ن لیگ شہباز شریف کی مفاہمت کی پالیسی پر متفق
شہباز شریف حکمت سے ن لیگ کی کشتی کو بھنور سے نکال کر لائے ہیں۔
مریم نواز کی نیب میں پیشی کے بعد ایک ماحول بنایا جا رہا ہے کہ ن لیگ کو مفاہمت کی سیاست سے واپس مزاحمت کی سیاست کی طرف آجانا چاہیے۔
مریم نواز کی ایک پریس کانفرنس کو مزاحمت کی سیاست کی طرف واپسی کا سفر قرار دیاجا رہا ہے۔ حالانکہ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میری رائے میں شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست کے جس قدر ثمرات گزشتہ دو سال میں ن لیگ نے سمیٹے ہیں، ان کے بعد ن لیگ کا ابھی مفاہمت کی سیاست چھوڑنے کا کوئی امکان نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست کے لیے ایک مکمل اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے۔ اور اب کوشش بھی کی جائے تو ن لیگ کو شہباز شریف کے مفاہمت کے بیانیہ سے ہٹانا ناممکن ہے۔
میری رائے میں مریم نواز اور شہباز شریف مفاہمت کی سیاست پر ایک ہی رائے رکھتے ہیں بلکہ نواز شریف بھی مفاہمت کی سیاست پر شہباز شریف کے ساتھ متفق ہو چکے ہیں۔
کیا نواز شریف اور مریم نواز کی خاموشی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وہ دونوں اب مفاہمت کی سیاست کرنے پر صرف متفق ہی نہیں بلکہ دونوں مفاہمت کی ہی سیاست کر رہے ہیں۔ جب مریم نواز یہ کہتی ہیں کہ ہمیں قیادت کی لاشیں نہیں چاہیے بلکہ زندہ قیادت چاہیے تو دراصل وہ مفاہمت کی سیاست کا ہی اعلان کر رہی ہوتی ہیں۔ کیونکہ زندگی مفاہمت سے ملتی ہے مزاحمت میں تو تختہ دار ہی ملتا ہے۔ جب میاں نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک جانے پر راضی ہوتے ہیں تو وہ مفاہمت کی سیاست پر راضی ہوتے ہیں۔ جب مریم نواز کئی کئی ماہ خاموشی اختیار کرتی ہیں تو دراصل وہ مفاہمت کی سیاست کے اصولوں کی پاسداری کر رہی ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ تاثر کہ شہباز شریف کے مفاہمت کے بیانیہ کو نواز شریف اور مریم نواز کی حمایت حا صل نہیں ہے درست نہیں ہے۔
مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر ن لیگ کے کارکنوں کے احتجاج اور مریم نواز کی پریس کانفرنس کو مزاحمت کی سیاست قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ بھی مفاہمت کی سیاست کے ثمرات ہیں۔ ورنہ کوئی سوچ سکتا ہے کہ مریم نواز کی نیب کی پیشی کے موقع پر اس طرح کارکن اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ کیا مزاحمت کے دنوں میں ایسا ممکن تھا کہ مریم نوازپریس کانفرنس کرتیں اور وہ اس طرح سارے میڈیا پر نشر بھی ہو جاتی۔ سب جانتے ہیں کہ مزاحمت کے دنوں میں مریم نواز نے بڑے بڑے جلسہ کیے تھے لیکن وہ میڈیا پر نہیں آسکے تھے۔ اس لیے نیب کی پیشی پر جو بھی ہوا ہے وہ بھی شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست کے ثمرات ہیں۔
ورنہ مریم نواز کا گھر سے نکلنا بھی ممکن نہیں تھا۔ کارکن بھی نیب پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار ہو جاتے۔ نیب کی پیشی کے بعد مریم نواز کی دوبارہ خاموشی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ مفاہمت کی سیاست پر قائم رہنا چاہتی ہیں۔ اگر آج ن لیگ کی پارلیمانی عددی طاقت قائم ہے تو یہ بھی مفاہمت کی سیاست ہی کی بدولت ہے ورنہ اگر مزاحمت کی سیاست کو برقرار رکھا جاتا تو ن لیگ کو توڑنے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ فارورڈ بلاک بننے جارہے تھے۔
