ہجرتوں کی سرزمیں
اب سندھ کے حقیقی وارثوں کو آپس میں لڑانے کی سازشوں اور بہکائوں کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
وفاق اور سندھ چاہے ایک صفحے پر نہیں آئے مگر کم از کم ساتھ بیٹھتے بیٹھتے اس بات پر راضی نامہ تو ہوا کہ کراچی کو ایک رابطہ کمیٹی دی جائے جو اس شہر کے ترقیاتی پروگراموں کا بغور جائزہ لے اور ان کے عمل در آمد کو یقینی بھی بنائے۔
بر صغیر میں اگر شہروں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو دلی پر بھی نشیب و فراز آئے، مگر بدنصیبی کے زمرے میں، پورے برصغیر میںکراچی جیسا شہر کوئی نہیں۔ کراچی والوں کو شاید اس کی خبر بھی نہیں ۔فیض کہتے ہیں:
ہم سادہ ہی ایسے تھے، کہ یونہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی
اب یہ رابطہ کمیٹی ہے یا پھر کچھ اور، کچھ خبر نہیں تاہم اس شہر کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو اس کے اپنے تھے، وہ اغیار ہوئے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا ہے۔ 1960 کی دہائی میں میرے آئیڈیل چی گویرا نے بھی اس شہر میں قدم رکھے تھے ۔ کیا نہیں تھا اس شہر میں! وہ رونقیں، وہ رو شنیاںاگر امن کا وہ تسلسل نہ ٹوٹتا تو کیا ہوتی بمبئی کی فلم انڈسٹری، جوکراچی کی ہوتی۔
بمبئی میں وہ عظیم الشان جناح کا گھر، ویسا ہی ہے جیسا تھا، جناح کی بیٹی دینا، دلی سرکار کے آگے التجائیں کرتی رہ گئی، وہ گھر اس کا ہے،مگر اس کی ایک نہ سنی گئی۔ دینا اپنے والد کے ساتھ کراچی نہیں آئی تھیں، آزادی کے بعد وہ وہیں رہیں، اپنے نانا کے پاس۔ وہ گھرآپ بے شک کسی کو نہ دیں، اس گھر کو کم از کم میوزیم بنا دیں جس طرح کراچی میں جناح کے تمام گھر میوزیم بنا دیے گئے کہ ان کا کوئی وارث نہ تھا۔
ہم بھی بڑے ہی عجیب لوگ تھے! جناح کی گیارہ اگست والی تقریر غائب کردی گئی۔ان کی بہن فاطمہ جناح بالاخر غداری کا داغ لے کر ایوب خان کے اقتدار میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ فاطمہ ہو یا جناح یہ دو نام ہیں جو اس شہر کے سب سے معتبر نام ہیں۔ ستر اور اسی کی دہائی میں مزار قائد کا جو بھرم تھا وہ بھی بکھر کر رہ گیا۔ پھر یہ بھی لازم ٹھہرا کہ اس شہر کے سب رخ عیاں ہوئے کہ اس شہر کا کوئی وارث نہیں۔وہ وارث جو 1947 میں لاہور کے وارثوں سے مختلف تھے۔ وہ دراصل دو پنجاب کے تھے جو آپس میں الجھ گئے۔
1947 سے پہلے بنگال میں بھی دو بنگال تھے جو آپس میں الجھ گئے۔ بے بہا لہو بہا جس کی شاید کوئی مثال نہیں، مگر جو وہاں سے یہاں آئے ان کو ان بھیانک صفوں سے گزر نا نہیں پڑا، جس طرح لاہور ہجرت کرنے والوں اور لاہور سے جانے والوں کو گزرنا پڑا۔ یقینا ہجرت آسان نہ تھی مگرمیرے سندھ میں نفرتوں کی دیواریں اتنی اونچی نہ تھیں۔ میرے اجداد کی صدیوں پر مشتمل مزدوریاں تھیں۔
