لاوارث بچے اور ہمارا معاشرہ
پاکستان میں جہاں بے اولاد جوڑے اولاد کےلیے ترستے ہیں، وہیں کچھ سنگ دل اپنے جگر گوشوں کو لاوارث پھینک دیتے ہیں
ہم لوگ لاہور میں واقع چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو میں بنائی گئی نومولود بچوں کی نرسری میں موجود تھے۔ اس کمرے کو بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔ کمرے میں 17 کے قریب بچے تھے، جن میں سے 11 لڑکے اور 6 لڑکیاں ہیں۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی تین ملازمائیں ان بچوں کی دیکھ بھال اور خدمت میں لگی تھیں۔ یہ معصوم کس باغ کے پھول ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔ کسی معصوم کو اس کی ماں جنم دے کر اسپتال میں چھوڑ کر فرار ہوگئی تو کوئی کوڑے کے ڈھیر سے ملا ہے۔ اور اب چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں ان بچوں کی پرورش کی جارہی ہے۔
ان بچوں کی دیکھ بھال کرنے والیوں میں ایک بختاور ہیں، جن کے اپنے دو بیٹے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اپنی والدہ کے پاس چھوڑ آتی ہیں اور پھر دن بھر ان لاوارث بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ بختاور کہتی ہیں ''بچے تو بچے ہوتے ہیں، ان کے والدین کی غلطی کی سزا انہیں نہیں ملنی چاہیے۔ یہ تو اتنے معصوم ہیں کہ ان سے سب ہی پیار کرتے ہیں''۔ بختاور کا کہنا تھا ''گھروں میں مائیں اکثر اپنی حقیقی اولاد پر بھی غصہ ہوتی ہیں لیکن ہمیں کبھی ان ننھی جانوں پر غصہ نہیں آتا۔ ہر دو گھنٹے بعد ان کو دودھ دینا ہوتا ہے، ان کی صفائی کا خیال رکھنا ہوتا ہے، یہ سب میں ایک ماں بن کر کرتی ہوں۔ میں تو خوش قسمت ہوں جس کے اتنے سارے بچے ہیں، بلکہ ہم تینوں (آیا) کے بچے ہیں''۔
ان بچوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کسی نہ کسی جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ان کے والدین انہیں کسی اسپتال یا پھر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک گئے تھے۔ پنجاب میں نومولود لاوارث بچوں کےلیے ایک ہی نرسری ہے، جہاں سترہ بچے موجود ہیں۔ یہ بچے مختلف شہروں سے یہاں لائے گئے۔
میرے ذہن میں ان بچوں سے متعلق کئی سوالات تھے۔ میں ان کے جواب جاننا چاہتا تھا اور چائڈ پروٹیکشن بیورو میں آنے کا مقصد بھی یہی تھا۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد نے خندہ پیشانی سے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ان سے گفتگو میں ان سوالوں کے جواب جاننے کی کوشش کی گئی۔ چیئرپرسن نے بتایا کہ جب ہمیں کسی ایسے بچے کی اطلاع ملتی ہے تو چائلڈ پروٹیکشن کی اسپیشل کورٹ کی اجازت سے ان بچوں کی کسٹڈی لے لی جاتی ہے۔ ان بچوں کے والدین کا نام معلوم نہیں ہوتا۔ بچے کا تو کوئی بھی نام رکھ دیا جاتا ہے لیکن شرعی طور پر اس بچے کے حقیقی والد کی جگہ کسی دوسرے کا نام نہیں لکھ سکتے۔ اس لیے ہم سرپرست کے طور پر جو بھی چائلڈ پروٹیکشن بیورو کا سربراہ ہوگا اس کا نام لکھ دیتے ہیں۔ نادرا کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے اور ان بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ پر پھر ادارے کے سربراہ کا نام بطور سرپرست لکھا جاتا ہے۔
