خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت کے 2 سال خواتین ارکان کابینہ میں نمائندگی سے محروم
2 سال کے دوران وزیراعلیٰ محمودخان کو اندرونی طور پر حکومتی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف مسلسل دوسری آئنی مدت کے لیے برسراقتدار ہے لیکن اس دوران پارٹی کی کواتین ارکان اسمبلی کابینہ میں نمائندگی سے محروم ہیں۔
2018 کے عام انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں اس وقت کے گورنرانجنیئر اقبال ظفر جھگڑا کی جانب سے لیگی رکن سردار اورنگزیب نلوٹھہ کو ارکان سے حلف لینے اوراسمبلی کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کا فریضہ سونپا، صوبائی اسمبلی نے17 اگست کو محمود خان کا بطور قائد ایوان کا انتخاب کیا جن کا مقابلہ اپوزیشن کی جانب سے میاں نثار گل کاکاخیل نے کیا اور اسی روز محمود خان نے بطور وزیر اعلیٰ حلف اٹھایا۔
خیبرپختونخوا اسمبلی نے 2 سال کے دوران مجموعی طور پر 12 سیشنز کا انعقاد کیا جن کے دوران 110 نشستیں ہوئیں، 90 کے قریب بلوں اور قوانین کی منظوری دی گئی جب کہ 73 بل ایکٹ بنے، ان 12 سیشنز میں 136 سوالات نمٹائے گئے جب کہ10 کے لگ بھگ تحاریک استحقاق کو نمٹانے کے علاوہ 104 قراردادوں کی منظوری دی گئی،51 توجہ دلاﺅ نوٹس بھی اسمبلی میں پیش کیے گئے۔
ان 2 برسوں میں صوبائی اسمبلی میں حکومت اوراپوزیشن کے درمیان کشیدگی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا اور ترقیاتی فنڈز کی تقسیم سمیت دیگر امور پر فاصلے پیدا ہونے کے بعد دوبارہ ان کے مابین قربتیں پیداہوئیں جبکہ قبائلی اضلاع سے نئے ارکان کے انتخاب کے باعث قائمہ کمیٹیاں ختم کرتے ہوئے نئی کمیٹیوں کے قیام کی راہ ہموار کی گئی،اس دورانا سپیکر مشتاق احمدغنی اورڈپٹی اسپیکرمحمودجان کے درمیان بھی تنازعات جاری رہے۔
2 سال کے دوران وزیراعلیٰ محمودخان کو اندرونی طور پر حکومتی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،وزیراعلیٰ کو اپنی ہی حکومت کے سینئر وزیر عاطف خان سمیت تین وزراء کی جانب سے بغاوت کاسامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں عاطف خان ،شہرام ترکئی اور شکیل احمد کو کابینہ سے فارغ کردیا گیا، وزیراعلیٰ نے نئے وزراء کو کابینہ میں شامل کرنے کے ساتھ پہلے سے حکومتی ٹیم میں شامل ارکان کے قلمدان بھی تبدیل کیے۔
محمود خان حکومت اپنے دو سال کے دوران پشاور میں بی آرٹی کا میگا پراجیکٹ مکمل کرنے کے علاوہ سوات موٹر وے کا فیز ون بھی مکمل کرنے میں کامیاب رہی جب کہ فیز 2 شروع کیا گیا، اس دوران سی پیک کے تحت رشکئی اسپیشل اکنامک زون کی تعمیر، انصاف صحت کارڈ اور انصاف روزگار اسکیم کا اجرا، مہمند ماربل سٹی، 29 ہزار لیویز خاصہ دار کا پولیس میں انضمام، پہلی صوبائی گڈ گورننس پالیسی کی منظوری، دس سال بعد پشاور میں نیشنل گیمز کا انعقاد، صوبہ میں گیس و تیل پیداوار بڑھانا، خیبر پاس اکنامک کوریڈور، بونیر ماربل سٹی، چکدرہ، چترال روڈ کی منظوری، انڈس ہائی وے کو دو رویاں کرنے کے کام کی تکمیل، پیہور ہائیڈرو پاور سٹیشن، بجلی و پانی کے منصوبے، اور پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا اجراء بھی کیا ۔
محمودخان حکومت نے 2 سال میں تین بجٹ اسمبلی سے منظور کرائے اور صوبائی بجٹ کا حجم بڑھاکر923 ارب روپے تک پہنچادیا۔قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے نتیجے میں صوبہ میں وجود میں آنے والے بلوچستان عوامی پارٹی مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت ہونے کے باوجودخیبرپختونخوا میں حکومت کاحصہ نہ بن سکی۔ان دو برسوں کے دوران خواتین ارکان کابینہ یا حکومتی ٹیم میں نمائندگی سے محروم رہیں۔