یہ تو سندھیوں کے ڈی این اے میں ہے کہ مذہب ہر ایک کا اپنا اپنا۔ اہنسا، رواداری اور صوفی منش ان کا لاشعور ہے۔یوں ہجرت کر کے آنیوالوں کے لیے جگہ تو بہرحال بنانی تھی۔جو سندھ میں آئے ان کا والہانہ استقبال کیا گیا، پلکوں پر بٹھایا گیا اور یہ روایت تھی جو ان کے اجداد کی زبانی سنی گئی جب ان کی ٹرینیں لاہور کے جنکشن پر رکیں تو ان کو یہ کہا گیا کہ یہ پاکستان نہیں، پا کستان آگے ہے،جب وہ سندھ کی سر زمین پر پہنچے تو ان کو دلوں میں جگہ دی گئی کہ یہی پاکستان ہے۔
ایچ ٹی سورلے اپنی کتاب جوسندھ کی تاریخ پر ایک مستند کتاب ہے۔ یہ کتاب آکسفرڈ یونیورسٹی میں ان کے پی ایچ ڈی کا تھیسز تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب دلی کمزور ہوا، نادر شاہ کے حملے کے بعد، تو کلہوڑو خاندان جو سندھ کے گورنر تھے انھوں نے آزاد سندھ کا اعلان کردیا۔ یہ وہ کلہوڑو خاندان ہے جن کو سندھ کی حکومت دلی سے اس لیے دی گئی تھی کہ انھوں نے شاہ عنایت صوفی کی دلی کے خلاف بغاوت کو کچلا تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ان کی بادشاہت کے اوائلی ادوار میں سندھ کی آبادی بہت کم تھی، تو یہ لازم ٹھہرا کہ بلوچستان کے لوگوں کو اچھے مواقع کی شرائط پر سندھ میں سرمایہ کاری کے لیے بلایا جائے، ایچ ٹی سورلے اپنی کتاب میںلکھتے ہیں کہ بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر جب یہ لوگ آئے تو ان کا استقبال کرنے کے لیے شاہی خاندان خود سرحد پر پہنچا۔ سب لوگ حیران رہ گئے کیونکہ وہ کوئی بڑے سرمایہ کار نہ تھے۔وہ لوگ کچھ پیدل، کچھ خچروں پر اور کچھ گھوڑوں پر سوار تھے۔
وہ قبائلی لوگ تھے اور وہ ایک ایسے دیس کے باسی بننے جارہے تھے جو قبائلی نہ تھا بلکہ ایک تہذیب یافتہ خطہ تھا۔ شاہی خاندان جو کلہوڑو تھے وہ بھی اصل میں یہاں کے باشندے نہ تھے وہ بغداد کے عباسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور جب بغداد کو چنگیز خان نے اجاڑا تو وہاں سے بھی لوگوں نے ہجرت کی جس میں یہ لوگ بھی شامل تھے جو سندھ میں آکر آباد ہوئے۔
بلوچوں کے بہت سے قبیلے یہاں آکر آباد ہوئے،جس میں گوپانگ، نظامانی، تالپر، چانگ قبیلے اور بہت سے شامل تھے۔ انھیں زمانوں میں بہت سے بلوچ عمان بھی گئے۔محبتوں کی روایات کچھ ایسی تھیں کہ خان آف قلات نے گوادر عمان کو تحفے میں دے دیا اور جب عمان کے شاہی خاندان میں ٹکرائو شدید ہوئے تو خود بادشاہ سلامت نے گوادر میں پناہ لی اور یہیں ان کا انتقال ہوا۔ عمان کی فوج اب بھی انھیں بلوچوں پر مشتمل ہے۔
