چودہ اگست کے بعد سترہ اگست
ہو سکتا ہے میرے بچوں یا ان کے بچوں کی زندگی میں پاکستان پھر سے پہلے جیسا نارمل ملک ہو جائے۔
ISLAMABAD:
آج جنرل محمد ضیا الحق کو جسمانی طور پر رخصت ہوئے تینتیسواں برس لگ گیا اور پرویز مشرف کو سبکدوش ہوئے بارہ برس مکمل ہو گئے۔وہ الگ بات کہ ضیا الحق جیسا کوئی نہیں۔نہ ان سے پہلے نہ بعد میں۔ ان کی روح پاکستان کے قومی جسد میں تینتالیس برس سے حلول ہے۔جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو کم ازکم فانی زندگی سے معزول ہو کر گڑھی خدا بخش جانا پڑا۔مگر ضیا الحق نے تو بعد از وفات بھی اسلام آباد نہیں چھوڑا۔مزار اگرچہ بھٹو صاحب کا شاندار ہے مگر پاکستان پر گذشتہ چار عشروں سے عملی حکمرانی فیصل مسجد اسلام آباد کے احاطے میں بنی قبر کے باہر موجود ضیا الحق کی ہے۔
آج کے پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی ضیا یا بعد از ضیا دور میں پیدا ہوئی۔اس نے شعوری ہوش پرویز مشرف کے دور میں سنبھالا اور کنپٹی کے بال موجودہ دور میں سفید کیے۔ قبل از ضیا جو نسل اس ملک کے سیاسی قبلے پر اثرانداز ہوتی تھی اس میں سے آدھی تو طبعی عمر پوری کر کے رخصت ہوئی۔
باقی آدھوں میں سے بھی نصف امراضِ قلب و شوگر وغیرہ میں مبتلا ہیں یا پھر زمانے کے دھکوں نے انھیں اتنا پیچھے دھکیل دیا کہ اب وہ کسی نظریاتی غیر نظریاتی شمار قطار میں ہی نہیں رہے۔ان کی حیثیت اس تبرک کی سی ہے جیسے اب سے کچھ برس پہلے تک ہم کسی بھی بزرگ کو پکڑ کے کہتے تھے، یہ ہیں ''تحریکِ پاکستان کے سرکردہ کارکن عظیم راجن پوری جنھوں نے قائدِ اعظم کے شانہ بشانہ کام کیا''۔
آج جب میں اپنے بعد آنے والی دوسری پیڑھی کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے، جب گنے چنے مذہبی لوگ ہی سیاست میں تھے اور مذہبی طبقے کی اکثریت مسجد کے انتظام و مدرسے کی تدریس میں ہی منہمک رہتی تھی۔ان کا اثر و رسوخ محلے اور گاؤں کی حد تک تھا۔عام آدمی ان کا دل سے احترام کرتا کیونکہ عام آدمی کی شادی، مرگ، بچے کی بسم اﷲ اور سپارہ پڑھانے جیسے امور میں مقامی مولوی صاحب کا اہم کردار ہوتا تھا۔ مسجد کے امام صاحب ، موزن اور صفائی و پانی کا خیال رکھنے والے خادم کے کپڑے لتے اور کھان پان کی ذمے داری اہلِ محلہ پر ہوا کرتی تھی۔
موجودہ دور کے برعکس فتویٰ صرف فارغ التحصیل مفتی صاحبان ہی دیا کرتے تھے۔وہ بغیر مسلح محافظوں کے گھومتے تھے۔انھیں جتنی بڑی مسجد اور جتنے رقبے کا مدرسہ جدی یا تدریسی وراثت میں ملتا، وہی اگلی پیڑھی کے حوالے کر جاتے تھے۔ان کی سماجی زندگی میں مقتدرین کا گزر بسر نہ ہونے کے برابر تھا۔وہ بہت کم کہیں آتے جاتے تھے۔ لوگ اکثر انھی سے ملنے حجرے پر تشریف لاتے۔ تب تک ریاستی سرپرستی کے لیبل والی بوتل میں بند طاقت کا نشہ ان پر نہیں کھلا تھا۔
