ملک میں تبدیلی کیلئے قائداعظم کی سوچ کو اپنانا ہوگا

 یوم آزادی کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال

یوم آزادی کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال

پاکستان کو آزاد ہوئے 73 برس مکمل ہوچکے ہیں اور آج سے 3 روز قبل پوری قوم نے اپنا یوم آزادی انتہائی جوش و خروش اور زندہ دلی سے منایا اور یہی زندہ قوموں کا شیوہ ہے۔

اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''ہم سب کا پاکستان'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہا ر کیا۔ فورم میںہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

اعجاز عالم آگسٹین

(صوبائی وزیر برائے انسانیحقوق و اقلیتی امور پنجاب)

بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے کبھی مذہب اور مسلک کی بات نہیں کی بلکہ انسانیت اور اتحاد کی بات کی۔ ان کی 11 اگست کی تقریر مساوات کی عمدہ مثال ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اقتدار کو طول دینے کیلئے مختلف تجربات کیے گئے جن سے سب کچھ بگڑ گیا۔ خرابیوں کے حوالے سے یہاں جنرل ضیاء الحق کا حوالہ دیا گیا۔

ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو آئے جنہوں نے اقلیتوں کے مشنری ادارے نیشنلائز کردیے۔صحت اور تعلیم کے یہ ادارے ہماری ریڑھ کی ہڈی تھے جو اب کھنڈر بن چکے ہیں۔ موجودہ حکومت ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمارے یہ ادارے واپس کر رہی ہے اور کچھ اداروں کو واپس کردیا گیا ہے جن میں ایف سی کالج لاہور شامل ہے۔ پاکستان کی ترقی کیلئے ہمیں اکثریت اور اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم بن کر سوچنا چاہیے، ہمیں قائد اعظمؒ کے ویژن کے مطابق آگے بڑھنا ہوگا۔ موجودہ حکومت نے اپنے دوسالوں میں اقلیتوں کی بہتری اور مساوات پر مبنی پاکستان کیلئے جو کام کیا ہے خصوصاََ پنجاب میں، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

پنجاب حکومت نے اقلیتوں کیلئے ہائر ایجوکیشن میں 2 فیصد کوٹہ مختص کیا ہے جو بہت بڑا اقدام ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں مذہبی تصادم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ ہم رواداری کی جانب بڑھے ہیں۔مذہبی ہم آہنگی کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں عید غدیر کی تقریب میں ، میں نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ اسی طرح کورونا وائرس کے آغاز میں ہم سب نے ایک مسجد میں اکٹھے ہوکر کورونا وائرس سے نجات کی دعا کی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ہم اقلیتوں کو وی آئی پی کا درجہ دے رہے ہیں اور ہم انہی کے اس ویژن کے مطابق اس پر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے اقلیتوں کے حوالے سے جتنے پروگرام کیے وہ سب گورنر ہاؤس میں کیے، ماضی میں اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ میرے نزدیک 2018ء کے بعد کا پاکستان قائد اعظمؒ کے ویژن کے عین مطابق ہے۔ یہاں اقلیتی عبادتگاہیں بحال کی جا رہی ہیں جبکہ حکومت نے کرتارپور راہداری کھول کر دنیا کو بتا دیا کہ یہاں اقلیتوں محفوظ اور آزاد ہیں، انہیں حقوق حاصل ہیں مگر ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ نارروا سلوک ہورہا ہے، وہاں سب سے زیادہ چرچ جلائے گئے ہیں، کشمیر میں جو بدترین مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہ بھی دنیا کے سامنے ہیں، ہم آزادی کے موقع پر اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

آزادی بڑی نعمت ہے ، اس کا اندازہ ان کو ہے جو آزاد نہیں، ہمیں مل کر ملکی ترقی کیلئے کام کرنا ہوگا اور نفرتوں کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ناکام کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ عمران خان اپنے ویژن میں کامیاب نہ ہو کیونکہ اگر وہ کامیاب ہوگیا تو اقتدار میں آنے کیلئے ان کا راستہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گا۔ احتساب کا ذکر الہامی کتابوں میں بھی ہے، اپوزیشن کہتی ہے نیب بند کر دیں، اگر بلائیں تو اداروں پر حملہ کرتے ہیں، ملکی مفاد میں احتساب کا عمل مزید بہتر کرنا ہوگا۔