کلہوڑو خاندان کمزور ہوا تو تالپر حکمران بنے۔ میروں اور تالپروں میں آ خری جنگ 1793 میں ہوئی وہ ہالانی میں ہوئی جو میرا گائوں ہے۔ مجھے نہیں پتا اور میں اپنے والد سے بھی اختلاف رکھتا ہوں مگر ان کے تھیسز کے مطابق ہم سندھ میں محمد بن قاسم کے ساتھ آئے تھے جب کہ میرے اپنے کچھ کچے شواہد ہیں جس کے مطابق ہم داراشکوہ کے ساتھ ہجرت کر کے سندھ آئے تھے۔ وہ داراشکوہ جو دلی کے تخت کا وارث تھا جس کو اورنگزیب کی فوج نے سیہون سے گرفتار کیا تھا۔ یہ ہجرتیں، اغیار کا اپنا ہونا، اپنوں کا اغیار ہونا، راجا داہر کا کشمیر سے آنا اور سندھ کو فتح کرنا۔
اگر اس تسلسل کو دیکھا جائے تو یہاں کوئی وہ سندھی نہیں ہے جس کا تعلق موئن جو دڑو کی تہذیب سے ہو۔ وہ لوگ جن کا تعلق موئن جو دڑو سے تھا وہ یہاں سے ہجرت کر چکے اور آج وہ ہندوستان میںتیلگوں، تامل اور بنگالی وغیرہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سندھ میں میگھوار، کولہی، ماچھی وغیرہ بھی کہیں اسی تسلسل کا حصہ ہیں۔ آخری ہجرت جو اب تک سندھ میں سب سے بڑی ہوئی وہ ہندوستان سے پاکستان اور سندھ کی طرف ہوئی۔ یہاں سے بھی ہجرت کروائی گئی مگر وہ زبردستی کروائی گئی تھی۔ جو ہوا سو ہوا۔ اپنے اغیار اور اغیار اپنے، یہ سلسلہ اب تھمنا چاہیے۔ وہ کراچی کو کبھی بھی علیحدہ نہیں کرینگے بس یونہی انکو بہلاتے رہیں گے، ایک ایسا لولی پاپ جو صرف لولی پاپ ہی رہے گا۔
یہ سندھ ہجرتوں کی سر زمین ہے۔ ہزاروں سال پرانی تاریخ کا وارث یہ خطہ اب ایک ایسے ملک کا حصہ ہے جس کی تاریخ 74 سالہ ضرور ہے مگر یہ تاریخ برصغیر کے مسلمانوں کی پانچ سو سالہ تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔
یہ قصہ رابطہ کمیٹیوں سے بڑا ہے۔ان تمام مسائل کا حل بھی یہیں موجود ہے،مگر اب سندھ کے حقیقی وارثوں کو آپس میں لڑانے کی سازشوں اور بہکائوں کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
بر صغیر میں اگر شہروں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو دلی پر بھی نشیب و فراز آئے، مگر بدنصیبی کے زمرے میں، پورے برصغیر میںکراچی جیسا شہر کوئی نہیں۔ کراچی والوں کو شاید اس کی خبر بھی نہیں ۔فیض کہتے ہیں:
ہم سادہ ہی ایسے تھے، کہ یونہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی
اب یہ رابطہ کمیٹی ہے یا پھر کچھ اور، کچھ خبر نہیں تاہم اس شہر کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو اس کے اپنے تھے، وہ اغیار ہوئے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا ہے۔ 1960 کی دہائی میں میرے آئیڈیل چی گویرا نے بھی اس شہر میں قدم رکھے تھے ۔ کیا نہیں تھا اس شہر میں! وہ رونقیں، وہ رو شنیاںاگر امن کا وہ تسلسل نہ ٹوٹتا تو کیا ہوتی بمبئی کی فلم انڈسٹری، جوکراچی کی ہوتی۔
بمبئی میں وہ عظیم الشان جناح کا گھر، ویسا ہی ہے جیسا تھا، جناح کی بیٹی دینا، دلی سرکار کے آگے التجائیں کرتی رہ گئی، وہ گھر اس کا ہے،مگر اس کی ایک نہ سنی گئی۔ دینا اپنے والد کے ساتھ کراچی نہیں آئی تھیں، آزادی کے بعد وہ وہیں رہیں، اپنے نانا کے پاس۔ وہ گھرآپ بے شک کسی کو نہ دیں، اس گھر کو کم از کم میوزیم بنا دیں جس طرح کراچی میں جناح کے تمام گھر میوزیم بنا دیے گئے کہ ان کا کوئی وارث نہ تھا۔
