جبر کی کہانی کبھی نہیں مرتی

آج جو لوگ پاکستان میں طاری موت جیسی خاموشی پر مطمئن ہیں ان سے زیادہ نا سمجھی کی مخلوق دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتی۔

aftabkhanzada2@yahoo.com

PESHAWAR:
پراگ میں پیتل سے بنے مجسمے ایک ترتیب میں رکھے گئے ہیں نڈھال ، سر تسلیم خم ، پریشان حال اور شکستہ بدن، پہلا مجسمہ صحیح سالم مگر آگے یہ ہی شخص کٹتے کٹتے معدوم ہوجا تاہے آخر میں اس شخص کا صرف پائوں رہ جاتا ہے ان مجسموں کے خالق اوبرام زوبک ہیں یہ مجسمے ماضی میں چیک ریپبلک میں ہونے والی جبر کی کہانی سنا رہے ہیں۔ دو لاکھ سے زیادہ افراد گرفتار ہوئے اور 4500 جیلوں میں دم توڑگئے تقریبا ایک لاکھ 70 ہزار افراد کو جلا وطن کیاگیا 248افراد کو پھانسیاں اور 327کو فرار ہونے کی کوشش کے دوران گولیاں مار ی گئیں۔

جبر کی کہانی نہ گونگی ہوتی ہے اور نہ ہی لنگڑی وہ نہ صرف بولتی رہتی ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ چلتی بھی رہتی ہے وہ کہانی چاہے قبل از مسیح کی ہویاماضی قریب کی یاموجودہ دور کی ،وہ اپنا سفر برابر جاری رہتی ہے اور اپنی کہانی سناتی رہتی ہے۔ اس کو روک دینا انسان کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ اس کہانی کے کردار کبھی نہیں مرتے ہیں وہ برابر اپنی کہانی سناتے رہتے ہیں برابر روتے رہتے ہیں برابر چلاتے اور چیختے رہتے ہیں اس لیے کہ ان کی تکلیف اور اذیت ختم ہی نہیں ہو پاتی ہے ۔

یہ سفر اس وقت تک اسی طرح سے جاری رہے گا جب تک وقت مر نہیں جائے گا اور جب وقت کو موت آجائے گی تب وہ کردار خدا کے سامنے اپنی اپنی کہانی سنائیں گے، خدا کے سامنے روئیں گے اور پھر خدا جو فیصلہ سنائے گا وہ سب جاننے والے جانتے ہیں، جبر کے ہاتھوں مر نے والوں کی روحیں کبھی سکون نہیں پاتی ہیں وہ اس جگہ منڈلاتی رہتی ہیں اس جگہ بھٹکتی پھرتی ہیں، اسی لیے ان جگہوں پر ایک ایسی وحشت اور دہشت طاری ہوتی ہے کہ انسان کا دل وہاں سے دور بھا گ جانے کو کرتاہے ۔

آئیں! ہم اپنی جبر کی کہانی سنتے ہیں ،ہمارے سماج میں جبر سے مرنے والوں کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہے وہ سب انسان بے وقت ، بے موت ماردیے گئے ۔ بغیر کسی جرم اور گناہ کے وہ موت کی سزا کے حق دار قرار دیے گئے ۔ موت کی یہ کہانی آج بھی ہمار ے سماج کے شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں باربار دہرائی جارہی ہے۔

ہر محلے ، ہر گلی کوچے میں معصوم ، بے گنا ہ ، بے سبب ، بغیر کسی جرم کے ، بغیر کسی بات پر ، بغیر کسی قصو ر کے موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں کوئی بھوک اور غربت کی وجہ سے کوئی بے روزگاری کی وجہ سے کوئی بیماری کے سبب ،کوئی روٹی کی وجہ سے کوئی انتہا پسندی، عدم مساوات کے ہاتھوں ، کوئی ظلم اور ناانصافی کے ہاتھوں قبر میں سلایا جارہاہے اور موت باٹنے والے یہ سو چے ، سمجھے اور جانے بغیر کہ انھیں اپنی ایک ایک زیادتی ، انصافی ، ظلم و ستم کا حساب دنیامیں ہی دینا ہوگا۔


