واہگہ بارڈ 1947 کی تقسیم کا اہم مقام
13 اگست 2017 میں واہگہ بارڈر پرپاکستان کا سب سے بڑاقومی پرچم لہرایا گیا تھا
پاکستان اوربھارت کی مشرقی سرحد پر واہگہ بارڈر وہ مقام ہے جو پاکستان اورانڈیا کی تقسیم اوردونوں ملکوں کی پیدائش کی پہچان ہے۔
ہندوستان سے مسلمانوں کے قافلے اسی راستے سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے، دنیا کی اس عظیم ہجرت کی یاد میں واہگہ کے مقام پر باب آزادی بنایا گیا ہے جہاں پاکستان رینجرز اورسرحد کی دوسری جانب بھارت کی سرحدی فورسز کے جوان روزانہ اپنے اپنے پرچم کو سلامی دیتے اورپریڈ کرتے ہیں۔ 17 اگست 1947 کو واہگہ کے مقام کو ریڈکلف باؤنڈری ایوارڈ کے وجہ سے انٹرنیشنل بارڈر کا درجہ دے دیاگیا۔
واہگہ بارڈرنام پاکستان کے آخری سرحدی گاؤں واہگہ کے نام سے منسوب ہے واہگہ کانام واہے گرو دولفظوں کوملاکربناہے وقت کے ساتھ اس لفظ کا تلفظ خراب ہوتا گیا اوراسے واہگہ کہا جانے لگا ۔ 1947 سے 2007 تک پاکستان اوربھارت دونوں ممالک اس سرحدکوواہگہ کا نام ہی دیتے تھے تاہم ستمبر 2007 میں بھارت نے اپنی طرف کے علاقے کا نام واہگہ سے تبدیل کرکے اٹاری بارڈ رکھ دیا ۔ اٹاری بھارت کا سرحدی گاؤں ہے۔ بھارتی سیاستدانوں کا خیال تھا کہ واہگہ توپاکستانی گاؤں کا نام ہے وہ اپنے بارڈر کو پاکستانی علاقے سے منسوب کیوں کریں۔
1947 میں جب ہندوستان سے قافلے پاکستان آرہے تھے اوریہاں سے سکھ اورہندوانڈیا جارہے تھے توواہگہ کے مقام پرمرکزی کیمپ لگایا گیا تھا جوکئی ہفتے لگارہا ، ٹرانسپورٹ کا انتظام تھا جس کے ذریعے مہاجرین کو ان کی منزل تک پہنچایا جاتا تھا ۔ افغانستان سے شروع ہونیوالی گرینڈٹرنگ روڈ جسے جرنیلی سڑک اورشیرشاہ سوری روڈ بھی کہا جاتا ہے اسی واہگہ کے مقام سے بھارت جاتی ہے۔ پاکستان اوربھارت کے مابین یہ زمینی راستہ ہے جس کے ذریعے مسافروں کو آمدورفت کی اجازت ہے ، دونوں ملکوں کے مابین دوستی بس بھی اسی باب آزادی کے نیچے سے گزرکرجاتی ہے۔
واہگہ کے مقام پر گزشتہ 74 برسوں میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں آغاز میں یہاں چھوٹی سی چیک پوسٹ تھی تاہم اب ایک شاندار دروازہ نما عمارت موجود ہے جسے باب آزادی کہا جاتا ہے ۔ اس عمارت کی پیشانی پربانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی تصویربنائی گئی ہے جس کا رخ انڈیا کی طرف ہے۔ اسی طرح دیواروں پر 1947 میں ہجرت کے مناظرکی عکاسی بھی گئی ہے۔
1959 میں اس مقام پر دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز نے پرچم اتارے جانے کے موقع پرمشترکہ پریڈ کا آغاز کیا تھا جو آج تک جاری ہے اورہزاروں لوگ اس پریڈ کودیکھنے آتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے گزشتہ پانچ ماہ سے مشترکہ پریڈمعطل ہے تاہم قومی پرچم اتاراجاتا ہے لیکن اس تقریب میں عام شہری شریک نہیں ہوسکتے ہیں۔ 2نومبر2014 میں اسی واہگہ کے مقام پردہشت گردوں نے خودکش حملہ کیا جس میں 60 سے زیادہ لوگ شہید ہوگئے تھے۔
13 اگست 2017 میں واہگہ بارڈر پرپاکستان کا سب سے بڑاقومی پرچم لہرایا گیا تھا ۔ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے یہ قومی پرچم لہرایا تھا ، یہ پرچم پاکستان اور جنوبی ایشا کا سب سے بڑا جبکہ پوری دنیا کا آٹھواں بڑا پرچم ہے۔ پرچم کی بلندی400 فٹ، چوڑائی 120 فٹ اور اونچائی 80 فٹ ہے۔ اس پرچم کوکئی میل دور سے فضاؤں میں لہراتا ہوادیکھاجاسکتاہے۔
