میاں صاحب کی واپسی اور حکومت
ہم سب جانتے ہیں کہ میاں صاحب کو کس کے حکم پر بیرون ملک جانے دیا گیا۔
خان صاحب جب تک اپوزیشن میں تھے اور میاں نواز شریف برسراقتدار تو یہ بات سمجھ میں آتی تھی کہ اُن کا نشانہ میاں نواز شریف کی حکومت ہی تھی لیکن یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت بنالینے کے بعد بھی وہ ابھی تک میاں صاحب کی مخالفت ہی کو اپنی سیاست کا مرکزاور محور بنائے ہوئے ہے۔
میاں صاحب اور اُن کی بیٹی خاموش ہو تو بھی انھیں برداشت نہیں ہوتا اور وہ کبھی کبھار کوئی ہلچل دکھا دیں تو بھی اسلام آباد کے حلقوں میں اُس کے جھٹکے آفٹر شاکس کی مانند محسوس کیے جانے لگتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ میاں صاحب کو کس کے حکم پر بیرون ملک جانے دیا گیا۔ خود وزیراعظم اپنی زبان سے یہ کہہ چکے ہیں کہ میری کابینہ کے کئی رفقاء انھیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کی حمایت میں نہیںتھے لیکن اُن کی میڈیکل رپورٹس دیکھ لینے کے بعد میں نے یہ اجازت دی۔ خود پنجاب کی وزیرِصحت نے ٹی وی پر تصدیق کی تھی کہ میاںصاحب کی حالت اچھی نہیں ہے اور انھیں ایک روز اُن کی موجودگی میں بھی اسپتال میں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔
اِس ہارٹ اٹیک کی تصدیق تو میں نے بھی اپنے طور پر میاں صاحب کے ایک معالج سے کروائی تھی جو اُس وقت اُن کے پاس موجود تھے۔ یہ معالج کراچی سے خصوصی طور پربلائے گئے تھے۔ چونکہ میرے اُن سے ذاتی مراسم ہیں تو میںنے یہ بات اُن سے یہ جاننے کے لیے پوچھ ہی لی کہ کہیں میاں صاحب کی یہ بیماری کوئی سیاسی ڈرامہ تو نہیں لیکن انھوں نے جن کی سیاسی وابستگی کسی بھی جماعت سے نہیں ہیں اوروہ صرف اپنی پیشہ وارانہ ذمے داریاں ہی بطریق احسن نمٹایاکرتے ہیں اور شایداِسی وجہ سے موجودہ حکومت کو بھی انھیںمیاں صاحب کے علاج کے لیے ایک ایکسپرٹ کی حیثیت میں کراچی سے بلانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔وہ حکومت کے بلانے پر اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر لاہور گئے اورکئی دنوں تک وہاں موجود رہے۔
اِن تمام شواہد کے باوجود حکومت آج ایک بار پھروہی کچھ کررہی ہے جواُس نے محترمہ کلثوم نوازکی بیماری کے معاملے میں کیاتھا۔بیگم کلثوم جب تک دارفانی سے کوچ نہیں کرگئیں پی ٹی آئی کے تمام رہنما عوام میںیہی تاثر دیتے رہے کہ بیگم کلثوم کی بیماری ایک ڈرامہ ہے اوروہ مکمل صحت مند ہیں۔ لہذا مسلم لیگ نون بیگم کلثوم نواز کی بیماری پرسیاست نہ کرے حالانکہ یہ بات عیاں ہوگئی کہ کلثوم نواز کی بیماری پرسیاست خود حکومت کر رہی تھی۔
حکومت اِس معاملے میں شرمندہ ہونے کے بجائے اب میاں صاحب کی بیماری کو ایشو بنا کر عوام کی نظریں حکومتی ناکامیوں کے طرف سے ہٹانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اُس کے پلڑے میں ایک بھی کارنامہ نہیں ہے۔ دو سال اُس نے صرف کریز پر جمانے میں صرف کر دیے ہیں۔ گویا پانچ روزہ کرکٹ میچ میں کپتان نے دودن تو کریز پرجمانے میں خرچ کر دیے اب باقی رہ گئے تین دن۔ کرکٹ کے اُصولوں کے مطابق بھی اِسے کارکردگی ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ جو شخص دو دن کریز پر جمانے میں خرچ کر دے اُسے ایک ایک عام کھلاڑی کے طور پر قبول نہیںکیا جا سکتا۔
