مولانا فضل الرحمن کے چھوٹی اپوزیشن جماعتوں سے رابطے

مولانافضل الرحمٰن ملک کی دو بڑی اپوزیشن سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔

مولانافضل الرحمٰن ملک کی دو بڑی اپوزیشن سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔فوٹو : فائل

جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا دورہ پشاور انتہائی ہنگامہ خیز ثابت ہوا ،ان کے باچاخان مرکز کے دورہ سے صوبائی حکومت نے پورا طوفان کھڑا کردیا اور یوں لگا جیسے مولانا فضل الرحمٰن کے اس دورہ پشاور اور سیاسی جماعتوں سے رابطوں کو صوبائی حکومت خطرے کے طور پر محسوس کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا سے لے کر صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کے ہر رینک کے ورکروں تک سب ایک ہی زبان بولتے ہوئے نظر آئے اور مولانا فضل الرحمٰن کے 15 اگست کو دورہ باچاخان مرکز کو بھارت کے یوم آزادی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی حالانکہ نہ تو سیاسی جماعتوں کے مابین یہ رابطے نئے ہیں اور نہ ہی اس دورے کے نتیجے میں فوری طور پر مرکزی یا صوبائی حکومت کوکسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق ہے تاہم اس کے باوجود حکومتی صفوں پر طاری ہونے والی گھبراہٹ واضح طور پر محسوس کی گئی جو حیران کن ہے۔

چونکہ کورونا وباء کی وجہ سے جاں بحق ہونے والے اے این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین کے بھائی کے انتقال پر مولانا فضل الرحمٰن نے فاتحہ خوانی نہیں کی تھی اس لیے انہوں نے اپنے دورہ پشاور سے فائدہ لیتے ہوئے یہ کام بھی کر لیا، مگرسب حیران ہوئے جب صرف پی ٹی آئی کے ورکروں کی جانب سے ڈانڈے بھارت کے یوم آذادی کے ساتھ نہیں ملائے گئے بلکہ یہ سلسلہ شروع کیا گورنرخیبرپختونخوا نے اور پھر یہ سلسلہ چلتا چلا گیا جو صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی اورمعاون خصوصی کامران بنگش سے ہوتا ہوا پی ٹی آئی ورکروں تک چلتا رہا۔

مولانا فضل الرحمٰن ملک کی دو بڑی اپوزیشن سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے مایوس دکھائی دیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں جماعتیں نہ تو کھل کر اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہیں اور نہ ہی حکومت کے خلاف کھل کر میدان میں آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے ان دونوں اپوزیشن جماعتوں کے لیے حکومت کے حوالے سے سہولت کارکے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور انہوں نے اپوزیشن کی ان دونوں جماعتوں کو ہی دباؤ میں لانے کے لیے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطے تیز کردیئے ہیں، اے این پی اور قومی وطن پارٹی کے ساتھ دیگر جماعتوں کے ساتھ بھی ان کے رابطے جاری ہیں جبکہ مذہبی جماعتوں کے ساتھ بھی ان کے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اپوزیشن نے جو بھی کرنا ہے وہ اگلے سال مارچ سے پہلے ہی کرنا ہے، ایک مرتبہ مارچ میں سینٹ انتخابات ہوگئے اور حکومت کو سینٹ میں اکثریت حاصل ہوگئی تو اس کے بعد اپوزیشن کو 2023ء تک انتظار ہی کرنا ہوگا۔


اس بات کو یقینی طور پر مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یارولی خان اور آفتاب احمدخان شیرپاؤجیسے سیاسی قائدین محسوس کر رہے ہیں جو اس بات کے لیے تیار ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف میدان میں نکلیں لیکن ان کا نکلنا اس وقت تک سود مند نہیں ہو سکتا کہ جب تک ان کے ساتھ اس تحریک میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی شامل نہ ہوں ،کیونکہ اپوزیشن جماعتیں ماضی کی تحاریک جی ڈی اے ،اے آرڈی اور اے پی ڈی ایم جیسی تحاریک چلانے کی خواہاں ہیں لیکن ایسی تحریک اسی صورت میں چل سکتی ہے کہ جب اپوزیشن کی تمام جماعتیں کم سے کم مشترکہ ایجنڈے پر متفق ہوتے ہوئے ایک صفحے پر جمع ہوجائیں اور اس وقت تک ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ نہ تو پیپلزپارٹی سندھ حکومت کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی مسلم لیگ ن کی صفوں میں موجود دراڑیں انھیں یکجا ہونے دے رہی ہیں جس کے باعث بظاہر دکھائی نہیں دیتا کہ اپوزیشن جماعتیں کوئی تحریک شروع کر پائیں گی ۔

