میرا یہی خواب ہے

نیلسن منڈیلا نے بھی اپنی قوم کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ان کو بھی امریکا نے دہشت گرد قرار دیا ۔۔۔

ISLAMABAD:
دنیا میں ایسی بھی شخصیات گزری ہیں جن کو کبھی بھی نہیں بھولا جاسکتا ہے، یہ عظیم شخصیات بغیر کسی مفاد کے اپنے لوگوں، اپنی قوم کی تقدیر بدل گئیں، خود ہر طرح کی اذیتیں برداشت کیں، ہر ستم سہا مگر اپنی قوم کو منزل مقصود تک پہنچا گئے۔

ایسی عظیم شخصیات میں ایک نام نیلسن منڈیلا کا بھی ہے جن کو پوری دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی کیوں کہ اس عظیم انسان کو کوئی لالچ نہیں تھی، زندگی کا مقصد صرف اور صرف انسانی خدمت تھا اور کچھ بھی نہیں۔ اس عظیم انسان کو تخت و تاج اور حکمرانی کا کوئی لالچ نہ تھا بس ایک ہی عظیم مقصد تھا اپنی قوم کو حقوق دلوانے کا معاشرے میں عزت کا مقام حاصل کرنے کا اور وہ بے شمار اذیتیں تکلیفیں برداشت کرتے رہے اور آخر کار حق کی فتح ہو ہی گئی۔ آج دنیا کی یہ عظیم ہستی اب ہمارے درمیان نہیں رہی مگر جب تک دنیا قائم ہے نیلسن منڈیلا کو کوئی بھی فراموش نہیں کرسکتا، کیونکہ انھوں نے انسانوں کو احساس دلایا ہے کہ اپنے بنیادی حقوق حاصل کرکے جیو۔ انھوں نے نہ صرف سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی بلکہ سفید فام کے لیے بھی وہ ہی سوچ رکھتے تھے۔

رنگ و نسل اور زبان کے فرق سے عصبیت پیدا ہوتی ہے اور عصبیت کسی بھی ملک کی تقسیم کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر ملک میں یکساں بنیاد پر حقوق کی تقسیم کی جائے، سب کو برابری کی بنیاد پر انصاف میسر ہو تو نہ صرف زبان، رنگ و نسل کا فرق بھی مٹ جاتا ہے۔ 10 مئی 1994 میں نیلسن منڈیلا صدر بنے تو انھوں نے رنگ و نسل اور زبان کے فرق کو ختم کیا اور ایک مثالی حکومت قائم کی، مگر اس مقام تک پہنچنے میں کئی اذیت ناک مرحلے آئے جن کا انھوں نے بہادری سے مقابلہ کیا، ہمت نہیں ہاری۔ نسلی امتیاز کے خلاف نیلسن منڈیلا کی شان دار جدوجہد نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ ہمارے لیے اور ہمارے حکمرانوں کے لیے نیلسن منڈیلا ایک بہترین مثال ہے۔

آج سے تقریباً ایک صدی قبل، جنوبی افریقہ کے ٹیمبو قبیلے میں پیدا ہونے والا یہ شہزادہ، جسے دنیا آج نیلسن منڈیلا کے نام سے جانتی ہے اگر اپنے والد کی سرداری کا تاج اپنے سر پر سجا لیتا تو وہ بھی عیش و عشرت کی زندگی بسر کرسکتا تھا۔ لیکن اس نے سرداری کو ٹھوکر ماری اور اپنی اس قوم کو نئی زندگی دلانے میں لگ گیا جو صرف اس وجہ سے رسوا تھی کہ ان کی رنگت کالی تھی۔ اس نے تشدد برداشت کیا، 27 برس جیل کاٹی، لیکن اپنی قوم کو غلامی سے نجات دلا کر آزادی کے کھلے آسمان تلے لے آیا، آج یہ عظیم لیڈر دنیا سے رخصت ہوگیا، دنیا کا ہر فرد اس کو خراج تحسین پیش کرتا دکھائی دیتا ہے۔

نیلسن منڈیلا نے عملی سیاست کا آغاز 1948 میں اس وقت کیا جب نسلی امتیاز کی حامی جماعت افریقنار نیشنل پارٹی برسر اقتدار آئی۔ انھی برسوں میں منڈیلا نے ان خواتین کی بھی سختی سے مخالفت کی جن کے تحت جنوبی افریقہ کے کچھ علاقے صرف سفید فام باشندوں کے لیے مخصوص کیے گئے تھے جہاں جانے کے لیے سیاہ فام باشندوں کو دستاویزات دکھانے کی ضرورت ہوتی تھی۔ 1960 میں پولیس کی جانب سے نہتے افریقیوں کے قتل عام کے بعد منڈیلا نے اپنی غیر مسلح تحریک کو خیرباد کہہ دیا۔ 15 اگست 1962 کو منڈیلا کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔

مقدمے کے دوران ان کی ایک تقریر جس کا عنوان (میں مرنے کے لیے تیار ہوں) تھا، انھوں نے کہا میں نے اپنی زندگی افریقی عوام کے لیے وقف کر رکھی ہے، میں نے سفید فام باشندوں کے غلبے کے خلاف لڑائی لڑی ہے اور میں سیاہ فام غلبے کے بھی خلاف ہوں، میں ایک آزاد جمہوری معاشرے کا خواہشمند ہوں جس میں تمام لوگ پیار و محبت کے ساتھ زندگی بسر کریں اور انھیں مساوی حقوق حاصل ہوں۔ میرا یہی خواب ہے جس کے لیے میں زندہ ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں اسے حاصل کرکے رہوں گا اور اگر اس کے لیے کسی قربانی کی ضرورت ہے تو میں مرنے کو تیار ہوں۔


اس تقریر نے ساری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرلیا، کس قدر خوب صورت سوچ اور کس قدر واضح امن کا پیغام ہے، جس معاشرے کو ایسے بے مثال لیڈر میسر آجاتے ہیں پھر اس معاشرے میں عصبیت، زبان، رنگ اور نسل کا فرق سب ختم ہوجاتا ہے پھر ہر ایک شہری کو یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں۔

اس وقت پاکستان میں بھی ایسے ہی لیڈر کی اشد ضرورت ہے جو نیلسن منڈیلا کی طرح سوچتا ہو، جو ہمارے ملک میں بگڑے ہوئے حالات کو سنبھالے، جو زبان، رنگ، نسل، امیری، غریبی جیسے فرق کو ہمارے معاشرے سے ہمیشہ کے لیے ختم کردے۔

امریکی قانون کے مطابق 2008 کے اواخر تک نیلسن منڈیلا ایک دہشت گرد تھا، بے شک وہ دہشت گرد ہی تھا جس نے طاقت کی زبان میں بات کرنے والوں، لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے اور تشدد کا نشانہ بنانے والوں میں خوف پیدا کردیا تھا، جنھیں خوشامدی، دانشوروں اور تعلیم یافتہ لوگوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔

اور آج پوری دنیا میں امریکا کی نظر میں دہشت گرد صرف اور صرف مسلمان ہیں۔ کیونکہ مسلمان اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھاتے ہیں، اپنے بنیادی حقوق مانگتے ہیں اس لیے آج ہر مسلمان دہشت گرد ہے، فلسطین، کشمیر، افغانستان، عراق ایسے کئی ممالک جہاں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ان کی جان، مال، دولت، عزت کو بے رحمی کے ساتھ لوٹا گیا۔ اس ظلم پر جس جس مسلمان نے آواز بلند کی امریکا نے اس کو پوری دنیا میں بدترین دہشت گرد قرار دیا۔

نیلسن منڈیلا نے بھی اپنی قوم کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ان کو بھی امریکا نے دہشت گرد قرار دیا مگر وہ بہت باہمت شخص تھے، لڑتے رہے اور آخر کار سام راج سے آزادی حاصل کرلی۔ اس وقت ہمیں بھی نیلسن منڈیلا جیسے عظیم لیڈر کی اشد ضرورت ہے جو دنیا کو بتا سکے کہ ہم مسلمان اور خاص طور پر ہم پاکستانی دہشت گرد قوم نہیں۔ ہم کو تو دہشت گردی کا نشانہ بناکر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ آخر یہ لوگ مسلمانوں سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں؟ شاید یہ لوگ جانتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو نیلسن منڈیلا جیسا کوئی حکمران میسر آگیا اور یہ قوم اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا حساب لینے نکل پڑے تو یہ جنگ ان کو صلیبی جنگوں سے بھی زیادہ بھاری پڑے گی۔

نیلسن منڈیلا کی تحریک کامیابی کے ساتھ ختم ہوگئی، ان کے دور صدارت میں سیاہ فام اور سفید فام کے حقوق یکساں تھے، کوئی امتیاز نہیں تھا، انھوں نے سب کو ایک جیسا تصور کیا۔ جس سے معاشرے میں پیدا ہونے والا نسلی امتیاز سے بگاڑ ختم ہوا اور پرامن معاشرہ وجود میں آیا۔ یہی نیلسن منڈیلا کی کاوشیں ہیں جس کی وجہ سے ان کو کبھی نہیں بھلا جاسکتا ہے۔ نیلسن منڈیلا کی شاندار جدوجہد میں ہمارے لیے بھی سبق پوشیدہ ہے، بس غور کرنے کی دیر ہے۔
Load Next Story