قطع نظر اِس کے کہ میاں صاحب کی بیماری کی حقیقت کیا ہے یہ بات خود خان صاحب بھی جانتے ہیں کہ میاں صاحب کو جن الزامات کے تحت اقتدار سے بیدخل کر کے احتساب عدالت سے سزا دلوا کر پس زنداں کر دیا گیا تھا، لہذااُنہی مزید اتنا تنگ کیاجائے کہ اُن کی بیٹی جو یہاں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنا چاہتی ہیںوہ اُس سے باز رہیں۔خان صاحب جس طرح کورونا سے نمٹنے میں اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کواپنے لنگڑے لولے لاک ڈاؤن کی کامیابی سمجھتے ہیں اُسی طرح میاں صاحب کی حالیہ مشکلوں کو بھی اپنی کارکردگی اور کرپشن کے خلاف ایک نام نہاد جدوجہد کاحصہ سمجھتے ہیں۔ اسمارٹ لاک ڈاؤن کی اصلیت اور افادیت کو ہمارے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حقیقی معنوں میں وہ کتنا موثر اور فعال تھا۔
جس لاک ڈاؤن کو وہ اشرافیہ کی پیدا کردہ ایک سازش سمجھ رہے تھے آج اُس کا کریڈٹ اپنے اکاؤنٹ میں ڈالتے ہوئے وہ بڑی شان سے فخر اور خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ اُن کے بقول دنیا ہمارے لاک ڈاؤن کی قائل اورمعترف ہو گئی ہے اوراب ہماری تقلید کرنا چاہتی ہے۔ خان صاحب کو شاید پتہ نہیں کہ ہمارے علاوہ دنیاکے اوربھی بہت سے ملک ایسے ہیں جنھوں نے کسی اسمارٹ لاک ڈاؤن کے بغیر ہی اِس وبائی بیماری پر بڑی اچھی طرح قابو پا لیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت اور تدبیرکو اپنی قابلیت اورکاردگی سمجھنا پی ٹی آئی والوں کاہمیشہ وتیرہ رہا ہے۔ وہ الیکشن میں جس طرح کامیاب ہو کر برسر اقتدار آئی ہیں وہ بذات خود ایک متنازعہ معاملہ ہے لیکن خان صاحب اِسے بھی اپنی قابلیت اور لیاقت ہی سمجھ رہے ہیں۔ دو سال تک کوئی کارکردگی نہ دکھانے اور غلطیوں پر غلطیاں کر لینے کے باوجود وہ ابھی تک کریز پرموجود ہیں لیکن وہ نجانے کس مجبوری کے تحت اس حکومت کو مزید ٹائم دیا جارہا ہے۔ ایسا سب کچھ اگر کسی اور سیاسی جماعت کے دور میں ہوا ہوتا تو کب کا اُس کا کام ہو چکا ہوتا۔
میاں صاحب کو وہ لندن سے واپس لا نہیں سکتے لیکن ہر روز بیان بازی حکومتی وزیروں کے روزنامچے میں فرض ہے۔اِس لیے ہم روزانہ کسی نہ کسی وزیرکو بیان بازی کرتے ہوئے ضرور دیکھتے ہیں۔ وہ بیچارے ابھی تک اسحاق ڈاراور سلمان شہبازکوتو واپس نہیںلاسکے مگر میاں صاحب کولے آئیںگے۔ وہ ایسا نہ کریں تو عوام اُن سے چینی اورآٹے کی داموں پرسوالات شروع کر دیتے ہیں۔عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے کچھ وزیروں کو یہ ٹاسک دیاگیا ہے اور وہ اِس پر بڑی چابکدستی سے اپنی ذمے داریاں بھی نبھا رہے ہیں۔ خواہ اِس کا نتیجہ نکلے یا نہ لیکن لوگ اُن سے مہنگائی پر تو سوال نہیںکر رہے ہوتے ہیں۔
میاں نواز شریف کی خاموشی اوراُن کالندن کی سڑکوں پر چلناپھرنا بھی خان صاحب اوراُن کے رفقاء کے لیے تکلیف کاباعث بنتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے یہاں سیاست کے رخ بدلتے ہوئے دیر نہیں لگاکرتی۔ محترم زرداری صاحب کئی بارجیل بھی گئے اورکئی بار جیل سے سیدھا وزارت کا حلف بھی لیتے دیکھے گئے۔ جب زرداری صاحب جیساشخص اِس ملک کے سب سے محترم و مقدس اوراستثنیٰ سے مزین منصب کا حقدار قرار دیاجا سکتا ہے تو پھر یہاں سب کچھ ہوسکتا ہے۔