لیکن مفاہمت کی سیاست نے ہی ن لیگ کو ٹوٹنے سے بچایا ہے۔ شہباز شریف کی حکمت عملی نے ن لیگ کو بچایا ہے۔آج ن لیگ کی تمام مرکزی قیادت جس میں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، رانا تنویر سمیت سب مزاحمت کی سیاست سے مفاہمت کی سیاست پر قائل ہو چکے ہیں۔ پارٹی کے اندر اس ضمن میں مکمل اتفاق رائے ہے۔ حال ہی میں شاہد خاقان عباسی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ عوام نے خلائی مخلوق کے بیانیہ کو قبول نہیں کیا۔ اس لیے اس کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح باقی ساری قیادت بھی اب عمران حکومت پر تو تنقید کرتی ہے لیکن مزاحمت کی سیاست کی بات نہیں کرتی ہے۔
ایک وقت تھا جب مسلم لیگ (ن) کی ساری مرکزی قیادت پابند سلاسل تھی۔ لیکن آج حمزہ شہباز کے سوا سب آزاد ہیں۔یہ آزادیاں ایسے ہی نہیں آئی ہیں۔ ورنہ ایک وقت تو یہ بھی تھا کہ کیپٹن صفدر کی ایک معمولی مقدمہ میں بھی ضمانت ممکن نہیں ہو رہی تھی۔ سب کو معلوم ہے کہ شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست کی بدولت ہی ان کی آزادی ممکن ہوئی ہے۔ یہ بھی شہباز شریف کی ہی ہمت ہے کہ ساری پارٹی ان کے مفاہمت کی سیاست کی بدولت باہر ہے اور ان کا بیٹا اندر ہے۔ ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ سب اندر ہوتے اور بیٹا باہر ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر شہباز شریف کا مفاہمت کا بیانیہ اتنا کامیاب ہے تو وہ مسائل میں کیوں گھرے ہوئے ہیں۔ ان پر ہر وقت احتساب کی چڑھائی کیوں رہتی ہے۔
ان پر ریفرنس پر ریفرنس کیوں دائر ہو رہے ہیں۔ ان کے خاندان کو پھنسانے کی کیوں کوشش ہو رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کو بخوبی اندازہ ہے کہ شہباز شریف ہی مسلم لیگ (ن) میں گیم چینجز ہیں۔ ورنہ اگر شہباز شریف نہ ہوتے تو آج مسلم لیگ (ن) اس طرح حکومت مخالف سیاست نہ کر رہی ہوتی۔ شہباز شریف نے سب کو اور مسلم لیگ (ن) کو بچا لیا ہے۔ اس لیے عمران خان اور ان کی ٹیم شہباز شریف کو اپنے لیے نمبر ون خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس وقت مریم نواز اور نواز شریف عمران خان اور ان کی ٹیم کے لیے وہ خطرہ نہیں ہیں جو شہباز شریف ہیں۔ا س لیے ان کی ساری توجہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کو مائنس کرنے پر مرکوز ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پوری حکومت کو شہباز شریف فوبیا ہو چکا ہے۔
شہباز شریف حکمت سے ن لیگ کی کشتی کو بھنور سے نکال کر لائے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ن لیگ اپنی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے ان کو یہ کریڈٹ بھی نہیں دے پا رہی۔ اس کا برملا اظہار بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ بند کمروں میں سب شہباز شریف واہ واہ کرتے ہیں۔ لیکن باہر ایک بھرم قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ شہباز شریف نے کھیل ہی بدل ڈالا ہے۔ جس ن لیگ کے بارے میں یہ بات کی جاتی تھی کہ اس کا اب پاکستان کی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے۔
وہ اب فیٹف کی قانون سازی سمیت سب میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ کل تک جب ن لیگ مزاحمت کی سیاست کر رہی تھی تو آصف زرداری کی لاٹری نکلی ہوئی تھی۔ آج جب ن لیگ نے شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست شروع کر دی ہے تو ان کی لاٹری بھی ختم ہو گئی ہے۔ اور سب کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ دوبارہ گیم میں واپس آرہی ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز اس بدلتے موسم کو انجوائے کر رہے اور شہباز شریف کو کام جاری رکھنے کا کہہ رہے ہیں۔