2018 کے عام انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں اس وقت کے گورنرانجنیئر اقبال ظفر جھگڑا کی جانب سے لیگی رکن سردار اورنگزیب نلوٹھہ کو ارکان سے حلف لینے اوراسمبلی کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کا فریضہ سونپا، صوبائی اسمبلی نے17 اگست کو محمود خان کا بطور قائد ایوان کا انتخاب کیا جن کا مقابلہ اپوزیشن کی جانب سے میاں نثار گل کاکاخیل نے کیا اور اسی روز محمود خان نے بطور وزیر اعلیٰ حلف اٹھایا۔
خیبرپختونخوا اسمبلی نے 2 سال کے دوران مجموعی طور پر 12 سیشنز کا انعقاد کیا جن کے دوران 110 نشستیں ہوئیں، 90 کے قریب بلوں اور قوانین کی منظوری دی گئی جب کہ 73 بل ایکٹ بنے، ان 12 سیشنز میں 136 سوالات نمٹائے گئے جب کہ10 کے لگ بھگ تحاریک استحقاق کو نمٹانے کے علاوہ 104 قراردادوں کی منظوری دی گئی،51 توجہ دلاﺅ نوٹس بھی اسمبلی میں پیش کیے گئے۔
ان 2 برسوں میں صوبائی اسمبلی میں حکومت اوراپوزیشن کے درمیان کشیدگی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا اور ترقیاتی فنڈز کی تقسیم سمیت دیگر امور پر فاصلے پیدا ہونے کے بعد دوبارہ ان کے مابین قربتیں پیداہوئیں جبکہ قبائلی اضلاع سے نئے ارکان کے انتخاب کے باعث قائمہ کمیٹیاں ختم کرتے ہوئے نئی کمیٹیوں کے قیام کی راہ ہموار کی گئی،اس دورانا سپیکر مشتاق احمدغنی اورڈپٹی اسپیکرمحمودجان کے درمیان بھی تنازعات جاری رہے۔
2 سال کے دوران وزیراعلیٰ محمودخان کو اندرونی طور پر حکومتی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،وزیراعلیٰ کو اپنی ہی حکومت کے سینئر وزیر عاطف خان سمیت تین وزراء کی جانب سے بغاوت کاسامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں عاطف خان ،شہرام ترکئی اور شکیل احمد کو کابینہ سے فارغ کردیا گیا، وزیراعلیٰ نے نئے وزراء کو کابینہ میں شامل کرنے کے ساتھ پہلے سے حکومتی ٹیم میں شامل ارکان کے قلمدان بھی تبدیل کیے۔
محمود خان حکومت اپنے دو سال کے دوران پشاور میں بی آرٹی کا میگا پراجیکٹ مکمل کرنے کے علاوہ سوات موٹر وے کا فیز ون بھی مکمل کرنے میں کامیاب رہی جب کہ فیز 2 شروع کیا گیا، اس دوران سی پیک کے تحت رشکئی اسپیشل اکنامک زون کی تعمیر، انصاف صحت کارڈ اور انصاف روزگار اسکیم کا اجرا، مہمند ماربل سٹی، 29 ہزار لیویز خاصہ دار کا پولیس میں انضمام، پہلی صوبائی گڈ گورننس پالیسی کی منظوری، دس سال بعد پشاور میں نیشنل گیمز کا انعقاد، صوبہ میں گیس و تیل پیداوار بڑھانا، خیبر پاس اکنامک کوریڈور، بونیر ماربل سٹی، چکدرہ، چترال روڈ کی منظوری، انڈس ہائی وے کو دو رویاں کرنے کے کام کی تکمیل، پیہور ہائیڈرو پاور سٹیشن، بجلی و پانی کے منصوبے، اور پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا اجراء بھی کیا ۔
محمودخان حکومت نے 2 سال میں تین بجٹ اسمبلی سے منظور کرائے اور صوبائی بجٹ کا حجم بڑھاکر923 ارب روپے تک پہنچادیا۔قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے نتیجے میں صوبہ میں وجود میں آنے والے بلوچستان عوامی پارٹی مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت ہونے کے باوجودخیبرپختونخوا میں حکومت کاحصہ نہ بن سکی۔ان دو برسوں کے دوران خواتین ارکان کابینہ یا حکومتی ٹیم میں نمائندگی سے محروم رہیں۔