یہ واضح ہونا چاہیے کہ قائد اعظمؒ کا پاکستان وہ نہیں ہے جس کا نقشہ اپوزیشن پیش کر رہی ہے یا جیسا انہوں نے بنا دیا ہے۔ قائداعظمؒ کا پاکستان تو وہ ہے جہاں سب برابر ہوں، سب کا کڑا احتساب ہو، ملکی مفاد میں کسی سے کوئی رعایت نہ برتی جائے اور ہر طرف انصاف کا بول بالا ہو۔ آج دنیا وزیراعظم عمران خان کے کورونا وائرس سے نمٹنے کے ویژن کی تعریف کر رہی ہے۔ کورونا وائرس سے نمٹنے میں پوری قوم نے اپنا کردار ادا کیا۔ اس سے ایک بات واضح ہوگئی کہ جب بھی متحد ہوکر کوئی کام کیا جائے تو اس میں کامیابی ملتی ہے لہٰذا ہمیں ملکی ترقی کیلئے ملک کر کام کرنا ہوگا اور سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

بیگم مہناز رفیع

(رہنما انسانی حقوق)

میرے والد اترپردیش مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ میں نے ان سے اور اپنی والدہ سے تحریک آزادی کے حوالے سے بہت کچھ سنا ہے۔ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے، ہمیں یہ زیادہ احساس دلوایا گیا کہ پاکستان کن مقاصد کیلئے بنا تھا۔ افسوس ہے کہ بانی پاکستان قائداعظمؒ اور ان کے رفقاء کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد سب کچھ ہی بدل گیا۔ یہاں توجہ مقاصد کے بجائے اقتدار کی جانب ہوگئی اور اقدار کو بھلا دیا گیا۔ قائد اعظمؒ کا مقصد اقتدار توتھا ہی نہیں، اگر اقتدار ہوتا تو جب کانگریس نے انہیں صدارت کی آفر دی تو وہ اسے ٹھکراتے نہیں بلکہ ان کے ساتھ رہ کر ہی پورے ہندوستان کے صدر بن جاتے۔


افسوس ہے کہ ہم نے سب کچھ ہی بھلا دیا۔قائد اعظمؒ انسانی حقوق کے چیمپئن اور بڑے قانون دان تھے۔ ان کی دوراندیشی تھی کہ انہوں نے یہ اندازہ کرلیا تھا کہ مسلمان جب بھارت میں اقلیت میں ہونگے تو ان کے ساتھ نارروا سلوک رکھا جائے گا، انہیں حقوق نہیں ملیں گے لہٰذا الگ وطن پاکستان میں اسلامی اقدار اور اپنی سوچ کے مطابق لوگوں کے حق میں بہتر قانون سازی ہوسکے گی اور معاملات کو بہتر انداز میں چلایا جاسکے گا۔ پاکستان بنانے کا مقصد یہی تھا کہ یہاں بسنے والے تمام افراد کو بلاتفریق مذہب، فرقہ، رنگ، نسل اور ذات کی تفریق کے،برابر حقوق ملیں اور سب کو آزادی حاصل ہو مگر ایسا نہیں ہوسکا۔