ہم بھی بڑے ہی عجیب لوگ تھے! جناح کی گیارہ اگست والی تقریر غائب کردی گئی۔ان کی بہن فاطمہ جناح بالاخر غداری کا داغ لے کر ایوب خان کے اقتدار میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ فاطمہ ہو یا جناح یہ دو نام ہیں جو اس شہر کے سب سے معتبر نام ہیں۔ ستر اور اسی کی دہائی میں مزار قائد کا جو بھرم تھا وہ بھی بکھر کر رہ گیا۔ پھر یہ بھی لازم ٹھہرا کہ اس شہر کے سب رخ عیاں ہوئے کہ اس شہر کا کوئی وارث نہیں۔وہ وارث جو 1947 میں لاہور کے وارثوں سے مختلف تھے۔ وہ دراصل دو پنجاب کے تھے جو آپس میں الجھ گئے۔
1947 سے پہلے بنگال میں بھی دو بنگال تھے جو آپس میں الجھ گئے۔ بے بہا لہو بہا جس کی شاید کوئی مثال نہیں، مگر جو وہاں سے یہاں آئے ان کو ان بھیانک صفوں سے گزر نا نہیں پڑا، جس طرح لاہور ہجرت کرنے والوں اور لاہور سے جانے والوں کو گزرنا پڑا۔ یقینا ہجرت آسان نہ تھی مگرمیرے سندھ میں نفرتوں کی دیواریں اتنی اونچی نہ تھیں۔ میرے اجداد کی صدیوں پر مشتمل مزدوریاں تھیں۔
یہ تو سندھیوں کے ڈی این اے میں ہے کہ مذہب ہر ایک کا اپنا اپنا۔ اہنسا، رواداری اور صوفی منش ان کا لاشعور ہے۔یوں ہجرت کر کے آنیوالوں کے لیے جگہ تو بہرحال بنانی تھی۔جو سندھ میں آئے ان کا والہانہ استقبال کیا گیا، پلکوں پر بٹھایا گیا اور یہ روایت تھی جو ان کے اجداد کی زبانی سنی گئی جب ان کی ٹرینیں لاہور کے جنکشن پر رکیں تو ان کو یہ کہا گیا کہ یہ پاکستان نہیں، پا کستان آگے ہے،جب وہ سندھ کی سر زمین پر پہنچے تو ان کو دلوں میں جگہ دی گئی کہ یہی پاکستان ہے۔
ایچ ٹی سورلے اپنی کتاب جوسندھ کی تاریخ پر ایک مستند کتاب ہے۔ یہ کتاب آکسفرڈ یونیورسٹی میں ان کے پی ایچ ڈی کا تھیسز تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب دلی کمزور ہوا، نادر شاہ کے حملے کے بعد، تو کلہوڑو خاندان جو سندھ کے گورنر تھے انھوں نے آزاد سندھ کا اعلان کردیا۔ یہ وہ کلہوڑو خاندان ہے جن کو سندھ کی حکومت دلی سے اس لیے دی گئی تھی کہ انھوں نے شاہ عنایت صوفی کی دلی کے خلاف بغاوت کو کچلا تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ان کی بادشاہت کے اوائلی ادوار میں سندھ کی آبادی بہت کم تھی، تو یہ لازم ٹھہرا کہ بلوچستان کے لوگوں کو اچھے مواقع کی شرائط پر سندھ میں سرمایہ کاری کے لیے بلایا جائے، ایچ ٹی سورلے اپنی کتاب میںلکھتے ہیں کہ بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر جب یہ لوگ آئے تو ان کا استقبال کرنے کے لیے شاہی خاندان خود سرحد پر پہنچا۔ سب لوگ حیران رہ گئے کیونکہ وہ کوئی بڑے سرمایہ کار نہ تھے۔وہ لوگ کچھ پیدل، کچھ خچروں پر اور کچھ گھوڑوں پر سوار تھے۔