آج میاں صاحب مشکلوں میں گھرے ہوئے ہیں توکل خان صاحب کی باری بھی آسکتی ہے۔ لہذا موجودہ حکومت اپنے اصل کام پرتوجہ مرکوزرکھے اوراِس ملک وقوم کی کوئی خدمت کرکے دکھائیں کہ لوگ انھیں دعائیں دیں نہ اُن کے اِس دور کواپنے لیے کوئی عذاب سمجھنے لگیں۔
میاں صاحب اور اُن کی بیٹی خاموش ہو تو بھی انھیں برداشت نہیں ہوتا اور وہ کبھی کبھار کوئی ہلچل دکھا دیں تو بھی اسلام آباد کے حلقوں میں اُس کے جھٹکے آفٹر شاکس کی مانند محسوس کیے جانے لگتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ میاں صاحب کو کس کے حکم پر بیرون ملک جانے دیا گیا۔ خود وزیراعظم اپنی زبان سے یہ کہہ چکے ہیں کہ میری کابینہ کے کئی رفقاء انھیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کی حمایت میں نہیںتھے لیکن اُن کی میڈیکل رپورٹس دیکھ لینے کے بعد میں نے یہ اجازت دی۔ خود پنجاب کی وزیرِصحت نے ٹی وی پر تصدیق کی تھی کہ میاںصاحب کی حالت اچھی نہیں ہے اور انھیں ایک روز اُن کی موجودگی میں بھی اسپتال میں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔
اِس ہارٹ اٹیک کی تصدیق تو میں نے بھی اپنے طور پر میاں صاحب کے ایک معالج سے کروائی تھی جو اُس وقت اُن کے پاس موجود تھے۔ یہ معالج کراچی سے خصوصی طور پربلائے گئے تھے۔ چونکہ میرے اُن سے ذاتی مراسم ہیں تو میںنے یہ بات اُن سے یہ جاننے کے لیے پوچھ ہی لی کہ کہیں میاں صاحب کی یہ بیماری کوئی سیاسی ڈرامہ تو نہیں لیکن انھوں نے جن کی سیاسی وابستگی کسی بھی جماعت سے نہیں ہیں اوروہ صرف اپنی پیشہ وارانہ ذمے داریاں ہی بطریق احسن نمٹایاکرتے ہیں اور شایداِسی وجہ سے موجودہ حکومت کو بھی انھیںمیاں صاحب کے علاج کے لیے ایک ایکسپرٹ کی حیثیت میں کراچی سے بلانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔وہ حکومت کے بلانے پر اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر لاہور گئے اورکئی دنوں تک وہاں موجود رہے۔
اِن تمام شواہد کے باوجود حکومت آج ایک بار پھروہی کچھ کررہی ہے جواُس نے محترمہ کلثوم نوازکی بیماری کے معاملے میں کیاتھا۔بیگم کلثوم جب تک دارفانی سے کوچ نہیں کرگئیں پی ٹی آئی کے تمام رہنما عوام میںیہی تاثر دیتے رہے کہ بیگم کلثوم کی بیماری ایک ڈرامہ ہے اوروہ مکمل صحت مند ہیں۔ لہذا مسلم لیگ نون بیگم کلثوم نواز کی بیماری پرسیاست نہ کرے حالانکہ یہ بات عیاں ہوگئی کہ کلثوم نواز کی بیماری پرسیاست خود حکومت کر رہی تھی۔
حکومت اِس معاملے میں شرمندہ ہونے کے بجائے اب میاں صاحب کی بیماری کو ایشو بنا کر عوام کی نظریں حکومتی ناکامیوں کے طرف سے ہٹانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اُس کے پلڑے میں ایک بھی کارنامہ نہیں ہے۔ دو سال اُس نے صرف کریز پر جمانے میں صرف کر دیے ہیں۔ گویا پانچ روزہ کرکٹ میچ میں کپتان نے دودن تو کریز پرجمانے میں خرچ کر دیے اب باقی رہ گئے تین دن۔ کرکٹ کے اُصولوں کے مطابق بھی اِسے کارکردگی ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ جو شخص دو دن کریز پر جمانے میں خرچ کر دے اُسے ایک ایک عام کھلاڑی کے طور پر قبول نہیںکیا جا سکتا۔