اپوزیشن جماعتوں کی کوئی مشترکہ تحریک شروع ہوئی بھی تو اکتوبر، نومبر سے پہلے شروع نہیں ہو سکتی کیونکہ گرمی کی شدت اس قسم کی کسی بھی تحریک کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم لیگ ن یہ فیصلہ کرے کہ وہ کس کی قیادت میں آگے بڑھے گی، اگر تو قیادت شہباز شریف نے کرنی ہے تو اس صورت میں ن لیگ موجودہ حکومت کے خلاف میدان میں نہیں آئے گی تاہم اگر سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے تحریک کی قیادت کرنی ہے تو پھر صورت حال الگ ہوگی لیکن صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ اس نے کس کی قیادت میں آگے بڑھنا ہے یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ن لیگ سے جو امیدیں باندھ رکھی ہیں وہ بھی فی الحال پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ پیپلزپارٹی کے اپنے دیگر مسائل بھی ہیں جن سے وہ جان چھڑانے کے لیے کوشاں ہے۔

ان حالات میں مولانا فضل الرحمٰن اگر اے این پی ،قومی وطن پارٹی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے علاوہ مذہبی جماعتوں کو بھی لے کر میدان میں نکل آئیں گے تو کچھ بنتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ دونوں بڑی جماعتیں اپنی پالیسی اور حالات کے مطابق ہی آگے بڑھیں گی اوراپنے معاملات چلائیں گی تاہم اگر انھیں کہیں سے کوئی اشارہ مل گیا تو اس صورت میں حالات بدل بھی سکتے ہیں تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن کے دورہ باچاخان مرکز پر جس انداز میں تنقید کی گئی اور جس طریقے سے یہ معاملہ اچھالا گیا وہ کسی بھی طور مناسب نہ تھا اور اس طریقے سے سیاست میں مزید مشکلات پیداہوں گی جس کا سامنا صرف اپوزیشن جماعتوں کو نہیں بلکہ برسراقتدار جماعتوں کو بھی کرنا پڑے گا اور ایک مرتبہ یہ سلسلہ شرو ع ہوگیا تو یہ ختم نہیں ہوگا بلکہ آگے چلتا چلاجائے گا اوراس صورت حال کی وجہ سے سب تکلیف میں رہیں گے۔

تکلیف میں تو خیبرپختونخوا کی حکومت اور پی ٹی آئی بھی تھی کیونکہ بس ریپڈ ٹرانزٹ کا منصوبہ صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کے لیے گلے کی ہڈی بنا ہوا تھا، یہ منصوبہ شروع کرتے وقت اگر اس کی تکمیل کے لیے چھ ماہ کی ڈیڈ لائن نہ دی جاتی تو شاید اتنا مسلہ نہ بنتا لیکن اس وقت کے وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیر دفاع پرویزخٹک نے منصوبہ کی تکمیل کے لیے چھ ماہ کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی اور پوری کی پوری بیوروکریسی بھی اصل حقیقت سامنے لانے کی بجائے ان کی ہمنوا بن گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جونہی چھ ماہ پورے ہوئے سب توپوں کا رخ صوبائی حکومت کی طرف ہوگیا اور اصل مشکلات کا سامنا موجودہ وزیراعلیٰ محمودخان اوران کی حکومت کو کرنا پڑا کیونکہ ان سے ایک ہی سوال پوچھا جاتا کہ بی آرٹی کب مکمل ہو رہی ہے ؟ تاہم اب یہ منصوبہ مکمل بھی ہوچکا اور ٹریک پر بسیں دوڑنا بھی شروع ہوگئی ہیں جس کے باعث صوبائی حکومت کو ریلیف ملا ہے اور وہ دیگر منصوبوں اور امور کی جانب بہترانداز میں توجہ دے پائے گی۔
Load Next Story