عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہسفارتی تعلقات قائم کرنے کاعندیہ
اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے مغربی کنارے میں توسیع روکنے پر آمادگی ظاہر کی ہے
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت دونوں فریقین کے درمیان نہ صرف سفارتی تعلقات قائم ہوجائیں گے بلکہ اسرائیل نے جواب میں کہا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے بہت بڑے رقبے پر اسرائیل کے توسیعی عمل کو بھی روک دے گا۔
اس بات کا اعلان خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کیا ہے اور اس موقع پر صدر ٹرمپ، اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نتن یاہو اور ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ' اس تاریخی معاہدے سے مشرقِ وسطیٰ میں امن عمل میں پیشرفت ہوگی۔'
واضح رہے کہ معاہدے کےبعد متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات بھی قائم ہوجائیں گے۔ اس امن معاہدے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بطورِ خاص اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے مغربی کنارے کے بڑے مقامات کو اسرائیل میں شامل کرنے کے توسیعی منصوبے پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ اس اقدام کا وعدہ بنجمن نتن یاہو نے الیکشن مہم کے دوران کیا تھا۔
اس معاہدے کی تفصیلات فون کال پر طے ہوئی اور ٹیلی کانفرنس کے دوران ہی معاہدے کےمنظوری دی گئی ۔ جمعرات کو منعقد کی گئی ٹیلی کانفرنس میں ٹرمپ ، شیخ محمد بن زاید اور بنجمن نتن یاہو نے شرکت کی۔
بعض افسران نےمعاہدے کو 'معاہدہِ ابراہم' (ابراہم اکارڈ) کا نام دیا گیا ہے جو شروع سے ہی صدرٹرمپ کے سفارتی اہداف میں شامل رہا ہے۔ تاہم اس معاہدے پر پہنچنے سے قبل فریقین کےدرمیان طویل مذاکرات اور گفت وشنید جاری تھی۔ اس میں صدر ٹرمپ کے مشیرِ خاص جیرڈ کرشنر، امریکا میں اسرائیلی سفیر ڈیوڈ فرائیڈمان اور مشرقِ وسطیٰ کے سفیر اوی برکووچ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
العربیہ نیوز کے مطابق متحدہ عرب امارات کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین معاہدہ ہونے تک وہ اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ نہیں کھولے گا۔
اس بات کا اعلان خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کیا ہے اور اس موقع پر صدر ٹرمپ، اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نتن یاہو اور ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ' اس تاریخی معاہدے سے مشرقِ وسطیٰ میں امن عمل میں پیشرفت ہوگی۔'
واضح رہے کہ معاہدے کےبعد متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات بھی قائم ہوجائیں گے۔ اس امن معاہدے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بطورِ خاص اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے مغربی کنارے کے بڑے مقامات کو اسرائیل میں شامل کرنے کے توسیعی منصوبے پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ اس اقدام کا وعدہ بنجمن نتن یاہو نے الیکشن مہم کے دوران کیا تھا۔
اس معاہدے کی تفصیلات فون کال پر طے ہوئی اور ٹیلی کانفرنس کے دوران ہی معاہدے کےمنظوری دی گئی ۔ جمعرات کو منعقد کی گئی ٹیلی کانفرنس میں ٹرمپ ، شیخ محمد بن زاید اور بنجمن نتن یاہو نے شرکت کی۔
بعض افسران نےمعاہدے کو 'معاہدہِ ابراہم' (ابراہم اکارڈ) کا نام دیا گیا ہے جو شروع سے ہی صدرٹرمپ کے سفارتی اہداف میں شامل رہا ہے۔ تاہم اس معاہدے پر پہنچنے سے قبل فریقین کےدرمیان طویل مذاکرات اور گفت وشنید جاری تھی۔ اس میں صدر ٹرمپ کے مشیرِ خاص جیرڈ کرشنر، امریکا میں اسرائیلی سفیر ڈیوڈ فرائیڈمان اور مشرقِ وسطیٰ کے سفیر اوی برکووچ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
العربیہ نیوز کے مطابق متحدہ عرب امارات کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین معاہدہ ہونے تک وہ اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ نہیں کھولے گا۔