میں جب اپنے بعد آنے والی دوسری پیڑھی کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ ہم نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب اسی ملک میں لوگ کرپٹ آدمی کی طاقت سے ڈرتے ضرور تھے مگر احترام ہرگز نہ کرتے تھے اور اگر انھیں شبہہ بھی ہو جاتا کہ فلاں صاحب کے ذرایع آمدنی تو وہی ہیں البتہ ان کی گھڑی کا رنگ اچانک سے سنہری ہو گیا، رنگارنگ لباس کی جگہ مستقل کڑکتے لٹھے نے لے لی اور پھر ان کے پاس کسی ایک دن موٹر کار بھی آ گئی تو ایسے لوگوںسے شرفاء اپنے بچوں کو دور رکھتے تھے۔کوئی سفید پوش انھیں اس اچانک خوشحالی پر مبارک باد نہیں دیتا تھا اور نہ ہی خامخواہ راہ و رسم بڑھاتا مبادا دیگر اہلِ محلہ کے شک کے دائرے میں کہیں وہی نہ آ جائے۔
میں جب اپنے بعد آنے والی دوسری پیڑھی کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اسی پاکستان میں تینتالیس برس پہلے تک کوئی بھی حکمران بھلے وہ فوجی ہو کہ سویلین ، امریکا نواز ہو کہ چین نواز ، حزبِ اقتدار میں ہو کہ حزبِ اختلاف میں۔ان سب میں سو طرح کی برائیاں تھیں مگر مجال ہے کوئی سرکاری خزانے کو باپ کی جائیداد سمجھ کر دادا جی کی فاتحہ دلانے کا سوچے یا سرکاری وسائل کو اپنا سیاسی قد کاٹھ اونچا کرنے کے لیے استعمال کرے۔یا کسی مخالف کو توڑنے کے لیے بات بے بات بے جا نوازشات کی بارش کرتا پھرے۔یا روائیتی مخالفین کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے حاشیہ بردار نودولتیا سیاسی کلاس کی منصوبہ بند پیدائش کا ذمے دار ہو۔
میں جب اپنے بعد کے آنے والی نسل کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسی پاکستان میں یہ عام بات تھی کہ کسی بھی صوبے کا شہری ملکی دفاع کے ذمے دار اداروں کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرتا تھا۔کیونکہ اس عام آدمی کو ایمان کی حد تک یقین تھا کہ بھلے ملک کا ہر طبقہ اپنے آدرش اور اصول بھول جائے مگر کچھ ادارے ہمیشہ اپنے فرائص تندہی و پیشہ ورانہ اصولوں کے دائرے میں بنا کسی ستائش و صلے کی تمنا کے نبھاتے رہیں گے۔
یہ عام آدمی ایوب خان سے تنگ بھی تھا مگر متاثر تھا۔کیونکہ ان کے بارے مشہور تھا کہ وہ ملاقات کے لیے ایوانِ صدر آنے والے اپنے رشتے داروں کو بھی چائے اپنی تنخواہ سے پلاتے ہیں۔شائد اسی لیے آج نصف صدی بعد بھی کسی نہ کسی ٹرک پر تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد لکھا مل جاتا ہے۔
یہ عام آدمی یحیی خان کو ملک توڑنے کا ذمے دار سمجھتا تھا مگر سوگند کھانے کو بھی تیار تھا کہ یحیی نے اپنے یا اپنی نسلوں کے لیے کچھ بھی نہیں بنایا۔یہ عام آدمی کمانڈر انچیف جنرل گل حسن کا حوالہ دیتا تھا جس نے ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی پنڈی کلب کے دو کمروں میں گذاری۔ کیونکہ اتنی پنشن نہیں تھی کہ وہ کوئی ڈھنگ کا مکان کرائے پر لے کر باعزت گذر بسر ہو سکتی۔