ہندوستان سے مسلمانوں کے قافلے اسی راستے سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے، دنیا کی اس عظیم ہجرت کی یاد میں واہگہ کے مقام پر باب آزادی بنایا گیا ہے جہاں پاکستان رینجرز اورسرحد کی دوسری جانب بھارت کی سرحدی فورسز کے جوان روزانہ اپنے اپنے پرچم کو سلامی دیتے اورپریڈ کرتے ہیں۔ 17 اگست 1947 کو واہگہ کے مقام کو ریڈکلف باؤنڈری ایوارڈ کے وجہ سے انٹرنیشنل بارڈر کا درجہ دے دیاگیا۔
واہگہ بارڈرنام پاکستان کے آخری سرحدی گاؤں واہگہ کے نام سے منسوب ہے واہگہ کانام واہے گرو دولفظوں کوملاکربناہے وقت کے ساتھ اس لفظ کا تلفظ خراب ہوتا گیا اوراسے واہگہ کہا جانے لگا ۔ 1947 سے 2007 تک پاکستان اوربھارت دونوں ممالک اس سرحدکوواہگہ کا نام ہی دیتے تھے تاہم ستمبر 2007 میں بھارت نے اپنی طرف کے علاقے کا نام واہگہ سے تبدیل کرکے اٹاری بارڈ رکھ دیا ۔ اٹاری بھارت کا سرحدی گاؤں ہے۔ بھارتی سیاستدانوں کا خیال تھا کہ واہگہ توپاکستانی گاؤں کا نام ہے وہ اپنے بارڈر کو پاکستانی علاقے سے منسوب کیوں کریں۔
1947 میں جب ہندوستان سے قافلے پاکستان آرہے تھے اوریہاں سے سکھ اورہندوانڈیا جارہے تھے توواہگہ کے مقام پرمرکزی کیمپ لگایا گیا تھا جوکئی ہفتے لگارہا ، ٹرانسپورٹ کا انتظام تھا جس کے ذریعے مہاجرین کو ان کی منزل تک پہنچایا جاتا تھا ۔ افغانستان سے شروع ہونیوالی گرینڈٹرنگ روڈ جسے جرنیلی سڑک اورشیرشاہ سوری روڈ بھی کہا جاتا ہے اسی واہگہ کے مقام سے بھارت جاتی ہے۔ پاکستان اوربھارت کے مابین یہ زمینی راستہ ہے جس کے ذریعے مسافروں کو آمدورفت کی اجازت ہے ، دونوں ملکوں کے مابین دوستی بس بھی اسی باب آزادی کے نیچے سے گزرکرجاتی ہے۔
واہگہ کے مقام پر گزشتہ 74 برسوں میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں آغاز میں یہاں چھوٹی سی چیک پوسٹ تھی تاہم اب ایک شاندار دروازہ نما عمارت موجود ہے جسے باب آزادی کہا جاتا ہے ۔ اس عمارت کی پیشانی پربانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی تصویربنائی گئی ہے جس کا رخ انڈیا کی طرف ہے۔ اسی طرح دیواروں پر 1947 میں ہجرت کے مناظرکی عکاسی بھی گئی ہے۔
1959 میں اس مقام پر دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز نے پرچم اتارے جانے کے موقع پرمشترکہ پریڈ کا آغاز کیا تھا جو آج تک جاری ہے اورہزاروں لوگ اس پریڈ کودیکھنے آتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے گزشتہ پانچ ماہ سے مشترکہ پریڈمعطل ہے تاہم قومی پرچم اتاراجاتا ہے لیکن اس تقریب میں عام شہری شریک نہیں ہوسکتے ہیں۔ 2نومبر2014 میں اسی واہگہ کے مقام پردہشت گردوں نے خودکش حملہ کیا جس میں 60 سے زیادہ لوگ شہید ہوگئے تھے۔
13 اگست 2017 میں واہگہ بارڈر پرپاکستان کا سب سے بڑاقومی پرچم لہرایا گیا تھا ۔ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے یہ قومی پرچم لہرایا تھا ، یہ پرچم پاکستان اور جنوبی ایشا کا سب سے بڑا جبکہ پوری دنیا کا آٹھواں بڑا پرچم ہے۔ پرچم کی بلندی400 فٹ، چوڑائی 120 فٹ اور اونچائی 80 فٹ ہے۔ اس پرچم کوکئی میل دور سے فضاؤں میں لہراتا ہوادیکھاجاسکتاہے۔