نومولود کا مذہب کیا ہے؟ یہ بڑا اہم ہوتا ہے۔ عدالت کی ہدایت پر ہم اس بچے کے والدین، رشتے داروں یا پھر اس علاقے سے کوئی ایسی معلومات لینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے اس بچے کے مذہب کا معلوم ہوسکے۔ لیکن اگر کوئی ایسا سراغ نہ مل سکے تو پھر اس بچے کو مسلمان ہی سمجھا جاتا ہے۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن نے مزید بتایا کہ اگر کوئی بے اولاد جوڑا کسی بچے کو گود لینا چاہے تو اس کےلیے وہ جوڑا بیورو میں درخواست دیتا ہے۔ پھر ہم ایک ٹیم تشکیل دیتے ہیں جو اس خاندان سے متعلق رپورٹ تیار کرتی ہے۔ اس خاندان کی مالی حیثیت، علاقہ، گھر کا ماحول، جوڑے کی تعلیم، ان کا اخلاقی رویہ، اس کے علاوہ ان جوڑے کا انٹرویو کیا جاتا ہے اور بچے کے نام ایک مناسب رقم بینک میں ڈپازٹ کروانا پڑتی ہے۔ پھر بچہ گود دیا جاتا ہے۔ گود لینے کے بعد جوڑا پابند ہوتا ہے کہ وہ دو، تین ماہ بعد بچے کو عدالت میں لے کر آئے۔ بیورو کے پاس اختیار ہے کہ اگر وہ یہ محسوس کرے کہ گود لیے گئے بچے کی مناسب تربیت نہیں ہورہی تو اسے واپس لے لیا جاتا ہے۔
پاکستان میں جہاں ایک طرف بے اولاد جوڑے اولاد کےلیے ترستے ہیں، وہیں کچھ ایسے سنگ دل بھی ہیں جو اپنے جگر گوشوں کو اس طرح لاوارث پھینک دیتے ہیں۔ یہ زیادہ تر اَن چاہے بچے ہوتے ہیں۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ پاکستان میں کسی ٹھوس طبی وجوہ کے بغیر اسقاط حمل کروانا جرم ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر سال لگ بھگ سات لاکھ قانونی و غیر قانونی اسقاط حمل ہوتے ہیں۔ غیر مستند اتائیوں یا دائیوں کے ہاتھوں اسقاط کے باعث عورت کی جان جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے، جبکہ کئی خواتین مر بھی جاتی ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت سے خواتین کی موت کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔
ان بچوں کے اس دنیا میں آنے اور پھر انہیں لاوارث چھوڑے جانے کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ مرد اور عورت میں بغیر نکاح کے رشتہ قائم ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے ہیں۔ عام طور پر اس طرح ماں بننے والی خواتین بچے کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اسقاط حمل کروا لیتی ہیں۔ البتہ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مخصوص مدت گزر جانے کے بعد اسقاطِ حمل ماں اور بچے کےلیے انتہائی خطرناک ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ایسے بچوں کی پیدائش تو ہوجاتی ہے مگر چونکہ وہ بچے کسی نہ کسی سبب بوجھ یا گناہ تصور کیے جاتے ہیں، لہٰذا یا تو انھیں خاموشی سے کسی کے حوالے کردیا جاتا ہے یا پھر کچرے کے ڈھیر، گٹر یا ندی نالے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
دوسری وجہ ایسے خاندان ہیں، جہاں بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا ہے یا پھر اس فیملی کی پہلے ہی بیٹیاں ہوں تو ایک نئی بیٹی کی پیدائش پر ماں اس بیٹی کو اسپتال میں ہی چھوڑ کر فرار ہوجاتی ہے۔ جبکہ تیسری وجہ غربت ہے، جس کی وجہ سے ماں باپ اپنے بچے کو لاوارث چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک اور وجہ بچوں کی پیدائشی معذوری بھی ہوتی ہے۔ جب والدین کو بچے کی کسی بڑی جسمانی معذوری کا علم ہوتا ہے تو ایسے بچوں کو بھی لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایسے نومولود بچوں کی پرورش کےلیے ایک ہی ادارہ ہے چائلڈ پروٹیکشن بیورو۔ اور اس کے پاس بھی صرف ایک نرسری ہے۔ تاہم غیر سرکاری طور پر کئی ادارے کام کررہے ہیں، جن میں سب سے بڑا نام ایدھی کا ہے۔ پاکستان میں لگ بھگ تین سو ایدھی مراکز ہیں اور ہر مرکز کے باہر ایک خالی جھولا رکھا رہتا ہے۔ اس جھولے کے اوپر دیوار یا بورڈ پر لکھا ہوتا ہے قتل نہ کریں، اس جھولے میں ڈال دیں۔ جان اللہ کی امانت ہے۔ ان بچوں کو قتل کرکے ایک اور گناہ مول نہ لیجیے۔ لیکن اس کے باوجود لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں آئے روز کسی نومولود کی لاش کچرے کے ڈھیر یا پھر کسی ندی نالے سے مل جاتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ان بچوں کی دیکھ بھال کرنے والیوں میں ایک بختاور ہیں، جن کے اپنے دو بیٹے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اپنی والدہ کے پاس چھوڑ آتی ہیں اور پھر دن بھر ان لاوارث بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ بختاور کہتی ہیں ''بچے تو بچے ہوتے ہیں، ان کے والدین کی غلطی کی سزا انہیں نہیں ملنی چاہیے۔ یہ تو اتنے معصوم ہیں کہ ان سے سب ہی پیار کرتے ہیں''۔ بختاور کا کہنا تھا ''گھروں میں مائیں اکثر اپنی حقیقی اولاد پر بھی غصہ ہوتی ہیں لیکن ہمیں کبھی ان ننھی جانوں پر غصہ نہیں آتا۔ ہر دو گھنٹے بعد ان کو دودھ دینا ہوتا ہے، ان کی صفائی کا خیال رکھنا ہوتا ہے، یہ سب میں ایک ماں بن کر کرتی ہوں۔ میں تو خوش قسمت ہوں جس کے اتنے سارے بچے ہیں، بلکہ ہم تینوں (آیا) کے بچے ہیں''۔
ان بچوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کسی نہ کسی جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ان کے والدین انہیں کسی اسپتال یا پھر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک گئے تھے۔ پنجاب میں نومولود لاوارث بچوں کےلیے ایک ہی نرسری ہے، جہاں سترہ بچے موجود ہیں۔ یہ بچے مختلف شہروں سے یہاں لائے گئے۔
میرے ذہن میں ان بچوں سے متعلق کئی سوالات تھے۔ میں ان کے جواب جاننا چاہتا تھا اور چائڈ پروٹیکشن بیورو میں آنے کا مقصد بھی یہی تھا۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد نے خندہ پیشانی سے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ان سے گفتگو میں ان سوالوں کے جواب جاننے کی کوشش کی گئی۔ چیئرپرسن نے بتایا کہ جب ہمیں کسی ایسے بچے کی اطلاع ملتی ہے تو چائلڈ پروٹیکشن کی اسپیشل کورٹ کی اجازت سے ان بچوں کی کسٹڈی لے لی جاتی ہے۔ ان بچوں کے والدین کا نام معلوم نہیں ہوتا۔ بچے کا تو کوئی بھی نام رکھ دیا جاتا ہے لیکن شرعی طور پر اس بچے کے حقیقی والد کی جگہ کسی دوسرے کا نام نہیں لکھ سکتے۔ اس لیے ہم سرپرست کے طور پر جو بھی چائلڈ پروٹیکشن بیورو کا سربراہ ہوگا اس کا نام لکھ دیتے ہیں۔ نادرا کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے اور ان بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ پر پھر ادارے کے سربراہ کا نام بطور سرپرست لکھا جاتا ہے۔
نومولود کا مذہب کیا ہے؟ یہ بڑا اہم ہوتا ہے۔ عدالت کی ہدایت پر ہم اس بچے کے والدین، رشتے داروں یا پھر اس علاقے سے کوئی ایسی معلومات لینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے اس بچے کے مذہب کا معلوم ہوسکے۔ لیکن اگر کوئی ایسا سراغ نہ مل سکے تو پھر اس بچے کو مسلمان ہی سمجھا جاتا ہے۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن نے مزید بتایا کہ اگر کوئی بے اولاد جوڑا کسی بچے کو گود لینا چاہے تو اس کےلیے وہ جوڑا بیورو میں درخواست دیتا ہے۔ پھر ہم ایک ٹیم تشکیل دیتے ہیں جو اس خاندان سے متعلق رپورٹ تیار کرتی ہے۔ اس خاندان کی مالی حیثیت، علاقہ، گھر کا ماحول، جوڑے کی تعلیم، ان کا اخلاقی رویہ، اس کے علاوہ ان جوڑے کا انٹرویو کیا جاتا ہے اور بچے کے نام ایک مناسب رقم بینک میں ڈپازٹ کروانا پڑتی ہے۔ پھر بچہ گود دیا جاتا ہے۔ گود لینے کے بعد جوڑا پابند ہوتا ہے کہ وہ دو، تین ماہ بعد بچے کو عدالت میں لے کر آئے۔ بیورو کے پاس اختیار ہے کہ اگر وہ یہ محسوس کرے کہ گود لیے گئے بچے کی مناسب تربیت نہیں ہورہی تو اسے واپس لے لیا جاتا ہے۔
