بلوچستان عوامی پارٹی نے سینٹ الیکشن کیلئے ہوم ورک شروع کر دیا
بلوچستان میں سینٹ کے انتخابات کیلئے قبل ازوقت ہی جوڑ توڑ اور پارٹی ٹکٹوں کے حصول کا کھیل شروع ہوگیا ہے۔
RAWALPINDI:
مارچ2021ء میں سینٹ کے انتخابات کے حوالے سے بلوچستان میں ابھی سے تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اس سلسلے میں ہوم ورک کا آغاز کردیا ہے۔
گذشتہ دنوں صوبائی دارالحکومت میں اس حوالے سے اُس وقت گہما گہمی دکھائی دی جب چیئرمین سینٹ میر صادق سنجرانی دورے پر کوئٹہ آئے ہوئے تھے۔ بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء، مشراء، ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں نے اُن سے الگ الگ ملاقاتیں کیں جس میں بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے علاوہ سینٹ کے آئندہ الیکشن موضوع بحث رہے جبکہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے سینٹ کے ٹکٹ کے اُمیدوار بھی گھومتے پھرتے اور سیاسی محفلوں میں بیٹھے دکھائی دیئے۔
بلوچستان سے سینٹ کی 12نشستیں خالی ہو رہی ہیں جن میں7 جنرل، دو خواتین و ٹیکنو کریٹس اور ایک اقلیت کی نشست شامل ہے۔ مارچ 2021ء میں بلوچستان سے سینٹ سے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی آؤٹ ہو رہی ہیں۔
موجودہ بلوچستان اسمبلی میں نیشنل پارٹی کا کوئی رکن نہیں البتہ پشتونخواملی عوامی پارٹی کا ایک رکن ہے اس لئے سیاسی حلقوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ دونوں جماعتوں کی پوزیشن ایسی نہیں ہوگی کہ وہ اپنا کوئی اُمیدوار سامنے لاکر اُسے جتوائیں اور سینٹ میں دوبارہ نمائندگی حاصل کر پائیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو بھی مارچ2021ء میں سینٹ کے ہونے والے انتخابات میں کامیابی کیلئے ایسی حکمت عملی بنانا ہوگی جس میں وہ12 نشستوں میں سے کم از کم7 نشستیں حاصل کر پائے کیونکہ اُسے بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کا سامنا ہے جس میں بڑی سیاسی جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) شامل ہیں اور وہ بھی دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ملکر حکمت عملی مرتب کر کے میدان میں اُترنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو سینٹ الیکشن میں اپنی اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ایک الائنس بنا کر حصہ لینا ہوگا تب جا کر اُسے انتخابات میں مطلوبہ ہدف حاصل ہو سکے گا۔
ان مبصرین کے مطابق موجودہ سیاسی تناظر میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو اپنی اتحادی جماعتوں کی جانب سے بھی ٹف ٹائم مل سکتا ہے کیونکہ بعض سیاسی محفلوں میں اتحادی جماعتوں کے حوالے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ یہ اتحادی جماعتیں سینٹ کے ان انتخابات میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ بیٹھ کرکچھ لو کچھ دو کی پالیسی اپنانے پر زور دینے پر غور کر رہی ہیں اور بعض اتحادی جماعتیں اس حوالے سے سخت موقف بھی رکھتی ہیں اور ان کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر حکمران جماعت نے اس حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت نہیں کی تو اتحاد میںدراڑیں پڑ سکتی ہیں جس کا فائدہ متحدہ اپوزیشن اُٹھائے گی جو کہ اس حوالے سے حکمران اتحاد میں بعض جماعتوں سے رابطے میں ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کی دو بڑی اتحادی جماعتیں تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی بھی کچھ لو کچھ دو پر اصرار کر رہی ہیں، بلوچستان میں حکومت سازی اور سینٹ کے ضمنی انتخاب میں اے این پی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے مابین معاہدہ بھی ہوا تھا جس کے تحت بلوچستان عوامی پارٹی نے اس مرتبہ اے این پی کو ان12 نشستوں میں سے ایک کیلئے اپنا ووٹ دے کر کامیاب بنانا ہوگا جبکہ تحریک انصاف اس کوشش میں ہے کہ ان 12نشستوں میں وہ زیادہ سے زیادہ سینٹ کی نشستیں حاصل کر پائے جس کیلئے وہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ان سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی تناظر میں وزیراعلیٰ جام کمال تحریک انصاف سمیت دیگر اتحادی جماعتوں جن میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور بی این پی (عوامی) شامل ہیں اُن کے ساتھ کیا سیاسی کمٹمنٹ کرتے ہیں اور اتحاد کو مضبوط بنا کر کس طرح سے سینٹ کے ان انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ جام کمال جو کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں کو مارچ2021ء کے سینٹ انتخابات میں اپنی سیاسی پختگی اور لیڈر شپ کا بھرپور مظاہرہ کرنا ہوگا جو کہ اُن کے سیاسی کیریئر کیلئے ایک بڑا امتحان بھی ہے؟۔ سیاسی حلقے اس حوالے سے ان کی پرفارمنس کو فوکس کئے بیٹھے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں سینٹ کے انتخابات کیلئے قبل ازوقت ہی جوڑ توڑ اور پارٹی ٹکٹوں کے حصول کا کھیل شروع ہوگیا ہے جس کیلئے لابنگ ہو رہی ہے اس وقت اس حوالے سے بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینٹ میر صادق سنجرانی سیاسی منظر نامے میں زیادہ فوکس دکھائی دے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ جتنے دن کوئٹہ میں رہے اُن کے پاس پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی لوگوں کا آنا جانا اور مشاورت کا عمل جاری رہا۔
بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مارچ2021ء میں سینٹ صادق سنجرانی چیئرمین سینٹ کے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے، تاہم وہ اگلے تین سال کیلئے سینٹ کے رکن بدستور رہیں گے، دیکھنا یہ ہے کہ آیا ان کے قریبی ساتھی اور اتحادی جماعتیں انہیں دوبارہ اس عہدے کیلئے نامزد کرتی ہیں یا نہیں کیونکہ بعض ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف چیئرمین سینٹ کیلئے اپنے اُمیدوار کی کوشش کرے گی کیونکہ مارچ میں منعقد ہونے والے ان انتخابات میں اس کی یہ بھرپور کوشش رہے گی کہ وہ چاروں صوبوں سے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملکر زیادہ سے زیادہ سینٹ کی نشستیں حاصل کرے ،
بعض سیاسی مبصرین کے مطابق میر صادق سنجرانی کے سیاست میں آنے کے بعد چاغی کی سیاست میں بھی نمایاں تبدیلی نظر آرہی ہے اس سے قبل چاغی میں نوتیزئی اور محمدحسنی قبائل زیادہ سرگرم رہے ہیں تاہم اب سنجرانی قبیلہ بھی سیاست میں کافی سرگرم دکھائی دے رہا ہے۔
سینٹ میں بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے بل کی منظوری نے بھی چاغی کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے، بعض سیاسی مبصرین کے مطابق چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے جس طرح سے ملکی سیاسی میدان میں یکدم مقبولیت حاصل کی ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ آنے والے انتخابات میں وہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بلوچستان کی آئندہ وزارت اعلیٰ کے بھی اُمیدوار ہوں؟
مارچ2021ء میں سینٹ کے انتخابات کے حوالے سے بلوچستان میں ابھی سے تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اس سلسلے میں ہوم ورک کا آغاز کردیا ہے۔
گذشتہ دنوں صوبائی دارالحکومت میں اس حوالے سے اُس وقت گہما گہمی دکھائی دی جب چیئرمین سینٹ میر صادق سنجرانی دورے پر کوئٹہ آئے ہوئے تھے۔ بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء، مشراء، ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں نے اُن سے الگ الگ ملاقاتیں کیں جس میں بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے علاوہ سینٹ کے آئندہ الیکشن موضوع بحث رہے جبکہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے سینٹ کے ٹکٹ کے اُمیدوار بھی گھومتے پھرتے اور سیاسی محفلوں میں بیٹھے دکھائی دیئے۔
بلوچستان سے سینٹ کی 12نشستیں خالی ہو رہی ہیں جن میں7 جنرل، دو خواتین و ٹیکنو کریٹس اور ایک اقلیت کی نشست شامل ہے۔ مارچ 2021ء میں بلوچستان سے سینٹ سے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی آؤٹ ہو رہی ہیں۔
موجودہ بلوچستان اسمبلی میں نیشنل پارٹی کا کوئی رکن نہیں البتہ پشتونخواملی عوامی پارٹی کا ایک رکن ہے اس لئے سیاسی حلقوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ دونوں جماعتوں کی پوزیشن ایسی نہیں ہوگی کہ وہ اپنا کوئی اُمیدوار سامنے لاکر اُسے جتوائیں اور سینٹ میں دوبارہ نمائندگی حاصل کر پائیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو بھی مارچ2021ء میں سینٹ کے ہونے والے انتخابات میں کامیابی کیلئے ایسی حکمت عملی بنانا ہوگی جس میں وہ12 نشستوں میں سے کم از کم7 نشستیں حاصل کر پائے کیونکہ اُسے بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کا سامنا ہے جس میں بڑی سیاسی جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) شامل ہیں اور وہ بھی دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ملکر حکمت عملی مرتب کر کے میدان میں اُترنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو سینٹ الیکشن میں اپنی اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ایک الائنس بنا کر حصہ لینا ہوگا تب جا کر اُسے انتخابات میں مطلوبہ ہدف حاصل ہو سکے گا۔