قطع نظر اِس کے کہ میاں صاحب کی بیماری کی حقیقت کیا ہے یہ بات خود خان صاحب بھی جانتے ہیں کہ میاں صاحب کو جن الزامات کے تحت اقتدار سے بیدخل کر کے احتساب عدالت سے سزا دلوا کر پس زنداں کر دیا گیا تھا، لہذااُنہی مزید اتنا تنگ کیاجائے کہ اُن کی بیٹی جو یہاں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنا چاہتی ہیںوہ اُس سے باز رہیں۔خان صاحب جس طرح کورونا سے نمٹنے میں اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کواپنے لنگڑے لولے لاک ڈاؤن کی کامیابی سمجھتے ہیں اُسی طرح میاں صاحب کی حالیہ مشکلوں کو بھی اپنی کارکردگی اور کرپشن کے خلاف ایک نام نہاد جدوجہد کاحصہ سمجھتے ہیں۔ اسمارٹ لاک ڈاؤن کی اصلیت اور افادیت کو ہمارے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حقیقی معنوں میں وہ کتنا موثر اور فعال تھا۔
جس لاک ڈاؤن کو وہ اشرافیہ کی پیدا کردہ ایک سازش سمجھ رہے تھے آج اُس کا کریڈٹ اپنے اکاؤنٹ میں ڈالتے ہوئے وہ بڑی شان سے فخر اور خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ اُن کے بقول دنیا ہمارے لاک ڈاؤن کی قائل اورمعترف ہو گئی ہے اوراب ہماری تقلید کرنا چاہتی ہے۔ خان صاحب کو شاید پتہ نہیں کہ ہمارے علاوہ دنیاکے اوربھی بہت سے ملک ایسے ہیں جنھوں نے کسی اسمارٹ لاک ڈاؤن کے بغیر ہی اِس وبائی بیماری پر بڑی اچھی طرح قابو پا لیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت اور تدبیرکو اپنی قابلیت اورکاردگی سمجھنا پی ٹی آئی والوں کاہمیشہ وتیرہ رہا ہے۔ وہ الیکشن میں جس طرح کامیاب ہو کر برسر اقتدار آئی ہیں وہ بذات خود ایک متنازعہ معاملہ ہے لیکن خان صاحب اِسے بھی اپنی قابلیت اور لیاقت ہی سمجھ رہے ہیں۔ دو سال تک کوئی کارکردگی نہ دکھانے اور غلطیوں پر غلطیاں کر لینے کے باوجود وہ ابھی تک کریز پرموجود ہیں لیکن وہ نجانے کس مجبوری کے تحت اس حکومت کو مزید ٹائم دیا جارہا ہے۔ ایسا سب کچھ اگر کسی اور سیاسی جماعت کے دور میں ہوا ہوتا تو کب کا اُس کا کام ہو چکا ہوتا۔
میاں صاحب کو وہ لندن سے واپس لا نہیں سکتے لیکن ہر روز بیان بازی حکومتی وزیروں کے روزنامچے میں فرض ہے۔اِس لیے ہم روزانہ کسی نہ کسی وزیرکو بیان بازی کرتے ہوئے ضرور دیکھتے ہیں۔ وہ بیچارے ابھی تک اسحاق ڈاراور سلمان شہبازکوتو واپس نہیںلاسکے مگر میاں صاحب کولے آئیںگے۔ وہ ایسا نہ کریں تو عوام اُن سے چینی اورآٹے کی داموں پرسوالات شروع کر دیتے ہیں۔عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے کچھ وزیروں کو یہ ٹاسک دیاگیا ہے اور وہ اِس پر بڑی چابکدستی سے اپنی ذمے داریاں بھی نبھا رہے ہیں۔ خواہ اِس کا نتیجہ نکلے یا نہ لیکن لوگ اُن سے مہنگائی پر تو سوال نہیںکر رہے ہوتے ہیں۔
میاں نواز شریف کی خاموشی اوراُن کالندن کی سڑکوں پر چلناپھرنا بھی خان صاحب اوراُن کے رفقاء کے لیے تکلیف کاباعث بنتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے یہاں سیاست کے رخ بدلتے ہوئے دیر نہیں لگاکرتی۔ محترم زرداری صاحب کئی بارجیل بھی گئے اورکئی بار جیل سے سیدھا وزارت کا حلف بھی لیتے دیکھے گئے۔ جب زرداری صاحب جیساشخص اِس ملک کے سب سے محترم و مقدس اوراستثنیٰ سے مزین منصب کا حقدار قرار دیاجا سکتا ہے تو پھر یہاں سب کچھ ہوسکتا ہے۔
آج میاں صاحب مشکلوں میں گھرے ہوئے ہیں توکل خان صاحب کی باری بھی آسکتی ہے۔ لہذا موجودہ حکومت اپنے اصل کام پرتوجہ مرکوزرکھے اوراِس ملک وقوم کی کوئی خدمت کرکے دکھائیں کہ لوگ انھیں دعائیں دیں نہ اُن کے اِس دور کواپنے لیے کوئی عذاب سمجھنے لگیں۔