی ضرورت بالکل نہیں ہے۔ بتانا دراصل یہ مقصود ہے کہ 1971میں مشرقی پاکستان جب بنگلادیش بنا تو اس وقت اس کی معاشی صورتحال کیا تھی اور اس حوالے سے اس بارے میں خود ہمارے ''ارشادات'' کیا ہوا کرتے تھے؟

بنگلادیش کی مثال دی جانی انتہائی ضروری ہے کیونکہ آج سے 50 سال پہلے وہ متحدہ پاکستان کا سب سے پسماندہ اور غریب صوبہ ہوا کرتا تھا۔ مشرقی پاکستان سے بنگلادیش بننے کے صرف 50 سال کے اندر آج وہ کہاں ہے اور ہم کس مقام پرکھڑے ہیں؟ ممکن ہے یہ موازنہ ہم میں سے بہتوں کی طبع نازک پر گراں گزرے لیکن اس وقت ہم جس بحرانی کیفیت میں ہیں اس کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنا تنقیدی جائزہ لیں اور اپنے اندرتلخ حقائق کو سننے کا حوصلہ بھی پیدا کریں۔

جب بنگلادیش معرض وجود میں آیا تو وہ دنیا کا 10 واں غریب ترین ملک تھا۔ اب بنگلادیش کی جی ڈی پی 347 ارب ڈالر جب کہ پاکستان کی 284 ارب ڈالر ہے۔ کورونا کے آنے سے پہلے تک بنگلادیش ہرسال اوسطاً 7 فیصد کی شرح سے معاشی ترقی کر رہا تھا اور اس وقت بھی اس کی شرح نمو 6 فیصد ہے۔ اس کے مقابلے ہماری شرح نمومنفی میں جاچکی ہے اور حکومت کے مطابق یہ شرح منفی 0.45 فیصد ہے، جب کہ غیرجانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری جی ڈی پی میں کمی منفی 1.5 سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت بنگلادیش کی فی کس جی ڈی پی 2 ہزار ڈالر اور پاکستان کی پندرہ سو ڈالر ہے۔

بنگلادیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 33.3 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں جب کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 12 ارب ڈالر کے برابر ہیں۔ آج کی دنیا میں برآمدات معاشی ترقی میں کافی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بنگلادیش کی برآمدات 45 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں جب کہ ہماری برآمدات کئی برس سے 25 ارب ڈالر پر رکی ہوئی ہیں۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بھی بنگلادیش کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ یہ بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ جب بنگلادیشی کارکن غیر قانونی طور پر پاکستان آکر روزگار کمایا کرتے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ایک سو پاکستانی روپے میں دو سو بنگلادیشی ٹکہ ملا کرتے تھے۔ آپ یہ جان کر شاید حیرت زدہ رہ جائیں کہ اگر آج کوئی 100 بنگلادیشی ٹکہ لے کر منی چینجر کے پاس جائے گا تو اسے 200 پاکستانی روپے ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بنگلادیش سے پاکستان آنے والوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ بلکہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جن بنگالی بولنے والوں کے خاندان بنگلادیش میں ہیں انھوں نے اب پاکستان سے بنگلادیش کے لیے رخت سفر باندھنا شروع کردیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں اگر پاکستانی روپے اور بنگلادیشی ٹکے کا موازنہ کیا جائے تو ایک ڈالر میں 160پاکستان روپے جب کہ 84 بنگلادیشی ٹکے ملتے ہیں۔

یہ سب کچھ بیان کرنے کامقصد ہرگز یہ نہیں کہ تلخ اعدادو شمار بیان کرکے آپ کو پریشانی میں مبتلا کیا جائے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ اس موازنے کے ذریعے ہم اپنے ملک کے معاشی، سیاسی اور سماجی انحطاط کے اسباب پر غورو فکر کریں۔ محض یہ کہہ کر خود کو فریب میں مبتلا نہ کریں کہ سب سیاستدان چور، ڈاکو اور بدعنوان ہیں، کرپشن میں خطے کے کئی ملک ہم سے کہیں آگے ہیں لیکن وہ ترقی کی دوڑ میں ہمیں کافی پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ ایسا کیوںہے؟ اس کا ذکر اگلے کالم تک اٹھائے رکھتے ہیں۔ (جاری ہے)
Load Next Story