لاہور جلو کاقبرستان ارض پاک کے گمنام متوالوں کی آخری آرام گاہ
جب 14 اگست کا دن آتا ہے تو خوشی کے ساتھ ساتھ ان شہیدوں کی یادیں بھی دل کو غمگین کردیتی ہیں
لاہورکے نواحی علاقہ جلو گاؤں میں ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک چھوٹا قبرستان ہے جس کے ایک حصے میں گمنام شہیدوں کی قبریں ہیں۔
جلوگاؤں کے مکین یوم آزادی پر ان شہیدوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کرتے اور پھول ڈالتے ہیں۔ گاؤں کے رہائشی محمدنوازنمبردار جن کی عمرتقریباً 100سال کے لگ بھگ ہے ، وہ بھی ہرسال 14 اگست پر ان قبروں پرفاتحہ خوانی کے لئے آتے ہیں۔
ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بزرگ محمدنواز نمبردارنے بتایا کہ یہاں گمنام شہیدوں کی 40، 50 قبریں تھیں تاہم اب چندایک ہی باقی ہیں، وقت کے ساتھ کئی قبریں ختم ہوگئیں اوران کی جگہ نئی قبریں بن گئیں۔ یہ گمنام شہید کون تھے؟ محمدنواز نمبردار نے بتایا کہ 1947 میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو لاکھوں مسلمان ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تھے۔ یہ ارض پاک کے وہ گمنام ہیں جن کواس نئی سرزمین پر رہنا تونصیب نہ ہوا لیکن ان کی آخری آرام گاہ یہاں ضرور بن گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا گاؤں پاک انڈیا سرحد سے 8،10 کلومیٹرکے فاصلے پر ہے ، ان کے گاؤں میں صرف ایک کھشتری خاندان تھا باقی تمام مسلمان آباد تھے۔
آزادی کا اعلان ہونے کے بعد ہنگامے شروع ہوچکے تھے لیکن ان کے گاؤں میں امن اورسکون تھا۔ ریڈیوکے ذریعے خبریں مل رہیں تھیں کہ ہندوستان سے آنے والے مسلمانوں کے قافلوں پر حملے کئے جارہے ہیں، خواتین ، بزرگوں اوربچوں کو شہید کیا جارہا ہے، ردعمل کے طورپر پاکستان سے ادھرجانے والے کئی خاندانوں کے ساتھ وہی کچھ ہوا۔
نوازنمبردارکہتے ہیں ان کی عمر اس وقت لگ بھگ 20 برس ہوگی ، ان کی منگنی ہوچکی تھی اوران کےسسرال کا علاقہ انڈیا میں ہی تھا، جب ہندوستان سے مسلمانوں نے ہجرت کی توان کے سسرال والے بھی یہاں آگئے اور پاکستان بننے کے چند ہفتے بعد ہی ان کی شادی ہوگئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ جب ہمیں یہ خبرملی کہ ہندوستان سے مسلمانوں کولے کرٹرین پاکستان آرہی ہے توہندوستان سے پاکستان داخل ہونے پرسب سے پہلا اسٹیشن ان کے گاؤں میں تھا، اس اسٹیشن کے کھنڈرات آج بھی موجود ہے ،اسی ٹریک سے پاکستان اوربھارت کےدرمیان سمجھوتہ ایکسپریس چلتی ہے جو موجودہ کشیدہ حالات کی وجہ سے اب بند ہے۔
گاؤں کے لوگوں کو جب ٹرین کے آنے کی خبرملی توسب جوان ،بزرگ اورخواتین اسٹیشن پرجمع ہوگئے ، ہم نے ٹھنڈے پانی کا بندوبست کیا، بہت بڑی مقدارمیں بھنے ہوئے کالے چنے تھے، اسی طرح گڑ اورچاول کا انتطام کیا گیا۔ اسٹیشن پرہی چاولوں کی دیگیں پکائی گئیں اورجب ہندوستان سے لٹے پٹے مسلمانوں کی پہلی ٹرین یہاں پہنچی تو وہ منظر انتہائی دل دہلادینے والاتھا، ٹرین کے اوپر، ڈبوں کے اندرمسلمان نوجوانوں ، بزرگوں ، خواتین کی کٹی پٹی لاشیں پڑی تھیں، کئی زخمی تھے۔ جو زندہ تھے ان کے چہروں پر بھی موت کا سایہ تھا۔ ٹرین اسٹیشن پر رُکی توہم نوجوانوں نے اللہ اکبر کانعرہ لگایا، ان نعروں کی گونج سے ٹرین کے اندر جیسے زندگی پیداہوگئی تھی جو لوگ ڈر اورخوف سے دبکے بیٹھے تھے انہیں معلوم ہوگیا کہ یہ مسلمانوں کاعلاقہ ہے اوراب وہ پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