مریم نواز کی ایک پریس کانفرنس کو مزاحمت کی سیاست کی طرف واپسی کا سفر قرار دیاجا رہا ہے۔ حالانکہ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میری رائے میں شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست کے جس قدر ثمرات گزشتہ دو سال میں ن لیگ نے سمیٹے ہیں، ان کے بعد ن لیگ کا ابھی مفاہمت کی سیاست چھوڑنے کا کوئی امکان نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست کے لیے ایک مکمل اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے۔ اور اب کوشش بھی کی جائے تو ن لیگ کو شہباز شریف کے مفاہمت کے بیانیہ سے ہٹانا ناممکن ہے۔
میری رائے میں مریم نواز اور شہباز شریف مفاہمت کی سیاست پر ایک ہی رائے رکھتے ہیں بلکہ نواز شریف بھی مفاہمت کی سیاست پر شہباز شریف کے ساتھ متفق ہو چکے ہیں۔
کیا نواز شریف اور مریم نواز کی خاموشی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وہ دونوں اب مفاہمت کی سیاست کرنے پر صرف متفق ہی نہیں بلکہ دونوں مفاہمت کی ہی سیاست کر رہے ہیں۔ جب مریم نواز یہ کہتی ہیں کہ ہمیں قیادت کی لاشیں نہیں چاہیے بلکہ زندہ قیادت چاہیے تو دراصل وہ مفاہمت کی سیاست کا ہی اعلان کر رہی ہوتی ہیں۔ کیونکہ زندگی مفاہمت سے ملتی ہے مزاحمت میں تو تختہ دار ہی ملتا ہے۔ جب میاں نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک جانے پر راضی ہوتے ہیں تو وہ مفاہمت کی سیاست پر راضی ہوتے ہیں۔ جب مریم نواز کئی کئی ماہ خاموشی اختیار کرتی ہیں تو دراصل وہ مفاہمت کی سیاست کے اصولوں کی پاسداری کر رہی ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ تاثر کہ شہباز شریف کے مفاہمت کے بیانیہ کو نواز شریف اور مریم نواز کی حمایت حا صل نہیں ہے درست نہیں ہے۔
مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر ن لیگ کے کارکنوں کے احتجاج اور مریم نواز کی پریس کانفرنس کو مزاحمت کی سیاست قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ بھی مفاہمت کی سیاست کے ثمرات ہیں۔ ورنہ کوئی سوچ سکتا ہے کہ مریم نواز کی نیب کی پیشی کے موقع پر اس طرح کارکن اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ کیا مزاحمت کے دنوں میں ایسا ممکن تھا کہ مریم نوازپریس کانفرنس کرتیں اور وہ اس طرح سارے میڈیا پر نشر بھی ہو جاتی۔ سب جانتے ہیں کہ مزاحمت کے دنوں میں مریم نواز نے بڑے بڑے جلسہ کیے تھے لیکن وہ میڈیا پر نہیں آسکے تھے۔ اس لیے نیب کی پیشی پر جو بھی ہوا ہے وہ بھی شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست کے ثمرات ہیں۔
ورنہ مریم نواز کا گھر سے نکلنا بھی ممکن نہیں تھا۔ کارکن بھی نیب پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار ہو جاتے۔ نیب کی پیشی کے بعد مریم نواز کی دوبارہ خاموشی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ مفاہمت کی سیاست پر قائم رہنا چاہتی ہیں۔ اگر آج ن لیگ کی پارلیمانی عددی طاقت قائم ہے تو یہ بھی مفاہمت کی سیاست ہی کی بدولت ہے ورنہ اگر مزاحمت کی سیاست کو برقرار رکھا جاتا تو ن لیگ کو توڑنے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ فارورڈ بلاک بننے جارہے تھے۔