وہ قبائلی لوگ تھے اور وہ ایک ایسے دیس کے باسی بننے جارہے تھے جو قبائلی نہ تھا بلکہ ایک تہذیب یافتہ خطہ تھا۔ شاہی خاندان جو کلہوڑو تھے وہ بھی اصل میں یہاں کے باشندے نہ تھے وہ بغداد کے عباسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور جب بغداد کو چنگیز خان نے اجاڑا تو وہاں سے بھی لوگوں نے ہجرت کی جس میں یہ لوگ بھی شامل تھے جو سندھ میں آکر آباد ہوئے۔
بلوچوں کے بہت سے قبیلے یہاں آکر آباد ہوئے،جس میں گوپانگ، نظامانی، تالپر، چانگ قبیلے اور بہت سے شامل تھے۔ انھیں زمانوں میں بہت سے بلوچ عمان بھی گئے۔محبتوں کی روایات کچھ ایسی تھیں کہ خان آف قلات نے گوادر عمان کو تحفے میں دے دیا اور جب عمان کے شاہی خاندان میں ٹکرائو شدید ہوئے تو خود بادشاہ سلامت نے گوادر میں پناہ لی اور یہیں ان کا انتقال ہوا۔ عمان کی فوج اب بھی انھیں بلوچوں پر مشتمل ہے۔
کلہوڑو خاندان کمزور ہوا تو تالپر حکمران بنے۔ میروں اور تالپروں میں آ خری جنگ 1793 میں ہوئی وہ ہالانی میں ہوئی جو میرا گائوں ہے۔ مجھے نہیں پتا اور میں اپنے والد سے بھی اختلاف رکھتا ہوں مگر ان کے تھیسز کے مطابق ہم سندھ میں محمد بن قاسم کے ساتھ آئے تھے جب کہ میرے اپنے کچھ کچے شواہد ہیں جس کے مطابق ہم داراشکوہ کے ساتھ ہجرت کر کے سندھ آئے تھے۔ وہ داراشکوہ جو دلی کے تخت کا وارث تھا جس کو اورنگزیب کی فوج نے سیہون سے گرفتار کیا تھا۔ یہ ہجرتیں، اغیار کا اپنا ہونا، اپنوں کا اغیار ہونا، راجا داہر کا کشمیر سے آنا اور سندھ کو فتح کرنا۔
اگر اس تسلسل کو دیکھا جائے تو یہاں کوئی وہ سندھی نہیں ہے جس کا تعلق موئن جو دڑو کی تہذیب سے ہو۔ وہ لوگ جن کا تعلق موئن جو دڑو سے تھا وہ یہاں سے ہجرت کر چکے اور آج وہ ہندوستان میںتیلگوں، تامل اور بنگالی وغیرہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سندھ میں میگھوار، کولہی، ماچھی وغیرہ بھی کہیں اسی تسلسل کا حصہ ہیں۔ آخری ہجرت جو اب تک سندھ میں سب سے بڑی ہوئی وہ ہندوستان سے پاکستان اور سندھ کی طرف ہوئی۔ یہاں سے بھی ہجرت کروائی گئی مگر وہ زبردستی کروائی گئی تھی۔ جو ہوا سو ہوا۔ اپنے اغیار اور اغیار اپنے، یہ سلسلہ اب تھمنا چاہیے۔ وہ کراچی کو کبھی بھی علیحدہ نہیں کرینگے بس یونہی انکو بہلاتے رہیں گے، ایک ایسا لولی پاپ جو صرف لولی پاپ ہی رہے گا۔
یہ سندھ ہجرتوں کی سر زمین ہے۔ ہزاروں سال پرانی تاریخ کا وارث یہ خطہ اب ایک ایسے ملک کا حصہ ہے جس کی تاریخ 74 سالہ ضرور ہے مگر یہ تاریخ برصغیر کے مسلمانوں کی پانچ سو سالہ تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔
یہ قصہ رابطہ کمیٹیوں سے بڑا ہے۔ان تمام مسائل کا حل بھی یہیں موجود ہے،مگر اب سندھ کے حقیقی وارثوں کو آپس میں لڑانے کی سازشوں اور بہکائوں کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