پسپائی
اگر کسی سے پوچھا جائے کیا پاکستان میں دھاندلی سے پاک الیکشن ہونا ممکن ہیں توکانوں کو ہاتھ لگا کرکہیں گے ’’ناممکن‘
NEW DELHI:
اگر کسی سے پوچھا جائے کیا پاکستان میں دھاندلی سے پاک الیکشن ہونا ممکن ہیں تو جنھوںنے گزشتہ کئی قسم کے الیکشن ہوتے دیکھے ہیں وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر کہیں گے ''ناممکن'' لیکن یہاں 29 دسمبر کو لاہور جمخانہ کے پونے پانچ ہزار ممبر ایک سال کے لیے کلب کی انتظامی کمیٹی کے بارہ ممبروں کا چناؤ کریں گے۔ صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک ووٹنگ ہو گی جس کا نتیجہ دس بجے تک سنا دیا جائے گا اور یقین کریں کوئی ووٹر یا امیدوار دھاندلی کی شکایت نہیں کرے گا لیکن آئندہ الیکشنوں یعنی پورے بارہ ماہ تک مالی اور انتظامی بدنظمی پر کھسر پھسر ہوتی رہے گی جس میں آدھا سچ ہو گا اور باقی سچی کچی الزام تراشی ہو گی۔
یہ کلب جس میں جمنازیم' اسپورٹس' لائبریری اور خوراک کی سہولیات ہونے کے علاوہ مختلف اہم موضوعات پر اظہار خیال کے مواقع پیدا کیے جاتے رہتے ہیں طویل تاریخ کی حامل ہے۔ 1878ء میں اس کی بنیاد بحیثیت ''لاہور و میاں میر انسٹی ٹیوٹ'' کے نام سے رکھی گئی جو لارنس گارڈن کے لارنس و منٹگمری ہال میں قائم ہوا۔ ازاں بعد 1906ء میں اسے لاہور جمخانہ کا نام دے دیا گیا۔ موجودہ جگہ پر 1968ء میں نواب مظفر علی قزلباس نے اس کا سنگ بنیاد رکھا جس کی تکمیل 1972ء میں ہوئی۔ قزلباس نو بار کلب کے چیئرمین چنے گئے۔ اس سے قبل عموماً پنجاب ہائی کورٹ کے انگریز جج اس عہدے پر فائز رہتے۔ اس کلب کا قیام سرکاری افسروں کی ان ڈور اور آؤٹ ڈور اسپورٹس اور سوشلائزنگ کے لیے تھا۔ اس میں غیر سرکاری ممبروں کو بعد میں داخلے کے حقوق ملے اسی لیے سرکاری افسر ہی ابتداء میں اس کے کرتا دھرتا ہوا کرتے تھے۔
میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ اس بار حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیورو کریٹس میں سے کسی ایک کا نام بھی اٹھارہ امیدواروں کی فائنل لسٹ میں نہیں ہو گا یعنی تقریباً تیس سال بعد میرے یہ دوست جمخانہ کلب کا الیکشن لڑنے کی بجائے ایسی پسپائی اختیار کریں گے کہ جس کی مثال نہ ملے گی اور اس کی وجوہات پر غور و فکر کرنے والے باتیں کرتے اور معاملے کی تہہ میں اترنے کی کوشش کرتے پائے جائیں گے اور اس سلسلے میں کئی امکانات پر مغز ماری ہو گی۔ کیا اس سال کمیٹی کا الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ پوری بیورو کریسی کی کوئی خاص حکمت عملی ہے یا خوف شکست یا پھر کوئی تیسری وجہ جو منظر عام پر نہیں آ سکی۔ اقتدار سے فرار بیورو کریسی کا مزاج کبھی نہیں رہا۔ ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ اس بار کسی بیورو کریٹ گروپ کے اکثریت حاصل کر کے ان ہی میں سے کسی کے چیئرمین کی پوزیشن حاصل کرنے کے امکانات معدوم تھے، یوں ہمارے بیورو کریٹ دوستوں میں سے جو چند کامیاب ہو جاتے انھیں سویلین چیئرمین کے نیچے کام کرنا پڑتا اور جمخانہ کی با اختیار اور منافع رساں کمیٹی کی بجائے کمزور کمیٹی کی تہمت ملتی۔ ایسا نحیف اختیار کسی بھی بیورو کریٹ کو نامنظور ہوتا۔ ایک تھیوری یہ بھی سرکولیشن میں ہے کہ اس بار جب سویلین گروپ کو اکثریت کی وجہ سے فری ہینڈ ملے گا تو وہ ''خوب بُلے لوٹیں گے'' اور ممکن ہے جی بھر کر بے ضابطگیاں کریں جو بہر طور باعث ذلت ہوں گی۔ یوں آئندہ ٹرم میں ان کی بدنامی و ناکامی مل کر ان کو شکست فاش سے دوچار کرے گی۔
ابھی دو سال قبل ایک طاقتور بیورو کریٹ گروپ جمخانہ الیکشن کے میدان میں اترا تو ملک کے ہر صوبے اور کونے سے رخصت یا میٹنگ کے بہانے افسروں نے الیکشن کے دن کلب پر یلغار کی تھی اور الیکشن جیت لیا تھا۔
بعض لوگ الزام لگاتے ہیں کہ گزشتہ بیس پچیس سال سے وہی چہرے الیکشن کے لیے ہر سال میدان میں کیوں آتے جاتے ہیں۔کیا کلب کو ملکی سیاحت کی دیمک نے نشانے پر لے لیا ہے اور سیاسی و برادری گروپ بندی نے یہاں بھی شبخون مارنے کی رسم اپنانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ کیا کلب جس کا مقصد ممبروں کو صحت مند اسپورٹس اور خوراک کے علاوہ سوشلائزنگ کی سہولت مہیا کرنا ہے تو اب یہ سونے کے انڈے بھی دیتی ہے۔ اس کا جواب یوں تو ہر ایکٹو ممبر کے پاس ہے لیکن اس قسم کا سوالنامہ ضرور تیار ہونا چاہیے جس میں امیدوار سے پوچھا جائے کہ ''بھائی جان میں جب سے کلب کا ممبر بنا ہوں آپ کو الیکشن لڑتے دیکھ رہا ہوں اس میں کون سا شہد کا چھتہ لگا ہے۔''
اس وقت کلب کے مستقل ممبروں کی تعداد پونے پانچ ہزار ہے۔ متعدد چیئرمینوں نے بہت سے تھڑا چھاپ افراد کو اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے ممبر شپ کی لوٹ سیل بھی لگائی جس نے کلب کی فضا' شہرت اور ڈسپلن پر بد اثرات مرتب کیے لیکن اس کے باوجود کلب کی اہمیت اپنی جگہ مسلّمہ ہے۔ کلب میں سروسز کے افراد کی معقول تعداد کا ہونا غنیمت ہے۔ کلب کی گزشتہ 54 سال کی تاریخ دیکھیں تو اس کے چیئرمینوں میں جسٹس یعقوب علی خاں' سید فدا حسن' پرویز مسعود' علی کاظم' سید نصیر احمد' میاں نثار' تسنیم نورانی' فرید الدین احمد' سلمان صدیق اور ضیاء الرحمن دو سے پانچ بار منتخب ہوئے اور ان کا چیئرمین رہنے کا کل عرصہ 34 سال ہے۔ انیس دسمبر 2013ء کے روز ہونے والے سالانہ کمیٹی آف مینجمنٹ کے امیدواروں میں سب سے زیادہ بار ممبر منتخب ہونے والے میاں مصباح الرحمن کا نام سرفہرست ہے، وہ کئی بار چیئرمین بھی رہے اور اس بار بھی امکانات واضح ہیں۔ میری حیرت بہرحال اپنی جگہ موجود رہے گی کہ بیورو کریٹ گروپ کی پسپائی کی وجہ کیا بنی۔