افسوس ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنا ہوم ورک کرکے نہیں آئی کہ پاکستان کی کیا صورتحال ہے اور اسے کس طرح سے بہتر کرنا ہے بلکہ صرف اقتدار کی خاطر سیاست کی گئی جس کا نقصان ہوا۔ اقلیتوں کے حوالے سے قائداعظمؒ کے تاریخی الفاظ موجود ہیں۔ میرے نزدیک انہوں نے اقلیتوں کو بھی برابر حقوق دیے۔ قائداعظمؒ کے یہ الفاظ کہ تمام پاکستانی برابر ہیں اور اقلیتیں اپنی عباتگاہوں میں جانے کیلئے آزاد ہیں، اس کے پیچھے قائد کی یہ سوچ تھی کہ اقتدار میں بھی سب برابر ہیں مگر یہاں سب کچھ ہی تبدیل ہوگیا اور اقلیتوں کیلئے نشست الگ کردی گئی۔ مسلمانوں میں بھی فرقے بن گئے اور معاملات مزید خراب ہوتے گئے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اسلامی نظام کا مطلب صرف مذہبی باتیں نہیں ہیں۔ اسلام نے انسانیت اور انصاف کا درس دیا ہے۔ اگر انسانیت اور انصاف پر کام نہیں ہورہا تو کچھ بھی اسلامی نہیں ہورہا۔ بدقسمتی سے یہاں عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے کیلئے قانون سازی اور عملدرآمد پر توجہ دینے کے بجائے قومیت، مذہب اور فرقے پر زیادہ توجہ دی گئی اور اقتدار پرقبضہ جمانے کی کوشش کی گئی۔ ہم آج بھی مخمصے کا شکار ہیں۔ مہنگائی اور غربت کی بہت ساری وجوہات حکومت ختم کر سکتی ہے مگر یہاں نظام کو خراب کر دیا گیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ہمارے ہاں طبقاتی نظام ہے۔

تعلیم بھی طبقاتی نظام کا شکار ہوگئی ہے اور اب یہاں کئی اقسام کا نظام چل رہا ہے۔ ایلیٹ کلاس، زیادہ امیر، کم امیر، اپر مڈل کلاس، مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس اور غریب، سب کیلئے الگ الگ نظام ہے۔ کہیں لندن اور کہیں مدارس کا کورس، ان سب کی سوچ ہی الگ ہے۔ اگر ملک کو بہتر بنانا ہے تو طبقاتی تعلیمی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا اور نوجوانوں کو ایک جیسی تعلیم دیکر آگے لانا ہوگا۔ سیاسی اختلافات کی وجہ سے ملک کا نقصان ہورہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومتی جماعت کو کام نہیں کرنے دیتی کہ آگے نہ نکل جائے۔

وزیراعظم عمران خان سے بڑی امید تھی کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ انہوں نے چلنا بھی چاہا لیکن ذاتیات کی سیاست شروع ہوگئی اور سیاسی اختلافات مزید بڑھ گئے۔ افسوس ہے ہمیں اپنے ملک سے محبت نہیں ہے۔ ہمیں اس کی قدر نہیں اور نہ ہی یہ فکر ہے کہ قائد اعظمؒ کا مقصد کیا تھااور وہ کیساپاکستان چاہتے تھے۔ 73 برسوں میں ہم نے جو پاکستان بنایا ہے، قائد اعظم کو ایسا پاکستان نہیں چاہیے تھا۔

بدقسمتی سے جان بوجھ کر ملک کو کمزور کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مالدار لوگوں کو زیادہ اختیارات مل گئے ہیں اور وہ اپنے حق میں انہیں استعمال کر رہے ہیں ، پیسہ بنانے کیلئے انہوں نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ تمام وسائل ہونے کے باوجود بھی عوام کے مسائل حل نہیں ہورہے۔ ملک میں تبدیلی کیلئے قائداعظمؒ کی سوچ کو واپس لانا ہوگا۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ نوجوانوں کو بلائیں، ان کی سنیں اور ایسی پالیسیاں بنائیں جن سے نوجوان نسل آگے آسکے کیونکہ نوجوان ہی ہمارا مستقبل ہیں۔ انہیں چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار کرنا ہوگا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا تاکہ ملک ترقی کر سکے۔

ڈاکٹر صغریٰ صدف

(ڈائریکٹر جنرل پلاک )