لیکن مفاہمت کی سیاست نے ہی ن لیگ کو ٹوٹنے سے بچایا ہے۔ شہباز شریف کی حکمت عملی نے ن لیگ کو بچایا ہے۔آج ن لیگ کی تمام مرکزی قیادت جس میں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، رانا تنویر سمیت سب مزاحمت کی سیاست سے مفاہمت کی سیاست پر قائل ہو چکے ہیں۔ پارٹی کے اندر اس ضمن میں مکمل اتفاق رائے ہے۔ حال ہی میں شاہد خاقان عباسی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ عوام نے خلائی مخلوق کے بیانیہ کو قبول نہیں کیا۔ اس لیے اس کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح باقی ساری قیادت بھی اب عمران حکومت پر تو تنقید کرتی ہے لیکن مزاحمت کی سیاست کی بات نہیں کرتی ہے۔
ایک وقت تھا جب مسلم لیگ (ن) کی ساری مرکزی قیادت پابند سلاسل تھی۔ لیکن آج حمزہ شہباز کے سوا سب آزاد ہیں۔یہ آزادیاں ایسے ہی نہیں آئی ہیں۔ ورنہ ایک وقت تو یہ بھی تھا کہ کیپٹن صفدر کی ایک معمولی مقدمہ میں بھی ضمانت ممکن نہیں ہو رہی تھی۔ سب کو معلوم ہے کہ شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست کی بدولت ہی ان کی آزادی ممکن ہوئی ہے۔ یہ بھی شہباز شریف کی ہی ہمت ہے کہ ساری پارٹی ان کے مفاہمت کی سیاست کی بدولت باہر ہے اور ان کا بیٹا اندر ہے۔ ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ سب اندر ہوتے اور بیٹا باہر ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر شہباز شریف کا مفاہمت کا بیانیہ اتنا کامیاب ہے تو وہ مسائل میں کیوں گھرے ہوئے ہیں۔ ان پر ہر وقت احتساب کی چڑھائی کیوں رہتی ہے۔
ان پر ریفرنس پر ریفرنس کیوں دائر ہو رہے ہیں۔ ان کے خاندان کو پھنسانے کی کیوں کوشش ہو رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کو بخوبی اندازہ ہے کہ شہباز شریف ہی مسلم لیگ (ن) میں گیم چینجز ہیں۔ ورنہ اگر شہباز شریف نہ ہوتے تو آج مسلم لیگ (ن) اس طرح حکومت مخالف سیاست نہ کر رہی ہوتی۔ شہباز شریف نے سب کو اور مسلم لیگ (ن) کو بچا لیا ہے۔ اس لیے عمران خان اور ان کی ٹیم شہباز شریف کو اپنے لیے نمبر ون خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس وقت مریم نواز اور نواز شریف عمران خان اور ان کی ٹیم کے لیے وہ خطرہ نہیں ہیں جو شہباز شریف ہیں۔ا س لیے ان کی ساری توجہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کو مائنس کرنے پر مرکوز ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پوری حکومت کو شہباز شریف فوبیا ہو چکا ہے۔
شہباز شریف حکمت سے ن لیگ کی کشتی کو بھنور سے نکال کر لائے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ن لیگ اپنی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے ان کو یہ کریڈٹ بھی نہیں دے پا رہی۔ اس کا برملا اظہار بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ بند کمروں میں سب شہباز شریف واہ واہ کرتے ہیں۔ لیکن باہر ایک بھرم قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ شہباز شریف نے کھیل ہی بدل ڈالا ہے۔ جس ن لیگ کے بارے میں یہ بات کی جاتی تھی کہ اس کا اب پاکستان کی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے۔
وہ اب فیٹف کی قانون سازی سمیت سب میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ کل تک جب ن لیگ مزاحمت کی سیاست کر رہی تھی تو آصف زرداری کی لاٹری نکلی ہوئی تھی۔ آج جب ن لیگ نے شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست شروع کر دی ہے تو ان کی لاٹری بھی ختم ہو گئی ہے۔ اور سب کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ دوبارہ گیم میں واپس آرہی ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز اس بدلتے موسم کو انجوائے کر رہے اور شہباز شریف کو کام جاری رکھنے کا کہہ رہے ہیں۔