اگر کسی سے پوچھا جائے کیا پاکستان میں دھاندلی سے پاک الیکشن ہونا ممکن ہیں تو جنھوںنے گزشتہ کئی قسم کے الیکشن ہوتے دیکھے ہیں وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر کہیں گے ''ناممکن'' لیکن یہاں 29 دسمبر کو لاہور جمخانہ کے پونے پانچ ہزار ممبر ایک سال کے لیے کلب کی انتظامی کمیٹی کے بارہ ممبروں کا چناؤ کریں گے۔ صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک ووٹنگ ہو گی جس کا نتیجہ دس بجے تک سنا دیا جائے گا اور یقین کریں کوئی ووٹر یا امیدوار دھاندلی کی شکایت نہیں کرے گا لیکن آئندہ الیکشنوں یعنی پورے بارہ ماہ تک مالی اور انتظامی بدنظمی پر کھسر پھسر ہوتی رہے گی جس میں آدھا سچ ہو گا اور باقی سچی کچی الزام تراشی ہو گی۔
یہ کلب جس میں جمنازیم' اسپورٹس' لائبریری اور خوراک کی سہولیات ہونے کے علاوہ مختلف اہم موضوعات پر اظہار خیال کے مواقع پیدا کیے جاتے رہتے ہیں طویل تاریخ کی حامل ہے۔ 1878ء میں اس کی بنیاد بحیثیت ''لاہور و میاں میر انسٹی ٹیوٹ'' کے نام سے رکھی گئی جو لارنس گارڈن کے لارنس و منٹگمری ہال میں قائم ہوا۔ ازاں بعد 1906ء میں اسے لاہور جمخانہ کا نام دے دیا گیا۔ موجودہ جگہ پر 1968ء میں نواب مظفر علی قزلباس نے اس کا سنگ بنیاد رکھا جس کی تکمیل 1972ء میں ہوئی۔ قزلباس نو بار کلب کے چیئرمین چنے گئے۔ اس سے قبل عموماً پنجاب ہائی کورٹ کے انگریز جج اس عہدے پر فائز رہتے۔ اس کلب کا قیام سرکاری افسروں کی ان ڈور اور آؤٹ ڈور اسپورٹس اور سوشلائزنگ کے لیے تھا۔ اس میں غیر سرکاری ممبروں کو بعد میں داخلے کے حقوق ملے اسی لیے سرکاری افسر ہی ابتداء میں اس کے کرتا دھرتا ہوا کرتے تھے۔
میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ اس بار حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیورو کریٹس میں سے کسی ایک کا نام بھی اٹھارہ امیدواروں کی فائنل لسٹ میں نہیں ہو گا یعنی تقریباً تیس سال بعد میرے یہ دوست جمخانہ کلب کا الیکشن لڑنے کی بجائے ایسی پسپائی اختیار کریں گے کہ جس کی مثال نہ ملے گی اور اس کی وجوہات پر غور و فکر کرنے والے باتیں کرتے اور معاملے کی تہہ میں اترنے کی کوشش کرتے پائے جائیں گے اور اس سلسلے میں کئی امکانات پر مغز ماری ہو گی۔ کیا اس سال کمیٹی کا الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ پوری بیورو کریسی کی کوئی خاص حکمت عملی ہے یا خوف شکست یا پھر کوئی تیسری وجہ جو منظر عام پر نہیں آ سکی۔ اقتدار سے فرار بیورو کریسی کا مزاج کبھی نہیں رہا۔ ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ اس بار کسی بیورو کریٹ گروپ کے اکثریت حاصل کر کے ان ہی میں سے کسی کے چیئرمین کی پوزیشن حاصل کرنے کے امکانات معدوم تھے، یوں ہمارے بیورو کریٹ دوستوں میں سے جو چند کامیاب ہو جاتے انھیں سویلین چیئرمین کے نیچے کام کرنا پڑتا اور جمخانہ کی با اختیار اور منافع رساں کمیٹی کی بجائے کمزور کمیٹی کی تہمت ملتی۔ ایسا نحیف اختیار کسی بھی بیورو کریٹ کو نامنظور ہوتا۔ ایک تھیوری یہ بھی سرکولیشن میں ہے کہ اس بار جب سویلین گروپ کو اکثریت کی وجہ سے فری ہینڈ ملے گا تو وہ ''خوب بُلے لوٹیں گے'' اور ممکن ہے جی بھر کر بے ضابطگیاں کریں جو بہر طور باعث ذلت ہوں گی۔ یوں آئندہ ٹرم میں ان کی بدنامی و ناکامی مل کر ان کو شکست فاش سے دوچار کرے گی۔
ابھی دو سال قبل ایک طاقتور بیورو کریٹ گروپ جمخانہ الیکشن کے میدان میں اترا تو ملک کے ہر صوبے اور کونے سے رخصت یا میٹنگ کے بہانے افسروں نے الیکشن کے دن کلب پر یلغار کی تھی اور الیکشن جیت لیا تھا۔
بعض لوگ الزام لگاتے ہیں کہ گزشتہ بیس پچیس سال سے وہی چہرے الیکشن کے لیے ہر سال میدان میں کیوں آتے جاتے ہیں۔کیا کلب کو ملکی سیاحت کی دیمک نے نشانے پر لے لیا ہے اور سیاسی و برادری گروپ بندی نے یہاں بھی شبخون مارنے کی رسم اپنانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ کیا کلب جس کا مقصد ممبروں کو صحت مند اسپورٹس اور خوراک کے علاوہ سوشلائزنگ کی سہولت مہیا کرنا ہے تو اب یہ سونے کے انڈے بھی دیتی ہے۔ اس کا جواب یوں تو ہر ایکٹو ممبر کے پاس ہے لیکن اس قسم کا سوالنامہ ضرور تیار ہونا چاہیے جس میں امیدوار سے پوچھا جائے کہ ''بھائی جان میں جب سے کلب کا ممبر بنا ہوں آپ کو الیکشن لڑتے دیکھ رہا ہوں اس میں کون سا شہد کا چھتہ لگا ہے۔''
اس وقت کلب کے مستقل ممبروں کی تعداد پونے پانچ ہزار ہے۔ متعدد چیئرمینوں نے بہت سے تھڑا چھاپ افراد کو اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے ممبر شپ کی لوٹ سیل بھی لگائی جس نے کلب کی فضا' شہرت اور ڈسپلن پر بد اثرات مرتب کیے لیکن اس کے باوجود کلب کی اہمیت اپنی جگہ مسلّمہ ہے۔ کلب میں سروسز کے افراد کی معقول تعداد کا ہونا غنیمت ہے۔ کلب کی گزشتہ 54 سال کی تاریخ دیکھیں تو اس کے چیئرمینوں میں جسٹس یعقوب علی خاں' سید فدا حسن' پرویز مسعود' علی کاظم' سید نصیر احمد' میاں نثار' تسنیم نورانی' فرید الدین احمد' سلمان صدیق اور ضیاء الرحمن دو سے پانچ بار منتخب ہوئے اور ان کا چیئرمین رہنے کا کل عرصہ 34 سال ہے۔ انیس دسمبر 2013ء کے روز ہونے والے سالانہ کمیٹی آف مینجمنٹ کے امیدواروں میں سب سے زیادہ بار ممبر منتخب ہونے والے میاں مصباح الرحمن کا نام سرفہرست ہے، وہ کئی بار چیئرمین بھی رہے اور اس بار بھی امکانات واضح ہیں۔ میری حیرت بہرحال اپنی جگہ موجود رہے گی کہ بیورو کریٹ گروپ کی پسپائی کی وجہ کیا بنی۔