غذائی اجناس کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 10 بہترین ممالک میں شامل ہے اور یہاں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کورونا وائرس کی مشکل صورتحال میں دنیا بھر میں یہ باتیں ہورہی تھی کہ غذائی قلت پیدا ہوجائے گی، لوگ بھوک سے مر جائیں گے، کھانے کو کچھ نہیں ملے گا مگر اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں غذائی قلت پیدا نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں گندم، چاول، پھل، سبزیاں ہر چیز پیدا ہوتی ہے۔ ہماری زمین ذرخیز ہے اور ہمارے لوگ محنتی ہیں جو 18 گھنٹے محنت کرنے کے عادی ہیں مگر پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ ہم چین کی طرح ترقی نہیں کرسکے؟ ہم ترقی سے تنزلی کی جانب کیوں چلے گئے؟ اس کیلئے ہمیں ضیاء دور میں جانا پڑے گا جب ہماری تنزلی شروع ہوئی۔ ہم نے رجعت پسندی کو اپنایا اور وہ مقاصد بھول گئے جو ملک بنانے والوں کے تھے۔

بدقسمتی سے ہم نے بڑی طاقتوں کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا اور اپنے ملک کی سمت ہی بدل دی۔ افسوس ہے کہ ضیاء الحق کی سوچ آج بھی زندہ ہے، اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو اپنی سوچ اور رویے بدلنا ہوں گے۔ ہمیں خیر کے جذبے کو فروغ دینا ہے اور سب کے ساتھ محبت اور پیار سے رہنا ہے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک ہم ایک قوم نہیں بنتے، تب تک ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ سیاسی خلفشار سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو ناکام بنانے کی کوشش میں لگی ہیں۔ میرے نزدیک اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ ملکی مفاد کو سامنے رکھے اور تنقید برائے تنقید نہ کرے بلکہ تنقید برائے اصلاح کرے اور ملک کی خاطر حکومت کا ساتھ دے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کی تنقید برداشت کرے اور اپنی اصلاح کرے۔ملک اس وقت بے شمار مسائل کا شکار ہے۔

عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل ہوتی جارہی ہے۔ صرف روٹی تو آزادی سے پہلے بھی مل رہی تھی،پاکستان تو اس لیے بنایا گیا تھا کہ لوگوں کو ان کے حقوق ملیں، یہاں سب برابر ہوں اور ہر ایک کی عزت ہو مگر افسوس ہے کہ یہاں طبقاتی نظام کو فروغ ملا۔ آج کوئی بھی شعبہ اٹھا کر دیکھ لیں سب جگہ طبقاتی تقسیم ہے۔

پہلے نظام تعلیم میں انگریزی اور اردو میڈیم کی تفریق تھی، اب تو اس میں بھی بے شمار طبقات آگئے ہیں جس سے لوگوں کی سوچ ایک سمت میں نہیں جارہی بلکہ ہر ایک اپنے اپنے طبقہ کے لحاظ سے تقسیم ہے لہٰذا ملکی ترقی کیلئے ہمیں طبقاتی اور استحصالی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا، لوگوں کو عزت اور برابر حقوق دینا ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہمیں لوگوں کو معاشی آزادی دینا ہوگی اور جمہوریت کے نتائج نچلی سطح تک پہنچانا ہوگی۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنے نوجوانوں کو کوئی چیلنج نہیں دیا۔

ان کے پاس کوئی ٹارگٹ نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ بے راہ روی کا شکار ہیں اور ملکی ترقی میں اپنادرست حصہ نہیں ڈال رہے لہٰذا ہمیں انہیں سمت دینا ہوگی کہ اپنے منفی رویے چھوڑ دیں اور ملک کا نام دنیا بھر میں روشن کریں۔ پاکستان کے مسائل کا حل یہ ہے کہ ہم جج بننے کے بجائے خدمت گار بنیں اور ہر شخص اپنی صلاحیتوں کو برووے کار لاتے ہوئے ملک کیلئے کام کرے۔ ہمیں مایوس نہیں ہونا، یہ صبح ہونے سے تھوڑی دیر پہلے کا اندھیرا ہے، ہمیں امید اور بلند حوصلے رکھنا ہوگے، اجالا قریب ہے۔
Load Next Story