بزرگ نواز نمبرداریہ بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے ، انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں نے فوری طورپران لوگوں کو ٹھنڈاپانی پلانا شروع کیا ، اس کے بعد پکے ہوئے چاول دیئے گئے ، کچھ لوگوں کو بھنے ہوئے چنے دیئےگئے ، ناجانے وہ لوگ کب سے بھوکے تھے ، کچھ توکھارہے تھے لیکن جن کے پیارے شہیدہوچکے تھے ان کے حلق سے نوالہ نیچے نہیں ہورہا تھا۔
گاؤں کے بزرگوں نے اعلان کیا کہ شہیدوں کی میتیں ٹرین سے اتاری جائیں تاکہ ان کی تدفین کی جاسکے ، اگرلاشیں مسلسل ٹرین کے اندررہیں تو بدبوپھیلنے کا خدشہ تھا۔ ایک ٹرین سے کوئی پچاس سےزیادہ لاشیں اتاری گئی تھیں، کچھ لوگوں نےلاشیں دینے سے انکار کردیا انہوں نے کہا کہ وہ لاہورپہنچ کر اپنے پیاروں کی لاشوں کی وہیں دفن کریں گےجہاں ان کا قیام ہوگا۔ لیکن جن ورثا کواعتراض نہیں تھا ان کے پیاروں کو ریلوے لائن کے قریب ایک کھلے میدان میں دفن کردیا گیا ، یہاں ایک برگدکا درخت تھا جوآج بھی موجود ہے اس کے قریب ہی قبریں بنائی گئی تھیں، انہوں نےیہ بھی بتایا کہ اتنی زیادہ قبریں بناناکافی مشکل تھا اس لئے بزرگوں کے کہنے پرایک قبرمیں ایک سے زیادہ میتیں دفن کی گئی تھیں۔
اسی گاؤں کے رہائشی شفقت بٹ نے بتایا کہ جب بھی کوئی مذہبی تہوارآتا ہے ،عیدہو ،یوم عاشوریا پھر چودہ اگست گاؤں کے لوگ یہاں ان قبروں پرپتیاں ڈالتے ہیں ، فاتحہ خوانی کرتے ہیں، شفقت بٹ نے کہا یہ وہ شہید ہیں جن کو اس پاک سرزمین پرزندگی گزارناتونصیب نہیں ہوا لیکن ان کی آخری آرام گاہ یہاں ضروربن گئی ۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ یہ ملک کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا، پوری قوم ان گمنام شہیدوں کوسلام پیش کرتی ہے۔
بزرگ نوازنمبردارکا کہنا تھا وہ یہ کہانی اپنے پوتے پوتیوں اورنواسے نواسیوں کو بھی سناتے ہیں تاکہ وہ جان سکیں کہ ملک کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا جب 14 اگست کا دن آتا ہے تو خوشی کے ساتھ ساتھ ان شہیدوں کی یادیں بھی دل کو غمگین کردیتی ہیں۔
جلوگاؤں کے مکین یوم آزادی پر ان شہیدوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کرتے اور پھول ڈالتے ہیں۔ گاؤں کے رہائشی محمدنوازنمبردار جن کی عمرتقریباً 100سال کے لگ بھگ ہے ، وہ بھی ہرسال 14 اگست پر ان قبروں پرفاتحہ خوانی کے لئے آتے ہیں۔
ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بزرگ محمدنواز نمبردارنے بتایا کہ یہاں گمنام شہیدوں کی 40، 50 قبریں تھیں تاہم اب چندایک ہی باقی ہیں، وقت کے ساتھ کئی قبریں ختم ہوگئیں اوران کی جگہ نئی قبریں بن گئیں۔ یہ گمنام شہید کون تھے؟ محمدنواز نمبردار نے بتایا کہ 1947 میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو لاکھوں مسلمان ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تھے۔ یہ ارض پاک کے وہ گمنام ہیں جن کواس نئی سرزمین پر رہنا تونصیب نہ ہوا لیکن ان کی آخری آرام گاہ یہاں ضرور بن گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا گاؤں پاک انڈیا سرحد سے 8،10 کلومیٹرکے فاصلے پر ہے ، ان کے گاؤں میں صرف ایک کھشتری خاندان تھا باقی تمام مسلمان آباد تھے۔
آزادی کا اعلان ہونے کے بعد ہنگامے شروع ہوچکے تھے لیکن ان کے گاؤں میں امن اورسکون تھا۔ ریڈیوکے ذریعے خبریں مل رہیں تھیں کہ ہندوستان سے آنے والے مسلمانوں کے قافلوں پر حملے کئے جارہے ہیں، خواتین ، بزرگوں اوربچوں کو شہید کیا جارہا ہے، ردعمل کے طورپر پاکستان سے ادھرجانے والے کئی خاندانوں کے ساتھ وہی کچھ ہوا۔