میں جب اپنے بعد آنے والی دوسری نسل کو بتانا چاہتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کلاسیکی سیاستدانوں کی نسل کا آخری آدمی تھا جس پر آپ ہر الزام لگا سکتے ہیں سوائے مالی بدعنوانی، ذاتی کرپشن یا اثاثے بنانے کا۔اگر ایسا ہوتا تو جہاں ضیا الحق بھٹو کے بارے میں دس وائیٹ پیپر لے آیا وہیں گیارہواں بھی لے آتا۔
میں جب اپنے بعد آنے والی دوسری نسل کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اسی پاکستان میں ایک دور ایسا بھی تھا جب عام آدمی لوہے کے کلپ، سات گراری والے چاقو ، خنجر اور پستول سے تو واقف تھا مگر کلاشنکوف کی شکل نہیں پہچانتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ دستی بم ، راکٹ لانچر اور مشین گن صرف فوج کے پاس ہوتے ہیں۔ اور اسی پاکستان میں ایک دور ایسا بھی تھا جب لوگ چرس، گانجے، افیون و شراب سے تو واقف تھے مگر ہیروئن صرف فلموں میں ہوا کرتی تھی۔
میرے بعد آنے والی یہ دوسری نسل یہ سب بکواس مروتاً سن تو لیتی ہے مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچتی ہے۔بڈھا سٹھیا گیا ہے یا پھر ہمیں پاگل سمجھتا ہے۔
ہو سکتا ہے میرے بچوں یا ان کے بچوں کی زندگی میں پاکستان پھر سے پہلے جیسا نارمل ملک ہو جائے۔ پارلیمنٹ نے اٹھارویں ترمیم کے تحت آئین سے ضیا الحق کا نام تو نکال دیا مگر ضیا دور میں طے ہونے والا ایک بنیادی اصول کوئی بدل سکے تو جانیں۔یعنی آیندہ کوئی ایسا سیاستداں برداشت نہیں کیا جائے گا جو گیم کو طے شدہ دائرے سے باہر لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ایک بھٹو کافی تھا۔اب اس جیسا چوتھائی بھی نہیں چاہیے۔فل اسٹاپ۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
آج جنرل محمد ضیا الحق کو جسمانی طور پر رخصت ہوئے تینتیسواں برس لگ گیا اور پرویز مشرف کو سبکدوش ہوئے بارہ برس مکمل ہو گئے۔وہ الگ بات کہ ضیا الحق جیسا کوئی نہیں۔نہ ان سے پہلے نہ بعد میں۔ ان کی روح پاکستان کے قومی جسد میں تینتالیس برس سے حلول ہے۔جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو کم ازکم فانی زندگی سے معزول ہو کر گڑھی خدا بخش جانا پڑا۔مگر ضیا الحق نے تو بعد از وفات بھی اسلام آباد نہیں چھوڑا۔مزار اگرچہ بھٹو صاحب کا شاندار ہے مگر پاکستان پر گذشتہ چار عشروں سے عملی حکمرانی فیصل مسجد اسلام آباد کے احاطے میں بنی قبر کے باہر موجود ضیا الحق کی ہے۔
آج کے پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی ضیا یا بعد از ضیا دور میں پیدا ہوئی۔اس نے شعوری ہوش پرویز مشرف کے دور میں سنبھالا اور کنپٹی کے بال موجودہ دور میں سفید کیے۔ قبل از ضیا جو نسل اس ملک کے سیاسی قبلے پر اثرانداز ہوتی تھی اس میں سے آدھی تو طبعی عمر پوری کر کے رخصت ہوئی۔
باقی آدھوں میں سے بھی نصف امراضِ قلب و شوگر وغیرہ میں مبتلا ہیں یا پھر زمانے کے دھکوں نے انھیں اتنا پیچھے دھکیل دیا کہ اب وہ کسی نظریاتی غیر نظریاتی شمار قطار میں ہی نہیں رہے۔ان کی حیثیت اس تبرک کی سی ہے جیسے اب سے کچھ برس پہلے تک ہم کسی بھی بزرگ کو پکڑ کے کہتے تھے، یہ ہیں ''تحریکِ پاکستان کے سرکردہ کارکن عظیم راجن پوری جنھوں نے قائدِ اعظم کے شانہ بشانہ کام کیا''۔