مسلسل موت تقسیم کرنے میں مگن ہیں جب خدا کسی کی سوچے اور سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلیتاہے تو یقین جانو وہ انسان عذاب میں مبتلا کردیا گیا ہے ایسے عذاب میں جو مرنے کے بعد بھی جاری رہے گا۔ فرعو ن اور قارون کو مرے صدیاں بیت چکی ہیں ہلاکو ، چنگیز خان ، ہٹلر ، مسولینی ، شاہ فرانس کو مرے سالوں ہو چکے ہیں لیکن وہ آج بھی عذاب کے قید میں ہیں ۔

یاد رکھیں جب کسی کانام سن کر کسی انسان کو کراہت آجائے انسان بے اختیار کسی کو بددعا کرنے لگ جائے، اس کے دل سے آہ و بکا کی چیخیں نکلناشروع ہوجائیں تو یقین کرلو اس پر عذاب جاری ہے ، میرے ملک کے بااختیاروں ، طاقتوروں ، سر مایہ داروں ،جاگیر داروں ، امرا تمہیں دیکھ کر یا تمہار ا ذکر سن کر ملک کے ناداروں ، بے کسوں ، بے بسوں ، غریبوں ، بھوکوں ، بیماروں کے دل سے تمہارے لیے بددعائیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں آہ و بکائوں کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے ، ہاتھ خود بخود آسمان کی طرف اٹھ جاتے ہیں ۔

مدر ٹریسا نے ایک بار کہا تھا '' ان بیس برسوں میں لوگوں کے درمیان رہ کر کام کرنے کے دوران میں مجھے اس بات کا زیادہ احساس ہوا ہے کہ کسی انسان کا غیر ضروری ہوجانا ایسی خراب بیماری کے برابر ہے انسان کو جس کا کبھی تجربہ بھی نہیںہوسکتا ۔ انھیں یقین ہے کہ آج کل کی خراب ترین بیماری کو ڑھ یا تپ دق نہیں بلکہ یہ احساس ہے کہ اس کی اب کسی کو ضرورت نہیں رہی جس کو ہر شخص بے یارو مدد گا ر چھوڑ دے '' 1969کو نوبیل امن حاصل کرنے والے ادارے International Labor Organization کے منشور میں کہا گیا ہے ۔

'' اگر آپ امن کے خواہش مند ہیں تو انصاف کا شت کیجئے ،مگر ساتھ ہی ساتھ ایسے کھیت بھی تیار کیجئے جن میں زیادہ روٹی پیدا کی جاسکے ورنہ امن باقی نہیں رہے گا ''یہ اعتراف کہ بھوک اور سماجی بد نظمی ایک دوسرے سے منسلک ہیں نئی بات نہیں عہد نامہ عتیق میں اس کا ثبوت موجود ہے '' او ر یہ سب تو گرز جائے گا مگر جب وہ بھوکے ہوں گے تو وہ خود کو خراب کریں اور اپنے بادشاہ کو بددعا ئیں دیں گے ''۔

FAO کے پہلے ڈائریکٹر جنرل اور نوبیل انعام یافتہ لارڈ جان بائیڈآدر کے کے مشہور الفاظ تھے '' امن بھوکے سنگم پر تعمیر نہیں کیا جاسکتا '' ۔ جس ماحول میں مفلسی اور محرومیوں کاراج ہو وہ امن کے لیے کبھی سازگار نہیں ہوگا جہاں تعلیم کی اور آگاہی کی کمی وہ وہاں امن فروغ نہیں پاتا ، جبر و تشدد ، ناانصافی اور استحصال امن کے لیے زہر قاتل ہوتے ہیں ، مفلسی کا دکھ امیر کو گھٹا تا ہے اور مفلسی کی نجات امیر کو بڑھاتی ہے ۔

اسی لیے آج جو لوگ پاکستان میں طاری موت جیسی خاموشی پر مطمئن ہیں ان سے زیادہ نا سمجھی کی مخلوق دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر جب کروڑوں انسانوں میں یہ احساس اپنی جگہ بنالے کہ وہ سب کے سب غیر ضروری ہیں تو ایسے انسان چلتی پھرتی بارودی سرنگیں بن جاتے ہیں جو کہیں بھی پھٹ سکتی ہیں۔
Load Next Story