سچ پر مبنی حقائق…

کئی عشروں سے جاری مہنگائی، بے روزگاری،کرپشن اور دہشت گردی سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔۔۔

ATTOCK:
ابھی ہم نومبر کے آخری ہفتے میں فیڈرل بی ایریا کے بلاک 20 (انچولی) میں ہونے والے یکے بعد دیگرے دو خوفناک بم دھماکوں اور اس میں ہونے والی چھ معصوم انسانوں کی ہلاکت کے علاوہ پچاس کے قریب شدید زخمی ہوجانے والوں کا غم فراموش نہیں کرپائے تھے کہ اچانک شہر میں مبینہ ٹارگٹ کلنگ کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حملے راولپنڈی میں یومِ عاشور پر ہونے والے افسوس ناک واقع کا ردعمل تھے۔ پھر یک دم خبر ملی کہ دہشت گردوں کے ایک گروپ نے فلائی اوور سے ملک کے بڑے کثیر الاشاعت روزنامہ ''ایکسپریس'' کے دفاتر پر اندھا دھند فائرنگ کرکے عمارت اور اس کے ملحق پارک کی ہوئی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، یعنی کھلے الفاظ میں یوں کہا جائے گا کہ آزاد، نڈر اور شفاف صحافت پر دوسرا حملہ۔ افسوس ناک خبر یہ ہے کہ یہ خبر ایکسپریس نیوز چینل کے علاوہ کسی دوسرے چینل نے نشر کرنے کی زحمت تک محسوس نہ کی۔ ایکسپریس کے قارئین کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ سیاسی، سماجی حلقوں اور اہم سرکاری شخصیات نے اس افسوس ناک واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اسلام کے اس آزاد قلعے میں مسلسل ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کو ہم کیا رنگ دیں؟ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس خدشہ کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ہماری جیلوں میں سزا یافتہ خطرناک قیدیوں سے بھی یہ کام لیا جا رہا ہو۔ کچھ حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ فرقہ واریت ہے، جب کہ ہماری ناقص رائے اس کے خلاف ہے۔ یہ محض Divide & Rule کی مربوط پالیسی کا نظریہ معلوم ہوتا ہے۔

کئی عشروں سے جاری مہنگائی، بے روزگاری، سرکاری اداروں کی برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی کرپشن، مافیا ازم کی لعنت، ٹریفک کی بدترین صورتحال، پٹرول، گیس، لوڈشیڈنگ اور بجلی کے محکموں کی لوٹ مار جیسی دہشت گردی سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ رہی سہی کسر بم دھماکے، فائرنگ کے ذریعے انسانوں کو جہنم واصل کیا جارہا ہے۔ یوں لگتا ہے روٹی مہنگی اور انسان کا خون ارزاں۔ ہلاکتوں سے کتنے گھر برباد ہوچکے ہیں مگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حیوان نما انسانوں کو اس کا قطعاً احساس نہیں۔ اس کا احساس صرف اسی کو ہوسکتا ہے جو براہ راست ایسی قیامت صغریٰ سے گزرا ہو۔ انسان بھوک و افلاس اور معاشرے میں ہونے والے دیگر مسائل برداشت کرسکتا ہے مگر اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتے ہوئے مرتا نہیں دیکھ سکتا۔ کیا اسی لیے ہمارے بزرگوں نے آزادی کی تحریک میں اپنی جان و مال قربان کی تھیں؟ بلاشبہ جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہنا کوئی برائی نہیں ہے۔ حق و باطل اور انصاف کے اصولوں میں تمیز کرنا جہاں عدلیہ کے فرائض میں شامل ہے وہاں میڈیا (ابلاغ عامہ) کی بھی اہم قومی ذمے داری ہے۔ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بیشتر شایع ہونے والے اخبارات اور چینلز کی خاصی تعداد وجود میں آچکی ہے جن کا مقصد صحافت کے نام پر ڈس انفارمیشن ، بلیک میلنگ اور ناجائز دولت کا حصول قطعی نہیں ہونا چاہیے۔ صحافت (ابلاغ عامہ یا موجودہ نام ماس کمیونیکیشن) ایک معزز تعلیم یافتہ پیشہ ہے۔


روزنامہ ایکسپریس کی صحافت عین اس سند کا آئینہ دار ہے۔ کارپوریٹ اسٹائل میں شایع ہونے والا واحد ملک گیر اردو روزنامہ ہے جو ملک کی قومی زبان ''اردو'' کی ترویج اور ترقی اور فروغ میں بھی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کے دفتر پر ہونے والے مسلسل حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ اخبار ''ہر خبر پر نظر'' کے رہنما اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سچ پر مبنی حقائق سے پردہ کشائی کرتا ہے اور کسی قسم کی اشتہاری یا کاروباری صحافت سے اجتناب کرتا ہے۔ منافقت اور مصلحتوں کے پیش نظر خاموشی اختیار کرنا صحافت کے حساس شعبے کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ کیونکہ معاشرے میں ظلم اور برائی کو جتنی جلد ممکن ہوسکے اس کا فوری سدباب اس روزنامے کی اوّلین ترجیح ہوتی ہے۔ ادارے کی انتظامیہ بالخصوص ادارتی شعبے کا بنیادی مقصد سماجی، مذہبی، معاشرتی، طبقاتی یا رنگ نسل کی بلاتفریق، بغیر مالی منفعت کے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کو اپنے منفرد انداز میں اظہار خیال کا موقع فراہم کرنا ہے، بلکہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرنا ہے۔ معروف کالم نویس، دانشوروں، مبصرین، تجزیہ نگاروں کی ایک مضبوط ٹیم اس اخبار کی ترقی میں دن رات کوشاں ہیں۔

راقم بنیادی طور پر ایک بینکر ہے مگر روزنامہ ایکسپریس سے 2002 سے طویل رفاقت ہے۔ معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کی قلمی عکس بندی اور معلوماتی مواد پر مبنی تحریریں راقم کے ذوق وشوق کی تکمیل ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس روزنامے کو دن دگنی رات چوگنی ترقی کی راہ پر گامزن کرے اور مختلف امور کی انجام دہی پر مامور اخباری کارکنان/ عملہ کو حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین)
Load Next Story