آج جب میں اپنے بعد آنے والی دوسری پیڑھی کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے، جب گنے چنے مذہبی لوگ ہی سیاست میں تھے اور مذہبی طبقے کی اکثریت مسجد کے انتظام و مدرسے کی تدریس میں ہی منہمک رہتی تھی۔ان کا اثر و رسوخ محلے اور گاؤں کی حد تک تھا۔عام آدمی ان کا دل سے احترام کرتا کیونکہ عام آدمی کی شادی، مرگ، بچے کی بسم اﷲ اور سپارہ پڑھانے جیسے امور میں مقامی مولوی صاحب کا اہم کردار ہوتا تھا۔ مسجد کے امام صاحب ، موزن اور صفائی و پانی کا خیال رکھنے والے خادم کے کپڑے لتے اور کھان پان کی ذمے داری اہلِ محلہ پر ہوا کرتی تھی۔
موجودہ دور کے برعکس فتویٰ صرف فارغ التحصیل مفتی صاحبان ہی دیا کرتے تھے۔وہ بغیر مسلح محافظوں کے گھومتے تھے۔انھیں جتنی بڑی مسجد اور جتنے رقبے کا مدرسہ جدی یا تدریسی وراثت میں ملتا، وہی اگلی پیڑھی کے حوالے کر جاتے تھے۔ان کی سماجی زندگی میں مقتدرین کا گزر بسر نہ ہونے کے برابر تھا۔وہ بہت کم کہیں آتے جاتے تھے۔ لوگ اکثر انھی سے ملنے حجرے پر تشریف لاتے۔ تب تک ریاستی سرپرستی کے لیبل والی بوتل میں بند طاقت کا نشہ ان پر نہیں کھلا تھا۔
میں جب اپنے بعد آنے والی دوسری پیڑھی کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ ہم نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب اسی ملک میں لوگ کرپٹ آدمی کی طاقت سے ڈرتے ضرور تھے مگر احترام ہرگز نہ کرتے تھے اور اگر انھیں شبہہ بھی ہو جاتا کہ فلاں صاحب کے ذرایع آمدنی تو وہی ہیں البتہ ان کی گھڑی کا رنگ اچانک سے سنہری ہو گیا، رنگارنگ لباس کی جگہ مستقل کڑکتے لٹھے نے لے لی اور پھر ان کے پاس کسی ایک دن موٹر کار بھی آ گئی تو ایسے لوگوںسے شرفاء اپنے بچوں کو دور رکھتے تھے۔کوئی سفید پوش انھیں اس اچانک خوشحالی پر مبارک باد نہیں دیتا تھا اور نہ ہی خامخواہ راہ و رسم بڑھاتا مبادا دیگر اہلِ محلہ کے شک کے دائرے میں کہیں وہی نہ آ جائے۔
میں جب اپنے بعد آنے والی دوسری پیڑھی کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اسی پاکستان میں تینتالیس برس پہلے تک کوئی بھی حکمران بھلے وہ فوجی ہو کہ سویلین ، امریکا نواز ہو کہ چین نواز ، حزبِ اقتدار میں ہو کہ حزبِ اختلاف میں۔ان سب میں سو طرح کی برائیاں تھیں مگر مجال ہے کوئی سرکاری خزانے کو باپ کی جائیداد سمجھ کر دادا جی کی فاتحہ دلانے کا سوچے یا سرکاری وسائل کو اپنا سیاسی قد کاٹھ اونچا کرنے کے لیے استعمال کرے۔یا کسی مخالف کو توڑنے کے لیے بات بے بات بے جا نوازشات کی بارش کرتا پھرے۔یا روائیتی مخالفین کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے حاشیہ بردار نودولتیا سیاسی کلاس کی منصوبہ بند پیدائش کا ذمے دار ہو۔