ان مبصرین کے مطابق موجودہ سیاسی تناظر میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو اپنی اتحادی جماعتوں کی جانب سے بھی ٹف ٹائم مل سکتا ہے کیونکہ بعض سیاسی محفلوں میں اتحادی جماعتوں کے حوالے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ یہ اتحادی جماعتیں سینٹ کے ان انتخابات میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ بیٹھ کرکچھ لو کچھ دو کی پالیسی اپنانے پر زور دینے پر غور کر رہی ہیں اور بعض اتحادی جماعتیں اس حوالے سے سخت موقف بھی رکھتی ہیں اور ان کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر حکمران جماعت نے اس حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت نہیں کی تو اتحاد میںدراڑیں پڑ سکتی ہیں جس کا فائدہ متحدہ اپوزیشن اُٹھائے گی جو کہ اس حوالے سے حکمران اتحاد میں بعض جماعتوں سے رابطے میں ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کی دو بڑی اتحادی جماعتیں تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی بھی کچھ لو کچھ دو پر اصرار کر رہی ہیں، بلوچستان میں حکومت سازی اور سینٹ کے ضمنی انتخاب میں اے این پی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے مابین معاہدہ بھی ہوا تھا جس کے تحت بلوچستان عوامی پارٹی نے اس مرتبہ اے این پی کو ان12 نشستوں میں سے ایک کیلئے اپنا ووٹ دے کر کامیاب بنانا ہوگا جبکہ تحریک انصاف اس کوشش میں ہے کہ ان 12نشستوں میں وہ زیادہ سے زیادہ سینٹ کی نشستیں حاصل کر پائے جس کیلئے وہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ان سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی تناظر میں وزیراعلیٰ جام کمال تحریک انصاف سمیت دیگر اتحادی جماعتوں جن میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور بی این پی (عوامی) شامل ہیں اُن کے ساتھ کیا سیاسی کمٹمنٹ کرتے ہیں اور اتحاد کو مضبوط بنا کر کس طرح سے سینٹ کے ان انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ جام کمال جو کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں کو مارچ2021ء کے سینٹ انتخابات میں اپنی سیاسی پختگی اور لیڈر شپ کا بھرپور مظاہرہ کرنا ہوگا جو کہ اُن کے سیاسی کیریئر کیلئے ایک بڑا امتحان بھی ہے؟۔ سیاسی حلقے اس حوالے سے ان کی پرفارمنس کو فوکس کئے بیٹھے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں سینٹ کے انتخابات کیلئے قبل ازوقت ہی جوڑ توڑ اور پارٹی ٹکٹوں کے حصول کا کھیل شروع ہوگیا ہے جس کیلئے لابنگ ہو رہی ہے اس وقت اس حوالے سے بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینٹ میر صادق سنجرانی سیاسی منظر نامے میں زیادہ فوکس دکھائی دے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ جتنے دن کوئٹہ میں رہے اُن کے پاس پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی لوگوں کا آنا جانا اور مشاورت کا عمل جاری رہا۔
بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مارچ2021ء میں سینٹ صادق سنجرانی چیئرمین سینٹ کے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے، تاہم وہ اگلے تین سال کیلئے سینٹ کے رکن بدستور رہیں گے، دیکھنا یہ ہے کہ آیا ان کے قریبی ساتھی اور اتحادی جماعتیں انہیں دوبارہ اس عہدے کیلئے نامزد کرتی ہیں یا نہیں کیونکہ بعض ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف چیئرمین سینٹ کیلئے اپنے اُمیدوار کی کوشش کرے گی کیونکہ مارچ میں منعقد ہونے والے ان انتخابات میں اس کی یہ بھرپور کوشش رہے گی کہ وہ چاروں صوبوں سے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملکر زیادہ سے زیادہ سینٹ کی نشستیں حاصل کرے ،
بعض سیاسی مبصرین کے مطابق میر صادق سنجرانی کے سیاست میں آنے کے بعد چاغی کی سیاست میں بھی نمایاں تبدیلی نظر آرہی ہے اس سے قبل چاغی میں نوتیزئی اور محمدحسنی قبائل زیادہ سرگرم رہے ہیں تاہم اب سنجرانی قبیلہ بھی سیاست میں کافی سرگرم دکھائی دے رہا ہے۔
سینٹ میں بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے بل کی منظوری نے بھی چاغی کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے، بعض سیاسی مبصرین کے مطابق چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے جس طرح سے ملکی سیاسی میدان میں یکدم مقبولیت حاصل کی ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ آنے والے انتخابات میں وہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بلوچستان کی آئندہ وزارت اعلیٰ کے بھی اُمیدوار ہوں؟