جیتی بازی ہارنے پرسابق اسٹارزتنقیدی باؤنسرزبرسانے لگے

اظہر علی نے کئی غلطیاں کرتے ہوئے مواقع گنوائے، مختلف سوچ نہ اپنا سکے، وسیم اکرم

دوسری اننگز میں ناقص کارکردگی کے بعد ہی ٹیم کی باڈی لینگویج مثبت نہیں رہی (انضمام) فوٹو : فائل

MANCHESTER:
اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ میں جیتی بازی ہارنے پر سابق اسٹارز تنقیدی باؤنسرز برسانے لگے، وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ کپتان اظہر علی نے کئی غلطیاں کرتے ہوئے مواقع گنوائے، حالات کے مطابق مختلف سوچ نہ اپنا سکے، شارٹ گیندیں نظر نہیں آئیں، پارٹ ٹائم بولرز اور جارحانہ فیلڈنگ سے شراکت توڑنے کی کوشش بھی نہیں کی، شعیب اختر نے کہا کہ 107رنز کی برتری کے باوجود پرفارم نہ کر پانے والے نامور بیٹسمینوں کا کوئی فائدہ نہیں،350 سے 400 تک کا ہدف دیا جاسکتا تھا لیکن کوئی ''اسٹار'' کریز پر کھڑا نہیں ہوا، بابر اعظم کو صرف اچھا بیٹسمین نہیں میچ ونر بننا چاہیے۔

انضمام الحق نے کہاکہ دوسری اننگز میں ناقص کارکردگی کے بعد ہی ٹیم کی باڈی لینگویج مثبت نہیں رہی، ہم جیت سکتے تھے اس نتیجے پر مایوسی ہوئی،سابق ویسٹ انڈین اسٹار مائیکل ہولڈنگ نے کہا کہ پاکستان نے اپنے بولنگ پلان میں کرس ووکس کو بطور بیٹسمین غیر اہم سمجھنے کا نقصان اٹھایا۔تفصیلات کے مطابق اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ میں 117 رنز پر انگلینڈ کی 5 وکٹیں گرانے کے باوجود پاکستان کو 7 وکٹ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، جیتی بازی ہارنے پر سابق کرکٹرز نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کئی خامیوں کی نشاندہی کردی ہے،خاص طور پر اظہرعلی کی کمزور قیادت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے، سابق کپتان وسیم اکرم نے کہاکہ شکست نہ صرف پاکستان ٹیم بلکہ پرستاروں کے لیے بھی تکلیف دہ ہے۔

اظہر علی نے بطور کپتان کئی غلطیاں کرتے ہوئے مواقع گنوائے، کرس ووکس بیٹنگ کے لیے آئے تو مختلف انداز میں سوچتے ہوئے ان کو آؤٹ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ شارٹ گیندیں دیکھنے میں آئیں، سوئنگ ہوئی نہ ٹرن، کپتان نے پارٹ ٹائم بولرز کی مدد سے بھی چھٹی وکٹ کے لیے انگلش شراکت توڑنے کیلیے کوشش نہیں کی، جارحانہ فیلڈنگ سیٹ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی، کرس ووکس اور جوز بٹلر کو سیٹ ہونے کا موقع فراہم کردیا گیا، دونوں فتح چھین کر لے گئے۔ وسیم اکرم نے کہا کہ نسیم شاہ 90 اور شاہین شاہ آفریدی 88 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بولنگ کر سکتے ہیں۔


دونوں میں سے ہر ایک کو کم از کم 18 سے 20 تک اوورز کرنا چاہیے تھے لیکن انھیں صلاحیتوں کے اظہار کا بھرپور موقع نہیں فراہم کیا گیا۔ سابق اسپیڈ اسٹار شعیب اخترنے کہاکہ پہلی اننگز میں 107رنز کی برتری ملنے کے بعد بھی اگر پرفارم نہیں کر سکتے تو کسی کے بڑے بیٹسمین ہونے کا کوئی فائدہ نہیں، بابر اعظم اور اظہر علی کو چیلنج قبول کرنا چاہیے تھا،350 سے 400 تک کا ہدف دیا جاسکتا تھا لیکن کوئی ''اسٹار'' کریز پر کھڑا نہیں ہوا، کوئی شراکت ہی قائم نہیں کی جا سکی، بابر اعظم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اچھا بیٹسمین نہیں بلکہ میچ ونر ہونا ضروری ہے۔

سابق کپتان انضمام الحق نے کہا کہ دوسری اننگز میں ناقص کارکردگی کے بعد ہی پاکستان ٹیم دباؤ میں آ گئی تھی،کھلاڑیوں کی باڈی لینگویج مثبت نہیں تھی،ہم میچ جیت سکتے تھے، اس نتیجے پر مایوسی ہوئی مگر پاکستان ٹیم بہتر ہے،وہ اب بھی سیریز جیت سکتی ہے لیکن اس کے لیے مینجمنٹ کو کردار ادا کرنا ہوگا، شکست کے بعد کوچنگ اسٹاف کی ذمہ داری بڑھ گئی، کھلاڑیوں کا مورال بلند رکھنے کے لیے مثبت سوچ بیدار رکھنا ہوگی۔

سابق آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے کہا کہ کرس ووکس اور جوز بٹلر نے شاندار بیٹنگ کی، میں انگلینڈ کو فتح پر مبارکباد دیتا ہوں، میچ پر پاکستان کی گرفت اورپچ بھی بولنگ کے لیے سازگار تھی، بدقسمتی کی بات ہے کہ اس کے باوجود فتح ہاتھوں سے پھسل گئی، ایسے مواقع ضائع نہیں کیے جا سکتے۔

سابق ویسٹ انڈین پیسر مائیکل ہولڈنگ نے بھی میچ کے دوران اہم پاکستانی غلطیوں کی نشاندہی کردی، انھوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنے بولنگ پلان میں کرس ووکس کو بطور بیٹسمین اہم نہیں سمجھا، اسی لیے مہمان ٹیم کو علم ہی نہیں تھا کہ آل راؤنڈر آف اسٹمپ سے باہر جاتی گیندوں پر اسٹروکس کھیلنا پسند کرتے ہیں،ووکس شارٹ بالز پر کمزور ہیں لیکن پاکستان نے یہ حربہ استعمال نہیں کیا، ایسا کرنا شروع بھی کیا تو اس وقت تک گیند نرم ہو چکی تھی۔
Load Next Story