میں جب اپنے بعد کے آنے والی نسل کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسی پاکستان میں یہ عام بات تھی کہ کسی بھی صوبے کا شہری ملکی دفاع کے ذمے دار اداروں کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرتا تھا۔کیونکہ اس عام آدمی کو ایمان کی حد تک یقین تھا کہ بھلے ملک کا ہر طبقہ اپنے آدرش اور اصول بھول جائے مگر کچھ ادارے ہمیشہ اپنے فرائص تندہی و پیشہ ورانہ اصولوں کے دائرے میں بنا کسی ستائش و صلے کی تمنا کے نبھاتے رہیں گے۔
یہ عام آدمی ایوب خان سے تنگ بھی تھا مگر متاثر تھا۔کیونکہ ان کے بارے مشہور تھا کہ وہ ملاقات کے لیے ایوانِ صدر آنے والے اپنے رشتے داروں کو بھی چائے اپنی تنخواہ سے پلاتے ہیں۔شائد اسی لیے آج نصف صدی بعد بھی کسی نہ کسی ٹرک پر تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد لکھا مل جاتا ہے۔
یہ عام آدمی یحیی خان کو ملک توڑنے کا ذمے دار سمجھتا تھا مگر سوگند کھانے کو بھی تیار تھا کہ یحیی نے اپنے یا اپنی نسلوں کے لیے کچھ بھی نہیں بنایا۔یہ عام آدمی کمانڈر انچیف جنرل گل حسن کا حوالہ دیتا تھا جس نے ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی پنڈی کلب کے دو کمروں میں گذاری۔ کیونکہ اتنی پنشن نہیں تھی کہ وہ کوئی ڈھنگ کا مکان کرائے پر لے کر باعزت گذر بسر ہو سکتی۔
میں جب اپنے بعد آنے والی دوسری نسل کو بتانا چاہتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کلاسیکی سیاستدانوں کی نسل کا آخری آدمی تھا جس پر آپ ہر الزام لگا سکتے ہیں سوائے مالی بدعنوانی، ذاتی کرپشن یا اثاثے بنانے کا۔اگر ایسا ہوتا تو جہاں ضیا الحق بھٹو کے بارے میں دس وائیٹ پیپر لے آیا وہیں گیارہواں بھی لے آتا۔
میں جب اپنے بعد آنے والی دوسری نسل کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اسی پاکستان میں ایک دور ایسا بھی تھا جب عام آدمی لوہے کے کلپ، سات گراری والے چاقو ، خنجر اور پستول سے تو واقف تھا مگر کلاشنکوف کی شکل نہیں پہچانتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ دستی بم ، راکٹ لانچر اور مشین گن صرف فوج کے پاس ہوتے ہیں۔ اور اسی پاکستان میں ایک دور ایسا بھی تھا جب لوگ چرس، گانجے، افیون و شراب سے تو واقف تھے مگر ہیروئن صرف فلموں میں ہوا کرتی تھی۔
میرے بعد آنے والی یہ دوسری نسل یہ سب بکواس مروتاً سن تو لیتی ہے مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچتی ہے۔بڈھا سٹھیا گیا ہے یا پھر ہمیں پاگل سمجھتا ہے۔
ہو سکتا ہے میرے بچوں یا ان کے بچوں کی زندگی میں پاکستان پھر سے پہلے جیسا نارمل ملک ہو جائے۔ پارلیمنٹ نے اٹھارویں ترمیم کے تحت آئین سے ضیا الحق کا نام تو نکال دیا مگر ضیا دور میں طے ہونے والا ایک بنیادی اصول کوئی بدل سکے تو جانیں۔یعنی آیندہ کوئی ایسا سیاستداں برداشت نہیں کیا جائے گا جو گیم کو طے شدہ دائرے سے باہر لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ایک بھٹو کافی تھا۔اب اس جیسا چوتھائی بھی نہیں چاہیے۔فل اسٹاپ۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)