پاکستان میں جہاں ایک طرف بے اولاد جوڑے اولاد کےلیے ترستے ہیں، وہیں کچھ ایسے سنگ دل بھی ہیں جو اپنے جگر گوشوں کو اس طرح لاوارث پھینک دیتے ہیں۔ یہ زیادہ تر اَن چاہے بچے ہوتے ہیں۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ پاکستان میں کسی ٹھوس طبی وجوہ کے بغیر اسقاط حمل کروانا جرم ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر سال لگ بھگ سات لاکھ قانونی و غیر قانونی اسقاط حمل ہوتے ہیں۔ غیر مستند اتائیوں یا دائیوں کے ہاتھوں اسقاط کے باعث عورت کی جان جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے، جبکہ کئی خواتین مر بھی جاتی ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت سے خواتین کی موت کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔
ان بچوں کے اس دنیا میں آنے اور پھر انہیں لاوارث چھوڑے جانے کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ مرد اور عورت میں بغیر نکاح کے رشتہ قائم ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے ہیں۔ عام طور پر اس طرح ماں بننے والی خواتین بچے کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اسقاط حمل کروا لیتی ہیں۔ البتہ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مخصوص مدت گزر جانے کے بعد اسقاطِ حمل ماں اور بچے کےلیے انتہائی خطرناک ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ایسے بچوں کی پیدائش تو ہوجاتی ہے مگر چونکہ وہ بچے کسی نہ کسی سبب بوجھ یا گناہ تصور کیے جاتے ہیں، لہٰذا یا تو انھیں خاموشی سے کسی کے حوالے کردیا جاتا ہے یا پھر کچرے کے ڈھیر، گٹر یا ندی نالے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
دوسری وجہ ایسے خاندان ہیں، جہاں بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا ہے یا پھر اس فیملی کی پہلے ہی بیٹیاں ہوں تو ایک نئی بیٹی کی پیدائش پر ماں اس بیٹی کو اسپتال میں ہی چھوڑ کر فرار ہوجاتی ہے۔ جبکہ تیسری وجہ غربت ہے، جس کی وجہ سے ماں باپ اپنے بچے کو لاوارث چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک اور وجہ بچوں کی پیدائشی معذوری بھی ہوتی ہے۔ جب والدین کو بچے کی کسی بڑی جسمانی معذوری کا علم ہوتا ہے تو ایسے بچوں کو بھی لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایسے نومولود بچوں کی پرورش کےلیے ایک ہی ادارہ ہے چائلڈ پروٹیکشن بیورو۔ اور اس کے پاس بھی صرف ایک نرسری ہے۔ تاہم غیر سرکاری طور پر کئی ادارے کام کررہے ہیں، جن میں سب سے بڑا نام ایدھی کا ہے۔ پاکستان میں لگ بھگ تین سو ایدھی مراکز ہیں اور ہر مرکز کے باہر ایک خالی جھولا رکھا رہتا ہے۔ اس جھولے کے اوپر دیوار یا بورڈ پر لکھا ہوتا ہے قتل نہ کریں، اس جھولے میں ڈال دیں۔ جان اللہ کی امانت ہے۔ ان بچوں کو قتل کرکے ایک اور گناہ مول نہ لیجیے۔ لیکن اس کے باوجود لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں آئے روز کسی نومولود کی لاش کچرے کے ڈھیر یا پھر کسی ندی نالے سے مل جاتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