نوازنمبردارکہتے ہیں ان کی عمر اس وقت لگ بھگ 20 برس ہوگی ، ان کی منگنی ہوچکی تھی اوران کےسسرال کا علاقہ انڈیا میں ہی تھا، جب ہندوستان سے مسلمانوں نے ہجرت کی توان کے سسرال والے بھی یہاں آگئے اور پاکستان بننے کے چند ہفتے بعد ہی ان کی شادی ہوگئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ جب ہمیں یہ خبرملی کہ ہندوستان سے مسلمانوں کولے کرٹرین پاکستان آرہی ہے توہندوستان سے پاکستان داخل ہونے پرسب سے پہلا اسٹیشن ان کے گاؤں میں تھا، اس اسٹیشن کے کھنڈرات آج بھی موجود ہے ،اسی ٹریک سے پاکستان اوربھارت کےدرمیان سمجھوتہ ایکسپریس چلتی ہے جو موجودہ کشیدہ حالات کی وجہ سے اب بند ہے۔
گاؤں کے لوگوں کو جب ٹرین کے آنے کی خبرملی توسب جوان ،بزرگ اورخواتین اسٹیشن پرجمع ہوگئے ، ہم نے ٹھنڈے پانی کا بندوبست کیا، بہت بڑی مقدارمیں بھنے ہوئے کالے چنے تھے، اسی طرح گڑ اورچاول کا انتطام کیا گیا۔ اسٹیشن پرہی چاولوں کی دیگیں پکائی گئیں اورجب ہندوستان سے لٹے پٹے مسلمانوں کی پہلی ٹرین یہاں پہنچی تو وہ منظر انتہائی دل دہلادینے والاتھا، ٹرین کے اوپر، ڈبوں کے اندرمسلمان نوجوانوں ، بزرگوں ، خواتین کی کٹی پٹی لاشیں پڑی تھیں، کئی زخمی تھے۔ جو زندہ تھے ان کے چہروں پر بھی موت کا سایہ تھا۔ ٹرین اسٹیشن پر رُکی توہم نوجوانوں نے اللہ اکبر کانعرہ لگایا، ان نعروں کی گونج سے ٹرین کے اندر جیسے زندگی پیداہوگئی تھی جو لوگ ڈر اورخوف سے دبکے بیٹھے تھے انہیں معلوم ہوگیا کہ یہ مسلمانوں کاعلاقہ ہے اوراب وہ پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
بزرگ نواز نمبرداریہ بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے ، انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں نے فوری طورپران لوگوں کو ٹھنڈاپانی پلانا شروع کیا ، اس کے بعد پکے ہوئے چاول دیئے گئے ، کچھ لوگوں کو بھنے ہوئے چنے دیئےگئے ، ناجانے وہ لوگ کب سے بھوکے تھے ، کچھ توکھارہے تھے لیکن جن کے پیارے شہیدہوچکے تھے ان کے حلق سے نوالہ نیچے نہیں ہورہا تھا۔
گاؤں کے بزرگوں نے اعلان کیا کہ شہیدوں کی میتیں ٹرین سے اتاری جائیں تاکہ ان کی تدفین کی جاسکے ، اگرلاشیں مسلسل ٹرین کے اندررہیں تو بدبوپھیلنے کا خدشہ تھا۔ ایک ٹرین سے کوئی پچاس سےزیادہ لاشیں اتاری گئی تھیں، کچھ لوگوں نےلاشیں دینے سے انکار کردیا انہوں نے کہا کہ وہ لاہورپہنچ کر اپنے پیاروں کی لاشوں کی وہیں دفن کریں گےجہاں ان کا قیام ہوگا۔ لیکن جن ورثا کواعتراض نہیں تھا ان کے پیاروں کو ریلوے لائن کے قریب ایک کھلے میدان میں دفن کردیا گیا ، یہاں ایک برگدکا درخت تھا جوآج بھی موجود ہے اس کے قریب ہی قبریں بنائی گئی تھیں، انہوں نےیہ بھی بتایا کہ اتنی زیادہ قبریں بناناکافی مشکل تھا اس لئے بزرگوں کے کہنے پرایک قبرمیں ایک سے زیادہ میتیں دفن کی گئی تھیں۔
اسی گاؤں کے رہائشی شفقت بٹ نے بتایا کہ جب بھی کوئی مذہبی تہوارآتا ہے ،عیدہو ،یوم عاشوریا پھر چودہ اگست گاؤں کے لوگ یہاں ان قبروں پرپتیاں ڈالتے ہیں ، فاتحہ خوانی کرتے ہیں، شفقت بٹ نے کہا یہ وہ شہید ہیں جن کو اس پاک سرزمین پرزندگی گزارناتونصیب نہیں ہوا لیکن ان کی آخری آرام گاہ یہاں ضروربن گئی ۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ یہ ملک کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا، پوری قوم ان گمنام شہیدوں کوسلام پیش کرتی ہے۔
بزرگ نوازنمبردارکا کہنا تھا وہ یہ کہانی اپنے پوتے پوتیوں اورنواسے نواسیوں کو بھی سناتے ہیں تاکہ وہ جان سکیں کہ ملک کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا جب 14 اگست کا دن آتا ہے تو خوشی کے ساتھ ساتھ ان شہیدوں کی یادیں بھی دل کو غمگین کردیتی ہیں۔